لوک کہانی | دُوسری ترکیب

لوک کہانی
دُوسری ترکیب
نذیر انبالوی

جناب نذیر انبالوی کا اصل نام نذیر الحسن ہے۔ لاہور میں پیدا ہوئے۔ پاکستان میں بچوں کے ادب کی تاریخ ان کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ اسّی کی دہائی سے لکھنے کا آغاز کیا اور آج تک بغیر کسی تعطل کے مسلسل ان کا قلم بچوں کی ذہنی تربیت کا کام سرانجام دے رہا ہے۔ 70 کے قریب کتابوں کے مصنف ہیں۔ ماہنامہ تعلیم و تربیت کے مدیر رہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے مختلف جماعتوں کی اُردو کی کتابیں انہی کی محنت کا ثمر ہیں۔ الف نگر میگزین میں قارئین ان کی خاص کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

تنال نے گود میں بچھڑا اُٹھا رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں گائے کی رسی تھی۔ صحن میں اس کی بیوی چارپائی پر بیٹھی سبزی بنا رہی تھی۔
”نیک بخت! اللہ نے ہماری سن لی ہے، یہ گائے اوراِس کا دودھ ہمارا ہے، خوب دودھ پیو۔” تنال نے بچھڑے کو صحن میں چھوڑ کر گائے کو تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
”بات کچھ سمجھ میں آئی نہیں۔” بیوی نے پہلے بچھڑے اور پھر گائے کو دیکھتے ہوئے تنال سے کہا۔
”بادشاہ سلامت نے اپنے خاص نوکروں کو ایک گائے اور اُس کا بچھڑا دیا ہے، جو کوئی بھی بچھڑے کو گائے کا دودھ پلا کر صحت مند کرے گا اُسے خصوصی انعام ملے گا۔” تنال نے تفصیلی بتائی۔
”اچھا تو یہ بات ہے، بھئی سارا دودھ تو بچھڑا پی جائے گا پھر یہ دودھ ہمارا کیسے ہوا؟” بیوی کو فکر مند دیکھ کر تنال نے نہایت اطمینان سے کہا:
”تم دیکھتی جاؤ میں کیا کرتا ہوں، بس تم دودھ پیو اور جان بناؤ۔”
پھر دونوں روز ہی گائے کا دودھ پینے لگے اور جو بچ جاتا، تو رشتہ داروں کو بھیج دیتے۔ دودھ نہ ملنے کے باعث بچھڑا قد میں بڑھا اور نہ ہی صحت مند ہوسکا۔ گھر میں جو روٹی پکتی وہ بہ مشکل بچھڑے کو کھانے کو ملتی۔ گائے کا دودھ پیتے پیتے تنال ہٹا کٹا ہوگیا اور اُس کی بیوی بھی خاصی صحت مند ہوگئی تھی۔ انہیں اُس وقت فکر لاحق ہوئی جب کچھ عرصے بعد بادشاہ نے ملازموں کو اپنے اپنے بچھڑوں سمیت دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔ تنال نے ایک ترکیب سوچ رکھی تھی۔ دربار میں جانے سے قبل اُس نے اس ترکیب کو عملی جامہ پہنایا۔ اُس نے ایک برتن میں دودھ کو خوب گرم کیا۔ پھر وہ برتن بچھڑے کے سامنے رکھا، تو بچھڑا جیسے ہی دودھ پینے لگا، گرم دودھ سے اُس کا منہ جل گیا۔ وہ خوب چیخا چلّایا اور بے قرار ہوکر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ آخر بچھڑا ایک طرف خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔
اگلے دن تنال بچھڑا لے کر دربار پہنچا، تو بادشاہ نے بچھڑا دیکھ کر کہا:
”یہ تو پہلے سے بھی کمزور ہوگیا، لگتا ہے تم اس کے حصے کا دودھ پیتے رہے ہو۔”
”حضور! ایسی بات نہیں، بلکہ اسے دودھ پسند ہی نہیں ہے، میں نے جب بھی اس کے سامنے دودھ رکھا اِس نے پیا ہی نہیں۔” تنال نے صفائی پیش کی۔
”ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔” بادشاہ سلامت نے تنال کو گھورتے ہوئے کہا۔
پھر بادشاہ کے حکم پر ایک برتن میں دودھ لایا گیا۔ بادشاہ سلامت نے جلاد کو حکم دیا کہ اگر تنال کا جرم ثابت ہوجائے تو اس کی گردن اُڑا دینا۔ دودھ کا برتن بچھڑے کے سامنے رکھا گیا۔ بچھڑا تو پہلے ہی گرم دودھ سے خوف زدہ تھا۔ جیسے ہی اُس کے سامنے دودھ رکھا گیا اُس نے آنکھ اٹھا کر بھی اُسے نہ دیکھا۔ بادشاہ کو کیا معلوم تھا کہ بچھڑا دودھ کیوں نہیں پی رہا۔ یوں تنال کی ترکیب کام یاب ہوگئی۔ وہ دل ہی دل میں بے حد خوش تھا۔
بادشاہ نے اپنے وزیر کی طرف دیکھا۔ وزیر نے بادشاہ کی آنکھوں میں چھپے سوال کو جانچ لیا تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر بچھڑے کو قابو کرلیا۔ وزیر نے بچھڑے کے منہ کو بہ غور دیکھا تو فوراً بولا:
”حضور! تنال نے جھوٹ بولا ہے کہ بچھڑے کو دودھ پسند نہیں، وہ دودھ کیسے پیے گا، اس کا تو منہ برُی طرح جلا ہوا ہے۔”
”بچھڑے کا منہ جلا ہوا ہے؟” بادشاہ نے دہرایا۔
”جی بادشاہ سلامت! بچھڑے کا منہ جلا ہوا ہے۔” وزیر نے تنال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ بادشاہ تنال کو گھورنے لگا۔
”وہ… وہ… سرکار میری بیوی نے دودھ گرم کرکے پتیلی میں رکھا ہی تھا کہ بچھڑے نے اُس میں منہ ڈال لیا۔” تنال کے چہرے کی رنگت زرد ہورہی تھی۔
”سچ سچ بتاؤ ورنہ جلاد ہمارے حکم کا منتظر ہے۔” بادشاہ چلّایا۔

”مم… میں… میں جھوٹ نہیں بول رہا، سرکار رحم کیجیے۔ آپ رحم کرنے والے ہیں، میں بچھڑے کو حکیم صاحب کے پاس لے جاتا ہوں، یہ ٹھیک ہوجائے گا۔” تنال کی کسی بات کا بادشاہ سلامت کو اعتبار نہیں تھا۔ تنال چوں کہ بادشاہ کا پرانا ملازم تھا۔ اس لیے بادشاہ کو اس پر رحم آگیا۔ چناں چہ بچھڑا اور گائے واپس لے کر اُسے ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ تنال کو کیا خبر تھی کہ گائے کا دودھ پینے کی اُسے اتنی کڑی سزا ملے گی۔ وہ منہ لٹکائے گھر داخل ہوا، تو بیوی کے سوال کرنے پر اُس نے ساری بات بتا دی۔
”چلو تمہاری جان تو بچ گئی ہے، جان ہے تو جہان ہے، اب گھر کا نظام کیسے چلے گا؟ جاؤ کوئی ملازمت تلاش کرو۔”
بیوی کی بات سن کر تنال نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ایک ترکیب ہے میرے ذہن میں۔”
”پھر ایک ترکیب؟ تمہاری پہلی ترکیب تو ناکام ہوگئی۔”
”میری یہ ترکیب ناکام نہیں ہوگی، ابھی اور اسی وقت دُوسری ترکیب کو عملی شکل دیتا ہوں۔” تنال نے یہ کہہ کر زور زور سے چلّانا شروع کردیا۔ شور سن کر پڑوسی اس کے گھر آگئے۔
”میرے پیٹ میں شدید درد ہے، میرا زندہ رہنا مشکل ہے، مجھے بادشاہ سلامت کے پاس لے جاؤ، میں بچ نہیں پاؤں گا۔” تنال کی آہ و بکا سن کر پڑوسی اُسے بادشاہ کے دربار لے گئے۔ اُس کی یہ حالت دیکھ کر بادشاہ سلامت کو بھی ترس آگیا۔ تنال نے روتے ہوئے کہا۔
”سرکار! میرا آخری وقت ہے، میں آپ کے سامنے وصیّت لکھوانا چاہتا ہوں، میرے گھر میں دو صندوق ہیں۔ وہ اپنی تحویل میں لے لیں، میں مر گیا تو ڈاکو صندوق میں رکھی دولت لوٹ لیں گے۔ آپ دونوں صندوق لے لیں اور میری بیوی کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر دیں۔”
بادشاہ چوں کہ رحم دل تھا، اُس نے تنال کی بات مان لی۔ بادشاہ نے سپاہی بھیج کر تنال کے گھر سے تالے لگے صندوق محل میں منگوا لیے۔ شاہی طبیب نے تنال کا معائنہ کیا، درد ہوتا تو ٹھیک ہوتا۔ چالاک اور لالچی تنال تو جھوٹ موٹ درد کا بہانہ بنا رہا تھا۔ بیوی برابر اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ شاہی طبیب کے علاج سے تنال کو افاقہ ہوگیا، تو بادشاہ سلامت نے اُسے دربارہ میں بلایا اور صندوقوں میں رکھی دولت کے بارے میں سوال کیا۔ تنال تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ بادشاہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ صندوقوں میں اشرفیوں کے ساتھ کتنے ہیرے جواہرات ہیں۔ جب صندوقوں کے تالے توڑے گئے تو بادشاہ اُن میں پتھر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تنال کی چالاکی جان گیا تھا۔
تنال اپنی دُوسری ترکیب کے تحت قاضی کی عدالت میں انصاف کے لیے فریاد کررہا تھا۔ بادشاہ کو قاضی نے عدالت میں طلب کرلیا۔ بادشاہ نے سزا سے بچنے کے لیے صندوق اشرفیوں اور ہیرے جواہرات سے بھر کر تنال کے حوالے کردیے۔ یہی تو تنال چاہتا تھا۔ اُس کی دُوسری ترکیب کامیاب ہوگئی تھی۔ اشرفیوں سے بھرے صندوقوں کو حاصل کرکے تنال کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ وہ اپنی کام یابی پر بے حد خوش تھا۔ اب اُسے کہیں ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ عقل مند کہتے ہیں کہ دولت جیسے حاصل کی جاتی ہے ویسے ہی چلی بھی جاتی ہے، یہی کچھ تنال کے ساتھ ہوا۔ ایک رات ڈاکو آئے اور دونوں صندوق اٹھا کر لے گئے۔ دولت جاتے ہی تنال کا دماغ اُلٹ گیا۔ اب وہ گلیوں اور بازاروں میں ہر وقت یہی کہتا پھرتا ہے۔ ”دُوسری ترکیب، دُوسری ترکیب” یہ کہتے ہوئے وہ کبھی ہنستا ہے اور کبھی رونے لگتا۔ دولت کا تعاقب کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ صدیوں سے براہوی لوگ آج بھی تنال کو لالچی آدمی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

لوک کہانی | دُلّے کی وار

Read Next

ہندکو لوک کہانی(سنی سنائی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!