وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین

اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے امی گھر کے سارے دروازے چیک کرکے سورہ الملک میرے اوپر پھونک کر اور جلدی سوجانے کی ہدایت کرکے اپنے کمرے میں گئی ہیں حالاں کہ وہ جانتی ہیں کہ مجھے ابھی کم از کم ڈیڑھ گھنٹا اور جاگنا ہے لیکن وہ ماں ہیں۔ میں چاہے ساری رات بیٹھ کر گزار دوں۔ انہیں تب تک نیند نہیں آئے گی جب تک وہ مجھے جلد سو جانے کی ہدایت نہیں کردیں گی۔
چوکی دار کی سیٹی کی دور سے آتی اور دور تک جاتی تیز آواز ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتی ہوئی نہ جانے کیوں مدہم پڑجاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ میرے کمرے کی جلتی ہوئی روشنی باہر سڑک پر بھی نظر آتی ہے۔
ابھی اس کا پہلا چکر ہے، اس کا مطلب ہے ابھی ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔ دوسرا چکر ٹھیک بارہ بجے لگے گا۔ اب سے کچھ دیر بعد دیوار پار کے پڑوسیوں کا الارم پوری قوت سے بجے گا اور پانچ منٹ بعد، پندرہ منٹ بعد اور کبھی کبھی بیس منٹ بعد تھک کر خود ہی چپ ہوجائے گا۔ یہ سب ہر رات کو ہوتا ہے اور اس قدر باقاعدگی سے ہوتا ہے کہ مجھے کبھی گھڑی پاس رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔
آج تو چاند کی چودھویں ہے۔ پورے چاند کی روشن کرنیں میرے کمرے کی کھڑکی سے لپٹ لپٹ جاتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ بتا وہ کون سا بندھن ہے جو اتنی رات گئے تجھے پلک بھی نہیں جھپکنے دیتا۔
اور اب ٹھیک ایک بجے یا اس سے کچھ آگے پیچھے میرے کمرے کے ساتھ لائونج کے دروازے پر دستک ہوگی، میں اٹھ کر دروازہ کھولوں گی۔
”تم سے کہا نہیں تھا میرا انتظار مت کرنا۔” وہ کہے گا۔
”اور میں نے تم سے کہا تھا رات کو جلدی آجانا۔” میں جواب دوں گی۔
”میری مرضی میں جب آئوں یا جائوں، اور آئندہ تم اتنی رات گئے میرے انتظار میں نہیں جاگوگی۔”
”تو میری بھی مرضی، میں جب جاگوں جب سوئوں۔”
یہ وہ ڈائیلاگ تھے جو پچھلے کئی سالوں سے روزانہ میرے اور اس کے درمیان چل رہے تھے، بلا کے ڈھیٹ جو تھے ہم دونوں۔ روز وہ باہر جاتے ہوئے دھونس جماتا۔
”میرے انتظار میں مت جاگنا، میں باہر گیٹ کی بیل بجالوں گا۔”
لیکن مزے کی بات تھی نا کہ ہر روز وہ باہر کی بیل بجانے کی بجائے گیٹ پھلانگ کر اندر آتا اور لائونج کے دروازے پر آہستہ سے دستک دیتا، اس لیے کہ اسے یقین ہوتا تھا اس کی دھمکی کے باوجود اس کی بہن، اس کی ماں جائی اس کے انتظار میں اب تک جاگ رہی ہوگی۔
سیاہ چمکیلے بالوں اور ہنستی ہوئی آنکھوں والا میرا یہ بھائی مجھ سے صرف ڈھائی برس بڑا تھا اس لیے ہم نے کبھی آپ جناب کے تکلفات نہیں پالے۔ ہم دونوں اپنے اپنے والدین کے اکلوتے اکلوتے تھے۔ وہ اکلوتا بیٹا اور میں اکلوتی بیٹی۔
ہمارے والدین خالص والدین تھے جن کے سامنے ہم شیطان تھے اور غیر موجودگی میں فرشتے۔ ہمارے والد روایت پسند تھے۔ سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی آنکھ سے دیکھنے والے بہت عام قسم کے ماں باپ تھے جن کی بے حد خاص قسم کی اولاد تھی۔
وہ بہت ذہین ہے، لوگ کہتے ہیں۔ ”وہ بہت اسمارٹ ہے، یہ بھی لوگ کہتے ہیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

لو گ تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ بچپن ہی سے بے حد پرُکشش اور دلوں کو موہ لینے والا تھا۔ بھئی ہوتا ہوگا، اب میں نے تو اس کا بچپن دیکھا نہیں اور کانوں سنی باتوں کا تو ہم یقین ہی نہیں کرتے۔
وہ بے حد ضدی، اکھڑ مزاج اور لڑاکا ہے۔ یہ میں کہتی ہوں کہ دن میں پانچ وقت لڑائی جس طرح ہم پر فرض تھی۔ بہت پرانے دن نہیں تھے جب میں اور وہ ریت کے گھروندے بناکر کھیلتے اور خوب صورت رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے تھے۔ بچپن کے دن بھی تتلیوں کے رنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ دن پر لگا کر اڑ جاتے ہیں اور ہاتھوں پر نشان رہ جاتے ہیں۔
جب میں اسکول میں داخل ہوئی تو وہ مجھ سے صرف دو سال آگے تھا اور جب میں اسکول سے فارغ ہوئی تو تعلیمی میدان میں وہ مجھ سے چار سال آگے نکل چکا تھا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں بہت زیادہ نالائق ہوں۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ بہت زیادہ لائق تھا۔ نہ جانے کیا کرتا تھا کہ سال اس کے آگے مہینے بن جاتے اور وہ چند مہینوں میں کئی سال پھلانگ کر آگے نکل جاتا۔
اس نے جب میٹرک میں پوزیشن لی تو ابو نے اس کی خوب پیٹھ ٹھونکی اور میں جل بھن گئی لیکن جب کالج میں داخلے کی باری آئی تو وہ روتی صورت بناکر میرے پاس آیا۔ ابو اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے جب کہ اس کا رجحان انجینئر نگ کی طرف تھا۔
”مینا میری سفارش کردو نا۔”
”مینا ابو سے ذرا بائیک کی چابی تو لے لینا۔”
وہ جو ساری دنیا کو دلائل کے آگے جھکاتا پھرتا ابو کے سامنے نہ جانے کیوں گو نگا بن جاتا۔ بہرحال اس نے پری انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا اور بے حد مصروف ہوگیا۔
پروین شاکر نے ایک جگہ لکھا تھا۔
”میں ماں ہوں اور ہجر میرا مقدر ہے۔”
شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ ہجر مائوں ہی کا نہیں بہنوں کا بھی مقدر ہوا کرتا ہے۔ سردیوں کے دنوں میں رضائی میں گھس کر ایک دوسرے کو کہانیاں سنانے والے بہن بھائی جب عمر کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں تو بھائی کو باہر اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں سڑکوں پر مٹرگشت کرتے دوست اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اب اسے لوڈشیڈنگ کے زمانے میں بہن کے ساتھ بیٹھ کر موم بتی سے ستارے بنانا بور لگتا ہے۔ سو اسے تو شاید محسوس ہوا ہو یا نہیں لیکن ہمارے درمیان گزر جانے والا وقت اب کم سے کم تر ہوتا جا رہا تھا۔ ویسے بھی جب سے اسے کالج کی ہوا لگی تھی وہ کافی انتہا پسند سا ہونے لگا تھا۔ ہنسنے پر آتا تو ہنسے ہی جاتا اور غصے میں ہوتا تو بغیر سوچے سمجھے ہاتھ میں پکڑی چیز دھم سے دے مارتا۔ اس لیے اب اس سے لڑتے وقت اس کے چہرے سے زیادہ اس کے ہاتھوں پر دھیان رکھنا پڑتا۔ امی سے بلاوجہ پیسے اڑانا، بغیر سائلنسر کے موٹر سائیکل چلانا اور رات کو دیر سے گھر آنا جیسے کسی آٹو میٹک نظام کے تحت خودبہ خود شروع ہوگیا۔
میں اس زمانے میں کافی بے وقوف ہوا کرتی تھی۔
”وہ ایسا کیوں ہوگیا؟” میں سوچتی تھی مگر سمجھ نہیں پاتی تھی۔ میں تو یہ بھی نہیں سمجھ پاتی تھی کہ کبھی کبھی جب وہ موڈ میں آکر میرے ساتھ لان میں ٹینس یا بیڈ منٹن کھیلتا ہے، تو اس اچھے خاصے کھلاڑی کی بال ہمیشہ ساتھ والے انکل رضوی کے گھر ہی کیوں جاکر گرتی ہے اور اس وقت ہی کیوں گرتی ہے جب نیلی آنکھوں والی کیوٹ سی ٹینا لان میں بیٹھی رٹا لگا رہی ہوتی اور جب وہ بال اٹھا کر دیوار کے اوپر سے مجھے پکڑاتی تو اس کے ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ کیوں ہوتی۔
”راشد رات کو کتنے بجے گھر آتا ہے؟”
میں ابو کو چائے دینے اسٹڈی روم میں گئی تو انہوں نے پوچھا اور میں جو سارا دن اس کی کم زوریوں کی تلاش میں رہتی تھی اور اس کی جھوٹی سچی شکایتیں امی سے لگاتے نہیں تھکتی تھی، ایک سچی شکایت پر گڑبڑاگئی۔
”جلدی آجاتا ہے ابو۔” میں نے جھوٹ بول کر مارے شرمندگی کے نظر نہیں اٹھائی۔ راشد اس وقت گھر پر نہیں تھا، اگر ہوتا تو شاید میں کبھی جھوٹ نہ بولتی۔
”بھائی بہت عجیب شے بنائی ہے اللہ میاں نے۔ نزدیک ہوتے ہیں تو تنگ کرتے ہیں اور دور ہوتے ہیں تو زیادہ تنگ کرتے ہیں۔” میں اسٹڈی روم سے نکلتے ہوئے بہت چڑ کر سوچ رہی تھی۔
”تم رات کو اتنی دیر تک کہاں ہوتے ہو؟” صبح ناشتے کی ٹیبل پر ابو نے اس سے پوچھ ہی لیا لیکن میں چوں کہ رات کو ہی اسے خبردار کرچکی تھی اس لیے اب وہ مکمل طور پر تیار بیٹھا تھا۔
”جلدی آجاتا ہوں ابو! وہ وسیم ہے نا میرا دوست، اس کے گھر پر اسٹڈی کرتے ہیں اس لیے دیر ہوجاتی ہے۔” سکرپٹ خاصا جان دار تھا۔
”رات کو دیر تک پڑھتے ہو؟ ہوں…” ابو نے عینک کے پیچھے سے گھورا۔
”تب ہی تمہارے پروموشن ایگزامز میں صرف چالیس فیصد مارکس آئے ہیں۔”
اور وہ جیسے اپنے سارے دلائل سمیت اوندھے منہ گر پڑا۔ ابو بہ ظاہر خبر نامے اور اخبار کی سرخیوں میں گم خاموش ضرور رہتے تھے لیکن بے خبر نہیں۔ اس بات کا اندازہ ہمیں پہلی دفعہ ہوا۔ ابو مزید ایک بھی لفظ کہے بغیر ٹیبل سے اٹھ گئے لیکن ان کی تنبیہ کو راشد اپنی تمام تر حسیات کے ساتھ ریسیو کرچکا تھا۔
اسے اکثر ہی یہ شکوہ رہتا کہ اس کے رزلٹ پر اتنی سختی سے نظر رکھنے والے پاپا میرے گزارے لائق نمبروں کو بھی اس قدر Appreciateکیوں کرتے تھے؟ حالاں کہ وجہ صرف یہ تھی کہ بیٹی اور بیٹے کی تعلیم اور تربیت میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا ضرورت اور لگژری میں۔ بیٹا گھر کے آنگن کے بیچوں بیچ اگنے والا درخت ہوتا ہے جس نے اگلے موسم میں پھل بھی دینا ہے اور چھائوں بھی اس لیے اس کے پھلنے پھولنے کی فکر بھی زیادہ ہوتی ہے جب کہ بیٹی تو گھر کی کیاریوں میں لگی پنیری کے مانند ہوتی ہے، لگی تو ٹھیک، نہیں لگی تو نہیں لگی اس لیے میرے پچاس فیصد نمبروں پر بھی میری پیٹھ ٹھونکنے والے میرے ماں باپ اس کے ستر فیصد نمبروں پر بھی مطمئن نہ ہوتے۔
بہر حال اس دن تو ناشتے سے رات کے کھانے تک راشد صاحب کتابوں کے ڈھیر میں غرق کمرے سے برآمد ہی نہیں ہوئے۔ میں مارے محبت کے اس کے لیے دودھ کا بڑا گلاس لے کر گئی۔
”ابو ٹھیک کہتے ہیں مینا۔” میرے مذاق اڑانے پر اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں نے واقعی اپنا بہت سا وقت ضائع کردیا ہے لیکن اب انہیں مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی اور بہ راہ مہربانی یہ کلو دودھ تم اپنے خالی دماغ میں انڈیلو، میں نے دودھ پی کر سونا نہیں کافی پی کر جاگنا ہے۔”
”تم اس قابل ہی نہیں کہ تمہارا خیال کیا جائے۔” میں مارے غصے کے وہاں سے چلی آئی اور یہ آدھی رات تک جاگ کر کافی پینے کا ہی کرشمہ تھا کہ اسے انجینئرنگ کالج میں آرام سے داخلہ مل گیا

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مس ظرافت کا باورچی خانہ — حرا قریشی

Read Next

نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!