”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔”
پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی فراز کے ساتھ اس چارپائی پر بیٹھ گئی جو ان کے گھر کے باہر پیپل کے درخت کے نیچے بچھی تھی۔ فراز نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ہاتھ میں پکڑی غلیل میں چھوٹے چھوٹے کنکر ڈال کر سامنے کھلے میدان میں پھینکتا رہا۔ وہ دیکھ رہا تھا کون سا کنکر کتنی دور تک جاتا ہے۔
”فراز دیکھ سورج کتنا چڑھ گیا ہے، چھوڑ دے اس موئی غلیل کا پیچھا اور پانی بھر لا۔” پروین نے غصے سے اس کے ہاتھ سے غلیل جھپٹتے ہوئے کہا ہے۔
”کیا ہے اماں ابھی صبح تو بھر کے لایا تھا پانی۔” فراز سر جھٹکتا ہوا چارپائی سے اٹھ گیا۔
”گرمی بھی تو اتنی ہے، اوپر سے صبح رشیدہ آگئی تھی بچوں کے ساتھ تو پیا گیا پانی۔ اب جا، جا کے بھرلا ورنہ دوپہر کی روٹی کے ساتھ لسی نہیں بنے گی۔” پروین نے خود کو دوپٹے سے ہوا دیتے ہوئے اسے دھمکایا۔ لسی کے بغیر وہ کھانا نہیں کھاتا تھا۔
”ایک تو یہ چاچی رشیدہ کو بھی اپنے گھر چین نہیں۔ اتنی گرمی میں روز آجاتی ہے۔” فراز بالٹی اٹھا کر بڑبڑاتا ہوا کنویں کی جانب جانے والے کچے راستے پر چل پڑا۔
یہ اس کا روز کا کام تھا۔ صبح فجر کے بعد اور شام کو مغرب سے پہلے پانی بھر کر لانا اور اگر کوئی مہمان آجاتا تو اسے یہ کام دن میں تین بار بھی کرنا پڑتا۔ جیسے آج رشیدہ کے آنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ ویسے تو ان کے گھر میں ہینڈپمپ لگا ہوا تھا، لیکن اس کا پانی کھارا ہونے کی وجہ سے پینے اور کھانا پکانے کے کام نہیں آتا تھا۔ فراز آرام آرام سے گائوں کی کچی سڑک پر چلتا جا رہا تھا۔ گرمی زوروں کی تھی، سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ہوا آج بالکل نہیں چل رہی تھی لیکن سڑک کے دونوں جانب موجود درختوں سے سڑک پر سایہ تھا۔ فراز نے رُک کر آم کے درخت پر لگی کچی امبیاں توڑیں اور ان کے کھٹے ذائقے کا مزہ اٹھاتا کنوئیں تک پہنچا۔ اس کا دوست امتیاز بھی وہاں پہلے سے پانی بھر رہا تھا۔
”یار امتیاز میں تو تھک جاتا ہوں روز پانی بھر بھر کے، تو نہیں تنگ پڑتا؟” فراز نے قمیص کی جیب سے ایک امبی نکال کر امتیاز کی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا اور خود کنوئیں کی منڈیر پر چڑھ کے بیٹھ گیا۔
”تھک تو میں بھی جاتا ہوں یار پر اور کوئی حل بھی تو نہیں ہے۔” امتیاز نے اس کی دی ہوئی امبی کو دانتوں سے توڑ کر مزے سے چباتے ہوئے کہا۔ وہ اپنی بالٹی بھر چکا تھا۔ میں تو سوچتا ہوں یار اس سے تو اچھا تھا آج کے دور میں بھی ماشکی ہوتے جو پانی بھر کے ہمارے گھروں میں دے جایا کرتے، پر اب تو ہم خود ہی ماشکی بن گئے ہیں۔” فراز نے نیچے کنوئیں میں موجود پانی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ہاں یار کہتا تو تو ٹھیک ہے۔” امتیاز نے امبی کی گٹھلی دور گندم کی کھیت میں پھینکتے ہوئے کہا:
”پریار! تو نے تو بتایا تھا کہ تو اس اتوار کو شہر جا رہا ہے اپنے ماموں کے گھر۔ چل کچھ دن تجھے پانی نہیں بھرنا پڑے گا۔” امتیاز نے اسے یاد دلایا اور اس کی بالٹی آگے کر کے اس میں پانی بھرنے لگا۔
”ہاں یار! شکر ہے پورا ایک ہفتہ ادھر رہنا ہے وہاں تو گھروں میں نلکے لگے ہیں، پانی بھرنے کا کوئی مسئلہ نہیں۔” فراز خوشی سے منڈیر سے اچک کر نیچے آگیا۔ اتوار آنے میں بس دو ہی دن باقی تھے اور پھر پانی بھرنے کی چھٹی…
اتوار کے دن فراز اپنی نانی حمیدہ بیگم کے ساتھ بس میں بیٹھ کر لاہور شہر آگیا۔ ویسے تو وہ پہلے بھی ایک دوبار لاہور اپنی امی کے ساتھ آیا تھا لیکن بس ایک آدھ دن ماموں کے گھر رہ کر چلا جاتا لیکن اس مرتبہ تو اسے پورا ایک ہفتہ رہنا تھا۔ وہ خوش تھا کہ یہاں آرام سے رہے گا اور گائوں میں جو اس کے ذمہ پانی بھر کے لانے کا کام تھا، اس سے بھی جان چھوٹی۔ لیکن اس کی یہ خوش فہمی بھی پہلے ہی دن شام کو دور ہو گئی۔
وہ آرام سے اپنے ماموں زاد عمران کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا جب جمیلہ ممانی ہاتھ میں پلاسٹک کے تین بڑے کین پکڑے کمرے میں داخل ہوئیں۔
”عمران اٹھو! فراز کو ساتھ لے جائو اور فلٹر سے پانی بھر لائو۔ پینے کا پانی ختم ہو گیا ہے۔” انہوں نے کمرے میں آتے ہی حکم صادر کیا اور کین وہیں رکھ کر کمرے سے باہر نکل گئیں اور فراز حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتا انہیں دیکھتا رہا۔
”آئو یار فراز! یہ کین پکڑ لو، میں موٹرسائیکل نکالتا ہوں۔ ایک تو پانی بھی روز بھر کے لانا پڑتا ہے۔” عمران فوراً ہی بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولا۔ فراز بھی حیران و پریشان تینوں کین پکڑے اس کے پیچھے چل پڑا۔ فلٹر ان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ بائیک پر وہاں تک جانے میں سات آٹھ منٹ لگے۔ وہاں اور لوگ بھی اپنے ساتھ لائی بڑی بڑی بوتلوں میں پانی بھر رہے تھے۔ عمران نے بھی فراز سے تینوں کین لے کر ایک ایک نل کے نیچے بھرنے کے لیے رکھ دیئے۔
”یار عمران! یہاں شہر میں تو گھر کے اندر نلکوں میں ہر وقت پانی آتا ہے، پھر تم لوگ یہاں سے کیوں پانی بھر رہے ہو؟” فراز نے بالآخر سوال پوچھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا۔
”یار کیا کریں؟ مجبوری ہے۔ گھروں میں جو پانی آتا ہے وہ صاف نہیں ہوتا، اسے پی نہیں سکتے۔ پینے کے لیے یہاں فلٹر سے صاف پانی لے کر جانا پڑتا ہے۔” عمران نے سر جھٹکتے ہوئے کہا:
”کیا ہی اچھا ہو اگر گھروں میں ہی صاف پانی میسر ہو۔ کم از کم اس کام سے تو جان چھوٹے۔” اس نے بات مکمل کرتے ہوئے فلٹر کے نل بند کیے، بھرا ہوا ایک کین اس نے اپنے آگے بائیک کی ٹینکی پر رکھا اور باقی دونوں کین پکڑے فراز پچھلے سیٹ پر بیٹھا اور یوں وہ پانی بھر کے گھر پہنچے۔ دو کین پکڑ کر بیٹھنا مشکل کام تھا۔ فراز کے بازو درد کرنے لگے، لیکن پھر بھی اس نے زیادہ محسوس نہ کیا۔ کم از کم گائوں کی طرح اسے پیدل بالٹی اٹھا کر تو نہیں لانی پڑی۔ لیکن اس کا یہ سکون بھی اگلے ہی دن رخصت ہو گیا۔
”فراز پتر! میں تے کہنی آں کل سویرے پنڈ واپس نا چلیے؟” حمیدہ بیگم نے آنکھوں پر لگی موٹے شیشوں والی عینک سے پاس بیٹھے فراز کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”لیکن کیوں نانی؟ آپ نے تو کہا تھا پورا ایک ہفتہ رہیں گے۔ ابھی کل ہی تو آئے ہیں ہم۔ آرام سے اگلے اتوار کو چلیں گے۔” فراز نے مزے سے اس کپ میں سے چاکلیٹ آئس کریم کھاتے ہوئے کہا جو تھوڑی دیر پہلے اسے جمیلہ دے کر گئی تھی۔
”نا پتر! اتوار وچ تے بڑے دن نے میرا تے ایس بند بندگھر وچ دل گھبراندہ اے خاص کر جدوں بتی چلی جاندی اے۔ اوتھے اپنے پنڈ وچ تے درختاں تھلے کنی سوہنی ہوا چلدی اے۔ ایتھے تے درخت وی کوئی نئیں۔ اتوار میں تو ابھی بڑے دن پڑے ہیں میرا تو اس بند گھر میں دل گھبراتا ہے، خاص کر جب لائٹ چلی جائے۔ ادھر گاؤں میں تو بڑے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ جایا کرتے ہیں۔ ادھر تو کوئی درخت بھی نہیں” حمیدہ بیگم کا دل دو دن میں ہی شہر سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ لیکن فراز کا بھی واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، بلکہ اس کا بس چلتا تو شہر میں اپنا قیام ہفتے سے بھی بڑھا لیتا۔
”نانی ابھی بتی نہیں آرہی اس لیے آپ کا دل گھبرا رہا ہے یہ آئس کریم کھا کے دیکھ ٹھنڈ پڑ جائے گی۔” فراز نے ہاتھ میں پکڑا کپ حمیدہ کی طرف بڑھایا۔
”ناتو ہی کھا اسے۔” حمیدہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا اور خود وہیں پلنگ پہ لیٹ گئی۔ فراز نے مطمئن ہو کر آئس کریم ختم کی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ وہ دل ہی دل میں شکر کر رہا تھا کہ حمیدہ نے واپس گائوں جانے پہ زور نہیں دیا۔
”فراز! بیٹا ایک کام تو کر دو۔” وہ صحن میں آیا تو صحن کے ساتھ بنے کچن سے جمیلہ نے اسے آواز دی۔
”جی مامی کیا کام ہے؟” وہ مؤدب سا کچن میں پہنچا۔
”بیٹا عمران صبح کا تمہارے ماموں کے ساتھ کام پر گیا ہوا ہے اب شام کو لوٹے گا تو تم ذرا یہ دوکین پانی کے بھرلائو۔ فلٹر تو کل تم نے دیکھا ہی ہے۔ تیسرا کین شام کو عمران بھرلائے گا۔” جمیلہ نے دیگچی میں مصالحہ بھونتے ہوئے مصروف سے انداز میں کہا۔
”مامی یہ کین اتنی جلدی ختم بھی ہو گئے؟” فراز آنکھیں پھاڑے دیوار کے ساتھ پڑے خالی کینز کو دیکھ رہا تھا۔
”ہاں بیٹا! گرمی میں کہاں پتا چلتا ہے پانی کا؟ ادھر بھر کے لائو، ادھر ختم۔” جمیلہ نے دھلی اور کٹی ہوئی سبزی مصالحے میں شامل کرتے ہوئے کہا۔
”چلیں میں لے آتا ہوں پانی۔” فراز بے دلی سے دو کین اٹھا کر کچن سے نکل آیا۔
پیدل فلٹر تک پہنچنے میں اسے پورے پندرہ منٹ لگے۔ کل بائیک پر آنے کا تو پتا بھی نہیں چلا تھا۔ سڑک کے کنارے چلتے چلتے کوئی سایہ بھی نہ تھا۔ دوپہر کا وقت اور چلچلاتی دھوپ۔ فراز پسینے میں بھیگ گیا۔ کین بھرنے سے پہلے اس نے نل کے نیچے ہاتھ رکھ کے خود پانی پیا۔ پھر منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، چند گہرے سانس لیے اور دونوں کین نل کے نیچے لگا دیئے۔ کین بھر کے اس نے ایک مرتبہ پھر پانی پیا اور پھر ایک کین دائیں ہاتھ میں پکڑا اور دوسرا بائیں ہاتھ میں اور واپسی کی راہ لی۔ وہ چلتا جاتا لیکن راستہ تھا کہ کٹتا ہی نہیں تھا۔ اوپر سے سورج سوا نیزے پر۔ نیچے پکی سڑک کی گرمی جوتے کے اندر تک محسوس ہوتی۔ اسے گائوں کے کنوئیں تک جاتا کچا راستہ یاد آگیا، جس پہ سایہ کیے ہوئے درخت اسے دھوپ سے بچائے رکھتے۔
گھر واپس پہنچنے تک وہ بُری طرح ہانپ گیا۔ اتنی مشکل سے کبھی کنوئیں سے پانی بھر کے لانے میں نا ہوئی تھی۔ کچن میں کین رکھ کر وہ سیدھا حمیدہ بیگم کے پاس پہنچا۔
”نانی آپ ٹھیک کہتی ہیں، کل چلیں گے واپس گائوں۔” اس نے اندر داخل ہوتے ہی اعلان کیا۔
”پر کیوں پتر؟” حمیدہ اس کی کایا پلٹ کے حیران ہوئی۔
”نانی! شہر کا ماشکی بننا بہت مشکل ہے۔ اس سے تو گائوں کا ماشکی ہی اچھا۔” وہ لمبے لمبے سانس لیتا ہوا بولا۔ حمیدہ کو اس کی بات کچھ سمجھ نا آئی۔ وہ اب کافی ہشاش بشاش بیٹھی تھیں۔
”نہیں پتر! تو ٹھیک کہندا اے۔ آئس کریم کھا کے ہن مینوں سکون ملا اے۔ آرام نال بے جا اتوار نوں چلاں گے۔ (تو ٹھیک کہتا ہے، یہ آئس کریم کھا کر مجھے سکون ہے۔ اب اتوار کو آرام سے چلیں گے)” حمیدہ نے آئس کریم کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا اور فراز چکرا کے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اتوار آنے میں ابھی بڑے دن تھے اور شہر کا ماشکی بننا بہت مشکل کام تھا۔
٭…٭…٭