منگھو پیر

منگھو پیر
دلشاد نسیم

میرے ننھے منے دوستو! ان کا اصل نام خواجہ حسن سخی سلطان ہے لیکن منگھو پیر کے نام سے مشہور ہوئے اور اسی نام سے وہ علاقہ مشہور ہے۔
منگھو پیر کی درگاہ کراچی کے شمال مغرب میں واقع پہاڑی پر ہے۔ خواجہ حسن سخی سلطان المعروف منگھوپیر کے آباء و اجداد گیارہویں صدی میں برصغیر آئے تھے۔ روایت ہے کہ چھے سات سو سال قبل صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر ایک قافلے کے ہمراہ حج کے لیے جا رہے تھے کہ اس وقت کے بدنام زمانہ ڈاکو منگھووسا نے مسافروں کو لوٹنے کی کوشش کی مگر بابافرید کے حسن و سلوک سے متاثر ہوکر اس نے اسلام قبول کیا اور گناہوں سے توبہ کر لی۔ اس کے بعد اسی منگھو وسا نے اللہ کی راہ میں خود کو وقف کردیا۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ منگھوپیر کے دربار کے نزدیک بہنے والے چشمے سے جلدی امراض کا علاج ہوتا ہے یعنی اگر کسی کو جلد کے مسائل ہیں تو وہ منگھو پیر احاطے کے قریب بہنے والے چشمے کے پانی سے نہائے، اللہ کے حکم سے ٹھیک ہو جائے گا۔ ماہرین کے مطابق اس چشمے کے پانی میں قدرتی طور پر گندھک موجود ہے جو جلدی امراض کو دور کرنے کے کام آتا ہے۔
آج بھی زائرین اس چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت مند سلطان سخی منگھوپیر کا عرس مناتے ہیں۔ وہاں ساون کے مہینے سے پہلے میلہ منعقد ہوتا ہے جسے ”شیدی میلہ” کہتے ہیں۔ یہاں صدیوں پرانے تالاب میں مگر مچھ پائے جاتے ہیں۔ شیدی کراچی شہر کے قدیم باشندے ہیں۔ وہ صدیوں سے اس مزار کے عقیدت مند ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی افریقی باشندوں سے ملتا جلتا ہے۔ ان کے بزرگ برسوں پہلے افریقہ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ شکل و صورت میں بھی یہ افریقی ہی لگتے ہیں۔

میلے میں آنے والے عقیدت مند جلوس کی شکل میں ڈھول بجاتے ہیں۔ جانور ذبح کرتے اور پھر ان جانوروں کا گوشت مگرمچھوں کو کھلا دیتے ہیں۔
عرس اور شیدی میلے کے موقع پر تالاب میں موجود مگرمچھ عوام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ ان مگرمچھوں سے کئی دل چسپ اور حیرت انگیز روایات منسوب ہیں۔ 19 ویں صدی کی تحریروں میں مزار کا ذکر ملتا ہے۔ مگرمچھوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات بھی ملتی ہیں۔ کئی عقیدت مندوں کے مطابق مگرمچھوں نے ان پھولوں سے جنم لیا جو منگھوپیر بابا نے تالاب میں پھینکے تھے۔
کچھ لوگوں کے مطابق یہ جوئیں تھیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منگھو بابا ان مگرمچھوں پر سواری کرتے تھے۔ گو یہاں کبھی مگرمچھوں کے حملے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا پھر بھی مجاور حضرات عقیدت مندوں کو خبردار رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مگرمچھ انسانوں سے مانوس ہیں اور پیٹ بھرنے کے لیے زائرین کی دی گئی خوراک پر انحصار کرتے ہیں اور ان میں خود سے شکار کر کے کھانے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔
کراچی میں آج یہ پہاڑی علاقہ منگھوپیر کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ان کے احاطے کے قریب بہنے والا چشمہ برسوں سے اپنے زائرین کو سیراب کررہا ہے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

کراچی کی لوک کہانی | مائی کی روشنی

Read Next

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!