علی پور کا ایلی —— محمد فہدخان چغتائی

پچھلے پہر جب چاند بھی ڈھل گیا ہوتا ہے اور تاروں کی بارات بھی قریباً جاچکی ہوتی ہے، بجنے والی یہ مترنم سی گھنٹی میرے خوابوں کو چکنا چور کرگئی۔
“کون ؟” میں نے ذرا سی خفگی اور بہت سی غنودگی میں پوچھا۔
“آپ کون ہیں؟” رات کے اس پہر ایک نسوانی میٹھی آواز اور اس پر مستزاد اردو کی شیرینی۔۔ جب اندھیری رات میں کسی حسینہ کی ان جان نمبر سے کال آئی تو ایسا لگا، جیسے تاریکی میں بیٹ گرل نے بیٹ مین کو مدد کے لئے پکارا ہو۔
“اجی کال کرنے کی زحمت آپ نے فرمائی ہے سو اپنی شناخت ظاہر کرنے کی تکلیف بھی برداشت کیجئے۔” میں بھی اپنی طرف سے شوخا ہوا۔
“دیکھیے! اگر آپ شیر افگن بات کررہے ہیں تو میں آپ کو اطلاع دینا چاہتی ہوں کہ آپ کا ناول میرے پاس موجو د ہے۔ یہ مجھے لائبریری سے ملا تو میں نے اٹھا لیا۔ آج لائبریری کے نوٹس بورڈ پر آپ کا اشتہار دیکھا اور آپ کا نمبر نوٹ کرلیا، لیکن ناول اْس وقت گھر پڑا ہوا تھا۔ اب جب رات کو میں سونے لگی تو یوں ہی ناول اٹھا کر ورق گردانی شروع کی ا ور اس میں کھوتی ہی چلی گئی۔۔۔”





کس قدر شیریں لہجہ ہے، کاش یہ داستان مزید طویل ہو اور یہ اسی لہجے میں مجھے بتائے کہ کس طرح غلطی سے ناول پر کافی گر گئی اور وہ اس پر شرمندہ ہے۔ وہ مجھ سے معافی طلب کرے اور میں اسے اک ادا سے کہوں:
“جانے دیجیے نا۔۔۔بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں سینیوریٹا۔”
مگر اس دوشیزہ کے اگلے الفاظ “کمال “کے تھے:
“اتنا فضول ناول ہے۔۔۔ اتنا فضول ناول ہے کہ میں کیا کہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں رات گئے آپ کو جگا کر احساس دلا رہی ہوں کہ محترم ایسے فضول عشق و معشوقی والے ناول اول تو پڑھا نہ کریں، اگر پڑھنا آپ پر فرض ہے تو انہیں کہیں بھول کر نہ آیا کریں، خاص طور پر ایسی جگہ نہ بھولا کریں جہاں میں پائی جاتی ہوں۔” وہ قدرے غصے میں بول رہی تھی لیکن مجھے اسی بات کی خوشی تھی کہ وہ بول تو رہی ہے۔
“آپ نے بالکل بجا فرمایا، لیکن مجھے کیا معلوم کہ آپ کہاں پائی جاتی ہیں؟” اب میں زبانی کیل کانٹے سے لیس ہو چکا تھا۔
“ویری فنی!” اس نے کندھے ضرور اچکائے ہوں گے اور برا سامنہ بھی بنایا ہوگا،میری چشمِ تصور دیکھ سکتی تھی۔
“اگر ناول چاہیے تو کل دوپہر تین بجے کے بعد قائداعظم لائبریری میں آجائیے گا اور میسج کر دیجیے گا۔” مسرت کی گھڑیاں اختتام کو پہنچیں اورپیچھے سے مانوس سی منحوس آواز آئی:
“ارے او شیرے! چھوڑ دے یہ چھوریوں کے لفڑے، تمہارے ماں باپ چندا کرکرکے تم کو پڑھاویں ہیں اور تم یہاں چھوریوں سے لگے ہو۔”
میں نے گھور کر اپنے روم میٹ کو دیکھا لیکن کچھ نہ نظر آیا، اول تو اندھیرا تھا، دوجا ان صاحب کا رنگ توت سیاہ تھا۔
میں اگلے دن کی ملاقات سے زیادہ ملاقاتی کے بارے میں سوچتا سوچتا نیند کی وادیوں میں اترتا چلاگیا۔
صبح سویرے ساتھ والے کمرے سے اشرف بھائی کی پینٹ پکڑی اور ارشد صاحب سے بوٹ۔ اپنے صابن سے نہایا ،کریم روم میٹ کی اور احسن کے روم سے سینٹ لگا کر دفتر پہنچا۔ دفتر میں سب نے میرا جائزہ لیا۔
باس کے کمرے میں جانا ہوا تو پہلے انہوں نے مجھ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی پھر گویا ہوئے:
“دیکھیں شیر افگن، آفس کا ماحول ایک فیملی کی طرح ہے، یہاں پر کام کرنے والے فیملی ممبرز کی طرح ہیں، کوئی آپ کا بھائی ہے تو کوئی بہن، اور کوئی ماں جیسی۔۔”
“اور کوئی بیوی جیسی۔۔؟” میں نے دل ہی دل میں سوچا مگرپوچھ نہیں سکا۔





“تو مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے۔” باس نے اپنے بڑھے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
“بالکل سر! میں آپ کی بات مکمل طور ر سمجھ رہا ہوں۔” مگر باس نے میری بات نہ سنی، کیوں کہ ان کی بیگم کی کال آگئی تھی۔ وہی بیگم جو چند ماہ قبل تک ان کی پرسنل سیکرٹری تھی۔ باس نے مجھے انگلی کے اشارے سے کیبن سے دفع ہوجانے کو کہا۔ تو ہم نے اسی میں عافیت جانی۔
باس سے بچ کر میں آفس کی تہمینہ سے نظریں چھپا کے بیٹھا رہا جو پرشوق نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی اور گاہِ بہ گاہِ میرا کمپیوٹر استعمال کرنے آجاتی۔
“وہ کیا ہے افگن کہ میرا سسٹم آج کام نہیں کر رہا۔” وہ آنکھیں چلاتے ہوئے کہتی ہم بالکل نظر انداز کردیتے۔
جوں توں کرکے وقت گزرا، آفس سے جان چھٹی اور میں مال سے ہوتاقائدِ اعظم لائبریری کی جانب لپکا۔
“میں پہنچنے ہی والا ہوں۔” میں نے قریب پہنچ کر اسے میسج کیا لیکن جواب ندارد۔
لائبریری اتنی بڑی ہے میں اسے ڈھونڈوں کیسے؟ مجھے تو نام بھی نہیں پتا اس کا۔۔۔ لائبریری میں کھڑا میں یہ سب سوچ رہا تھا کہ عقب سے وہی دل فریب آواز آئی:
“آپ شیر افگن ہیں۔۔۔؟” میں نے مڑ کر دیکھا۔
”تو یہ ہیں وہ۔۔ واہ! ماشا اللہ، بلکہ سبحان اللہ۔۔۔ ارے نہیں بلکہ ان شا اللہ!!! چندے آفتاب چندے ماہتاب۔۔ تیری صورت۔۔۔آہا جی،تیری صورت۔۔۔ آفریں آفریں آفریں آفریں۔۔ تو بھی دیکھے اگر تو کہے ہم نشیں۔۔۔”
“او، ہیلو! کس خیال میں ہیں؟ آپ شیر افگن ہی ہیں ناں؟” اس نے دوبارہ اپنے اسی خمار چڑھادینے والے سحر انگیز لہجے میں پوچھا۔ میں جو بس اس کو بولتے دیکھ رہا تھا، یک دم ہوش میں آیا؛
“جی جی! مم میں ہی شیر افگن ہوں۔”
“تو بولیے نا اور اگر نہیں بول سکتے تو ایک صفحے پہ لکھ کر گلے میں ڈال لیں، چار پیسے اکٹھے ہو جائیں گے۔” اس نے ہمیں ”جگت” مارتے ہوئے نصیحت بھی کی۔
“ارے نہیں نہیں ایسی بھی بات نہیں۔۔ بس میں تھوڑا کند ذہن ہوں۔ تو۔۔ ورنہ۔۔۔” ابھی میں جملہ مکمل بھی نہ کرسکا تھا کہ اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے چپ کروایا۔
“یہ لیجیے اپنی کتاب۔”
“شش شک۔۔۔” میں نے کتاب لینے کو ہاتھ بڑھایا اور اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔





“عجیب آدمی ہیں آپ! آپ کی کتاب لوٹا رہی ہوں، یہاں لوگ کسی کو سلام کا جواب نہیں لوٹاتے، شکریہ ادا کریں میرا، چلیں اور چائے پلائیے مجھے۔ تب کتاب ملے گی آپ کو۔” اس نے کتاب اپنی جانب کھینچتے ہوئے کہا۔
“جی ضرور ضرور!” میری شعلہ نوائی کالج میں مشہور تھی لیکن آج حد وں سے ماورا لڑکی ملی تھی۔
“شیرے کا جگتوں میں کوئی جوڑ نہیں۔” سبھی کہتے تھے۔ خیر جوڑ تو اب بھی نہیں بس اس بار مقابلے میں حْسن لا کر مجھ سے چیٹنگ کی گئی تھی، اس لئے شیرے کا ہارنا بنتا تھا۔ اتنی خوب صورت ہار تو گلے میں آویزاں کرنے کے لائق ہوتی ہے۔
سامنے موجود ڈھابے سے چائے لے کر میں اس کے سامنے میز کی دوسری جانب آبیٹھا۔ سردیوں کی اس ٹھنڈی سی دھوپ میں ارد گرد پھیلا کہرا اس کو کچھ اور نمایاں کر رہا تھا۔ اس کے سفید سوئٹر پر بکھری برائونش بلیک زلفیں اس کے حسن کی لو بھڑکا رہی تھی۔ اس سردی میں اک الائو تھا جو میرے سامنے کرسی پر جل رہا تھا، بھڑک رہا تھا، اور اس میں سے نکلنے والے شرارے میری طرف لپک رہے تھے۔ وہ سردی کی شدت کم کرنے کو دونوں ہاتھوں سے کپ مضبوطی سے تھامے بیٹھی تھی۔۔۔ اور میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ اس طرح کہ اگر وہ اوپر دیکھے تو میں نظر چرا سکوں۔ پنکھڑی جیسے لبوں میں لرزش ہوئی:
“حکومت کو ایک قانون بنادینا چاہیے۔۔۔ کوئی شخص ایسی کتاب پڑھتا ہے تو اسے سات سال مع قید سے کم سزا تو نہ ہونی چاہیے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟؟؟”
“ارے سزا دینی ہے تو مصنف کو دیجیے وہ کیوں ایسی کتاب لکھتا ہے؟” سزا کا سُن کر ہم تھوڑا گڑبڑا گئے۔
“بالکل نہیں۔ اگر کوئی شخص خدا کی بنائی آزمائش پر پورا نہیں اترتا تو قصور وار کون ہے؟ وہ شخص یا سزا؟” وہ سردی سے سرخ ہوتی جارہی تھی اور میں اس کے گالوں کو سردی سے سرخ ہوتے دیکھ رہا تھا۔
“یعنی کتابیں اس لئے لکھی جاتی ہیں کہ قاری کو سزا دی جائے؟” میں نے اس کی طرف دیکھا اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی، گویا جلترنگ بجا تھا کہیں قریب۔
“لیجیے، میرا مطلب یہ بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھیے عشق محبت، یہ سب بہت پرانا ہوگیا۔ اب ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہی۔ انسان کو پریکٹیکل اپروچ کا مالک ہونا چاہیے۔” اس نے یہ جملہ اپنی ہنسی روکتے ہوئے ادا کیا تو اور بھی اچھا لگا۔
“بالکل! میں آپ کی تائید کرتا ہوں۔ پریکٹیکل اپروچ کے ذریعے ہی ہم آج کی دنیا میں جی سکتے ہیں۔ اگر ہم مجنوں کی طرح کپڑے پھاڑ کر دشت میں جا گھستے ہیں تو دنیا کیسے چلے گی؟ اور ویسے بھی دشت میں ہم رہ نہ پائیں گے کیوں کہ وہاں پتلی پن والا چارجر نہیں ملتا جو کہ اب بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے اور بغیر کپڑوں کے شرم کے مار ے آبادی میں بھی نہ آئیں گے۔ وہیں خود میں سمٹ کر مرجائیں گے تو بتائیں کیسے چلے گی دنیا؟” اور اس بات نے مجھے اس کی وہ جھلک دکھلائی کہ جس کو دیکھ کر شیرافگن کے دل میں حسن کوزہ گر بننے کی کسک جاگی۔
“نوسال کا عرصہ کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں ہوتا۔” میں نے سوچا۔





اس نے بائیں ہاتھ سے کپ تھاما اور دائیں ہاتھ سے آوارہ زلفوں کو ہاتھ کی کنگھی بنائے پشت پر ڈالتے ہوئے بولی:
“یہ آپ کا ذاتی خیال ہے یا میری ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں؟ ”
“ارے میرا اپنا خیال ہے، جملہ حقوق محفوظ ہیں اور مصنف کی اجازت کے بغیر اشاعت قانوناً جرم ہے اورکسی بھی قسم کی غیر قانونی اشاعت پر مصنف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتا ہے۔۔” وہ پھر کھلکھلا اٹھی، اب کے بار تھوڑی سی چائے چھلکی بھی تھی۔
“آپ بہت فنی ہیں!” ایسے ناول ناں نہ پڑھیا کیجیے۔ آپ کا ذہن خراب ہی نہ کردیں۔۔۔” اس نے کہا۔
“میں تو ان کو اس لئے پڑھتا ہوں کہ ان چیزوں سے بچنے کا لائحہ عمل طے کرسکوں۔۔۔ لیکن یہ ایک جملہِ معترضہ ہے۔ یہ کتاب در اصل ایک دوست کے لئے ایشو کروائی گئی ہے۔ میں ایسی کتابوں میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ مجھے فلسفے سے لگائو ہے۔۔۔” میں نے اپنی پوزیشن کلیئر کرتے ہوئے کہا۔
“اور مجھے نفسیات سے۔۔۔ کبھی نفسیات پڑھ کر دیکھیے، کتنا دل چسپ ہوتا ہے کہ آپ کسی شخص کے آئندہ قدم کے بارے میں جان سکیں، اس کے ذہن میں چلنے والے خیالات سمجھ سکیں، آپ کو لگنے لگتا ہے کہ جیسے آپ خدائی راز جاننے لگے ہیں۔” یہ بات کرتے ہوئے اس کا جوش قابلِ دید تھا۔
ہم نے باتیں کیں اور چند قہقہے لگائے، اس دوران بار بار اس کی آوارہ زلفیں اس کے چہرے پر آجاتیں، وہ انہیں پشت پر ڈالتی رہی، پھر ہم ایک دوسرے کو خداحافظ کہہ کر واپس چلے آئے۔ اس سب میں ہمیں پندرہ منٹ لگے تھے۔
آج پندرہ سال ہوگئے ہیں میں نے اس سے کبھی نہیں پوچھا کہ اس دن اس نے وہ کتاب کیوں نہیں لوٹائی تھی، نہ ہی اس نے سوال کیاکہ میں وہ کتاب اس سے لے کرکیوں نہیں گیا تھا۔وہ کتاب آج بھی ہمارے کمرے میں بیڈ کے بالکل سامنے والی الماری میں رکھی ہے، اور ہم کبھی کبھی خاموش بیٹھ کر اس کی جلد پر لکھا نام پڑھتے رہتے ہیں۔۔۔ علی پور کا ایلی!

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ایک معمولی آدمی کی محبت —- محمد جمیل اختر

Read Next

میں کون ہوں —- مائرہ قیصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!