نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب رُوفی کے دانت پر بجلی گری۔ رُوفی (جن کو بعد میں شیطان کا نام ملا)بجلی سے بہت ڈرتے تھے۔ جب بادل آتے تو وہ بستروں میں چھپتے پھرتے۔ سب کہتے کہ اگر بجلی کو گرنا ہے تو ضرور گرے گی۔ رُوفی جواب دیتے بے شک گرے، لیکن اس طرح کم از کم اسے مجھ کو ڈھونڈنا تو پڑے گا۔ ہوا یوں کہ بارش ابھی ابھی تھمی تھی۔ رُوفی صوفے کے پیچھے سے نکل کر دبے پاؤں برآمدے تک گئے۔ یہ دیکھنے کہ بادل چھنٹ گئے یا نہیں۔ اتنے میں زور سے بجلی کوندی اور ایک عظیم الشان دھماکا ہوا۔ جب وہ ہوش میں آئے تو ان کا ایک دانت ہل رہا تھا۔ انہوں نے آئینہ دیکھا تو دانت پر بجلی گری۔ وہ دو دن تک بستر پر پڑے رہے۔ لیکن اس طرح ہم اپنے آنے والے سہ ماہی امتحان سے بچ سکے۔ اس کم بخت امتحان نے ہماری نیند اُڑا رکھی تھی۔ ماسٹر صاحب نے ہمارے ساتھ خاص رعایت کی اور ازراہِ کرم امتحان چند دنوں کے لیے ملتوی کر دیا۔
ہمارے ماسٹر صاحب بڑے خون خوار قسم کے آدمی تھے۔ یوں تو وہ بیچلر آف آرٹس تھے، لیکن ہمیں بعد میں پتا چلا کہ شادی شدہ ہیں اور کئی بچوں کے باپ ہیں۔ وہ اُن حضرات میں سے تھے، جو آپ سے سوال پوچھیں گے، آپ کی طرف سے خود جواب دیں گے اور پھر آپ کو ڈانٹیں گے بھی کہ جواب غلط تھا۔ ان کے نوکر کی زبانی معلوم ہوا کہ انہیں نیند میں بولنے اور چلنے پھرنے کی بیماری تھی اور وہ سوتے ہوئے پیدل چلا کرتے تھے، حالاںکہ ان کے پاس ایک تانگہ تھا اور ایک سائیکل۔ انہیں کھیل کود کا شوق بھی تھا، لیکن فقط اتنا کہ ریفری بن کر خوش ہو لیا کرتے۔ ایک مرتبہ وہ فٹ بال کے میچ میں ریفری تھے کہ یک لخت جوش میں آگئے اور گیند لے کر خود گول کر دیا۔ رُوفی کے ابا ہمیشہ ان سے کہا کرتے تھے کہ ماسٹر صاحب آپ اس علاقے میں فٹ بال کے نمبر دو کھلاڑی ہیں۔ ایک روز ماسٹر صاحب نے ان سے پوچھا کہ نمبر ایک کھلاڑی کون ہے؟ وہ بولے، پتہ نہیں۔
ساری کلاس کا امتحان ہو چکا تھا۔ صرف میں اور رُوفی رہتے تھے۔ نچلی جماعتوں میں رُوفی کے چھوٹے بھائی ننھے میاں باقی تھے، کیوںکہ اس بجلی کے گرنے کے سلسلے میں وہ بھی بطور تیمار دار شریک تھے۔
میں اور روفی مجرموں کی طرح کمرے میں داخل ہوئے۔ ماسٹر صاحب نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمارا فقط زبانی امتحان لیں گے اور بالکل آسان سے سوال پوچھیں گے۔ گھبرانے یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔
انہوں نے رُوفی سے پوچھا۔ ”تمہیں کس نے بنایا؟”
روفی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے بولے: ”جناب اتناتو مجھے خدا نے بنایا تھا۔ اس کے بعد میں خود بڑھا ہوں۔”
”اس وقت تم ایک چھوٹے سے لڑکے ہو، جب بڑے ہو گے تو کیا بنو گے؟”
”میں انسان بنوں گا۔”
”تم نے ایسی عجیب آنکھیں کہاں سے پائیں؟”
”جی… یہ چہرے کے ساتھ ہی آئی تھیں۔”
اب ماسٹر صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے… ”بتاؤ ہاتھی کہاں پائے جاتے ہیں؟”
”جناب ہاتھی اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کے کھوئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
”میرا مطلب ہے ہاتھی ملتے کہاں ہیں؟”
”جہاں اور ہاتھی ہوں… وہاں۔”
”کیا یہ سچ ہے کہ ہاتھیوں کا حافظہ بے حد تیز ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھولتے۔”
”جی ہاتھیوں کے پاس رکھنے کے لیے باتیں ہی کون سی ہوتی ہوں گی۔”
”اچھا!… لومڑی کی کھال کا کیا فائدہ ہے؟”
”لومڑی کو گرم رکھتی ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ماسٹر صاحب کا چہرہ رُوفی کی طرف پھر گیا۔ ”اگر ایک شخص نے ایک اُلو پندرہ روپے تین آنے ایک پائی میں خریدا اور سات روپے دس آنے ساڑھے گیارہ پائی میں بیچ دیا تو اسے کتنا نقصان ہوا؟”
”جناب میں نے آج تک اُلو اتنا مہنگا بکتا نہیں دیکھا۔ ” میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”اور تم نے؟”
”میں نے کبھی اُلو دیکھا ہی نہیں۔” رُوفی بولے۔
”غضب خدا کا۔ تو آج تک تم نے اُلو نہیں دیکھا۔ (چلا کر) میری طرف دیکھو۔ نیچے کیا دیکھ رہے ہو۔ اچھا میں سوال پھر دوہراتا ہوں۔”
ماسٹر صاحب نے سوال دوہرایا۔ ”بتاؤ کتنا نقصان ہوا؟”
”جی روپوں میں نقصان ہوا اور آنے پائیوں میں نفع۔” رُوفی بولے۔
”اچھا، آج تم نے جو سب سے عجیب واقعہ دیکھا ہو بیان کرو۔”
”جناب، آج میں نے چند آدمیوں کو ایک گھوڑا بناتے دیکھا۔”
”لکڑی کا گھوڑا؟”
”جی نہیں اصلی گھوڑا، جیتا جاگتا گھوڑا۔ لیکن جب میں نے دیکھا تو وہ تقریباً اسے مکمل کر چکے تھے اور اس کے کھروں میں میخیں ٹھونک رہے تھے۔”
”ثابت کرو کہ قلم تلوار سے اہم ہے۔”
”جناب۔ تلوار سے چیک پر دستخط نہیں کیے جا سکتے۔”
ماسٹر صاحب کچھ کچھ خفا ہو چلے تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے: ”آسٹریلیا کہاں ہے؟”
”جی جغرافیے کے پچاسویں صفحے پر۔”
”جغرافیے میں نہیں، ویسے کہاں ہے؟”
”جناب آسٹریلیا کرئہ ارض پر ہے۔”
”تربوز کے فوائد بیان کرو۔”
”تربوز ایک ایسا پھل ہے جسے کھا بھی سکتے ہیں… پی بھی سکتے ہیں اور اس سے ہاتھ منہ بھی دھو سکتا ہیں۔”
”اور ناریل؟”
”جی۔ ناریل پر ٹکٹ لگا کر اور پتا لکھ کر بطور پارسل کے بھیج سکتے ہیں۔”
”اچھا حروفِ اضافت کیا ہوتے ہیں؟”
”جناب حروفِ اضافت وہ ہوتے ہیں جو اضافہ کرتے ہیں اور جنہیں پڑھ کر کچھ اور حروف یاد آجاتے ہیں۔”
”مثلا۔”
”مثلاً گھڑی سازیوں معلوم ہوتا ہے جیسے زمانہ ساز ہو۔ پالتو، فالتو معلوم ہوتا ہے، مجرد، مجرب اور طبلہ نواز، بندہ نواز معلوم ہوتا ہے اور۔”
”بس بس۔” ماسٹر صاحب بالکل خفا ہو گئے۔
اب ننھے میاں کو بلایا گیا۔
”ننھے گنتی گن کر دکھاؤ۔” ماسٹر صاحب بولے۔
”ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس، غلام، بیگم اور بادشاہ۔” ننھے نے فاتحانہ انداز سے کہا۔
اس میں غریب ننھے کا بھی قصور نہیں تھا۔ اُن دنوں گھر میں تاش خوب ہوتی تھی۔
شام کو ماسٹر صاحب ہمارے ہاں آئے۔ رُوفی کے ابا سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ سوتے وقت ہمیں سنایا گیا کہ ہماری تعلیمی حالت بہت کمزور ہے۔ چنانچہ ماسٹر صاحب ہمیں گھر پر پڑھانے آیا کریں گے۔ اس خبر نے ہمیں اُداس کر دیا۔
اگلے روز اتوار تھا۔ علی الصبح ہم نے مچھلیاں پکڑنے کا سامان لیا اور جھیل کا رُخ کیا۔ اس ٹیوشن کی نئی مصیبت نے ہمیں غمگین کر دیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جو رہی سہی آزادی میسر تھی وہ بھی چھن گئی۔
جھیل کے شفاف اور نیلے پانی پر ہلکی ہلکی دُھند چھائی ہوئی تھی۔ دُور بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوا میں تیر رہے تھے۔ کناروں پر پھول دار بیلیں اور پودے جھکے ہوئے تھے اور بے شمار تتلیاں اُڑ رہی تھیں۔ جھیل کے کنارے دُور دُور تک چلے گئے تھے۔ دوسرا کنارہ بہت دُور تھا اور کبھی کبھار ہی دکھائی دیتا۔ جب بارش تھمی ہو یا دن بالکل صاف ہو تو ہر بار کسی نئی شکل میں دکھائی دیتا۔ کبھی دُور دُور تک محل اور قلعے دکھائی دیتے۔ کبھی گھنے اور سرسبز باغ، اور کبھی ریت کے ٹیلے اور نخلستان نظر آتے۔
ہم ہر اتوار جھیل کے کنارے گزارتے۔ بڑے اہتمام سے مچھلیاں پکڑنے کا پروگرام بنتا۔ مچھلیاں بھوننے کا سامان بھی ساتھ ہوتا۔ ہمارے مچھلیاں پکڑنے کے طریقے بھی صحیح تھے، لیکن ہم نے کبھی وہاں ایک بھی مچھلی نہیں پکڑی۔ انجینئر صاحب اور ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ اس جھیل میں مچھلیاں بالکل نہیں ہیں۔ جھیل کے پانی میں کوئی خرابی تھی۔ معدنیات کے کچھ ایسے اجزاء شامل تھے جن میں مچھلیاں زندہ نہیں رہ سکتی تھیں، لیکن ہمیں اس پر بالکل یقین نہ آیا۔ ایسی خوش نما جھیل میں تو مچھلیاں دُور دُور سے آکر رہیں گی۔
ہم اُداس ہوتے یا ہمیں دھمکایا جاتا تو ہم سیدھے جھیل کا رخ کرتے۔ بنسیاں پانی میں ڈال کر گھاس اور پھولوں میں بیٹھ جاتے۔ بادشاہوں، پریوں اور بحری ڈاکوؤں کی کہانیاں پڑھتے۔ ذرا سی دیر میں ہم بھول جاتے کہ اس خوب صورت گوشے کے علاوہ دنیا کے اور حصے بھی ہیں جہاں سکول بھی ہے، سکول کا کام ہے، ماسٹر صاحب کی ڈانٹ ہے، گھر والوں کی گھرکیاں ہیں۔
ہم دوسرے کنارے کی باتیں کرتے جسے دیکھنے کا ہمیں بے حد شوق تھا۔ ہم قیاس آرائیاں کرتے کہ وہاں کیا کچھ ہو گا۔ شاید وہاں کسی اور قسم کی دنیا ہو گی۔ کس طرح کے لوگ ہوں گے۔ ہم نے کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ کہیں سے ایک کشتی لے کر چپکے سے نکل جائیں اور جھیل کو عبور کر کے دوسری طرف جا پہنچیں، لیکن ہمیں کشتی نہ مل سکی۔ ہمیں تیرنا نہیں آتا تھا۔ کنارے کنارے چل کر دوسری طرف جانا ناممکن تھا، کیوںکہ راستے میں کئی رکاوٹیں تھیں۔
جب ہم چاندنی رات میں جھیل کے کنارے بیٹھ کر ایک دوسرے کو پریوں کی کہانیاں سناتے تو جیسے سارے کردار ہماری آنکھوں کے سامنے چلنے پھرنے لگتے۔ چاندنی کچھ یوں بدل جاتی اور دوسرا کنارا ایسا پُر سحر خطہ معلوم ہونے لگتا کہ ہم سچ مچ پریوں کے ملک میں پہنچ جاتے۔
دن میں جب سمندری لٹیروں کی کہانیاں پڑھی جاتیں تو ہمارا لباس بھی لٹیروں جیسا ہوتا۔ سر پر سیاہ رومال باندھے جاتے۔ چھوٹی چھوٹی کشتیاں بنا کر جھیل میں چھوڑی جاتیں۔ ہوائی بندوقوں اور پٹاخوں سے جھوٹ موٹ کی جنگ ہوتی۔ ایک فرضی جزیرے پر قبضہ کیا جاتا۔ وہاں سے خزانہ برآمد ہوتا۔ جب تیز دھوپ نکلتی، بھنورے گانے لگتے، ہوا رک جاتی اور طرح طرح کی خوشبوئیں فضا میں رچ جاتیں تو ہم آنکھیں بند کیے غنودگی میں رنگ برنگے خواب دیکھتے رہتے۔
اگر وہ جھیل وہاں نہ ہوتی تو نہ جانے ہمارے دن کیوںکر گزرتے۔ کیوں کہ گھر میں ہر ایک ہم دونوں کا دشمن تھا اور ڈانٹنے پر تُلا ہوا تھا۔ان کا رویہ یہ تھا کہ اگر کچھ کیا ہے تو کیوں کیا ہے اور اگر نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا۔ ان دنوں سب کے دل میں یہ خیال بیٹھ گیاتھا کہ ہم دونوں نہایت نالائق ہیں اور بالکل نہیں پڑھتے۔ ابا کا تبادلہ حسب معمول آبادی سے دُور کسی ویرانے میں ہوا اور مجھے رُوفی کے ہاں بھیج دیا گیا۔ گھر سے ہر خط میں تاکید آتی کہ لڑکے کی پڑھائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ چنانچہ خاص سے بھی زیادہ خیال رکھا جاتا۔ گیہوں کے ساتھ گھن باقاعدہ پستا اور ننھے میاں کی بھی خوب تواضع ہوتی۔ ننھے میاں سونے سے پہلے بڑے خشوع و خضوع سے دُعا مانگتے کہ یا رب العالمین ہمارے کنبے والوں کو نیک ہدایت دے اور انہیں بتا کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے، کیوںکہ اب تک یہ لوگ اس سے بے بہرہ ہیں۔
گھر میں کئی نوکر تھے جن میں سب سے سینئر رستم تھا اور ادھیڑ عمر کا تھا۔ اس کا تکیہ کلام ”رکھی ہے” تھا۔ کوئی پوچھتا۔ ”میاں رستم میری عینک کہاں گئی؟” جواب ملتا ”جی فرش پر رکھی ہے۔” میرے کاغذات یہاں تھے کہاں گئے؟” جی ردی کی ٹوکری میں رکھے ہیں۔”… ”میرا بٹوہ کہاں گیا؟” ”جی حوض کی تہہ میں رکھا ہے، ننھے میاں پھینک آئے ہیں۔”
اسے ریڈیو کا بے حد شوق تھا۔ جب دیکھو ریڈیو سے کان لگائے سن رہا ہے۔ ایک مرتبہ کھانا کھاتے وقت کسی نے رکابی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ ”یہ کیا چیز ہے؟” رستم فوراً بولا۔” بہاگ کا خیال ہے، بلمپت لے میں۔” ویسے اس وقت ریڈیو پر پکا گانا بھی ہو رہا تھا۔
ہمیں باورچی نے بتایا کہ صبح اُٹھ کر رستم دعا مانگتا ہے… کہ اے خدا اس وقت دن کے سوا چھے بجا چاہتے ہیں۔ اب آپ اُردو میں دعا سنیے۔ یہ دعا دوپہر کو ایک بجے اور رات کو نو بجے پھر مانگی جائے گی۔ اس دعا کی خاص خاص سرخیاں یہ ہیں… (پھر دعا مانگ چکنے کے بعد) کل پھر میں اسی وقت دعا مانگوں گا… اچھا، اب اجازت دیجیے… آداب عرض۔
اور بعض اوقات تو رستم دعا کے بعد خدا کو موسم کا حال بھی بتایا کرتا۔
باورچی بے حد موٹا تھا۔ اتنا کہ تصویر کھینچتے وقت اس کی کئی تصویریں لینی پڑی تھیں تاکہ وہ مکمل آجائے۔ وہ ہر وقت ہنستا رہتا تھا۔ اکثر اس سے پوچھا جاتا کہ ہنستے کیوں ہو؟ جواب ملتا۔ ”جناب شکل ہی ایسی ہے۔”
اس کی گفت گو سن کر یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ریڈیو پر دیہاتی پروگرام ہو رہا ہو۔
بعض اوقات وہ جان بوجھ کر بہرہ بن جاتا۔ ہم آوازیں دیتے رہتے اور وہ بالکل نہیں سنتا۔ایک مرتبہ روفی چلاتے رہے اور وہ ساتھ کے کمرے میں چپ چاپ سنتا رہا۔ ہم کھڑکی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ اتنی آوازیں اسے کیوں سنائی نہیں دیں؟ تو بولا۔ میں نے آپ کی پہلی آوازیں نہیں سنیں، صرف چوتھی آواز سنی تھی۔
ایک مرتبہ ہمارا گھوڑا کھو گیا۔ سب نے باری باری ڈھونڈا، کسی کو نہ ملا۔ باورچی گیا اور گھوڑے کو پکڑ لایا۔ پوچھا کہ یہ تمہیں کس طرح مل گیا؟ بولا۔ میں نے سب سے پہلے یہ سوچا کہ اگر میں گھوڑا ہوتا اور کھوئے جانے کی نیت ہوتی تو کہاں جاتا… بس میں سیدھا اسی جگہ گیا اور گھوڑا وہیں کھڑا تھا۔
گھر میں بہت سے پالتو جانور اور پرندے تھے۔ ایک طوطا تھا جو رُوفی کے ابا کے دفتر میں رہتا تھا۔ اسے چند فقرے یاد تھے۔ جب کوئی آتا تو ‘ہلو” کہتا۔ پھر کہتا۔ ”دروازہ بند کر دیجئے۔” وہ اندر آجاتا تو اسے رُوفی کے ابا کے متعلق بتاتا کہ باہر گئے ہوئے ہیں یا گھر میں ہیں۔ جاتے وقت پھر کہتا ”دروازہ بند کر دیجئے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!