ہم آہنگ — حنا نرجس

خراب اور رکی ہوئی گھڑیوں سے اسے بہت وحشت ہوتی تھی. بھلا وقت بھی کبھی رکا ہے؟ رکی ہوئی گھڑی سے بڑا دھوکا کوئی اور نہیں. پچھلے دو ہفتوں سے اس کے کمرے کی گھڑی کی سوئیاں ساکن تھیں، اور وہ بھی ایسے وقت پر
جو اس کے لیے دن کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ وقت تھا. صبح کے سوا سات بجے!




جی ہاں، یہ وہ وقت ہوتا جب وہ بھاگم بھاگ سکول کے لیے نکل رہی ہوتی اور رکشے والا گھنٹی پر گھنٹی بجائے جاتا. ایسا نہیں تھا کہ اسے اپنی جاب پر جانا پسند نہیں تھا لیکن پھر بھی صبح صبح گھر کا آرام چھوڑنے اور ایک مصروف دن کے لیے گھر سے نکلنے کے لیے اپنے نفس سے جنگ تو کرنا ہی پڑتی ہے. اگر اس گھڑی کو رکنا ہی تھا تو کسی ایسے وقت پر رک جاتی جو کم از کم کوفت میں مبتلا کرنے والا تو نہ ہوتا. مثلا سوا دو بجے پر، وہی وقت جب وہ جاب سے واپس گھر میں قدم رکھتی اور گھر کا سکون اسے اپنے حصار میں لینے کے لیے بانہیں پھیلائے ہوئے منتظر ہوتا. مگر اب حال یہ تھا کہ رکشے پر سکول تک کا سفر، مارننگ اسمبلی، اپنے روزانہ کے مخصوص پیریڈز، نوٹ بک چیکنگ، لیب پریکٹیکلز، آفس کے بلاوے، سٹاف روم کا شور، ٹیچنگ کے علاوہ سونپی گئی دوسری ادھر ادھر کی ذمہ داریاں اور پھر بالآخر ٹریفک کے بے ہنگم شور کو چیر کر اپنی جگہ بناتے رکشے میں وہ واپس گھر پہنچ کر جب ایک تھکا دینے والے دن کے اختتام پر بیڈ پر بیٹھ کر پاں کو سینڈلز کی قید سے آزاد کرتے ہوئے گھڑی پر نگاہ ڈالتی تو اس کی سوئیاں ابھی تک صبح والے مقام پر ہی رکی ہوتیں. گویا کہتی ہوں، “تم نے اب تک کِیا ہی کیا ہے، حسنہ؟ ابھی تو بھرپور دن کا آغاز ہونا ہے. تیاری پکڑو اور آج کی ذمہ داریوں کے لیے کمر کس لو۔” اسے لگتا یہ گھڑی اس کی ساری بھاگ دوڑ کی نفی کر رہی ہے. اس کی سعی کو تسلیم ہی نہیں کر رہی. یہ جاب جو ایک اچھا سکول گھر کے نزدیک ہونے پر محض شوق کی بنا پر شروع کی گئی تھی، اب شوق سے زیادہ اس کی عادت بن چکی تھی. یہی وجہ تھی کہ گھر دوسرے علاقے میں منتقل ہو جانے کے باوجود وہ اسے جاری رکھے ہوئے تھی. آجکل تقریبا روزانہ رات کے کھانے پر وہ خالد صاحب سے الجھتی، “آپ اسے ٹھیک کیوں نہیں کرواتے؟ ہو سکتا ہے محض سیل ہی تبدیل کرنے والا ہو. کم از کم اتنا تو کریں کہ قریبی دکان سے نیا سیل لا کر ڈال دیں. اگر پھر بھی نہ چلی تو مکینک کو دکھا لیں گے.”




“لیکن آپ کو بھی تبھی یاد آتا ہے جب میں گھر آ چکا ہوتا ہوں. میرے آفس سے نکلنے سے کچھ دیر قبل ایس ایم ایس کر کے یاد دلا دیتیں تو میں لے آتا.”
اگلے دن کے لیے حسنہ نے ریمانڈر سیٹ کر لیا. آج خالد صاحب کے گھر داخل ہوتے ہی پوچھنے لگی، “سیل لے آئے نا آپ؟”
“اوہ نہیں! میں نے آپ کا میسج پڑھ لیا تھا لیکن آفس سے نکل کر بھول گیا. یقین کریں میرے ذہن سے بالکل ہی نکل گیا.”
“ذہن سے اس لیے نکل گیا کہ آپ ان چھوٹے موٹے کاموں کو کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں. جب سے انس فائنل امتحانات کی تیاری کے لیے اپنے دوست کے ہاں ہاسٹل میں مقیم ہوا ہے، میں تو ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے آپ ہی کی محتاج ہو کر رہ گئی ہوں.” کہتے ساتھ ہی حسنہ کی آنکھوں سے دو آنسو بھی نکل پڑے.
“تو یہ کہیے نا کہ بیٹے سے اداس ہیں اور گھڑی کا بہانہ کر کے رونا چاہتی ہیں.” خالد صاحب نے چھیڑا. “میں اسے آنے کو کہوں تو سب کام چھوڑ کر ایک گھنٹے میں پہنچ جائے گا میرے پاس. میں خود ہی اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی.” حسنہ کے لہجے میں اپنی اکلوتی اولاد، انس، کے لیے پیار ہی پیار تھا.
اگلے چند دن بھی سیل لانے کی یاد دہانی اور بھول جانے کا سلسلہ جاری رہا. اس دن خالد صاحب ایک بار پھر جھنجھلا گئے، “میری سمجھ میں نہیں آتا کہ گھڑی کے رکے ہونے سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ ہر وقت تو سیل فون آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، نظریں سکرین پر گڑی ہوتی ہیں، کیا آپ کا سیل وقت نہیں بتاتا؟”
“بتاتا ہے لیکن میں اس پر وقت دیکھتی ہی نہیں. مجھے دیوار والی گھڑی کے ساتھ چلنے کی عادت ہے. مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ میرے احساسات کو سمجھتی ہے۔”
“لو! یہ نئی بات سنی. احساسات کو سمجھتی ہے تو یوں ایک ہی مقام پر رک کر آپ کو مسلسل پریشان کیوں کر رہی ہے؟ ویسے حسنہ یار، جیسے جیسے آپ بڑی ہو رہی ہیں، باتیں کچھ عجیب سی نہیں کرنے لگیں؟”
“بھئی گھڑی کی دیکھ بھال، صفائی اور مرمت تو ہمارا کام ہے نا. وہ خود تھوڑی رکی ہے. یہ تو ہماری غفلت ہے. وہ بیچاری تو کبھی کبھار شکوہ کناں نگاہوں سے مجھے دیکھتی ہے۔” خالد صاحب جواب میں بس قہقہہ ہی لگا سکے.
“بس بس مذاق نہ اڑائیں میرا سیل تو آپ نے لانا نہیں اور آپ کو پتہ مجھے اکیلے دکانوں پر جانا یا رکنا عجیب سا لگتا ہے. بس اتنا کریں کہ اس گھڑی کا وقت تبدیل کر دیں. مجھے سوا سات سے چڑ ہو گئی ہے. میں نے خود تبدیل کرنا چاہا لیکن سٹول پر چڑھ کر اوپر دیکھنے کے خیال سے ہی مجھے چکر آتے ہیں۔”
“ناراض نہ ہو، یار. تھکا ہوا تو بہت ہوں لیکن کیا یاد کرو گی. یہ لو ابھی گیا اور ابھی آیا۔”
خالد صاحب سیل لے آئے تھے لیکن سیل تبدیل کرنے سے بھی گھڑی کی سوئیاں متحرک نہ ہوئیں. حسنہ نے ہی تجویز دی، “اچھا ایسا کریں یہ تو اب مکینک کے پاس جائے گی. آپ اسے فی الحال لانج میں لگا دیں اور لانج والی یہاں لگا دیں۔”
“ٹھیک ہے آپ یوں کہتی ہیں تو یونہی سہی۔”

Loading

Read Previous

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!