میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

سنہری دھوپ میں نہائے گورنمنٹ ڈگری کالج بھکر کے طلائی رنگ و روپ سمیٹے درودیوار آنکھوں کو لبھا رہے تھے… کیفے ٹیریا کے سامنے بنے واکنگ ٹریک پر کچھ منچلے طلبا خراماں خراماں چلتے ہوئے بیگ سینے سے لگائے گفت گو میں مصروف نظر آتے تھے…
ہوامیں قدیم زمانے کی صندلیں خوشبو کی مانند باس سی پھیلی ہوئی تھی… ”میں” ایم۔ اے بلاک کے مشرقی جانب رکھے دو سنگی بنچوں میں سے ایک پر بیٹھا تھا… میرے ساتھ والا بنچ فی الحال ویران پڑا تھا… لان میں کچھ سنجیدہ طبیعت طلبا کسی بحث میں اُلجھے نظر آتے تھے… جیسے ہی اُن کی آواز ذرا بلند ہونے لگتی تھی تو میں ایک اُچٹتی سی نظر اُن پر ڈال کر اپنی اسائنمنٹ کی طرف متوجہ ہو جاتا جو آج ہی فزکس کے پروفیسر راؤ راحت صاحب کو جمع کروانی تھی…
اچانک میں نے B.Sc. کے عمار زیدی کی بلند آواز سنی… وہ شاید پاکستان سے متعلق کوئی بات کر رہا تھا… آواز کی لہریں کسی ٹوٹے ستار کی مانند، بھدا پن لئے ہوئے تھیں… کئی خراشیں ڈالتے ہوئے وہ آوازیں میری سماعت میں اترنے لگی تھیں۔عمار زیدی کہہ رہا تھا…
”یار… پاکستان ہے کیا آخر… کرپشن، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، ساری معاشرتی برائیاں اِس میں موجود ہیں… سفارش شاید یہاں کی دل کش ترین چیز ہے جو بازار میں سجی دھڑا دھڑ بِک رہی ہے… ایم۔ اے پاس دھکے کھا رہے ہیں… اِس سے تو اچھا ہے کہ بندہ بیرونِ ملک چلا جائے… کم از کم بھوکے تو نہیں مریں گے… لعنت ہے ہم پر جو اس ملک میں گزارا کر ہے ہیں…”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اُس کی بات سن کر مجھے لگا ڈگری کالج کے درو دیوار نمی سی چھوڑنے لگے ہوں… وہ نمی جو کھارا پانی کہلاتی ہے… جسے عرفِ عام میں ”آنسو” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے… انسان کا رزق تو خدا کے ذمے ہے بھلا اسے بیرون ملک سے کیوں مشروط کیا جاتا ہے…
رافع اِکرام بھی اُسی کا کلاس فیلو تھا… پیپل کے گھنے پتوں میں چھپی بیٹھی بلبل اب سر نکالے غم زدہ سی نیچے جھانک رہی تھی… اُس کی خاکستری آنکھوں میں ایک رنگ بہت واضح اور مکمل تھا… اور وہ رنگ ”حب الوطنی” کا تھا… کسی ویران مرقد کے طاقچے میں جلتی موم بتی کی نارنجی رُوشنی کا سا… جو آنکھوں کو جھپکنے پر مجبور کرتی ہے…
رافع اِکرام کسی بغاوتی ٹولے کا سرغنہ، بُری طرح بھڑک رہا تھا…” بالکل ٹھیک کہا عمار نے… بھئی ہم نے تو پکا سوچ لیا ہے… M.Sc. کرنے کے بعد بیرونِ ملک ہی فلائی کر جانا ہے… بیوی، بچے سب وہیں ہوں گے… پھر عیش ہی عیش … اِس ٹوٹی سڑکوں، گرتی بلڈنگوں والے ملک کے ہر دروازے کی اُوٹ سے غربت جھانک رہی ہے… لندن میں تو صاف ستھری سڑکیں، حسین نظارے، اور عیش و آرام ہو گا… یہاں تو ترقی کے امکانات بھی نہیں ہیں…”
عابد جلیل نے سر دُھنتے ہوئے کہا تھا… ”ہاں… یار… یہاں بھائی، بھائی کا دُشمن ہے… مذہب کے نام پر آئے دِن ہونے والے ہنگامے ناک میں دم کیے ہوئے ہیں… حادثات یہاں معمول کا حصہ بن چکے ہیں… جس طرح زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے اِسی طرح نت نئے حادثات پاکستان کی شناخت بن چکے ہیں…”
میں نے اس ساری گفت گو کے تناظر میں سفیدے کے درخت کے سرسراتے پتوں کو دیکھتے ہوئے سوچا کیا میری سوچ بھی اُن جیسی ہے…؟؟
کچھ سوالات مختصر ہوتے ہوئے بھی اتنے مشکل کیوں ہوتے ہیں… میں ”محسن علی” جو اِس ملک کا باسی ہوں اور اپنے قلم کے تیکھے انداز سے ہم وطنوں کی سوچ بدلنے کے لئے اِس میدان میں اُترا ہوں،میں کہاں تک ثابت قدم رہ سکوں گا…؟ ہر کسی کی سوچ میں وطن سے بدگمانی اور بددیانتی کا قصہ واضح ہے… میں کیا اِس بات کا یقین خود کو دِلا سکتا تھا کہ میں سب کی سوچ بدل ڈالوں گا… شاید کبھی نہیں… مگر پھر جانے دُور پار کے پربتوں کی چوٹیوں سے ایک صدا، میرے وجود میں اودھم مچانے کی سعی کرتی ہے…
”قطرے قطرے سے دریا بنا کرتے ہیں… ذرّے ، ذرّے سے پہاڑ تخلیق ہوا کرتے ہیں… دیئے سے دِیا جلانا ضروری ہے…”
میں نے غوروخوض کے سکّوں کو اپنی سوچ کی گُلک میں ڈالتے ہوئے سوچا تھا کہ ایک بار تو سوچ بدل دینے کی روایت قائم کی جائے… صرف ایک بار… کیا خبر میری روایت پر کسی اور قدم کی چاپ بھی آن موجود ہو… میں نے اپنے گھر کے درو دیوار کی شکستگی پر کبھی ملال نہیں کیا… یہ شکستگی تو کچھ ہے ہی نہیں اصل قصہ تو شاید سوچوں کی پختگی کا ہے…
سرسراتی ہوا کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے بے طرح ایک باز گشت مجھے مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے…”علم والے مال و زر کے ذائقے سے ناشناس ہوتے ہیں…”
کہا جاتا ہے پاکستان میں آسودگی عنقا ہے… مگر اُس بوڑھے مصور کی مسکراہٹ میں مکمل مٹھاس اور سکون کیوں ہے، جو اکثر فٹ پاتھ پر کان پر پنسل ٹکائے بیٹھا ہوتا ہے… شاید اُس نے وہ عبارت پڑھی ہو گی جو میری گولڈن ڈائری کے پہلے ورق پر درج ہے…
”عقل والوں کے لیے ”علم” ہے… اور جاہلوں کے لیے ”مال ” ہے…”
بعض اوقات زندگی کی رونقوں سے ہٹ کر کسی سنسان راستے پر چہل قدمی کرنے کی خواہش بہت دھیمے سے دِل کے کسی گوشے میں سر اُٹھاتی ہے… اور پھر دِلوں کی باتیں کہاں رد کی جا سکتی ہیں…
سنسان سڑک کے گرد لگے قطار در قطار درختوں کے ساتھ ساتھ چلتے مجھے کبھی بھی پاکستان کی اِن سڑکوں کو برا بھلا نہیں کہنا پڑا… لوگ جانے اتنے کم ظرف کیوں ہوتے ہیں کہ زندگی کی سلیٹ پر ایک ”خامی” درج ہوتے ہی ساری خوبیوں پر ”خاک” پھیر دیتے ہیں… جس کی دُھول میں خامیوں کا عکس واضح نظر آنے لگتا ہے…
میں نے اکثر لوگوں کو پاکستان کے خلاف تقریریں کر کے ڈائس توڑتے دیکھا ہے… ڈائس کا ٹوٹنا قابلِ برداشت سہی … مگر لوگوں کے دِلوں کو تو پاکستان کی محبت سے خالی نہ کرو… مدتوں سے تعمیر ہونے والی محبت کو اِک پل میں مسمار کر دینا انصاف نہیں… میں تھک ہار کر قلم کو کورے ور ق پر رکھتے ہوئے سوچتا ہوں…
”خدا نے قلم جیسی عظیم نعمت سے تو نواز دیا ہے مگر اس کا استعمال کیسے کروں… سوچوں کو بدل ڈالنے کی آرزو جلد پوری ہونے والی نہیں… مگر پھر وہی ایک صدا یاد آتی ہے…”
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ…
٭٭٭٭
میرا آئیڈیل تو کارل فلومی ہے… ہئیر سٹائل، قد ہر چیز زبردست ہے…” پہلی آواز نے کہا تھا… جانے یہ کارل کون تھا…؟… فاطمہ جناح پارک میں پھولوں کی سحر انگیز خوشبو بہت بھلی لگ رہی تھی… میں نے ایک قرمزی رنگ پرندے کو فلک بوس سفیدے کی چوٹی پر بیٹھتے دیکھا تھا… جسموں سے ٹکراتی مدھر سی ہوا ڈانوا ڈول پھر رہی تھی…
دوسری آواز نے کہا تھا… ”ہاں یار… وہ بہت پُرکشش اور چارمنگ ہے… ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں اُس پر … مسکراکر دل نکال لیتا ہے…” دوسری آواز نے سرد آہ بھر کر کسی خواہش ناتمام کا ماتم کیا تھا…
میں نے پلٹ کر دیکھا… وہ دو لڑکے مجھ سے کافی بڑے تھے… جھولے پر بیٹھے تھے مگر اُن کی کتابیں گھاس پر پڑی تھیں… ایک بیگ کی زِپ کھلی تھی آدھی چیزیں اندر آدھی باہر… وہ دونوں ”آئیڈیل، آئیڈیل…” کھیل رہے تھے… میں نے اپنی گولڈن ڈائری میں گوند سے چپکائی ہوئی تصویروں کا البم دیکھا … صفحے کے شروع میں کالے مارکر سے ”میرے آئیڈیلز…” کی فہرست چسپاں تھی…
”قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، اشفاق احمد…” میں نے گھبرا کر ڈائری بند کر دی… دیواروں کے کان ہوتے ہیں… تو ہواؤں کی آنکھیں کیوں نہیں ہو سکتیں…؟ ہواؤں نے میرے آئیڈیلز کی فہرست دیکھ کر چہ مہ گوئیاں کرنا تھیں… کیا پتا ہوائیں دُور چٹانوں اور پہاڑیوں پر میری ذات کو موضوع گفت گو بنائیں… مجھے موضوع گفت گو بننا کبھی بھی تو پسند نہ رہا تھا…
ڈائری جلد بند کرنے کی کوشش میں ایک آوارہ ورق اُن لڑکوں کے پاس جا ٹھہرا… بلی کی آنکھوں والے لڑکے نے تو بس جھولا روکنے کی زحمت کی تھی… جب کہ دوسرا جس کے بال عورتوں کی طرح لمبے تھے اور اُس نے چوٹی بنا رکھی تھی، وہ میری ڈائری کا ورق پڑھنے لگا… وہ لہک لہک کر پڑھ رہا تھا… پاکستان میرا ملک ہے اور مجھے اس سے بے حد محبت ہے۔ قائداعظم، شاعرِ مشرق اور ان جیسے دیگر رہنما اور دانش ور میرے ہیرو ہیں۔ میں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنا پسند کروں گا۔ ہوا میں اجنبی احساسات کی گرد اُڑ اُڑ کر جمود طاری کرنے لگی تھی… میرا ایک بغاوتی نمکین آنسو ڈائری کے اُوپری ورق پر گرا تھا… ایک پل کو لگا میں کسی پرائمری سکول کا نکما طالب علم ہوں جو پورے سکول کے سامنے پڑھ رہا تھا…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۲

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!