کباڑ — صوفیہ کاشف

سعدیہ نے صفائی والا کپڑا اٹھایا اور مسہری کو دھیرے سے جھاڑنے لگی۔ رات پھر اس کے خواب میں ایک چہرا اترا تھا۔ ایک ایسا مبہم چہرا جِسے وہ زندگی میں بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ رات بھر خواب میں وہ اُسی چہرے کے گرد منڈلاتی رہی تھی۔ اُسے کھوجتی اور پکارتی رہی تھی۔ جسے وہ بہت دور چھوڑ آئی تھی۔ کانوں میں وہی سرگوشیاں گونجنے لگتیں، پلکوں پر وہی خواب اترنے لگتے۔ سانسوں کی تھکاوٹ بڑھ جاتی اور بڑھتے قدم ڈگمگانے لگتے۔ کچھ جاودان لمحے جو وقت کی دھند میں غائب تو ہوجاتے ہیں مگر زندگی کے پھر کسی موڑ، کسی نکڑ پر ایک دم سے سامنے آٹھہرتے ہیں۔ چہرے جو کھو جاتے ہیں مگر تپتی دھوپ میں بارش بن کر سرد سورج کی تمازت ہوکر یا زمینوں کے زلزلوں کی صورت زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ رشتے جو کبھی بھی الوداع نہیں کہتے مگر پھر بھی کبھی اپنے نہیں ہوتے۔




سعدیہ بھی تھک گئی تھی۔ صبح سے قدم قدم چلتی کبھی یہاں بیٹھتی تو کبھی وہاں۔ چلتا ہاتھ سست پڑ جاتا اور چلتے چلتے دماغ جامد ہونے لگتا۔ رات خوابوں میں ایک آسیب سا اترا تھا جو آج کا دن چکنا چور کر گیا تھا۔ اب ساری منصوبہ بندی، سب حساب کتاب بیکار تھے۔ آج کے دن کے نصیب میں صرف ٹکڑے تھے۔ ٹوٹے ہوئے شیشے کے باریک ریزے جو اُسے سمیٹنے تھے اور پھر سے ایک کرنے تھے۔
صفائی والا کپڑا کھانے والی شیشے کی میز کے بیچ میں رکھ کر وہ سر پر ہاتھ رکھے کُرسی پر بیٹھ گئی۔ زندگی کتنی خوبصورت تھی، کل کی نہیں آج کی! کس قدر مکمل تھی! پچھتاؤں، دکھوں اور حسرتوں کے بغیر مگر وہ کیا تھا جو صرف پینتالیس منٹ کا خواب اُس کے آس پاس بکھیر گیا تھا اور وہ ونڈر لینڈ کی ایلس کی طرح وقت سے معدوم ہوگئی تھی۔ حال کے رنگوں سے ماوراء ہوگئی تھی۔ ماضی کی غلام گردشوں میں ‘عشق اور پچھتاوے کی کی حدتوں میں ننگے پاؤں کھڑی تھی۔ دو قطرے جو پلکوں سے بہ جاتے تو آسمان نکھر جاتا اور چمکتا سورج روشن دن کو واضح کردیتا! مگر یہ ماضی کے عشق آنسو نہیں لاتے بلکہ کسی چھپے زخم کی طرح اندر ہی اندر رگیں کاٹتے ہیں تکلیف اور درد کے احساس کے بغیر! عشق کی وہ شدت تو ماضی بعید کا کوئی حصّہ تھی کہ بات بات پر شمع چھلکتی تھی، ڈوپٹے بھیگتے، سجدے تڑپتے تھے، اور جائے نماز رات بھر روتی اور سسکتی تھی! اب وہ جنت میں تھی اور جنت میں تکلیف نہ تھی۔ دُکھ تھا نہ پچھتاوہ، نہ زخم اذیت تھی!… جنت میں عشق بھی نہ تھا، گرم سورج کی طرح چمکتا ہوا، لمبے کانٹوں کی طرح چبھتا ہوا، زہریلے ناگ کی طرح ڈستا ہوا!
سعدیہ کرسی کو اٹھی ہے تو اب دروازہ پونچھتی ہے اور پونچھے ہی جاتی ہے۔ کئی بار اُوپر سے نیچے نیچے سے اُوپر کپڑا مارے جاتی ہے۔ پھر یاد آتا ہے کہ پچھلی میز تو رہ گئی تھی۔ دروازہ چھوڑ کر پھر میز کی طرف پلٹتی ہے۔ میز پر رکھا ٹوٹا ہوا دھیان اُٹھاتی ہے اور پھر مُڑ بیٹھتی ہے، نجانے کتنی بار، کتنی بار رہتی ہے انسان کو بس گننے والا کھو جاتا ہے۔ پونچھتے پونچھتے میز کے قریب جھک کر نجانے فرش پر کیا ڈھونڈتی ہے، اپنے حال کو پکڑتی ہے! ماضی کو دیکھتی ہے۔ دروازہ ہنسنے لگتا ہے، صفائی کا کپڑا اچھلنے لگتا ہے۔ کمرے کی سجی سجائی سب چیزیں مہکنے اور گیت الاپنے لگتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر آنکھ مارتی اور ہنستی ہیں۔ جیسے آج صدیوں بعد ان کی ان روزانہ اٹھانے اور پٹخنے والے ہاتھوں سے جان چھوٹتی تھی۔ آج سارا سامان جشنِ آزادی سا رہا تھا اور ان سب کے شور شرابے میں روزانہ مصروف رہنے والی سعدیہ آج گمشدہ ہے آج کسی شے پر پڑی مٹی اُسے بلاتی نہیں، کوئی دھندلا شیشہ اُسے متوجہ نہیں کرتا، خوشبو دار موم بتیاں آج اُجڑا سر لئے اندھیروں میں بیٹھی سورہی ہیں۔ آج دھندلے ماضی نے اپنا در کھولا ہے اور وہ پرانی کباڑ چیزیں نئی روشن زندگی میں بکھیر بیٹھی ہے۔
وہ یہیں تھا لہجے کی اُسی تازگی اور زندگی کے ساتھ، مسکراتا ہوا، وعدے وعید کرتا اور آنکھوں سے کچھ جتاتا ہوا، سعدیہ کے ساتھ ساتھ چلتا، کبھی روٹھتا اور کبھی کچھ مناتا ہوا۔ سعدیہ کے ہاتھ تھامے اس کی آنکھوں میں اُترتا، قدموں کے نیچے ہتھیلیاں رکھتا… نہیں شاید… وہ ایک قدم اس کے آگے آگے چلتی تھی۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راستہ دکھاتی! محبوب کی مشکلوں کو اپنے دامن میں بھرتی! وہ راہبرِ عشق تھی، عشق کا کل اثاثہ بھی اور شاید… صرف وہ ہی تھی! عشق ہارا ہوا ہو تو سمجھو اکیلا تھا۔ دوسرا سرا اک دھوکا تھا، اک خوب صورت شوق سے کھایا دھوکا! اُس نے بھی کھایا تھا کُھلی آنکھوں سے اک رنگ دار مگر بے خوشبو دھوکا اور وہ دھوکا آج بھی لاشعور کی گرہوں میں کہیں سِسکتا تھا۔ میز کے بعد اب الماری کے پٹ کُھلے۔ ہاتھ چلتے چلتے رک جاتے، دیواریں رُک کر سانس لینے لگتیں اور ان کے اوپر سعدیہ کی نگاہیں کسی کٹی پتنگ کی طرح ڈولنے لگتیں۔ حال سے غائب غائب میں حاضر! ہاں… عورت دھوکا بھی نہیں بھول پاتی!” سانس چڑھنے لگا تھا! ”کیوں کہ عورت خود دھوکا نہیں ہوتی” جس نے سچا پیار کیا ہو کیسے منٹوں میں بھول جائے! کھلی الماری کے کُھلے پٹ چھوڑ کر پھر کرسی کے کنارے ڈھے گئی۔ قدم مَن مَن کے ہونے لگے تھے۔ بہت تیزی اور طاقت سے چلے تھے یہ قدم عشقِ ممنوع کی جانب! اشک بھی رواں تھے، رسوائیاں بھی سہی تھیں اور بلآخر بے وفائی بھی! سب کچھ قطرہ قطرہ کرکے پیا تھا اُس نے اپنی وفا کی سزا کے طور پر اور وہی خوب صورت دھوکا پرُسکون رات کے چند لمحوں نے پھر سے زندہ جاوید کردیا تھا۔ کوئی پھر سے سعدیہ کے بہت قریب مُسکرایا تھا، کسی کی سسکتی خوشبو قریب قریب پھیلی تھی۔ رات میں اُس کے بستر پر اس کے ساتھ حال نہیں اُس کا ماضی تھا۔ ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے، وہ ہاتھ جو ابھی تک اس کی رگوں میں جاگتے تھے، جو اس کی یاداشت کی الماری کے کسی خانے کی تہ میں انجانے اور بے خبری میں زندہ جاوید رکھے تھے! دھوکا… محبت… وفا… بے وفائی! ایک کے بعد ایک دیا جلتا اور بجھتا، بجھتا اور جلتا!
باورچی خانے میں پریشر ککر نے سیٹی بجائی، آواز سُن کر سعدیہ کا ارتکاز توڑا! ”صفائی ہوگئی (شاید)” خود کو بتاتی وہ اُٹھی اور باورچی خانے کی طرف چل دی! چیزیں سینت سینت اور سجا سجا کر رکھے والی سعدیہ آج شیشے کی میز پر صفائی والا گندہ کپڑے چھوڑ کر چلی گئی!

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جب زمین تنگ ہوجائے — حنا نرجس

Read Next

میں، محرم، مجرم — افراز جبین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!