گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

آخر ایک ماہ کی محنت کے بعدگُلانے کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ وہ بہت خوش تھی۔ نور الحسن کی سالگرہ کے دن وہ اسے اچھا تحفہ دے سکتی تھی۔ نور الحسن کو ن سا سالگرہ مناتا تھا ۔ جو بھی اسے وش کر تا ، وہ شکریہ ادا کر کے یہ دن بھول جاتا ۔در اصل ان کے گھرانے میں سالگرہ منانے کا رواج ہی نہ تھا ۔ اب چند سال سے ولی کیک لے آتا اور بارہ بجتے ہی ان کے کمرے میں پہنچ جاتا ۔ اس دن امی بھی جاگتی رہتیں، وہ تو شرما ہی جاتا ، اب اس عمر میں سالگرہ کیا منانا ۔ کیک بھی ولی کاٹتا ، امی اور اسے کھلاتا بھی وہی۔ ولی امی کی سالگرہ کا دن بھی یا د رکھتا اور خاص طور پر ان کے لیے پاکٹ منی سے تحفہ لے کر آتا ۔ نو ر الحسن کو لگتا تھا کہ ولی امی کا خیال رکھنے میں اس سے سبقت لے جاتا ہے ۔ اس کی ولی سے محبت اور بڑھنے لگتی۔
اس سال جو نور الحسن کی سالگرہ کا دن آیا تو گُلانے اس کے لیے تحفہ لے کر آئی تھی۔ وہ صبح آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب وہ شرماتی جھجکتی ہاتھ میں ایک چاندی کے ورق میں لپٹا ہوا ڈبا لیے کمرے میں د ا خل ہو ئی ۔ اسے دیکھ کر نور الحسن کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی ۔
اب اسے دیکھنا اور بار بار دیکھنا اسے اچھا لگتا تھا ۔
”یہ آپ کے لیے ۔ ” نورالحسن سے بے جھجک ہر بات کہہ دینے والی اب شرمانے لگی تھی۔
نور الحسن نے ڈبا تھا م لیا ۔ اسے یاد آیا کہ رات جب بارہ بجے کے بعد ولی ، امی اور وہ کیک لیے اسے وش کرنے آئے تھے تب بھی ولی کسی تحفے کا ذکر کر رہا تھا ۔
”لوگوں نے آپ کے لیے بڑے دل سے تحفہ بنایا تھا مگر دیا نہیں … شاید ہم سے چھپ کر دینے کا ارادہ ہے ۔ ”وہ شرماتی اور ولی کو گھورتی رہی تھی۔
رات والا منظر یاد کر کے نور الحسن مسکراتے ہوئے پیکنگ کھولنے لگا۔
” تو یہ ہے وہ تحفہ جس کا ذکر ہو رہا تھا رات ۔”گُلانے نے مسکرا کر سر ہلایا۔
نورالحسن ڈبا کھول چکا تھا ۔ اس میں ایک سفید سوئیٹر تھا ۔ اسے گُلانے کے ہاتھ میں اون سلائیاں یاد آئیں ۔ تو اس کے لیے کر رہی تھی وہ اتنی محنت ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی اور اس نے سوئیٹر کھول کر اپنے سامنے کیا ۔
”یہ کیا ؟”اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
سفید سوئیٹر پر سر خ رنگ کا دل۔
”اچھا نہیں لگا آپ کو ؟” اسے چپ سا دیکھ کر گُلانے نے پوچھا ۔
”نن نہیں … اچھا ہے … شکریہ ۔” اس نے سوئیٹر کو تہ لگاتے ہوئے ہلکا سا مسکرا کر جواب دیا۔گُلانے کو محسوس ہوا کہ وہ اس کا دل رکھ رہا ہے لیکن وہم جان کر اس نے یہ خیال جھٹک دیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دونوں چھوٹے بھائی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ امی کچن ہی سے ڈانٹ رہی تھیں ۔ نئی نویلی بھابی چائے کے کپ ٹرے میں سجاتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔ اس سارے منظر سے بے نیاز خز یمہ داؤد وہاں بیٹھ کر بھی کہیں اور پہنچا ہوا تھا ۔وہ اس دور سے گزر رہا تھا جہاں ہر سوچ ہر خیال ایک بندے پر آ کر ٹھہر جاتا ۔
نور نے اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا جہاں سے قدم واپس پلٹتے تھے نہ ہی آگے کی راہ ملتی تھی۔ اس نے جو کھیل چیلنج سمجھ کر شروع کیا تھا، وہ اسے روگی کر دینے والا تھا، یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک لڑکی کا خیال اس کے حواسوں پر اتنا طاری ہو گا کہ اس کے علاوہ کچھ اور سوچنا اچھا ہی نہیں لگے گا ۔ اور وہ لڑکی تھی کہ اسے گھاس نہیں ڈالتی تھی ۔ اس کے لیے خزیمہ کی حیثیت وہی تھی جو کلاس کے باقی لڑکوں کی تھی۔ پھر وہ ہی کیوں اس کے لیے پاگل ہوا جا رہا ہے؟ کبھی کبھی جھنجھلا جاتا مگر خود کو پابندِ سلاسل پاتا تھا ۔
”چائے ۔” شرماتی ہوئی بھابی نے اس کے سامنے ٹرے کی تو وہ چونکا۔اور شکریہ کہہ کر مگ تھام لیا ۔ چھوٹے بھائی بھی بھابی کے سامنے شرافت کا پیکر بن کر بیٹھ گئے ۔حتیٰ کہ پکوڑا بھی ایک ایک ہی اٹھایا۔
”اب خزیمہ کے لیے اچھی سی لڑکی تم نے ڈھونڈنی ہے ۔” امی نے بڑی بہو پر ذمے داری ڈالی تو حنظلہ رہ نہ سکا ۔
”ہمارے لیے بھی۔” شرما کر نظریں جھکا کر جو اٹھائیں تو بس اٹھی رہ گئیں ۔سامنے ابو کھڑے تھے ۔
”خزیمہ کے لیے لڑکی میں ڈھونڈ چکا ہوں ۔”وہ اطمینان سے اعلان کرتے ہوئے صوفے پر بیٹھے جب کہ خزیمہ کا سارا اطمینان غارت ہوگیا۔
ایک اور جنگ کا سامنا۔
پہلے ہی جس محاذ پر لڑ رہا تھا وہ کم اعصاب شکن تو نہ تھا ۔نور تو اسے اپنی سرحد کی طرف بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ ہانیہ بھی تو آج کل لفٹ نہیں کرو ارہی تھی۔ پہلے جب ڈھکے چھپے لفظوں میں اس نے نور کے لیے اپنے جذبات کا اظہار اس کے سامنے کیا تھا ، وہ مسکرا دی تھی اور آج کل وہ اس کے سامنے نور کا ذکر بھی کرتا تو وہ یوں ظاہر کرتی جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں ، اگر سنی ہے تو سمجھی نہیں ۔
اب اسے لگتا تھا کہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر نا پڑے گا اور و ہ بھی نور کے سامنے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ اسے ممنوعہ علاقے کی جانب قدم بڑھانے تھے، چاہے پھر سز ا وار ہی ٹھہرتا۔
٭٭٭٭٭
سردی آئی ، پھر شدید سردی ۔ نور الحسن نے کوٹ پہنا ، جیکٹ پہنی اور اپنا بونینزا کا سوئیٹر بھی ۔ مگر وہ سفید سوئیٹر ابھی تک نہ پہنا تھاجس کا ایک ایک خانہ گُلانے نے دل کے ساتھ اٹھایا ،جس کی ایک ایک سلائی میں اپنے جذبات پروئے ۔
سردیاں یہاں ویسے بھی پردیس میں رہنے والے ماہی کی طرح آتی تھیں ۔ چند د ن منہ دکھایا پھر سال بھر کے لیے غائب۔ گُلانے منتظر ہی رہی کہ اس کے ہاتھ سے بنا سوئیٹر پہن کر باہر نکلے مگر وہ دن آ ہی نہیں رہا تھا ۔اس دن نورالحسن کے کسی دوست کا ولیمہ تھا ۔ گُلانے نے الماری سے خود ہی وہ سوئیٹر نکال کر اسے پیش کیا ۔
” آپ یہ پہن کر جائیں ۔”
”اس ڈریس کے ساتھ یہ سوٹ نہیں کرتا گُلانے ۔ ” اس نے سوئیٹر پر نظر ڈال کر نرمی سے کہا ۔
”پہن لیں ناں ۔ وائٹ اور بلیک تو سب کے ساتھ چل جاتا ہے ۔” وہ بضد تھی۔
” یہ تو پرس اور جوتی کے معاملے میں عورتوں کی کفایت شعاری ہے ۔” اس نے ہنس کر جواب دیا۔
اس نے ہمیشہ دیکھا تھا کہ امی جوتا اور پرس بلیک، براؤن یا وائٹ لیتیں تھیں کہ یہ کلرز ہر رنگ کے جوڑے کے ساتھ چل جاتے ہیں ۔ میچنگ کی عیاشی پہلے وہ افورڈ نہیں کر سکتی تھیں اور اب عادت نہیں رہی تھی۔
”آپ پہن کر تو دیکھیں ، اچھا لگے گا ۔” اس نے کمزور سا اصرار کیا۔
”گُلانے ! یہ میں پھر کسی دن پہن لوں گا ۔” اس نے ٹالنا چاہا۔
”نہیں آج پہنیں ۔”اس نے ایک بار پھر ضد کی۔
”کیا بچوں والی باتیں کرتی ہو گُلانے ۔ یہ سوئیٹر جس پر سرخ رنگ کا دل بنا رکھا ہے تم نے ، یہ میں پہنوں گا ؟اپنا مذاق بنوانا ہے میں نے ؟حلقہ ٔاحباب میں سب کا ماننا ہے کہ نور الحسن جیسا ویل ڈریسڈ کوئی نہیں ۔ اور تم چاہتی ہو کہ یہ … یہ پہنوں میں ۔ ” اس نے سوئیٹر گُلانے کی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔
” اتنی چیپ اور چھچھوری ڈریسنگ تو میں نے کبھی ٹین ایج میں نہیں کی، آج اس عمر میں اس مقام پر کروں گا ۔”
اس کا لہجہ اونچا نہیں تھا مگر الفاظ بھاری تھے ۔خاص کر گُلانے کے نازک دل کے لیے بہت بھاری تھے۔اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے ۔ وہ تیزی کے ساتھ کمرے سے نکل آئی ۔حالانکہ کمرے میں آکر بہت روئی پھر بھی آنسو تھے کہ دن بھر بار بار امڈ تے رہے ۔ اسی شام نورالحسن نے معذرت بھی کی تھی کہ وہ اسے ہرٹ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا مگر اس کے اصرار پر اس کے منہ سے ایسے کلمات نکل گئے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے جذبات کی قدر کرتا ہے ۔
وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔ اسے نورالحسن کی مار بھی قبول تھی یہ تو پھر چند جملے ہی تھے ۔
اس دن اس نے محسوس کیا تھا کہ اندرسے وہ ابھی تک دیہاتیہے ۔ ماں نے تو اپنے چاہ بیٹی پر پورے بھی نہ کیے تھے کہ قبر میں جا سوئی ۔ باپ پڑھا لکھا مگر سادہ سا بندہ، اپنی جیب کے مطابق بیٹی کو اچھا پہنانے کی کوشش کرتا مگرفیشن کے مطابق چلنے کا اسے بھی ڈھنگ نہ تھا ۔ پھر پوجی کے ساتھ رہ کر اور گاؤں رہ کر تو اسے بھول ہی گیا کہ پسند ، انتخاب اور معیار کیا ہے ۔ جو گل زمان سال میں دو سوٹ لا دیتا،پوجی اس پر کڑھائیاں کر کے ، دیہاتی انداز میں سی کر اسے پہنا دیتیں۔ یہاں آئی تو امی بھی سادہ خاتون تھیں۔ پہلے تو سلائی کرتی تھیں پھر بھی فیشن کا کچھ پتا چلتا تھا ۔ اب وہ بھی نو ر الحسن نے سختی سے منع کر دیا ۔ گُلانے کو کبھی بھی ایسا ماحول ملا ہی نہیں جہاں وہ بھی فیشن ، ٹرینڈ ، ان آؤٹ جیسی باتیں کر سکے۔ نورالحسن اور ولی کے پہناوے اسے بھاتے تھے مگر کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ اسے بھی اپنی پسند نا پسند ، اپنی چوائس میں بہتری لانی چاہیے ۔ اس نے تو بہت محبت کے ساتھ سفید سوئیٹر بنا کر اس کے بائیں کندھے سے نیچے دل کے مقام پر سرخ رنگ کا دل کاڑھا تھا ۔وہاں پوجی کے گاؤں میں اس نے گل خانم کو دیکھ تھا جس نے اپنے منگیتر کے لیے رومال پر دل کاڑھا تھا ۔ اس کا منگیتر بہت خوش ہوا تھا اور ہر وقت وہ رومال اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔ اسے لگا تھا کہ نو ر الحسن بھی بہت خوش ہو گا مگر…
اس کا دل بہت دکھا تھا مگر ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہوگیا تھا کہ نور الحسن جیسے پڑھے لکھے ، کامیاب مرد کے ساتھ چلنے کے لیے اسے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔اپنے آپ کونو ر ا لحسن کے معیا ر تک لانا ہو گا ۔ ایک ایسی گُلانے بننا ہوگا جسے نو ر ا لحسن اپنے ساتھ لے کر چلے تو جوڑی خراب نہ لگے ۔ اس نے نورالحسن سے محبت کی ہے تو اس کے رنگ میں تو رنگنا ہو گا ۔
٭…٭…٭
نورالحسن نے اپنا شلوار قمیص نکالنے کے لیے الماری کھولی تو سامنے پڑے تہ شدہ سفید سوئیٹر پہ نظر پڑی۔ اس نے آہستہ سے اس پر ہاتھ پھیرا ۔ اسے گُلانے کا روتا ہوا چہرہ یا د آیا تواپنے کل کے رویے پر پشیمان ہوا ۔
اس نے سوئیٹر کھول کر اپنی نگاہوں کے سامنے کیا ۔
سفید سوئیٹر کے بائیں کندھے پہ سرخ رنگ کا دل … کتنے دل سے بنایا ہو گا اس نے ۔لیکن جب کل اس نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو بنا کچھ کہے کمرے سے چلی گئی۔ اور پھر جانے کتنے آنسو بہائے ہوں گے کہ جب وہ گھر آیا تو اس کی روتی ہوئی سی صورت پر نظر پڑی ۔ وہ نادم ہوا تھا ۔ شادی میں بھی اس کا دھیان اس کی طرف ہی رہا تھا ۔ اس نے پہلی بار گُلانے کے ساتھ اس لہجے میں بات کی تھی۔ شام میںجب اس کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھیں تو پشیمان ہوتا ہوا اس کے پاس چلا آیا ۔اور اس سے معذرت کی ۔ وہ اس کی معذرت پر شرمندہ سی ہو گئی ۔
” میں خفا نہیں ہوں۔ ” اس نے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا تھا ۔
”تو پھر رو کیوں رہی ہو ؟”نور الحسن خود اپنے کیے پر شرمندہ تھا۔
”نہیں … رو تو نہیں رہی ۔” اس کے صاف مکرنے پہ وہ مسکرا دیا ۔
”میں نے تمہیں اتنا کچھ کہا ،تمہمیں بر ا نہیں لگا ۔”اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
”میں آپ سے خفا ہو ہی نہیں سکتی۔”اس کے لہجے میں بیک وقت محبت، خلوص اور تعظیم چھلک رہی تھی۔
”کیوں ؟”اس کے چہرے کی سرخی میں اضافہ ہوا ۔اور وہ نظریں جھکائے کھڑی رہی ۔
”کیوں ؟” نور الحسن نے ذرا سا جھک کر دھیرے سے پھر پوچھا ۔
”کیوں کہ …” جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ اپنے دوپٹے کے پلو سے کھیلنے لگی تھی۔
”اب یہ مت کہنا … کیوں کہ آپ میرے مالک ہیں ۔” اس نے سیدھا ہوتے ہوئے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔وہ ہنس دی تھی ۔ بھیگی آنکھوں کے ساتھ ہنستا ہوا چہرہ۔ نو ر الحسن بے خود سا ہو کر اسے دیکھتا چلا گیا ۔گُلانے نے اس کا مبہوت ہونا محسوس کیا تو شرما کر وہاں سے جانے لگی ۔
”تم نے بتایا نہیں کہ تم مجھ سے خفا کیوں نہیں ہو سکتیں ؟” اس نے اسے گزرنے کا رستہ نہ دیا اور سوال دہرایا۔
”کیوں کہ … کیوں کہ آپ مجھے ۔ ۔ ۔ اچھے لگتے ہیں ۔” نظریں جھکا کر ہچکچا تے ہوئے روح افزا اقرار کیا گیاتھا ۔
سفید سوئیٹر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نور الحسن مسکرا دیا ۔
وہ لکھاری نہ تھا ۔
لکھاری ہوتا تو گُلانے پہ لکھتا۔
گُلانے جو وفا تھی، حیا تھی، محبت تھی۔
٭…٭…٭
صحن میں اِدھر سے اُدھر چکر لگاتے نور الحسن نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی اورتشویش محسوس کی ۔
ولی ابھی تک گھر نہیں آیا تھا ۔ اور یہ کوئی آج کی بات نہیں تھی۔ رات دیر سے گھر آنا اس کا معمول بنتا جا رہا تھا ۔امی نے ایک دو دفعہ شکایت بھی کی تھی اور وہ ولی کو ہلکی سی سر زنش کر کے بھول گیا تھا مگر جب ایک کو لیگ نے دبے دبے لفظوں میں ولی کی صحبت کا ذکر کیا تو وہ متفکر ہوا۔اور آج جلد گھر آگیا تھا ۔
کرسی پر بیٹھی گُلانے اپنی توجہ کتاب کی طرف مبذول کرنے کی پوری کوشش کرتی مگر نگاہیں تھیں کہ بار بار نورالحسن کی طرف اٹھتیں ۔
اس شخص کے ہوتے ہوئے بھلا توجہ کہیں اور مرکوز کرنا ممکن کب تھا ۔
جب ولی گھر آیا تو دروازہ نور الحسن نے کھولا۔ ولی اسے دیکھ کر کچھ چوکنا سا ہوا۔نظریں جھکا کر سلام کیا اور آگے بڑھنے لگا۔
”کہاں سے آرہے ہو ؟” سلام کا جواب دیتے ہوئے نورالحسن نے استفسا ر کیا ۔ ولی نے دانتوں تلے زبان دبائی ۔
”مار ا گیا !دوستوں کے ساتھ تھا بھائی ۔”بڑبڑا کر وہ نو ر ا لحسن کی طر ف مڑ ا۔
”کون سے دوست ؟” نو ر ا لحسن سنجیدگی کے ساتھ سوال کر رہا تھا ۔
” وہی جو میرے ساتھ ہوتے ہیں ۔”اس نے ٹال مٹول سے کام لیا۔
”کون تمہارے ساتھ ہوتا ہے ؟”یہ بھائی آج فوجداری پر کیوں اتر آئے ؟ اس نے سوچا اور بھائی کو نام بتا ئے ۔
” فیضان، دانش اور مغیث ۔”
”فیضان تو چلو تمہارا بچپن کا دوست ہے ، مجھے پسند بھی ہے ۔ مگر یہ دانش اور مغیث مجھے پسند نہیں ولی ۔”نور الحسن نے برملا اپنی ناپسندیدیگی کا اظہار کیا۔
”بھائی … وہ میرے یونی فرینڈز ہیں ۔”
”جانتا ہوں ،مگر میں ان کے ساتھ تمہارا اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتا ۔”
”بھائی دوست ہیں ۔” اس نے احتجاج کیا ۔
”انسان کی کمپنی بہت معنی رکھتی ہے ولی۔ اسکول، کالج میں مجھے تمہاری طرف سے کبھی فکر ہوئی تھی نہ ہی کبھی شکایت ملی تھی کیوں کہ تمہارے ساتھ اچھے دوست تھے۔”
”اب شکایت ملی ہے کیا ؟” وہ چونکا تھا ۔
”مجھے تمہاری فکر ہے ولی ۔” اس کے سوال کا جواب دیے بغیر نورالحسن نے فکرمند انداز میں کہا ۔
” بھائی بھی ناں! ایک امی کم ہیں کیا فکر کرنے کے لیے ۔ ” وہ سر ہلاتا ہوااندر آیا ۔ گُلانے کتاب کھولے کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس وقت امی کی نیند ڈسٹرب ہونے کے خیال سے وہ باہر ہی بیٹھ کر پڑھا کرتی تھی۔
”تم نے شکا یت لگائی میری بھائی سے ؟” وہ اونچی آواز میں بولتے بولتے دھیما پڑا کیوں کہ نور الحسن بھی دروازہ بند کر کے پیچھے آ رہا تھا ۔ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا تواس نے پھر سوال دہرایا ۔
”میں کیوں لگاؤں گی تمہاری شکایت ۔ وہ تو بس تمہارے آنے جانے کی روٹین کچھ دنوں سے پوچھ رہے تھے ، وہ بتا دی میں نے ۔” اس نے سادگی کے ساتھ جواب دیا ۔
”یہ ناں … بھائی کے سامنے اپنے نمبر بنانے کے لیے میری رپورٹیں ذرا کم دیا کرو ۔ ” کرسی پر بیٹھ کر جوگرز کے تسمے کھولتے ہوئے اس نے گھور کر گُلانے سے کہا۔
”ان کے سامنے مجھے نمبر بنانے کی ضرورت کیا ، وہ تو ویسے ہی میرے گرویدہ ہیں ۔ ” وہ اسے چڑانے کے لیے مسکراتے ہوئے بولی ۔
”ہوں ! گرویدہ ہیں ۔ میں نے بتا دیا ناں بھائی کو کہ دن بھر ، رات بھر جو فون بجتا رہتا ہے ، وہ کس کے لیے آتا ہے تو پھر دیکھنا ۔ ”
گُلانے اپنی جگہ ساکت ہوگئی ۔ولی نے پہلی بار اس لہجے اس سے بات کی تھی۔ ایک دوسرے کو چڑانے کا کام دونوں طرف سے جاری رہتا تھا مگر آج اس وقت وہ چڑا نہیں رہا تھا بلکہ اسے لگا کہ دھمکا رہا ہے ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۴ — آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!