کراچی کی لوک کہانی
مائی کی روشنی
فرزانہ روحی اسلم
فرزانہ روحی اسلم نے 1980ء میں روزنامہ جنگ سے لکھنے کا آغاز کیا۔ پاکستان بھر کے بچوں کے رسائل میں لکھ چکی ہیں۔ کراچی سے تعلق اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کررکھا ہے۔ درجنوں ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔ کہانیوں کا ایک مجموعہ ”صندل کا درخت” لاہور سے شائع ہوا، افسانہ نگاری کے علاوہ نظم بھی لکھتی رہی ہیں۔
برسوں پرانی بات ہے۔ ”مائی” نامی ایک عورت کا خاندان سمندر کنارے آباد تھا۔ کچا گھر مٹی اور لکڑی سے بنا ہوا تھاجب کہ دروازے پر کپڑے کا پردہ تان دیا گیا تھا۔ اصل نام تو اس کا معلوم نہیں، البتہ سب اسے مائی کہتے تھے۔ وہ سب ماہی گیر تھے۔ مچھلیاں پکڑتے، بیچتے اور کھاتے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دنیا نہیں دیکھی تھی۔ اُن کے بچے سمندر کنارے مٹی کے گھروندے بناتے یا پھر سیپیوں سے کھیلتے۔ کھیل ہی کھیل میں وہ جال بُننا اور مچھلیاں پکڑنا بھی سیکھ جاتے۔
اُس دن مائی نے گھر کے کام کاج صبح سویرے ہی ختم کرلیے تھے۔ا ب اسے دوپہر کا انتظار تھا کہ اس کا شوہر مچھلیاں پکڑ لائے تو وہ انہیں پکائے۔ آج اُس کے بچوں نے چاول کھانے کی فرمائش کی تھی۔ لہٰذا اُس نے پہلے ہی چاول اُبال لیے اور اب کونڈی میں نمک، مرچ لہسن اور زیرہ کوٹ کر مچھلی کا مسالا تیار کر رہی تھی۔ اتنے میں اُس کا شوہر دو بڑی مچھلیاں لے کر آگیا۔ اس نے نہایت مہارت سے مچھلیوں کو کاٹا، صاف کیا اور مسالا لگا کر انہیں تل دیا۔ اُبلے چاولوں کے ساتھ لذیذ مچھلی کھا کر سب آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔شام کے وقت اس کے شوہر کو دوبارہ سمندر کنارے جانا تھا۔ بچوں نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ وہ بھی سمندر کا نظارہ کریں گے۔ چناں چہ مائی بھی اپنے بچوں کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
ایسا نظارہ انہوںنے پہلے کم ہی دیکھا تھا۔ بہت سارے لوگ سمندر دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ مائی اور اس کے بچوں کو بہت اچھا لگا اور وہ اُجلے کپڑوں والے صاف ستھرے لوگوں اور ان کے گول مٹول بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ تاہم مائی کی خو شی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ وہ جہاں کھڑی تھی وہاں سے کچھ فاصلے پرکوئی عورت چِلّا رہی تھی۔ اُس کا خاندان جس کشتی میں سوار تھا شاید وہ اُلٹ گئی تھی۔ ساحل پہ کھڑے مچھیرے اُس جانب بھاگنے لگے جد ھر سے آواز آرہی تھی۔ مائی بھی تیزی سے اُس جانب لپکی۔ اس کی آنکھوں نے دور کچھ لوگوں کوڈوبتے دیکھا۔ وہ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ ڈوبتا ابھرتا سر اور پانی کی سطح سے اوپر ایک ہاتھ دیکھ کر مائی پریشان ہوگئی۔ کچھ لوگ اسے بچانے کے لیے پانی میں ا تر کر دور جا چکے تھے اور اب شا ید وہ بھی پانی کے تھپیڑوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ بہت سے مچھیرے پانی میں کودے او ر تیرتے ہوئے ایک ایک شخص کو کھینچ کر کنارے تک لانے لگے۔
کشتی کے قریب وہ ڈوبنے والا لڑکا پانی میں بہت دور جا چکا تھا۔ اب بھی اس کا ہاتھ کسی لمحے دکھائی دے رہا تھا۔مائی چلائی: ”اسے بچائو،جلدی کرو۔” لیکن وہ دور تھا، کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اتنی دور گہرے سمندر میں جائے۔ مائی نے اپنے شوہر کا بازو پکڑتے ہوئے کہا:”تم جائو جلدی کرو ،زندگی بچائو۔”
”وہ بہت دور چلا گیا ہے، اب اسے بچانا بہت مشکل ہے۔” اس کے شوہر نے جواب دیا۔
”مگر وہ ابھی ڈوبا نہیں ہے۔”یہ کہتے ہوئے مائی نے اپنی اوڑھنی کنارے پر پھینکی اور سمندر میں کود گئی۔ یہ دیکھتے ہی اس کے شوہر نے بھی اس کے پیچھے چھلانگ لگا دی اور اسے آواز دینے لگا، مگر مائی دلیری سے سمندری لہروںکا مقابلہ کرتی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی۔اس پرایک ہی دھن سوار تھی کہ ”زندگی بچانی ہے۔”
جلد ہی مائی نے اس ہاتھ کو جا لیا جسے اس نے ساحل پر سے دیکھا تھا۔ اس کا شوہر اور دیگر مچھیرے بھی وہاں تک آ پہنچے۔ مائی اس ہاتھ کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ اسے واپسی مشکل لگنے لگی، پھر بھی وہ ہمت ہارنے کو تیار نہیں تھی۔ اس نے موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دور سے ایک کشتی کو دیکھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر آواز حلق میں گھٹ کر ہی رہ گئی۔ پھر بھی وہ پانی کی مخالف سمت بڑھتی رہی۔
”اسے بچائو، جلدی کرو۔” وہ دوبارہ چلّائی۔ اس کی حوصلہ مند آواز نے لہروں کو ہارنے پر مجبور کردیا۔ کشتی اب اس کے بالکل قریب تھی۔ مچھیروں نے انہیں جلد ہی گھسیٹ کر کشتی میں ڈال لیا اور ان کے پیٹ سے پانی نکالنے لگے۔ جب مائی کے حواس بحال ہوئے تواس نے خود کو ساحل پر دیکھا، اسے فوری طور پر مطب پہنچایا گیا۔ وہ بہت تھک گئی تھی اور زخمی بھی تھی، مگر ایک زندگی کے بچ جانے پر خوشی اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔
”آج ایک زندگی بچ گئی ورنہ رات بھر سمندر کنارے سوگ ہوتا،ہمارے گھروں میں دیے بجھا دیے جاتے۔” وہ بڑ بڑائی۔
مائی کو اندھیرا پسند نہ تھا۔ اسے روشنی اچھی لگتی تھی۔زندگی بچانے کی خوشی میں رات بھر گائوں میں چراغاں ہوا۔ لوگ مائی کو مبارک باد دینے آتے رہے۔ دور دور تک مائی کی ہمت اور بہادری کے چرچے ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ اس کے گائوں کا نام اسی کے نام سے ”مائی کولاچی ” پکارا جانے لگا۔ جس کا مطلب ہے ”مائی کی روشنی” یہ نام اس گائوں کو اتنا راس آیا کہ یہاں برکتیں نازل ہونے لگیں۔ مچھیروں کو سمندر سے ڈھیروں مچھلیاں ہاتھ آنے لگیں۔ ان کا کاروبار ترقی کرنے لگا۔ مچھلیوں کا کاروبار پھیلا تو مزید آسانیاں مہیا ہونے لگیں۔ سڑکیں بن گئیں اور جب سڑک بن جائے تو آمد و رفت بھی بڑھ جاتی ہے جس سے بڑے پیمانے پر کاروبار شروع ہوجاتا ہے۔ مائی کو لاچی میں بھی یہی ہوا۔
مچھلیوں کی پوری دنیا میں سپلائی شروع ہوگئی۔ روز گار کے دروازے کھلے تو دیگر شہروں سے بھی روزگار کی تلاش میں مائی کولاچی آنا شروع ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے پلٹا کھایا اور گائوں ایک شہر بن کر جگمگانے لگا ۔”مائی کولاچی” روشنیوں کا شہر کہلانے لگا جس کی سڑکیں اور عمارتیں رات کو روشنی بکھیرنے لگیں، برقی قمقمے جلنے بجھنے لگے۔شہر کی شہرت دور دور تک پھیلنے لگی۔دنیا بھر سے تاجروںنے یہاں آنا شروع کیا۔ شہر کی جگمگا ہٹ دیکھنے دور دراز سے لوگ کشاں کشاں آنے لگے۔ ترقی کے ساتھ ساتھ اس شہر کا نام بھی بدلتا گیا۔ کولاچی، کلاچی، کرانچی اور پھرکراچی ہوگیا۔
یہاں کے باشندوں نے نئے نئے کام کیے، سوچنے والوںنے نئی نئی باتیں سوچیں، یوں شہر کی ترقی کو چار چاند لگ گئے، مگر وہ اس مائی کی زندگی سے محبت اور بہادری کو فراموش نہ کرسکے۔ یہ جو رات گئے کراچی کی عمارتیں ،سڑکیںاور سائن بورڈ روشن رہتے ہیں۔ یہ دراصل” مائی کولاچی ”کی ہمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔جب تک کراچی روشن رہے گا مائی کی یاد تازہ رہے گی۔ کراچی کی تاریخ کے اوراق پلٹنے والوں کو مائی کولاچی کا ذکر سنہری حروف سے لکھا دکھائی دیتا رہے گا۔