پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

”آئی سویئر پاپا! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔ وہ اسے لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔”
”یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا، مجھے صرف سچ بتاؤ۔” قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند و تیز لہجے میں کہا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہا پاپا!” حسن نے احتجاج کیا۔
”لاہور کہاں چھوڑ آیا تھا؟”
”کسی سڑک پر۔ اس نے کہا تھا کہ وہ خود چلی جائے گی۔”
”تم مجھے یا سکندر کو بے وقوف سمجھ رہے ہو، اس نے اس لڑکی سے شادی کی اور پھر اسے ایک سڑک پر چھوڑ دیا۔ بے وقوف مت بناؤ ہمیں۔” قاسم فاروقی بھڑک اٹھے۔
”میں سچ کہہ رہا ہوں پاپا! اس نے کم از کم مجھ سے یہی کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو سڑک پر چھوڑ آیا تھا۔”
”تم نے اس سے پوچھا نہیں کہ پھر اس نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کیوں کی، اگر اسے یہی کرنا تھا۔”
”پایا! اس نے یہ شادی اس لڑکی کی مدد کے لیے کی تھی۔ اس کے گھر والے زبردستی اس کی شادی کسی لڑکے سے کرنا چاہتے تھے وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے سالار سے رابطہ کیا اور مدد مانگی اور سالار اس کی مدد پر تیار ہوگیا۔ وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ سالار وقتی طور پر اس سے نکاح کرلے تاکہ اگر اس کے والدین زبردستی اس کی شادی کرنا چاہیں تو وہ اس نکاح کا بتا کر انہیں روک سکے۔”
حسن اب سچائی پر پردہ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے پوری بات بتانے کا فیصلہ کرلیا۔
”اور اگر ضرورت پڑے تو بیلف کے ذریعے اس کو رہائی دلوائی جاسکے مگر یہ کوئی محبت وغیرہ کی شادی نہیں تھی۔ وہ لڑکی ویسے بھی کسی اور لڑکے کو پسند کرتی تھی۔ ”تم نے بہت اچھی کہانی بنائی ہے مگر میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ اس کہانی پر یقین کرلوں۔ تمہیں اب امامہ تک پہنچنے میں سکندر کی مدد کرنی ہے۔” قاسم فاروقی نے قطعی لہجے میں کہا۔
”پاپا! میں یہ کیسے کرسکتا ہوں۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔” حسن نے احتجاج کیا۔
”تم یہ کیسے کروگے۔ یہ تم خود جان سکتے ہو۔ مجھے صرف یہ بتانا تھا کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔”
”پاپا پلیز، آپ مجھ پر یقین کریں، میں امامہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ نکاح کروانے کے علاوہ میں نے اور کچھ نہیں کیا۔” حسن نے کہا۔
”تم اس کے اتنے قریب ہو کہ اپنی خفیہ شادی میں وہ تمہیں گواہ کے طور پر لے رہا ہے مگر تمہیں یہ نہیں پتا کہ اس کی بیوی گھر سے بھاگنے کے بعد اب کہاں ہے۔ میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں حسن! کسی صورت میں بھی نہیں۔” قاسم فاروقی نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تمہیں اگر پتا نہیں تو بھی تم اس کا پتا کرواؤ… کہ وہ کہاں ہے… سالار تم سے کچھ نہیں چھپائے گا۔”
”پاپا! وہ بہت سی باتیں مجھے بھی نہیں بتاتا۔”
”وہ سب باتیں تمہیں بتاتا ہے یا نہیں، میں فی الحال صرف ایک چیز میں دلچسپی رکھتا ہوں اور وہ امامہ کے بارے میں معلومات ہیں۔ تم ہر طریقے سے اس سے امامہ کا پتا حاصل کرو اور سالار کو کسی بھی طرح یہ پتا نہیں چلنا چاہیے کہ سکندر کو اس کی شادی کی اطلاع مل چکی ہے، یا اس نے اس سلسلے میں تم سے کوئی ملاقات کی ہے۔ اگر مجھے یہ پتا چلا کہ سالار یہ بات جان گیا ہے تو میں تمہارا کیا حشر کروں گا یہ تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔ میں سکندر کو تو پہلے ہی اجازت دے چکا ہوں کہ وہ ہاشم مبین کو تمہارا نام دے دے، اس کے بعد ہاشم مبین تمہارے ساتھ پولیس کے ذریعے نپٹے یا کسی اور طریقے سے، میں بالکل پروا نہیں کروں گا۔ اب تم یہ طے کر لو کہ تم نے سالار کے ساتھ دوستی نبھانی ہے یا پھر اس گھر میں رہنا ہے۔” قاسم فاروقی نے قطعیت سے کہا۔
”پاپا! میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح امامہ کے بارے میں کچھ معلومات مل جائیں۔ میں سالار سے اس کے بارے میں بات کروں گا۔ میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا کہ سکندر انکل کو اس سارے معاملے کے بارے میں پتا چل گیا ہے۔” وہ میکانکی انداز میں دہراتا جا رہا تھا۔
”وہ اس بار واقعی بری طرح اور خلاف توقع پھنسا تھا۔
٭…٭…٭




سالار چند دن گھر بیٹھا رہا تھا مگر پھر ضد کر کے اس نے کالج جانا شروع کر دیا۔ ہاشم مبین اور اس کے گھر والے امامہ کی تلاش میں زمین آسمان ایک کیے ہوئے تھے۔ اگرچہ وہ یہ سب کچھ بڑی رازداری کے ساتھ کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے ملازمین اور پولیس کے ذریعے سکندر کو ان کی کوششوں کی خبر مل رہی تھی۔ وہ لاہور میں بھی امامہ کی ہر اس سہیلی سے رابطہ کر رہے تھے جسے وہ جانتے تھے۔
سالار نے ایک دن اخبار میں بابر جاوید نامی ایک شخص کا خاکہ دیکھا۔ اس کے بارے میں معلومات دینے والے کے لیے انعام کا اعلان تھا۔ وہ اس نام سے اچھی طرح واقف تھا۔ یہی وہ فرضی نام تھا جو حسن نے وکیل کو امامہ کے شوہر کا دیا تھا اور وہ اشتہار یقینا امامہ کے گھر والوں کی طرف سے تھا حالاں کہ نیچے دیا گیا فون نمبر امامہ کے گھر کا نہیں تھا، وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ پولیس اس وکیل کے پاس پہنچ گئی ہوگی اور اس کے بعد اس وکیل نے اس آدمی کے کوائف انہیں بتائے ہوں گے۔ اب یہ حقیقت صرف وہ وکیل، حسن اور خود وہ جانتا تھا کہ بابر جاوید سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتا مگر وہ مطمئن ہوگیا تھا۔ وہ ہاشم مبین کے گھر والوں کو کسی حد تک بھٹکانے میں کامیاب رہا تھا۔
اس پورے عرصہ کے دوران سالار، امامہ کی کال کا منتظر رہا۔ اس نے کئی بار امامہ کو اس کے موبائل پر کال بھی کیا مگر ہر بار اسے موبائل آف ملتا۔ اسے یہ تجسس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں تھی۔ اس تجسس کو ہوا دینے میں کچھ ہاتھ حسن کا بھی تھا جو بار بار اس سے امامہ کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا، بعض دفعہ وہ چڑ جاتا۔
”مجھے کیا پتا کہ وہ کہاں ہے اور مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر رہی۔ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اس معاملے میں مجھ سے زیادہ تمہیں دلچسپی ہے۔”
اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ حسن کا یہ تجسس اور دلچسپی کسی مجبوری کی وجہ سے تھی۔ وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ سالار کا خیال تھا کہ امامہ اب تک جلال کے پاس جاچکی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے شادی بھی کر چکی ہو اگرچہ اس نے امامہ سے جلال کی شادی کے بارے میں جھوٹ بولا تھا مگر اسے یقین تھا کہ امامہ نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا ہوگا۔ وہ اس کے پاس دوبارہ ضرور گئی ہوگی۔ خود سالار بھی چاہتا تھا کہ وہ خود جلال سے رابطہ قائم کرے یا پھر ذاتی طور پر جاکر ایک بار اس سے ملے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ امامہ اس کے ساتھ رہ رہی ہے یا نہیں، مگر فی الحال یہ دونوں کام اس کے لیے ناممکن تھے۔ سکندر عثمان مسلسل اس کی نگرانی کروا رہے تھے اور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ وہ یہ نگرانی کروانے والے واحد نہیں ہیں۔ ہاشم مبین احمد بھی یہی کام کروا رہے تھے اور اگر وہ لاہور جانے کا ارادہ کرتا تو اول تو سکندر عثمان اسے جانے ہی نہ دیتے اور بالفرض جانے کی اجازت دے بھی دیتے تو شاید خود بھی اس کے ساتھ چل پڑتے اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سارے معاملے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ اسے اب یہ سب کچھ ایک حماقت لگ رہا تھا۔ ایسی حماقت جو اسے کافی مہنگی پڑ رہی تھی۔ سکندر اور طیبہ اب ہمہ وقت گھر پر رہتے تھے اور اسے کہیں بھی جانے کے لیے ان سے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی حسن اس سے اب کم کم ملنے لگا تھا۔ وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتا تھا۔ اس صورتِ حال سے وہ بہت بور ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
وہ اس رات کمپیوٹر پر بیٹھا تھا جب اس کے موبائل پر ایک کال آئی۔ اس نے کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے لاپروائی سے موبائل اٹھا کر دیکھا اور پھر اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔ اسکرین پر موجود نمبر اس کے اپنے موبائل کا تھا۔ امامہ اسے کال کر رہی تھی۔
”تو بالآخر آپ نے ہمیں یاد کر ہی لیا۔” اس نے بے اختیار سیٹی بجائی۔ اس کا موڈ یک دم فریش ہوگیا تھا۔ کچھ دیر پہلے والی بوریت یکسر غائب ہوگئی تھی۔
”میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ اب تم مجھے کبھی کال نہیں کروگی۔ اتنا لمبا عرصہ لگا دیا تم نے۔” رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
”میں بہت دنوں سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر کر نہیں پا رہی تھی۔” دوسری طرف سے امامہ نے کہا۔
”کیوں، ایسی کیا مجبوری آگئی تھی۔ فون تو تمہارے پاس موجود تھا۔” سالار نے کہا۔
”بس کوئی مجبوری تھی۔” اس نے مختصراً کہا۔
”تم اس وقت کہاں ہو؟” سالار نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
”بچکانہ سوال مت کرو سالار! جب تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہ نہیں بتاؤں گی تو پھر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟”
”میرے گھر والے کیسے ہیں؟”
سالار کچھ حیران ہوا۔ اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
”بالکل ٹھیک ہیں، خوش و خرم ہیں، عیش کر رہے ہیں۔” اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ ”تم واقعی بہت اچھی بیٹی ہو، گھر سے جاکر بھی تمہیں گھر اور گھر والوں کا کتنا خیال ہے۔ ہاؤ نائس۔”
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔ ”وسیم کیسا ہے؟”
”یہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر میرا خیال ہے ٹھیک ہی ہوگا۔ وہ خراب کیسے ہوسکتا ہے۔” اس کے انداز اور لہجے میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”انہیں یہ تو پتا نہیں چلا کہ تم نے میری مدد کی تھی؟” سالار کو امامہ کا لہجہ کچھ عجیب لگا۔
”پتا لگا…؟ مائی ڈیئر امامہ! پولیس اسی دن میرے گھر پہنچ گئی تھی جس دن میں تمہیں لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔” سالار نے کچھ استہزائیہ انداز میں کہا۔ ”تمہارے فادر نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی تمہیں اغوا کرنے کے سلسلے میں۔” وہ ہنسا۔” ذرا سوچو میرے جیسا بندہ کسی کو اغوا کر سکتا ہے اور وہ بھی تمہیں… جو کسی بھی وقت کسی کو شوٹ کر سکتی ہے۔”
اس کے لہجے میں اس بار طنز تھا۔ ”تمہارے فادر نے پوری کوشش کی ہے کہ میں جیل پہنچ جاؤں اور باقی کی زندگی وہاں گزاروں مگر بس میں کچھ خوش قسمت واقع ہوا ہوں کہ بچ گیا ہوں۔ گھر سے کالج تک میری نگرانی کی جاتی ہے۔ ڈمب کالز ملتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ اب تمہیں کیا کیا بتاؤں۔ بہرحال تمہاری فیملی ہمیں خاصا زچ کر رہی ہے۔” اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں نہیں جانتی تھی کہ وہ تم تک پہنچ جائیں گے۔” اس بار امامہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔ ”میرا خیال تھا کہ انہیں کسی بھی طرح تم پر شک نہیں ہوگا۔ مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں اتنے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”
”واقعی تمہاری وجہ سے مجھے بہت سے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”
”میری کوشش تھی کہ میں پہلے خود کو محفوظ کرلوں پھر ہی تمہیں فون کروں اور اب میں واقعی محفوظ ہوں۔”
سالار نے کچھ تجسس آمیز دلچسپی کے ساتھ اس کی بات سنی۔ ”تمہارا موبائل میں اب استعمال نہیں کروں گی اور میں اسے واپس بھیجنا چاہتی ہوں، مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔” وہ اسے بتا رہی تھی۔ ”میں تمہیں کچھ پیسے بھی بھجواؤں گی۔ ان تمام اخراجات کے لیے جو تم نے میرے لیے کیے۔۔۔۔”
سالار نے اس بار اس کی بات کاٹی۔ ”نہیں، پیسے رہنے دو۔ مجھے ضرورت نہیں ہے۔ موبائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دوسرا ہے۔ تم چاہو تو اسے استعمال کرتی رہو۔”
”نہیں، میں اب اسے استعمال نہیں کروں گی۔ میری ضرورت ختم ہوچکی ہے۔”
اس نے کہا۔ کچھ دیر وہ خاموش رہی پھر اس نے کہا۔ ”میں چاہتی ہوں کہ تم اب مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دو اور طلاق کے پیپرز کے ساتھ نکاح نامہ کی ایک کاپی بھی جو میں پہلے تم سے نہیں لے سکی۔”
”کہاں بھجواؤں؟” سالار نے اس کے مطالبے کے جواب میں کہا۔ اس کے ذہن میں یک دم ایک جھماکا ہوا تھا۔ وہ اگر اب طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اس نے ابھی تک کسی سے شادی نہیں کی تھی نہ ہی طلاق کے اس حق کو استعمال کیا تھا، جو نکاح نامہ میں وہ اس کی خواہش پر اسے تفویض کر چکا تھا۔
”تم اسی وکیل کے پاس وہ پیپرز بھجوا دو جس کو تم نے ہائر کیا تھا اور مجھے اس کا نام اور پتا لکھوادو، میں وہ پیپرز اس سے لے لوں گی۔”
سالار مسکرایا۔ وہ بے حد محتاط تھی۔ ”مگر میرا تو اس وکیل کے ساتھ ڈائریکٹ کوئی کوئی رابطہ نہیں ہے۔ میں تو اسے جانتا بھی نہیں ہوں پھر پیپرز اس تک کیسے پہنچاؤں۔”
”جس دوست کے ذریعے تم نے اس وکیل سے رابطہ کیا تھا اسی دوست کے ذریعے وہ پیپرز اس تک پہنچادو۔” یہ تو طے تھا کہ وہ اسے کسی بھی طرح اپنا کوئی اتا پتا نہ دینے کا فیصلہ کر چکی تھی اور اس پر پوری طرح قائم تھی۔
”تم طلاق لینا کیوں چاہتی ہو؟” وہ اس وقت بہت موڈ میں تھا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی۔ شاید وہ اس سے اس سوال کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
”طلاق کیوں لینا چاہتی ہوں؟ تم کتنی عجیب بات کر رہے ہو۔ یہ تو پہلے ہی طے تھا کہ میں تم سے طلاق لوں گی پھر اس سوال کی کیا تک بنتی ہے۔” امامہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”وہ تب کی بات تھی، اب تو خاصا لمبا وقت گزر گیا ہے اور میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا۔” سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ دوسری طرف اس وقت امامہ کے پیروں کے نیچے سے حقیقتاً زمین نکل گئی ہوگی۔
”تم کیا کہہ رہے ہو؟”
”میں یہ کہہ رہا ہوں امامہ ڈیئر! کہ میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا، نہ ہی دوں گا۔” اس نے ایک اور دھماکہ کیا۔
”تم… تم طلاق کا حق پہلے ہی مجھے دے چکے ہو۔” امامہ نے بے اختیار کہا۔
”کب کہاں… کس وقت… کس صدی میں۔” سالار نے اطمینان سے کہا۔
”تمہیں یاد ہے، میں نے نکاح سے پہلے تمہیں کہا تھا کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق چاہتی ہوں میں۔ اب اگر تم طلاق نہیں بھی دیتے تو میں خود ہی وہ حق استعمال کر سکتی ہوں۔ تمہیں یہ یاد ہونا چاہیے۔” وہ جتا رہی تھی۔
”اگر میں تمہیں یہ حق دیتا تو تم یہ حق استعمال کرسکتی تھی مگر میں نے تو تمہیں ایسا کوئی حق دیا ہی نہیں۔ تم نے نکاح نامہ دیکھا وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ خیر تم نے دیکھا ہی ہوگا ورنہ آج طلاق کی بات کیوں کر رہی ہوتیں۔”
دوسری طرف ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ سالار نے ہوا میں تیر چلایا تھا مگر وہ نشانے پر بیٹھا تھا۔ امامہ نے یقینا پیپرز سائن کرتے ہوئے انہیں دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ سالار بے حد محظوظ ہو رہا تھا۔
”تم نے مجھے دھوکا دیا۔” بہت دیر بعد اس نے امامہ کو کہتے سنا۔
”ہاں، بالکل اسی طرح جس طرح تم نے پسٹل دکھا کر مجھے دھوکا دیا۔” وہ برجستگی سے بولا۔
”میں سمجھتا ہوں کہ تم اور میں بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہم دونوں میں اتنی برائیاں اور اتنی خامیاں ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو مکمل طور پر complement کرتے ہیں۔” وہ اب ایک بار پھر سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”زندگی… سالار! زندگی اور تمہارے ساتھ… یہ ناممکن ہے۔” امامہ نے تند لہجے میں کہا۔
”مجھے نپولین کی بات دہرانی چاہیے کہ میری ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہے یا مجھے تم سے یہ ریکویسٹ کرنی چاہیے کہ آؤ! اس ناممکن کو مل کر ممکن بنائیں۔” وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔
”تم نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں، ایک احسان اور کرو۔ مجھے طلاق دے دو۔۔۔”
”نہیں، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں، اب اور نہیں کرسکتا اور یہ والا احسان… یہ تو ناممکن ہے۔” سالار ایک بار پھر سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”میں تمہاری ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں سالار! تمہارا اور میرا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے، ورنہ شاید میں تمہاری پیشکش پر غور کرتی مگر اب اس صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ تم پلیز، مجھے طلاق دے دو۔”
وہ اب نرم لہجے میں کہہ رہی تھی۔ سالار کا دل بے اختیار ہنسنے کو چاہا۔
”تم اگر میری پیشکش پر غور کرنے کا ارادہ کرو تو میں! اپنا لائف اسٹائل بدل لیتا ہوں۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔
”تم سمجھنے کی کوشش کرو، تمہاری اور میری ہر چیز مختلف ہے۔ زندگی کی فلاسفی ہی مختلف ہے۔ ہم دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔” اس بار وہ جھنجلائی تھی۔
”نہیں… نہیں میری اور تمہاری فلاسفی آف لائف بہت ملتی ہے۔ تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ ملتی نہ بھی ہوئی تو بھی ذرا سی ایڈ جسٹمنٹ کے بعد ملنے لگے گی۔”
وہ اس طرح بولا جیسے اپنے بہترین دوست سے گفتگو کر رہا ہو۔
”ویسے بھی مجھ میں کمی کیا ہے۔ میں تمہارے پرانے منگیتر اسجد جیسا خوب صورت نہ سہی مگر جلال انصر جیسا معمولی شکل و صورت کا بھی نہیں ہوں۔ میری فیملی کو تم اچھی طرح جانتی ہو۔ کیریئر میرا کتنا برائٹ ہوگا، اس کا تمہیں اندازہ ہے۔ میں ہر لحاظ سے جلال سے بہتر ہوں۔” وہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ وہ امامہ کو بری طرح زچ کر رہا تھا اور وہ ہو رہی تھی۔
”میرے لیے کوئی بھی شخص جلال جیسا نہیں ہوسکتا اور تم … تم تو کسی صورت بھی نہیں۔” اس کی آواز میں پہلی بار نمایاں خفگی تھی۔
”کیوں؟” سالار نے بے حد معصومیت سے پوچھا۔
”تم مجھے اچھے نہیں لگتے ہو۔ آخر تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔ دیکھو، تم نے اگر مجھے طلاق نہ دی تو میں کورٹ میں چلی جاؤں گی۔” وہ اب اسے دھمکا رہی تھی۔ سالار اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔
”یو آر موسٹ ویلکم۔ جب چاہیں جائیں۔ کورٹ سے اچھی جگہ میل ملاقات کے لیے اور کون سی ہوگی۔ آمنے سامنے کھڑے ہوکر بات کرنے کا مزہ ہی اور ہوگا۔” وہ محظوظ ہو رہا تھا۔
”ویسے تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ کورٹ میں صرف میں نہیں پہنچوں گا، بلکہ تمہارے پیرنٹس بھی پہنچیں گے۔” وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔
”سالار! میرے لیے پہلے ہی بہت سے پرابلمز ہیں تم ان میں اضافہ نہ کرو۔ میری زندگی بہت مشکل ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم تم میری مشکلات کو مت بڑھاؤ۔”
اس بار امامہ کے لہجے میں رنجیدگی اور بے چارگی تھی۔ وہ کچھ اور محظوظ ہوا۔
”میں تمہارے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں…؟ مائی ڈیئر! میں تو تمہاری ہمدردی میں گھل رہا ہوں، تمہارے مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم خود سوچو، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔” وہ بظاہر بڑی سنجیدگی سے بولا۔
”تم جانتے ہونا، میں نے اتنی مشکلات کسی لیے سہی ہیں۔ تم سمجھتے ہو، میں ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنے پر تیار ہوجاؤں گی جو ہر وہ کبیرہ گناہ کرتا ہے جسے میرے پیغمبرﷺ ناپسند کرتے ہیں۔ نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور بری عورتیں برے مردوں کے لیے۔ میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد میری زندگی میں آئے۔ جلال مجھے نہیں ملا مگر میں تمہارے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔” اس نے بے حد تلخ انداز میں تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
”شاید اسی لیے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی، کیوں کہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہوتی ہیں، تمہارے جیسی نہیں۔”
سالار نے اسی ٹکڑا توڑ انداز میں جواب دیا۔
دوسری طرف خاموشی رہی۔ اتنی لمبی خاموشی کہ سالار کو اسے مخاطب کرنا پڑا۔ ”ہیلو… تم سن رہی ہو؟”
”سالار! مجھے طلاق دے دو۔” اسے امامہ کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔ سالار کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔
”تم کورٹ میں جاکر لے لو، جیسے تم مجھ سے کہہ چکی ہو۔” سالار نے ترکی بہ ترکی کہا اور دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔
٭…٭…٭
حسن نے ان چند ماہ میں سالار سے امامہ کے بارے میں جاننے کی بے حد کوشش کی تھی (حسن کے اپنے بیان کے مطابق) مگر وہ ناکام رہا تھا۔ وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ سالار اور امامہ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔ سالار کی طرح خود انہوں نے موبائل پر بار بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔
سکندر نے سالار کو امریکہ میں مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ کوئی بھی یونیورسٹی اسے لینے میں خوشی محسوس کرے گی۔
امامہ نے سالار کو دوبارہ فون نہیں کیا تھا حالاں کہ سالار کا خیال تھا کہ وہ اسے دوبارہ فون کرے گی اور تب وہ اسے بتا دے گا کہ وہ اسے نکاح نامے میں پہلے ہی طلاق کا حق دے چکا ہے اور وہ نکاح نامے کی کاپی بھی اس کے حوالے کر دے گا۔ وہ اس سے یہ بھی کہہ دے گا کہ اس نے اس کے ساتھ صرف ایک مذاق کیا تھا مگر امامہ نے دوبارہ اس سے رابطہ قائم نہیں کیا، نہ ہی سالار نے اپنے پیپرز میں اس نکاح نامے کو دوبارہ دیکھنے کی زحمت کی، ورنہ وہ بہت پہلے وہاں اس کی عدم موجودگی سے واقف ہو جاتا۔
جس دن وہ آخری پیپر دے کر واپس گھر آیا۔ سکندر عثمان کو اس نے اپنا منتظر پایا۔
”تم اپنا سامان پیک کرلو، آج رات کی فلائٹ سے تم امریکہ جا رہے ہو، کامران کے پاس۔”
”کیوں پاپا! اس طرح اچانک… سب کچھ ٹھیک تو ہے؟”
”تمہارے علاوہ سب کچھ ٹھیک ہے۔” سکندر نے تلخی سے کہا۔
”مگر پھر آپ مجھے اس طرح اچانک کیوں بھیج رہے ہیں؟”
”یہ میں تمہیں رات کو ایئر پورٹ چھوڑنے کے لیے جاتے ہوئے بتاؤں گا۔ فی الحال تم جاکر اپنا سامان پیک کرو۔”
”پاپا پلیز!آپ مجھے بتائیں آپ اس طرح مجھے کیوں بھجوا رہے ہیں؟” سالار نے کمزور احتجاج کیا۔
”میں نے کہا نا میں تمہیں بتا دوں گا۔ تم جاکر اپنا سامان پیک کرو، ورنہ میں تمہیں سامان کے بغیر ہی ایئر پورٹ چھوڑ آؤں گا۔”
سکندر نے اسے دھمکایا۔ وہ کچھ دیر انہیں دیکھتا رہا پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اپنا سامان پیک کرتے ہوئے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ سکندر عثمان کے اس اچانک فیصلے کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ اس نے اپنی دراز کھول کر اپنے پیپرز نکالنا شروع کر دیے۔ وہاں نکاح نامہ نہیں تھا۔ اسے ان کے اس فیصلے کی سمجھ آگئی تھی اور اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے نکاح نامے کو اتنی لاپروائی سے وہاں کیوں رکھا تھا۔ وہ نکاح نامہ سکندر عثمان کے علاوہ کسی اور کے پاس ہو ہی نہیں سکتا تھا کیوں کہ ان کے علاوہ کوئی اور اس کے کمرے میں آنے اور اس کی دراز کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
اس کے ذہن میں اب کوئی الجھن نہیں تھی۔ اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا سامان پیک کیا۔ وہ اب ضرف یہ سوچ رہا تھا سکندر عثمان سے ایئرپورٹ جاتے ہوئے کیا بات کرے گا۔
رات کو ایئرپورٹ چھوڑنے کے لیے صرف سکندر اس کے ساتھ آئے تھے، طیبہ نہیں۔ ان کا لہجہ اور انداز بے حد روکھا اور خشک تھا۔ سالار نے بھی اس بار کوئی سوال نہیں کیا۔ ایئر پورٹ جاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنا بریف کیس کھول کر ایک سادہ کاغذ اور قلم نکالا اور بریف کیس کے اوپر رکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
”اس پر سائن کردو۔”
”یہ کیا ہے؟” سالار نے حیرانی سے اس سادہ کاغذ کو دیکھا۔
”تم صرف سائن کرو، سوال مت کرو۔” انہوں نے بے حد روکھے انداز میں کہا۔ سالار نے مزید کچھ کہے بغیر ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم لے کر اس کاغذ پر سائن کردیے۔ سکندر نے اس کاغذ کو تہہ کر کے بریف کیس میں رکھا اور بریف کیس کو دوبارہ بند کر دیا۔
”جو کچھ تم کرچکے ہو، اس کے بعد تم سے کچھ کہنا یا کوئی بات کرنا بے کار ہے۔ تم مجھ سے ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ بولتے رہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے تو کبھی حقیقت کا پتا ہی نہیں چلے گا۔ میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں امریکہ بھیجنے کے بجائے ہاشم مبین احمد کے حوالے کردوں تاکہ تمہیں اندازہ ہو اپنی حماقت کا، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تمہارا باپ ہوں، مجھے تمہیں بچانا ہی ہے۔ تم میری اس مجبوری کا آج تک فائدہ اٹھاتے رہے ہو مگر آئندہ نہیں اٹھا سکوگے۔ میں تمہارا نکاح نامہ امامہ کے حوالے کر دوں گا اور اگر مجھے دوبارہ کبھی یہ پتا چلا کہ تم نے اس سے رابطہ کیا ہے یا رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو میں اس بار جو کروں گا تم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ تم میرے لیے کافی مصیبتیں کھڑی کرچکے ہوں، اب ان کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے سمجھے تم۔”
انہوں نے اکھڑے ہوئے لہجہ میں کہا۔ وہ جواب میں کچھ کہنے کے بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اس کے انداز میں عجیب طرح کی لاپروائی اور اطمینان تھا۔ سکندر عثمان بے اختیار سلگے۔ یہ ان کا وہ بیٹا تھا جو 150 کا آئی کیو رکھتا تھا۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ وہ سرے سے کوئی آئی کیو رکھتا بھی تھا یا نہیں۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!