مستانی — منظر امام

پینترا بدل کر گرو نے پھر وار کیا۔ اس بار یہ وار دائیں ہاتھ کوجھکاوا دے کر بائیںطر ف کیا گیا تھا۔ لیکن دس بارہ برس کی بچی صاف طُرح دے گئی تھی۔ گرو اپنے وار کی طاقت کے جھونک میں ایک طرف کو لچک گیا تھا۔ بچی نے اپنی تلوار کی نوک اس کے سینے پر رکھ دی:”بس مہا راج! آپ ہارگئے۔”
”دھنے باد مستانی ! دھنے باد”گرو نے کہا۔
”میں نے جو پینترا بدلا تھا ۔ اس سے بچنا آسان نہیں ہو تا۔
لیکن تو تو ایسا لگتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے سیکھ کرآئی ہے”۔
بچی نے تلوار ایک طرف ڈال دی اور آگے بڑھ کر گرو کا ہاتھ چوم لیا۔
”مہاراج!یہ سب تو آپ ہی نے سکھا یا ہے نا۔”
گرو کی آنکھوں میں مشعل روشن ہو گئی۔
بچی کی ماں روحانی بیگم ایک طرف کھڑی اس مقابلے کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ اس وقت کتنی خوش تھی۔
خدمت گزارملازمائیں پیچھے ادب سے سر جھکائے کھڑی تھیں۔
گرو ”آگیا”لے کر چلا گیا۔ مستانی نے اپنی تلوار اٹھائی اور ماں کے پاس آگئی۔ اس کے خوب صورت چہرے پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح جھلملا رہے تھے۔
”تم نے دیکھا ماں۔”مستانی کے لہجے میں موجود تفاخر روحانی بیگم سے چھپا نہیں تھا۔
”ہاں دیکھ لیا۔”روحانی بیگم نے بہ ظاہر بے نیازی سے کہا۔”لیکن ہمیں اس میں شک ہے۔”
”کس با ت کا شک ؟ ”مستانی نے تڑپ کر پوچھا۔
”ہو سکتا ہے کہ گرو جی نے مجھے دیکھ کر تمہارا لحاظ کر لیا ہو۔”روحانی نے کہا ۔
”نہیں ماں ۔”مستانی کی بھنویں تن گئیں۔
”گرو ایک راجپوت ہیں اور راجپوتوں کے ہاں مصلحت سے کام نہیں لیا جا تا ۔ ”
”شاباش”۔ تالیاں بجنے کی آواز آئی ۔
مہاراجہ چھتر سال ان کے پیچھے کب آکر کھڑا ہوا،اس کا انہیں پتا بھی نہ چلا ۔
دونوں ماں بیٹی نے اس کے احترام میں اپنی گردنیں جھکا دی تھیں۔
”پتا جی !مستانی نے شکوہ کیا:”آپ نے سن لیا نا ، ماں کیا کہہ رہی تھیں۔”
” ہاں بیٹا! وہ تم سے بے پناہ محبت کرتی ہیں اور محبت کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ کسی منزل پر مسافر رک نہ جائے بلکہ آگے بڑھتا رہے۔ تم اپنی ماں کے سینے سے لگ کرتو دیکھو۔ وہاں سے تمہیں مبارک باد کی آوازیں آتی سنائی دیں گی۔”
روحانی بیگم نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ مستانی ان بازوؤں میں سمٹ گئی ۔
یہ محل مہاراجہ چھتر سال کا تھا۔ بندیل کھنڈ اور ارد گرد کے وسیع علاقے کا خود مختار حکم ران۔
مستانی اسی کی بیٹی تھی۔ جس کی ماں روحانی بیگم ایک مسلمان عورت تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تاریخ ایسے جوڑوں سے بھری پڑی ہے ،جس میں ایک طرف ہندو شوہر تو دوسری طرف مسلمان بیویاں۔ ایک طرف مسلمان شوہر تو دوسری طرف ہندو بیویاں۔
شائد صدیوں کے میل جول کے بعد ایک مفاہمتی کلچر وجود میں آجا تا ہے۔ لیکن چھتر سال اور روحانی بیگم کے درمیان معاملہ ایسے کلچر کا نہیں بلکہ نگاہوں کے تصادم اور ایک ایسی آگ کا معاملہ تھا جس کے لئے کہا گیا ہے کہ عشق پہ زور نہیں ۔
چھتر سال نے اس لڑکی کو دیکھا جس کے بدن میں جوالا مکھی بھری تھی۔ جب وہ رقص کے دائرے بناتی تو جیسے پوری کائنات ان میں سمٹ آتی ۔ اس کے نازک پیروں سے بندھے گھنگرو ایسی کیفیت پیدا کرتے کہ در و دیوار بھی ہم آہنگ ہو کر بجنے لگتے تھے۔
مدھ بھری آنکھوں میں ایسی بجلیاں کوندتی تھیں ،جو اپنی راہ میں آنے والی ہر شے کو خاکستر کئے جا تی تھیں۔ اس کی زلفوں کی گھٹائیں بارش برساتی محسوس ہو تی تھیں۔ چھتر سال اُسے دیکھ دیکھ کر پہلو بدل رہا تھا۔ اس وقت اس کی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ اِن زلفوں سے دل بھر کر باتیں کی جائیں ۔
اُس نے اُسی وقت اس حسن کو اپنے لئے مخصوص کرنے کا ارادہ کر لیاتھا۔ روحانی بیگم کی ماں اس کے سامنے ہی بیٹھی تھی۔ محفل ختم ہو نے کے بعد مہاراجہ چھتر سال نے اس کی ماں کو اپنے حضور طلب کر لیا ۔ وہ گردن جھکا ئے اس کے سامنے آکھڑی ہو ئی ۔
مہاراجہ نے ہیروں کا ایک قیمتی ہار اپنے گلے سے اتار کر اس کی طرف اچھال دیا۔ جسے روحانی بیگم کی ماں نے فوراً اُچک لیا ۔
”ہم تمہاری بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔”چھتر سال نے فیصلہ سنا یا۔
”مہاراج!آپ اس علاقے میں بسنے والے ہر شخص کی قسمت کے مالک ہیں۔ ”روحانی بیگم کی ماں نے کہا ۔
”لیکن ہر معاملے کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں۔ ایک زبر کا دوسرا زیر کا ۔ ”
”خوب ”مہاراجہ مسکرا دیا۔ ”اب تم مجھے زیر و زبر کا مفہوم بھی بتا دو۔”
”مہاراج!زبر، زبر دستی کا نام ہے اور زیر ، زیر دستی یعنی محبت کا ۔ ایک دوسرے سے پیار کا۔ ”
”نہیں ۔ زبر دستی نہیں ،زیر دستی کے ساتھ۔ میں تمہاری روحانی کو اپنے محل میں لے جانا چاہتا ہوں۔”
” مہاراج!ویسے تو روحانی آپ کی کنیز ہے ۔لیکن میں نے اس کی پرورش اس انداز سے کی ہے کہ یہ ایک دیوار ، ایک محراب یا ایک دروازہ بن کر نہیں رہ سکتی، اس کو سانس لینے کی عادت ہے،دیواریں تنگ ہو تی گئیں تو یہ بھی گھٹ کر رہ جائے گی ۔ ”
”تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں اس کو در ودیوار بنا کر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ میں تو اس کو قید رکھوں گااپنے دل کی دیواروں میں۔”
”مہاراج !یہ بہت بڑا دعویٰ کررہے ہیں آپ۔ ”روحانی بیگم بولی۔
”یہ ایک راجپوت کا وچن ہے۔”مہاراج نے پورے یقین سے کہا۔
اس طرح روحانی مہاراجہ چھتر سال کے ساتھ اس کے محل میں آ گئی۔ مہاراجہ نے اپنا وچن نبھا دیا تھا۔ اس نے روحانی سے شادی کرلی۔ بیویاں اوربھی تھیںلیکن روحانی کی اپنی ایک الگ مسلم حیثیت تھی۔ اس کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا ،وہ مسلمان ہی رہی ۔ مستانی اسی کی بیٹی تھی۔ بچپن ہی سے ذہین اور بہادر۔ شمشیر زنی اور گھڑ سواری کی تربیت نے اسے جفاکش اور بے خوف بنا دیا تھا۔وہ ایک راج کنیا تھی۔ کہا جاتا ہے اس کے مستانی نام رکھنے میں بھی یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ لوگوں کو اُس کی صحیح شناخت نہ ہو سکے کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان۔ مہاراجہ چھتر سال کو اس پر بے حد فخر تھا۔

٭

اس کا زمانہ (١٦٤٩ ء سے ١٧٣١ء )تک کا ہے۔
اس زمانے میں دہلی پر شہنشاہ شاہ جہاں کی حکومت تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بے شمار رجواڑے اور چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔ شاہ جہاں کے بعد اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں مرہٹوں نے طاقت پکڑنا شروع کر دی۔
اورنگ زیب نے ١٦٦٦ ء میں مرہٹوں کے سردار شیوا جی پر قابو پا کر اسے گرفتار کر لیا تھا۔ لیکن وہ کسی طرح قید سے فرار ہو گیا ۔ ١٦٧٤ ء میں مرہٹوں نے شیوا جی کو اپنا حکمراں بنا کر اس کی تخت نشینی کی رسم ادا کی ۔ اس نے چھے سال حکومت کی۔ اس کی حکومت کلیان سے گوا،مشرق میں کرناٹک،اور جنوب میں میور تک پھیلی ہوئی تھی۔

٭

محبت کی یہ داستان اسی جغرافیائی اور تاریخی پس منظر کی ہے۔ اب باجی راؤ کو راجپوتوں کا راج سنبھالنا ہے۔ یہ ایک کڑا چناؤ ہے۔ اس میں طاقت اور ہنر مندی کے ساتھ دانش مندی کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ مرہٹوں کا دربار سجا ہوا ہے۔ سروں پر پگڑیاں باندھے اور پگڑیاں بھی ایسی جن پر ہیرے ٹکے تھے ۔ان پگڑیوں کے چھجے آگے کی طرف بڑھے تھے جن کے نیچے دمکتی سرخ آنکھیں،تنے ابرو اور سرکش مونچھیںجو ان کی راجپوتی شان کی علامت تھیں۔ جھلمل جھلمل قیمتی کرتے ،پیش وازاور کمر کے گرد حائل تلواریں اور آوازوں میں گھن گرج۔
اپنی اہمیت کا احساس دلاتی اونچی اونچی محرابیں، لہراتے ہوئے حریری پردے، ستونوں پر مرہٹوں کے قدیم مصوروں کی بنائی گئی نقاشی،درمیان میں دورویہ بیٹھے ہوئے راجپوت سردار۔ان میں ہر ایک اپنی آن پر جان دینے اور لینے کو تیار۔ دو رویہ قطاروں کے بعد ایک اونچا سنگھاسن ۔جس پر پوری آن اور شان سے بیٹھا ہوا پیش وا۔جس کے کرتے کا گھیرہی دس گز کا تھااور پگڑی سب سے اونچی ۔ اوپر کی جانب اُٹھی ہوئی بل کھائی مونچھیں۔
راجہ کی نشست کے پیچھے غلام مورچھل لئے ہوا دے رہے تھے۔ اس کی آواز میں اتنی گھن گرج تھی کہ در و دیوار ہل کر رہ جاتے۔
آج مرہٹوں کے پیش وا کے انتخاب کا دن تھا۔ مرہٹہ سلطنت بہت دور تک پھیل چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سلطنت کو کئی ایک خطرات بھی لاحق تھے۔
کامیابی کا راستہ ہمیشہ کانٹوں بھرا ہوا کرتا ہے ۔
باجی راؤ کا اعلان کیا گیا۔ باجی راؤ کا باپ خود ایک بڑا سردار تھا۔ اس کی موت کے بعد باجی راؤ کو نہ صرف اپنے باپ کی گدی سنبھالنی تھی بلکہ سارے راجپوتوں کا سردار بھی بننا تھا۔
اس اعلان کے ساتھ ہی پورے دربار میں سرگوشیاں گونجنے لگیں۔
ایک سردار اپنی مونچھوں کو بل دیتا کھڑا ہوا۔
”مہاراج!اس نے پیش وا کو مخاطب کیا :”راج سنگھاسن بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔ اس میں زندگی تلواروں کی چھاؤں تلے گزرتی ہے ۔ اس کے علاوہ بدھی مان (عقل مند ) بھی ہونا پڑتا ہے۔”
پیش وانے پہلو بدلا۔”بالا جی تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ باجی راؤ اس ترازو پرپورا نہیں اترے گا،اس کو پریکشاتو دینے دو۔”
سردار اپنی جگہ جا کر بیٹھ گیا۔
باجی راؤ سامنے آکھڑا ہو گیا۔ تمکنت سے تنی مونچھیں، بالوں سے صاف سر پرایک لہراتی موٹی سی چٹیا ، گٹھا ہوا جسم اور للکارتی آنکھیں،جن میں سے جوالاپھوٹ رہاتھا۔
کمر کے گرد کسی ہوئی تلوار اور دوسرے پہلو میں ایک کٹار ،جس کو وہ اپنی پتنی کہا کرتا۔
”باجی راؤ!کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ تم نے جس بات کی خواہش کی ہے اس کے لئے جان کی بازی ہارنی پڑتی ہے”۔
”مہاراج!”باجی راؤ نے اپنی گردن جھکا لی۔
”جان کی بازی ہارنے کی بات اس وقت ہو تی ہے جب حوصلہ ہار دیا جائے اور جب تک حوصلہ زندہ رہتا ہے ہم جیسے لوگ جیت کی بات کرتے ہیں ہارکی نہیں۔”
واہ۔ واہ۔واہ۔واہ۔۔۔پورا دربار داد دینے لگا تھا۔
”تم اپنی عمر اور تجربے سے بڑھ کر بات کررہے ہو باجی راؤ ”۔
”ہاں مہاراج!بہت سے لوگ تجربوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ تجربہ ان کا محتاج ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایساکام کر دکھائیں جو ایک نئے تجربے کے طور پر اتہاس کے پرنوں میں لکھ دیا جائے ۔ ”
”ابھی اس کا امتحان ہو جا تا ہے”۔
باجی راؤ شانے اچکا کر رہ گیا۔ پیش واکے کہنے پر تیر کمان لایا گیا۔ پہلا امتحان تیر اندازی تھا۔ جس میں باجی راؤکی مہارت نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ دوسرا مقابلہ تلوار بازی کا تھا۔ تیسرا مقابلہ بدھی کا تھا۔ شطرنج کا تھا۔ اس نے ہر ہر میدان میں اپنے آپ کو سربراہی کے قابل ثابت کر دیا تھا۔
چناؤ ختم ہوا۔ باجی راؤ کی پیش وائی کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا ۔ باجی راؤ ہرمعرکے میں کامیابی حاصل کرتا رہا۔ جیت اس کی غلام بن گئی ۔ جہاں جاتا فتوحات کے ڈھیر لگا دیتا۔
مگرہر معرکے کے بعدجسم کے زخموں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیااور ہر زخم اس کے لئے ایک ایسے تمغے کی مانند تھاجس کو بہادر اپنے جسم پرسجا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس کے جلو میں دوڑنے والے گھوڑوں کے سموں سے چنگاریاں نکلتیں۔ اس کی راتیں تلواروں کے پہلو میں اور اس کے دن تلواروں کے سائے میں گزرتے۔
اس کی شادی کاشی سے ہو گئی ،جو ایک خوب صورت عورت اور ایک بڑے سردار کی بیٹی تھی۔ کاشی اس کے لئے سراپا محبت تھی۔ اس نے جی بھر کر باجی راؤ سے محبت کی ۔ باجی راؤ اس کی موجودگی میں کسی اور کا دھیان بھی نہیں کرتا تھا۔
کاشی اس سے کہا کر تی:”ہم نے آپ کے پیمانہ عشق کو اپنے وجود سے اتنا بھر دیا ہے کہ اس میں کسی اور کے لئے کبھی گنجائش نہیں نکل سکتی ۔”
”میری جان!ہمارے لئے کسی اور کی ضرورت بھی کیا ہے۔”باجی راؤ اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہتا۔” بس ایک محبت کافی ہے۔”
”لیکن ہمارے درمیان ایک سوتن بھی تو ہے۔”
”وہ کون ہے؟ ”تڑپ کو پوچھا۔
”آپ کے پہلو میں لٹکی تلوار۔”
”کاشی!ہمیشہ یاد رکھنا ،کسی بہادر شخص کا پہلا بیاہ اس کے ہتھیاروں سے ہوا کرتا ہے۔”
کاشی ہنس کر خاموش ہو جاتی۔
٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Read Next

پنج فرمان — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!