قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے
ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے
نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے
مگر پھوٹ پھوٹ مجھے بہنا ہے
پر گھونٹ گھونٹ مجھے سہنا ہے
میرے چمن میں کھاد کا یہ کہناہے
سن اے گل! پھوٹنا ہی ٹوٹنا ہے
میری جڑوں نے بھی کیا سبق لیا ہے
قطرے سے وجود نے سمندر چھپالیا ہے
اس نے دوگھنٹے پہلے یہ شاعری اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کی اور اب بر تن دھونے سے لے کر جھاڑو پونچھے تک سب ہی کام کرلینے کے بعد موبائل پھر سے ہاتھ میںلیا تھا۔ انٹرنیٹ کنکشن سلو ہونے کی وجہ سے پیج لوڈ ہونے میں وقت لگ رہا تھا مگر ہر بار پیج پر ابھرا پہلا نام ’’جبین دا رائٹر‘‘اس کے دل میں کئی امیدیں جگاتا تھا۔ اِن امیدوں میں ہی اس کے دن رات گزرتے تھے اور وہ انہی خیالات میں گھر کے کتنے ہی کام کر ڈالتی کہ اسے خود بھی خبر نہ ہوتی ۔ بالآخر پانچ منٹ بعد پیج لوڈ ہوا اور وہ کمنٹ سیکشن کی جانب لپکی۔کمنٹس کھولتے ہی بہت سے لوگ اپنی رائے لیے قطار بنائے ہوئے تھے پہلے کمنٹ کو پڑھتے ہی اس کی آنکھوں کی چمک دھندلی ہوئی۔
’’بی بی جس کا کام اسی کو ساجھے۔‘‘
’’جس کو دیکھو یہاں وہاں کی چیپ رائٹر بن بیٹھا ہے۔‘‘
’’بہنا چولہا چوکا سنبھالو یا ٹیوشن سنٹر کھول لو۔‘‘
مسلسل محنت کے باوجود وہ ان لوگوں کو متاثر نہ کر سکی تھی اور اب مایوس ہو نے کو تھی ۔اِن کمنٹس کے بعد دو تین لوگوں نے اسے سراہا بھی مگر وہ کمنٹس بھی اسے خوش نہ کر سکے۔ ان کمنٹس میں ایک شمس نامی لڑکا بھی شامل تھا، جس کے جواب میں شانی کالا، فیروز گنڈا، شیر کاڑا اور محلے کے سب ہی لڑکے وہاں مزے لینے پہنچ چکے تھے۔
’’اوئے سیٹنگ چل رہی ہے۔‘‘
’’جبین کیاخیال ہے بات کریں اماں سے ؟‘‘
’’اتنا ہی اچھا لکھتی ہے تو گھر لے جائو۔‘‘
’’اچھا تو وہ پہلے کی عشق ومحبت والی شاعری اِس کے لیے تھی۔‘‘
اُس کے دل سے پھوٹا آب شار اُس کے چہرے کو نم اور نظروں کو دھندلا کر چکاتھا۔اِس کے بعد سے تو جیسے یہ معمول بننے لگا تھا ۔کوئی لڑکا اسے سراہتا تو اس کا نام جبین کے ساتھ جوڑا جا تا جب کہ لڑکیوں کو وہاں باقاعدہ چھیڑا جاتا۔ کچھ عقل و شعور رکھنے والے پہلے ہی پیج بلاک کرنے لگتے۔ کچھ طویل بحث و مباحثے کے بعد کرتے۔اِن رکاوٹوں کا مقصد اب اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ سو وہ اندر ہی اندر ٹوٹ چکی تھی۔
٭…٭…٭
اُس کا خلا پُر ہوچُکا تھا۔ فیض کا فیض اب سر چڑھ کر بول رہا تھا۔وہ رات چار بجے تک اس سے بات کرلینے کے بعد بھی سوئی نہیں تھی۔اسی کی باتوں میں گُم اسے یاد کر رہی تھی۔اُس کی باتیں اس کے لیے شاعری بن چکی تھیں جو اب اس کے خیالوں اور قلم میں سُر بھرتی تھی۔ اس کے ساتھ گزارا ہر لمحہ پہلے اس کے دل میں قلعہ بناتا پھر اس کی ڈائری میں ایک خوبصورت سا صفحہ۔ اس کی جڑوں میں اب اس کی جڑیں مل رہی تھی۔ اس کی زندگی اب اسی کے نام تھی۔
٭…٭…٭
’’کل جبین کے رشتے کے سلسلے میں دو عورتیں آئی تھیں۔‘‘
’’اچھا؟ کیا پوچھا پھر؟‘‘ سبزی خریدتے بڑی سی کالی چادر میں لپٹی خاتون نے تجسس سے پوچھا۔’’یہی کہ بھائی صفدر مرحوم تھے تو اور بات تھی پر ان کے جانے کے بعد تو ماں بیٹوں کے تیور ہی بدل گئے ہیں۔ ماں محلے کے لڑکوں کو نت نئے نام دینے میں مصروف ہے اور بیٹی پھیس بک (فیس بک) پر گل چھڑے اڑا رہی ہے۔‘‘ فرخندہ دایاں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے بولی۔
’’ہاں کہتی تو ٹھیک ہو میرا شانی بھی اس کے کرتوت بتا رہا تھا۔ اب کسی کو غلط مشورہ دے کر اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے۔‘‘ وہ دونوں آپس میں اپنے کارناموں پر تبادلہ خیال کر ہی رہی تھیں کہ فردوس نے سبزی کا بھائو تائو کرتے ہوئے سب سُن لیا۔ اب ایک جنگ تھی جو محلے میں چھڑنی تھی۔
فردوس غصے سے چُور گھر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگی تھی۔ دستک کی دہشت نے جبین کو بھی ہلا دیا اور وہ موبائل چھوڑدروازے کی طرف بھاگی۔ اندر آتے ہی فردوس نے اسی کو طلب کیا تھا جسے وہ چھوڑآئی تھی ۔ ’’کہاں ہے وہ فساد کی جڑ موبائل ؟ لا اسے آج میں آگ لگائوں۔‘‘ جبین کو اِس آندھی کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ جواب طلب کرتی رہی اور بدلے میں اُس کا موبائل اس آندھی کی زد میں آکر ٹوٹ چکا تھا۔ فردوس کے لیے سات ہزار ایک بڑی رقم تھی مگر وہ سات ہزار روپوں سے جبین کی زندگی کا سودا نہیں کر سکتی تھی۔
’’امی ہوا کیا آپ نے میرا موبائل کیوں توڑ دیا؟‘‘ وہ موبائل کی ٹوٹی سکرین دیکھ کر رو رہی تھی۔
’’ارے بھاڑ میں گیا یہ موبائل۔ جلادے اِسے، اِس کو لے کر بیٹھے گی تو کنواری ہی مر جائے گی کوئی نہیں آئے گا۔ کل بھی رشتے والوں نے صر ف اِسی کی وجہ سے منع کیا ہے۔‘‘ فردوس موبائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لہجہ نم کر چکی تھی اور سر پکڑ کر زمین سے جا لگی ۔ وہ گھر اب ایک قلم پکڑنے کی سزا بھگت رہا تھا اور اُس کا ہر ذرہ ماتم کر رہا تھا۔
جبین نے اب ٹیوشن دینا شروع کردیا تھا کیوں کہ فردوس نے موبائل کے لیے کسی بھی قسم کی مالی مدد سے انکار کردیا تھا اور دوسری طرف فردوس نے طرح طرح کے وظائف شروع کر دیے تھے۔تہجدکے الگ تو اشراق کے الگ۔ اب خدا کی محبت تھی یا حکمت کہ محلے والوں کی سب ہی من گھڑت کہانیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور جبین کے لیے ایک بڑے اور اچھے گھرانے سے رشتہ آیا اور یہی نہیں بلکہ انہیں جبین کے لکھنے پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا پھر کیا تھا فردوس بھی خوش ،جبین بھی اور اس کا قلم بھی۔ جبین اور فیض کی جلد ہی منگنی کروادی گئی اور شادی کی تاریخ ایک سال بعد کی طے کی گئی۔ جبین کا قلم اب ہنسنے لگا تھا کھلکھلانے لگا تھا اور یہ بات اُس کے فیس بک دوست بھی محسوس کر چکے تھے ۔
٭…٭…٭
شادی کی تیاریا ں عروج پر تھیں مگر خوش وہاں کوئی نہ تھاکیوں کہ کسی غریب کے گھر نیک اور شریف رشتہ تو پھر آس پاس ہضم ہو جایا کرتا ہے مگر رشتہ کسی امیر گھرانے سے ہو تو اچھے اچھوں کے پیٹ اور منہ کا ذائقہ خراب ہو جایا کرتا ہے۔ فضائیں ڈھولک بجا رہی تھیں ، ہوائیں مہندی کی خوشبو گھر گھر پھیلا رہی تھیں کہ گرج چمک کے ساتھ بادل برسنے لگے اور پھر برستے ہی گئے ۔
٭…٭…٭
’’تمہارے حساب سے دنیا کی سب سے بد ترین چیز کیا ہے ؟‘‘فیض نے آج اس گھنگریالے بالوں والی خوب صورت لڑکی کو لنچ پر انوائٹ کیا تھا۔ ’’بے جا تنقید۔‘‘ جبین نے بنا کچھ سوچے سمجھے جواب دیا۔ ’’تنقید…؟‘‘’’ہاں تنقید۔ میرے نزدیک ہمیں تنقید تب ہی کرنی چاہیے جب ہمارا مقصد کسی کی اصلاح ہو ورنہ بے جا تنقید بہت سوں کو چیرتے ہوئے نکلتی ہے اور پیچھے صرف ٹوٹے ہوئے دلوں کی کرچیاں ہی رہ جاتی ہیں۔‘‘ جبین کیخوب صورت مسکراتے لب اب قدرے سنجیدہ ہوچکے تھے۔’’پاگل! دل کبھی کرچی نہیں ہوا کرتے، جب تک اسے اپنے رب سے الگ نہ کردیا جائے، وہ تو صرف کچھ لمحوں کے لیے بھاگ جایا کرتے ہیں اور شدید دھند کی صورت میں ہمیں ٹوٹے ٹو ٹے لگتے ہیں۔‘‘ رائٹر تو وہ تھی لیکن فیض اسے خود سے بہتر معلوم ہو اتھااور اب اِسی بہتر شخص کے ساتھ زندگی گزارنا اُس کی خواہش اور اُس کے قلم کا جنون بن چکا تھا۔
٭…٭…٭
اس نے آج پندرہ ہزار والا موبائل دیوار پر دے مارا تھا۔ اب اس کا اِس موبائل سے کوئی رشتہ نہ تھا۔ وہ خود کو نوچ رہی تھی چلا رہی تھی۔ فردوس بھی اب اسے سنبھالنے سے قاصر تھی۔ بھلا وہ سنبھلتی بھی کیوں ؟ جو اس کی مملکت کے سردار کا عہدہ سنبھالے بیٹھا تھا اب وہ بستر پر ہلنے جلنے سے بھی قاصر تھا۔فیض کے گھر والوں نے جبین سے اس کی بیماری کے بارے میں چھپایا تھا۔ وہ ہیموفیلیا کا مریض تھا اور دماغ میں خون بہ جانے کی وجہ سے اب معذور ہو چکا تھا۔ جبین اب روز اس کے گھر جایا کرتی اس زندہ لاش سے گھنٹوں باتیں کرتی اور دل بہلا لیتی ۔ فردوس نے کئی بارا س پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی، مگر اس نے جبین کو اُس کے بغیرتڑپتے دیکھا تھا اور وہ ماں اسے پھر نہ روک سکی مگر ہر بار اسے یہ یاد دلاتی کہ اس نے جبین کے ساتھ دھوکا کیا ہے مگر وہ ہر بار یہی کہہ کر پھر سے اس کے پاس چلی جاتی کہ وعدے میںنے کیے تھے اس نے نہیں اورمیری محبت کسی بدلے کی محتاج نہیں۔ کچھ وقت یوں ہی چلتا رہا مگر پھر یہ بے ساکھی بھی جبین سے چھین لی گئی اور فیض نے مٹی کو گلے لگا لیا۔ جبین خود کو سنبھال سکی اور نا ہی فردوس میں اتنی ہمت تھی۔ دوسال تک اس کے مینٹل سیشن چلتے رہے اور دنیا کے لیے چیختی چلاتی اپنے احساسات ظاہر کرتی ابنارمل جبین اب خاموش ہو کر اندر ہی اندر اپنے اعضا نوچنے لگی تھی۔ سو وہ نارمل کہلانے لگی اور فردوس نے اس کی شادی طارق نامی پچاس پچپن سال کے آدمی سے کروادی جس کی بیوی دس سال پہلے وفات پاچکی تھی۔
٭…٭…٭
’’اور بھائی کیا حال چال ہے اوربھابی کیسی ہیں؟‘‘پینٹ شرٹ میں ملبوس چھوٹے قد کے آدمی نے اس کی دکان پر آتے ہی بے دھڑک پوچھا تھا۔’’صحیح ہے۔‘‘ اس نے راشن کوترتیب دیتے ہوئے سرسری سا جواب دیا۔’’اتنا لمبا سا منہ کیوں لٹکایا ہے بھائی،خیریت تو ہے ؟‘‘ ’’ہاں خیریت ہے۔‘‘ طارق جیسا زندہ دل انسان آج شادی کے چند دنوں بعد ہی مایوس تھا اور یہ بات سلمان کے لیے بھی تشویش ناک تھی۔ سو وہ اسے زبردستی پاس کے ڈھابے پر لے گیا۔
’’ہاں بھائی بتا اب…‘‘
’’یا ر کچھ نہیں بس جبین کی وجہ سے تھوڑا پریشان ہوں…‘‘
’’کیوں کیا ہوا۔‘‘
’’پتا نہیں لیکن اس لڑکی کے ساتھ کچھ بہت برا ہوا ہے۔‘‘
’’تو اس کی اماں نے بتایا تو تھا اس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔‘‘
’’ہاں مگر اس کو تو اتنا وقت گزر چکا ہے اب تک اسے سنبھل جانا چاہیے تھا یار۔ اس کی آنکھیں ہر سمت سے ٹوٹے دل کا عکس ہیں۔تجھے پتا ہے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے گھر میں کوئی مشین چل پھر رہی ہے۔ بولتی ہے نہ محسوس کرتی ہے بس کام کرتی رہتی ہے۔‘‘
’’پریشان نہ ہو وقت لگے گا لیکن سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘دونوں نے امید بھرا چائے کا سپ لیا۔
٭…٭…٭
طارق ناشتے کی میز پر بیٹھاا اخبار ہاتھ میں لیے موت کی خبروں کو چھوڑ کوئی غزل گنگنا رہا تھا۔ نا جانے شاعری اچھی تھی یا اس کی آواز کہ جبین کا میز ترتیب دیتا ہاتھ یک دم رک گیا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ طارق بھی اس کے پیچھے کمرے میں گیا تھا۔ وہ الماری میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ چند لمحوں بعد اس کے ہاتھ میں کچھ ڈائریز تھیں جو اپنی جگہ پر ویسے ہی رکھی ہوئی تھیں۔ ’’آپ نے میری پرسنل چیزوں کو ہاتھ کیسے لگا یا؟‘‘ وہ طارق سے مخاطب تھی۔’’میں نے کب ہاتھ لگایا؟‘‘ ’’پھر وہ شاعری؟‘‘’’وہ تو اخبار میں چھپی ہے۔‘‘ طارق نے اخبار اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر آگیا۔ کچھ دیر بعد وہ بھی اخبار پر نظریں جمائے باہر آکر طارق کے برابر رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔’’یہ آپ نے بھی ؟‘‘ جبین کی آنکھیں نم تھیں وہ ڈھائی سال بعد آج ہوش میںآئی تھی۔ طارق بنا جواب دیے اخبار کے صفحے پلٹتا رہا اور وہ مسکرادی تھی۔
٭…٭…٭
پورا ہال کیمرا فلیشز سے جل بجھ رہا تھا۔ایک کیمرا کسی ایکٹر کو کوریج دے رہا تھا، تو دوسرا کسی سنگر کو …ایم کے پبلشرز کی جانب سے منعقد کی گئی یہ شان دار تقریب ان کے ایک ناول کی کامیابی کی خوشی میں تھی جسے جلد ہی ڈرامائی شکل دی جانی تھی۔ ٹی وی چینلز کے کیمروں کی پیٹ بھرائی ،زبردست ویلکم پرفارمنس اور دھوم دھڑکے کے بعد اب باری تھی اِس ناول کے مصنف کی۔ جس کی وجہ سے وہ شاہکار ایم کے پبلشرز کے ہاتھ لگا تھا۔اینکر نے اپنے منفرد انداز میں تالیوں کے زور میں استقبال کیا تھا، اس ناول’’فیس بک رائٹر ‘‘کی مصنفہ کا جس کو اب ایک ٹرافی اور بُوکے کے ذریعے سرا ہا جا نا تھا۔ اسٹیج کی سیڑھیاں پار کرتے ہوئے اس نے ہر ایک سیڑھی پر ایک تلخ یاد کو پیروں سے روندا تھا اور کچل کر اپنے نصیبو ں اور سپنوں کو چھونے اوپر پہنچ چکی تھی ۔ اسے تالیوں کی سُریلی آواز کسی دریا کی موجوں سی لگ رہی تھی۔ اس نے ٹرافی ہاتھ میں لے لی ۔ بہت سے کیمروں نے اسے خود میں قید کیا اور وہ ڈائس کی طرف بڑھی ۔ ایک بار پھر موجیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں اور وہ مسکرائی۔
’’السلام علیکم! ‘‘اس نے ٹرافی ڈائس پر رکھی۔ تالیوں کی گونج رک گئی۔
میری کہانی فیس بک رائٹر کسی ایلس، سنڈریلا یا سنو وائٹ کی کہانی نہیں ہے۔ یہ کہانی میری کہانی ہے جبین دا رائٹر کی کہانی۔ جس نے فیس بک پر لکھنے کی بڑی مہنگی قیمت ادا کی۔مجھے نہیںپتا میرا جرم کیا تھا یا میر ا مجرم کون تھا، مگر ایک بات ضرور کہوں گی کہ یہ معا شرہ آج بھی مجرم کو تو سراہ سکتا ہے لیکن کسی جبین کو نہیں۔یہ کہانی شروع میں نے کی تھی اور اِس کو اختتام اس نے دیا جس تک آکر میری زندگی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اسی نے مجھ سے لکھوا یا اور فیس بک پر ایک بار پھر میری تحریر پوسٹ کی مجھ سے بغیر پوچھے اور اس کی کامیابی کی صورت میں اسے ایک اختتامی شکل دی۔ یہ سب کرنے والے میرے شوہر طارق تھے۔ ایم کے پبلشرز کی جانب سے پہلے ناول کی آفر کی گئی پھر ڈرامے کی اور وہ یادوں، رویوں تلے دفنائی گئی۔ جبین ایک بار پھر زندہ ہوگئی۔ مگر کیا ہر جبین زندہ ہو پا تی ہے؟ کیا ہر جبین میں زندہ ہونے کی طاقت بچتی ہے ؟ کیا ہر جبین کی زندگی میں کوئی طارق آتا ہے ؟ نہیں ہر جبین کو طارق نہیں ملتا۔ کئی جبینیں آپ کی تنقید آپ کے مذاق کی بھینٹ چڑھ جایا کرتی ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے آپ کی تفریح میں کی جانے والی تنقید یا مذاق آپ کو کتنے بہتے اشکوں کا جواب دہ بناتا ہے ؟ تنقید اصلاح کے لیے کی گئی ہے یا خود کا دل بہلانے اور تفریح کے لیے اِس کا گواہ خود آپ کا لہجہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا کی اِس دنیا میں ہم سمجھ ہی نہیں پائے کہ سوشل میڈیا دراصل ہے کیا؟کہ وہاں بھی ایک سوشل لائف ہوتی ہے۔ وہاں بھی انسانی احساسات ٹہل رہے ہوتے ہیں۔ وہاں ہر پوسٹ، ہر سٹیٹس، ہر چیٹ کے پیچھے کوئی روبوٹ نہیں ہوتا بلکہ باقاعدہ ایک انسان ہوتاہے اس کے پاس بھی ویسا ہی دل ہوتا ہے ویسے ہی جذ بات ہوتے ہیں جیسے آپ کے پاس ہیں۔کسی کو کچھ بھی کمنٹ کر دو، کسی بھی لڑکی کی زندگی تباہ کردو ، کسی بھی لڑکے کوبے وقوف بنالو۔ کیا یہ کوئی جی ٹی اے وائے سٹی ہے یا آپ کا کوئی اور انٹرنیشنل گیم ؟ نہیں یہ کوئی مذاق یا تفریح نہیں ہے۔ یہ زندگیوں کا سوال ہے۔ خوابوںکی اُمیدوں کا سوال ہے۔ آخر میں صرف ایک ہی سوال ہے ہر اس جبین کا جسے سوشل میڈیا استعمال کرنے کی بھاری بھرکم قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ آپ سے پو چھ رہی ہوں کہ یہ معا شرہ ترقی کر رہا ہے، نئی نئی ٹیکنالوجی، نئی ایڈوانسمنٹ آرہی تھی مگر کیا آپ اِس ایڈ وانسمنٹ کے قابل ہیں ؟ اِن چھوٹے چھوٹے اور پھٹے ہوئے کپڑوں سے آپ اپنی دوغلی ایڈوانسمنٹ کب تک جتاتے رہیں گے ؟‘‘ کچھ دیر کے لیے پورے ہال میں سناٹا چھا گیا اور کچھ لمحو ں بعد اس نے شکریہ کے ساتھ ٹرافی ہاتھ میں لی اور واپس مڑنے لگی کہ وہ مو جیں اسے پہلے سے زیادہ زور میں سنائی دی تھیں۔ سب ہی اپنی نشستوں کو چھوڑ کھڑے تھے اور وہ بھیگی آنکھیں لیے نیچے اتر رہی تھی اپنی نشست کی جانب بڑھ رہی تھی۔