گوادر کی لوک کہانی (سنی سنائی)


”اوہ!کیا بیچتے ہو؟ تمہارے پاس کوئی سامان تو ہے نہیں۔”لڑکی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ یہ سن کر جوہن قدرے گھبرا گیا مگر پھر اسے یاد آیا تو جلدی سے ہار جیب سے نکالتے ہوئے بولا: ”میرا سارا مال فروخت ہوچکا، بس یہ ہار باقی رہ گیا ہے،تمہیں پسند ہے تو لے لو۔”
لڑکی جلدی سے ہار کو دیکھنے لگی، و ہ واقعی خوب صورت تھا۔ لڑکی کو ہار پسند آیا تو کہنے لگی: ”میں اسے خریدنا چاہتی ہوں۔”
جوہن خوش ہوگیا اور بولا: ”ہاں کیوں نہیں، تم ایک بار اسے پہن کر دیکھ لو۔”
جوہن کی بات پر لڑکی ہار کو ادھر اُدھر پلٹ کر دیکھنے لگی۔ ایسے میں جوہن نے اسے مخاطب کیا: ”آپ نے اپنا نام تو بتایا ہی نہیں۔”
”میں ‘گوا’ ہوں اوریہ نام میرے مرحوم باپ نے رکھا تھا ۔” لڑکی نے بتایا۔
”گوا…؟ یہ کیسا نام ہے ؟” جوہن نے حیرت سے پوچھا۔
”گوا کا مطلب ہے ”ہوا”، میرے باپ کا کہنا تھا کہ میں اس کے لیے ساحل سے آنے والی ہوا کی طرح ہوں، اسی لیے اس نے میرا یہ نام رکھ دیا ،یہ کہتے ہوئے گوا نے ہاراپنے گلے میں پہنا ،تو ایک دم اسے جھٹکا لگا اوروہ بے ہوش ہوکر اس ہار میںقید ہوگئی۔ جوہن یہ جادو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس نے جلدی سے ہار اٹھایا اور لوگوں کی نظروں سے بچتا ہوا بھاگ نکلا۔
اب وہ دوبارہ کشتی کی طرف جارہا تھا تاکہ جلدی سے اس جزیرے پر پہنچ کر نپکو سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا سکے۔ ابھی اسے چلتے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چٹانوں کے نزدیک اسے ایک ہیولا دکھائی دیا۔ ذرا غور سے دیکھا تو یہ ایک خطر ناک ریچھ تھا۔ اُسے شاید کسی انسان کی بُو آرہی تھی۔ اِدھر اُدھر سونگھتے ہوئے ریچھ تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جوہن ڈرتے ڈرتے درخت پر چڑھنے لگا تو اسی دوران اس کے ہاتھ سے ہار چھوٹ گیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین پر گرا اور اس کے چمکیلے موتی بکھر گئے۔
ہار کے ٹوٹتے ہی اس میں سے ایک نوجوان لڑکی برآمد ہوئی۔ یہ لڑکی دراصل ”گوا” ہی تھی۔ اس سے پہلے کہ ریچھ گوا اور جوہن پر حملہ کرتا۔ گوا نے جلدی جلدی کوئی منتر پڑھ کر ریچھ پر پھونک دیا۔ منتر پڑھتے ہی ریچھ چیختا چِلّاتا وہاں سے بھاگ نکلا۔ اب گوا غضب ناک ہوکر جوہن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جوہن اپنی جگہ کھڑا تھر تھر کانپنے لگا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ گوا اس کے قریب آئی اور اسے گھورتے ہوئے بولی:
”تم نے مجھے کیوں قید کیا اور مجھے کہاں لے جارہے تھے؟” گوا کے پوچھنے پر جوہن نے سارا واقعہ بیان کردیا۔ یہ سن کر وہ بولی:
”جادو گر نپکو بہت خطرناک ہے۔ اس کا دیوتا کالے جادو کا بادشاہ ہے اور وہ انسانی خون پیتا ہے۔ اسی وجہ سے میرے باپ نے اُسے مٹی کا پتلا بنا دیا تھا، اگر تم نے اسے آزاد کردیا، تو وہ سب گاؤں والوں کو مار دے گا۔”
”اوہ! یہ تو بہت خطر ناک بات ہے۔” جوہن بولا۔
گوا کچھ سوچنے لگی پھر اس نے جوہن کو بتایا کہ یہاں سے دور ایک غار میں ایسی تلوار ہے جس سے نپکو اور اس کے دیوتا کو مارا جاسکتا ہے، مگر کوئی اتنا بہادر نہیں کہ ان کا سامنا کرے۔ جوہن نے کہا کہ وہ اپنے دوستوں اور باقی لوگوں کو بچانے کے لیے اس خطرے کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ چناں چہ وہ دونوں اس غار میں گئے اور تلوار لے کر سمندر میں سفر کرتے ہوئے نپکو کے جزیرے کی طرف بڑھ گئے۔
”ہم نپکو کے غار کے قریب پہنچ گئے ہیں، تم تلوار کو چھپا لو۔” گوا نے کہا تو جوہن نے ایسا ہی کیا اور وہ غار میں داخل ہوگئے۔
جادوگر نپکو نے گوا کو جوہن کے ساتھ آتے دیکھا تو خوش ہوگیا کہ وہ لڑکی کو ایسے کیسے لے آیا ہے، تب جوہن نے ہار ٹوٹ جانے کا قصہ سنایا اور کہا کہ وہ اِسے ڈرا کر اپنے ساتھ لایا ہے۔ نپکو یہ سن کر خوش ہوگیا۔ اُس نے اپنے ساتھیوں سے دیوتا کا پُتلا باہر لانے کو کہا۔
”جناب! اب میرے دوستوں کو چھوڑ دیں، ہم واپس جانا چاہتے ہیں۔” جوہن فوراً آگے بڑھ کر بولا۔
نپکو نے اُنہیں مٹی سے دوبارہ انسان بنا دیا اور ساتھ ہی گوا سے کہا کہ وہ ان کے دیوتا کو ٹھیک کرے، گوا نے جلدی سے کوئی منتر پڑھ کر دیوتا کے پتلے پر پھونک ماری تو پتلے میں حرکت پیدا ہوئی اور دیوتا ہنستے ہوئے اپنی اصل حالت میں آگیا۔
”ہاہاہا… آج تو بڑے عرصے بعد تازہ اور اتنا زیادہ شکار ملا ہے۔ میں تمہیں داد دیتا ہوں نپکو!” دیوتا نے کہا اور گلا پھاڑ کر ہنسنے لگا۔
جوں ہی دیوتا، جوہن اور اس کے دوستوں کی طرف بڑھا۔ جوہن دار نے تلوار نکالی اور اس پر وار کیا، تلوار کے ایک ہی وار سے دیوتا ڈھیر ہوگیا۔ یہ دیکھ کر نپکو تھر تھر کانپنے لگا پھر گوا نے کچھ دیر منتر پڑھا اور نپکو پر پھونک دیا۔ نپکو اسی وقت تڑپنے اور شور مچانے لگا۔ جوہن دار نے یہ دیکھا تو آگے بڑھ کر اس کا سر بھی قلم کردیا۔ یوں اس انوکھے جزیرے سے برائی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔
اس کے بعد جوہن دار اور گوا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساحل پر واپس آئے جہاں کئی لوگ ان کے منتظر تھے۔ ان کی واپسی پر سب خوشی سے چلّا اٹھے۔ بستی میں خوب جشن منایا گیا۔
مقامی لوگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گوا اور جوہن دار کی آپس میں شادی کردی جائے۔ چناں چہ اس فیصلے پر عمل ہوا۔ اس شہر کے راجہ نے انہیں ایک قصبہ تحفے کے طور پر دیا۔ جس کا نام گوا اور جوہن دار کے نام پر ”گوادار” رکھا گیا۔ کہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ قصبہ ایک بڑا شہر بن گیا اور اس کا نام گوادار تبدیل ہوتے ہوتے یہ ”گوادر” کہلانے لگا۔
٭…٭…٭

گوادر مستقبل قریب میں دنیا کا ایک عظیم شہر بننے جارہا ہے۔ گرم پانیوں کی سر زمین کہلانے والا گوادر جلد ہی پاکستان کی پہچان ہوگا۔ ”گوا” کا مطلب ہوا اور ”در” دروازے کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا ”ہَوا کا دروازہ” یعنی خلیج سے آنے والی ہوائیں اسی راستے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ انگریز دور میں خان آف قلات نے گوادر کا علاقہ ”عمان” کے شہزادے کو تحفے میں دے دیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ ادھر ہندوستان نے جب یہ خطہ ہتھیانے کی سازش شروع کی تو اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ملک فیروز خان نون اور ان کی اہلیہ نے طویل کوششوں کے بعد 8 ستمبر 1958ء کو دس ملین کی خطیر رقم دے کر گوادر کو عمان سے خرید لیا۔ تاریخ نے ان کا یہ فیصلہ درست ثابت کردیا۔ آج چین کی مدد سے گوادر میں بہت بڑی بندرگاہ تعمیر ہورہی ہے۔ ساتھ ساتھ ایک بڑا شہر بھی آباد ہورہا ہے۔ یہی خطہ اب پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

زندگی کا سانس |سو لفظی کہانی

Read Next

سنی سنائی لوک کہانی | بوتل والا جن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!