عام سی عورت — مریم جہانگیر

شام کا پرندہ روشنی کو قطرہ قطرہ اپنے اندر جذب کر کے دن بھر کی تھکن اتارنا چاہتاتھا۔ اُسے خوابوں کی سر زمین پہ قدم رکھنے کی جلدی تھی۔فلک پہ ہلکی ہلکی سی شفق اپنی بے بسی کا نوحہ پیش کر رہی تھی۔
مجھے بھی زندگی سے کوئی امید نہ رہی تھی بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ بڑی عام سی لڑکی تھی، میں نے کبھی خواب نہیں پالے۔ نہ کسی کے ملن کی دعائیں مانگیں نہ کسی کے ہجر میں آہیں بھریں۔ مجھ جیسی سینکڑوں لڑکیاں عام سی زندگی جیتی ہیں اور کبھی جیتے جیتے زندگی ہار جاتی ہیں۔ انہیں ڈپریشن جیسے امیرانہ مرض سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا۔کبھی وہ راتوں کو چھت پہ بیٹھ کر اپنی کم مائیگی کا رونا نہیں روتیں۔ وہ زندگی کو عام سا سمجھتیں ہیں اور زندگی انہیں عام سا جان کر گزر جاتی ہے۔ جب ان کی موت کا سندیسہ آتا ہے تو اَن گنت بے چین رشتے بال کھول کر بین کرنے لگتے ہیں۔ بہت سے تعلقات اور دوستیاں تکیوں کو گیلا کر دیتی ہیں۔
زندگی میں پتا نہیں کہ عورت کا ہونا معنی بھی رکھتا ہے یا نہیں لیکن موت بتاتی ہے کہ نجانے کتنی زند گیا ں، کتنے وجود یہ عورتیں اپنے سر پہ لئے پھر تی ہیں ۔ایک ان کے نہ ہونے سے نظامِ زندگی شکایت کرتا ہے اور باقاعدگی ماتم کرنے لگ جاتی ہے۔ مجھے ایسا ہی بننے کا شوق تھا ایک عام سی لڑکی۔۔ ایک عام سی عورت۔۔۔۔ میں نے کسی بجتی سیٹی کو سن کر نہیں سوچا کہ یہ میرے لہراتے آنچل کا نتیجہ ہے۔میں نے کبھی کسی قطار میں لگ کر بے چینی کا مظاہرہ نہیں کیا کہ کسی بھی غلط درست راستے کو اپنا کر پہلے اپنا کام نکلوا لوں۔ مجھ میں قدرتی طور پہ بہت سرد مزاجی تھی، بہت چین بہت سکون۔۔۔۔۔۔ نہ نمازوں میںلمبے لمبے سجدے کرتی اور نہ ہی منڈیر پہ بولتے کوئے کی کائیں کائیں سے کسی کے آنے کو منسوب کرتی۔۔۔ لیکن ایک لڑکی ہوں ناں ؟ کب تک اکیلی رہتی میری زندگی میں کسی کو آنا ہی تھا اور وہ آیا۔۔۔ اس کا نام فواد مرزا تھا اور میرا نام سمیعہ ناز۔۔۔۔۔ میں نے اس کو دیکھا نہ جاننے کی خواہش ظاہر کی ۔سچ تو یہ ہے کہ میرے اندر اُسے دیکھنے کی خواہش بھی نہ پیدا ہوئی تھی۔
مجھے تلاطم سے خوف آتا ہے، مجھے ہیجان انگیز رویے پریشان کرتے ہیں۔ میں شدتوں سے بھاگنے والی بڑی عام سی ڈگر کو چننے والی اور اس پہ نپے تلے سے قدم رکھنے والی لڑکی ہوں۔ میرے اندر کبھی ایسا طوفان اٹھا ہی نہیں کہ مجھے اپنی طاقت کا اندازہ ہوتا۔فواد میری زندگی میں آئے تو کچھ دنوں کے لئے مجھے لگا کہ میری ذات اور ساری راز کی باتیں بودی ثابت ہوں گی جس طرح وہ میرے ہر رمز پہ ہاتھ رکھ کر مجھ سے انوکھے رویوں اور طریقوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ ضرور میرے اندر کوئی جوار بھاٹا اٹھا ہی دیں گے لیکن یہ سارا خیال، یہ سب قیاس وقتی ثابت ہوا۔وہ مجھے روح پرور لگتے، میرے جنم جنم کے ساتھی ۔۔۔۔ میرے اندھیروں کے دوست ۔۔۔میرے لئے روشنی کا منبع ۔۔۔اس سب کے باوجود میں ان کے لئے دیوانی نہیں ہوئی۔ بہ ظاہر سب کچھ وار دیتی لیکن کہیں اندر ہی اندر یہ احساس کروٹیں لیتا کہ یہ جو ظاہر کر رہی ہوں یہ کچھ بھی نہیں اس سے کہیں زیادہ جولانی میرے اندر ہے۔ لیکن میں بس اتنا ہی اپنا آپ ظاہر کرتی جتنی مجھے ضرورت ہوتی، جتنا اشد ضروری ہوتا اس سے آگے لفظ ہونٹوں کا ساتھ چھوڑ دیتے اور آنکھیں مفہوم سمجھنے سے انکاری ہو جاتی۔پھر یوں ہوا کہ مجھے امید مل گئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

میرے دل کو پر لگ گئے اور وہ ہر وقت سات آسمانوں کے چکر کاٹتا۔ میں اتنی خوش تھی کہ ہر کوئی حیرت سے مجھے دیکھتا۔ فواد بھی کہتے کہ تمہیں دلہناپے میں اتنا روپ نہیں آیا تھا جتنا حسن تمہیں ماں بننے کی خوشی نے بنا دیا ہے۔میں خود تسلیم کرتی کہ میرے قدم تو زمین پر لگتے ہی نہ تھے، میں اڑی اڑی پھرتی، ہوا کی دوش پہ خود کو آزاد چھوڑ دیتی۔ مجھے لگتا ہر لمحہ مجھے جھومنے پر مجبور کر رہا ہے اور میں روئے ارض پہ سب سے خوش نصیب عورت ہو جس نے اعتدال میں رہ کر اللہ کی نعمتوں کو خود پہ مہربان کر لیا ہے۔
جھولتی مہکتی رہی اور مجھے پتا ہی نہیں چلا کب میرا پاؤں سیڑھی سے پھسلا اور کب میرے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی۔ میری مدہوشی ہوش میں بدلی تو اپنا آپ اتنا گناہ گار محسوس ہوا کہ آئینہ دیکھنے سے بھی شرمندگی محسوس ہوتی۔رائی کے دانے برابر تکبر بھی جہنم میں لے جائے گا۔ کہیں یہ اعتدال میں رہنے کا غرور مجھے اس جہان میں تہی دامن نہ کر دے۔میرا دل شکنجے میں آگیا۔ میں جب ہسپتال میں داخل ہوئی تو ڈاکٹر نے زندگی کی نوید سنائی۔۔۔۔
میری جان کا حصہ، میری جان مجھ میں زندہ تھا۔ باقی تھا میں پھر سے جی اٹھی۔مجھ پہ یہ عقدہ کھلا کہ توبہ سے کہیں پہلے احساسِ ندامت کی کیفیت بھی رب کی رحمتوں کی نشانی میں سے ایک ہے۔
مجھے احتیاط کی ضرورت تھی۔ فواد نے مجھ پہ زندگی اور موت کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ان کی سرکاری اعلیٰ عہدے کی نوکری کی مہربانی سے مجھے سرکاری ہسپتال میں تمام آسائشات کے ساتھ داخل کر لیا گیا کہ جب تک میں زندگی کو موت کے منہ سے کھینچ نہیں لاتی یہیں میری دیکھ بھال ہوگی۔
میں خوش ہوگئی کہ گھر میں کوئی اور تھا نہیں جو مجھے صحیح غلط یا احتیاط اور پرہیز سمجھاتا۔ مجھے ہسپتال کا ہر کارندہ نجاتِ دہندہ لگتا، ہر ذی روح پہ مسیحا کا گمان ہوتا۔سب اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا۔بڑے دروازے پہ کھڑا وہ بوڑھا سا بابا، جب فواد پھول لے کر آتے تو مسکرا کر انہیں دیکھتا پھر نظر اوپر کی کھڑکی پہ ڈالتا اور ایک پیاری سی مسکراہٹ سے مجھے بھی نوازتا۔
شاید وہ بھی کبھی ۔۔۔۔کسی کو ایسے ہی گلاب دیتا رہا ہوگا، جس کی یاد اسے مسکرانے پہ مجبور کردیتی۔ کوڑے دان کو خالی کرنے کے لئے آتی بزرگ خاتون جو بہت پیار سے مجھے دلاسہ دیتی، اپنے ہونے کا احساس دلاتی جواباً میں بھی اس کی مٹھی گرم کردیتی۔ مجھے بھی تو اپنے ہونے کا احساس دلانا تھا۔
نرس آتی، انجکشن لگاتی، میرا معائنہ کرتی، میری آنکھوں میں سو ڈر اور ہزار وسوسے جاگ جاتے۔ میرے لرزاں لب اپنی پریشان حالی کا رونا رونے کو مچلنے لگتے۔وہ سفید کوٹ والی، زندگی آسان کرنے والی میرے دائیں ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر سہلاتی اور تھپکتی کیوںکہ بائیں ہاتھ میں لگا کینولا اسے اس شفقت کی اجازت نہ دیتا۔ایک کرخت آواز والی مائی بھی کمرے اور راہ داری کی صفائی کرتی اور بڑبڑاتی رہتی ”غلاظتیں پھیلانے والے غلاظتیں سمیٹنے والوں کو جوتی کی نوک پہ کیوں رکھتے ہیں؟ اتنے ہی ستھرے ہیں تو اپنا گند خود کیوں نہیں اٹھاتے۔ اُجلے لباس پہن کر اپنے اندر کی کالک چھپانے والے ہماری محنت کو نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔” سب اس کی باتیں خاموشی سے سنتے وہ بولنے والوں کو موقع دینے والوں میں سے نہیں تھی۔ نرم خو قدرے پکی عمر کی ڈاکٹر بھی میرے کمرے میں آتی۔انتہائی پیشہ ورانہ مسکراہٹ نچھاور کرتی فٹا فٹ روزمرہ کا معائنہ کرتی آدھا جملہ اردو میں بولتی اور بقایا آدھے میں اپنی انگریزی کے ٹوٹے جوڑتی جیسے رلّی (سندھی چادر) بناتے ہیں جس میں ہزار ٹکڑے جڑتے ہیں لیکن پھر بھی نظر کو برے نہیں لگتے۔
ایسے ہی اس کی آواز بھی کانوں کو مانوس سی لگتی۔شائستہ سی، نپی تلی،ٹھہری ٹھہری۔۔۔۔۔ پھر وہ ہوا کی دوش سے قدم ملاتی اگلے کمرے کی جانب بڑھ جاتی جہاں بسترِ مرض پہ پڑی کوئی عورت شدت سے منتظر ہوتی۔
دن قریب آگئے مجھے متلی کی شکایت رہنے لگی حالاںکہ شروع میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ہر عورت کا ماں بننے کا تجربہ دوسری عورت سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ دنیا سے نرالا کام کرنے جا رہی ہے۔
اس انتظار میں کتنا لطف ہے؟ مجھے ہر لمحہ محسوس ہوتا کہ اب بس میرا لمس، میرے ہی لمس سے آشنا ہوجائے گا۔ فواد آتے تو مجھے کمرے سے باہر راہ داری میں ہاتھ پکڑ کر واک کرواتے۔ گردوپیش کی عورتیں حسرت سے دیکھتیں اور میں ناز سے بوجھ ان کے مضبوط ہاتھوں پہ ڈال دیتی ۔ وہ فخر سے مجھے سنبھال رہے ہوتے۔ ایک دن جونہی کمرے سے باہر نکلے، صفائی والی مائی ہاتھ روک کر میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی: ”نی کڑئیے تجھے آرام نہیں؟ اتھوں میں صفائی کیتی نال ہی تیرا دل کھٹا ہوگیا۔ ہون گندے پیر ایتھے اُوتھے مارے گی تے میرا کام ودائے گی۔”اس کی آواز میں عجب کرختگی تھی اس نے اپنی بات مجھ تک پہنچانے کے لئے گلابی پنجابی کا سہارا لیا۔
یہی بات وہ پیار سے کہتی تو میں کچھ دیر بعد چہل قدمی کر لیتی۔چوںکہ اس نے بات غلط طریقے سے کی تھی اس لئے ردِ عمل بھی مجھ پہ واجب تھا۔ فواد کسی دوسری عورت کی طرف کم ہی متوجہ ہوتے چاہے وہ کیسی بھی ہو۔ان کے رویے سے متعلق شکایت ان کے ساتھ کام کرنے والی لڑکیاں بھی ذومعنی انداز میں مجھ سے کرتیں۔ لیکن میں کان نہ دھرتی۔ کوئی دوسرے معنی نہ ڈھونڈتی بس ہنس کر ٹال دیتی۔مجھے واک کرانے اور باقی سارے کام کرنے کے بعد رات میں فواد کو گھر جانا تھا اور مجھے وہ لذت آمیز خواب دیکھنا تھا۔
میں نے خواب دیکھا کہ میں جھیل کے کنارے بیٹھی ہوں، جس کے ہلکورے لیتے پانی کی ٹھنڈک دور سے ہی محسوس ہو رہی ہے۔ اس کے صاف پانی پر ہتھیلی برابر بڑے بڑے سرخ گلاب تیررہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ میری نظر میری ہی گود پہ واپس آتی ہے تو ایک انتہائی پیارا بچہ میری گود میں ہے جس کی پیشانی کے بائیں جانب میری انگلی کے پپوٹے کے برابر سیاہ رنگ کا داغ ہے۔ میرا دل مامتا کے جذبات سے لبریز ہو کر اس کی پیشانی پہ بوسہ دینے کی خواہش کرتا ہے۔ میں جب اسے چومتی ہوں تو اس کے وجود سے مجھے میری اپنی خوشبو آتی ہے۔میں اُسے خود میں بھینچ لیتی ہوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ اتنے میں فواد آتے ہیں اور مجھے شال اوڑھاتے ہیں۔ اسی اثنا میں میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو صبح کا وقت تھا اور فواد واقعی مجھے کمبل اوڑھا رہے تھے میں مسکرائی۔ انہیں خواب میں شریک کیا وہ بھی مسکرانے لگے۔ نماز پڑھی مجھے ناشتہ دے کر وہ دفتر کے لئے نکل گئے۔ دس بجے نرس آئی اور مجھے تھپک کر ایک انجکشن لگا کر چلی گئی۔
کوئی گیارہ بجے کا وقت تھا درد کی ایک شدید لہر اٹھی۔۔۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔اللہ جی۔۔۔۔ مجھے واقعی اللہ یاد آگیا تھا۔آہ! اُف۔۔۔۔ میرا پورا جسم پسینے میں نہا گیا۔ بہ مشکل کال بیل پہ ہاتھ رکھا اور دہری ہوگئی۔۔۔۔ اللہ۔۔۔۔۔ وہ اللہ کتنا عظیم خالق ہے، اتنی مخلوق کی تخلیق کرتا ہے اور صرف کن کہتا ہے بس وہ ہو جاتی ہے۔۔۔ ہم عورتیں صرف اپنی اولاد کوجنم دیتی اور اتنا درد سہتی ہیں۔مجھے کوئی بھی تکلیف ہوتی تو میں سوچتی تھی کہ اس سے زیادہ درد بھی تو ہوسکتا ہے لیکن آج درد کی جو ٹیسیں اٹھ رہیں تھیں اس سے زیادہ تو اُٹھ ہی نہیں سکتیں۔ مجھے لگا میری ساری ہڈیاں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی ہیں۔پھرمیں نے ایک آخری سانس بھری۔ یہ دراصل سانس نہیں تھی بلکہ ایسی چٹکی تھی جو انسان جاگتے ہوئے یقین دہانی کے لئے لیتا ہے کہ آیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟
اس آخری سانس کے ساتھ ہی کمرے میں نومولود کے رونے کی آواز گونجی میرا بچہ۔۔۔میرا بیٹا ۔۔۔میں نے پسینے سے تر بتر چہرہ اٹھا کر ایک نظر بچے پہ ڈالی اور بے سدھ ہو گئی۔ ہوش میں آنے سے پہلے مجھے امید تھی کہ جب میں آنکھیں کھولوں گی تو فواد مجھ پرجھکے ہوں گے اور میرا بیٹا میرے پہلو میں لیٹا ہو گا۔ لاشعور سے شعور میں قدم رکھتے ہوئے میں نے اطمینان سے آنکھیں کھولی اور جو امید میں نے زندگی سے لگائی تھی وہ پہلی بار ہی ٹوٹ گئی۔ فواد سامنے دیوار سے لگے کھڑے تھے ان کے چہرے پہ ازحد پریشانی رقم تھی۔ میں چونکی۔۔۔ اگر بیٹی ہوتی تب بھی فواد ایسا چہرہ بنانے والوں میں سے نہیں یہ توپھر بیٹے کی پیدائش کا موقع ہے۔ پھر ان کی حالت ایسی کیوں ؟ ابھی میں ان کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ میری ڈاکٹر آگے بڑھی ”آپ کا بچہ اب اس دنیا میں نہیں ہے” فواد اسے روکنا چاہتے تھے لیکن اس کے بتانے پر وہیں فرش پر بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک دفعہ پھر اندھیرا چھا گیا ۔میں ہوش میں آئی تو چلا رہی تھی اور فواد مجھے سنبھالتے سنبھالتے بے حال ہورہے تھے ”میرا بیٹا نہیں مرسکتا۔ میں نے خواب دیکھا ہے میرے خواب سچے ہوتے ہیں میرا بیٹا نہیں مر سکتا میرا بیٹا زندہ ہے۔ اسے بھوک لگی ہے اسے میرے پاس لاؤ۔ میں کہہ رہی ہوں میرا بیٹا زندہ ہے۔”میں چیخ رہی تھی میرا حلق خشک ہو گیا تھا فواد میرے سر پہ ہاتھ رکھے مجھے سینے سے لگائے سن سے کھڑے تھے۔میرے اندر کی سیدھی سادی عورت مر گئی تھی اور ایسی وحشی عورت جاگ گئی تھی جو ایک پل میں سارا جہان خاکستر کر سکتی تھی۔”میرا بیٹا زندہ ہے مجھے دکھاؤ کہاں ہے میرا بیٹا؟” فواد نے میرے اصرار پہ نرس کو اشارہ کیا۔۔۔ وہ کمبل میں لپٹا چھوٹا سا وجود لے آئی میرے قریب آئی تو میں نے بائیں ہاتھ سے فواد کا بازو سختی سے تھاما اور دائیں ہاتھ سے بچے کے منہ سے کمبل ہٹایا۔”شکر الحمدللہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے” میں نے اطمینان سے کہا۔سامنے کھڑی نرس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔فواد نے میری طرف ایسے دیکھا جیسے انہیں میری ذہنی حالت پہ شبہ ہو لیکن میں مطمئن تھی بالکل مطمئن۔ کسی میدانی علاقے کی ہوا کی طرح۔۔۔۔۔
”میرا بیٹا زندہ ہے۔” میں پھر بولی۔فواد نے میرا سر تھپکتے ہوئے مجھے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ بستر سے اُتر کر میں سیدھی سادی نہیں رہی تھی بالکل بھی نہیں۔ کسی عام سی عورت کی طرح میں اپنا بیٹا اتنی آسانی سے ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی۔ فواد ہکا بکا کھڑے میری شکل دیکھ رہے تھے۔ڈاکٹر کے کمرے میں جا کر اس کا گلا دبوچ لیا ”بول کہاں ہے میرا بیٹا؟ بتا کہاں ہے میرا بیٹا ؟ میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا اس کی پیشانی کے بائیں جانب سیاہ نشان تھا اس بچے کا نہیں ہے یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔بتا۔میرا بیٹا کدھر گیا؟ ”میرے ہاتھ کا گھیرا اس کی گردن کے گرد تنگ ہورہا تھا۔ میں چلانے لگی۔ فواد مجھے اس سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور میری بات سُن کر پریشان تھے۔ میں نے انہیں بھی اپنا خواب سُنایا تھا۔ اتنے میں نرس آگے آئی، وہ تو میری ساتھی تھی مجھے تھپکتی تھی، مجھے لگا میرا ساتھ دے گی۔لیکن اس نے کمال جھٹکے سے مجھے ڈاکٹر سے الگ کیا اور بستر پر دھکا دیا۔ڈاکٹر اپنی گردن مسلتی باہر چلی گئی۔ ”ماں۔۔۔۔۔” میں رو رہی تھی، واقعی ماں بننے کے بعد سب سے زیادہ یاد ماں کی ہی آتی ہے۔فواد نے مجھ سے تسلی سے ساری بات پوچھی اور غضب ناک ہو کر تین چار جگہ فون کئے۔ ہسپتال میں صحیح معنوں میں افراتفری مچ گئی۔انہوں نے ہمیں عام سا سمجھ لیا تھا! میرا بیٹا چھیننے چلے تھے!!
میں اور فواد کمرے سے باہر نکلے اور ہسپتال کا ہر کمرہ چھان مارا۔ لیبر روم سے لے کر واش روم تک اور کینٹین سے لے کر دل کے مریضوں کی وارڈ تک۔ میں زخمی شیرنی کی طرح دھاڑتی پھر رہی تھی۔ ہر کمبل کے پاس جا کر بڑی امید سے کمبل ہٹاتی اور پھر رونے لگ جاتی لیکن اگلے کمرے تک جاتے جاتے تازہ دم ہوجاتی۔ پورے ہسپتال میں میرے متعلق چہ مہ گوئیاں ہورہی تھی۔اولاد انسان سے وہ کچھ کرواتی ہے جس کا وہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کسی نے مجھے نہیں روکا۔میرا بیٹا کہیں نہیں تھا، کسی بھی جگہ پر موجود نہیں تھا۔ہم واپس کمرے میں آگئے اب پولیس کا انتظار تھا جسے اپنے وقت پر ہی آنا تھا۔دروازہ دھڑاک سے کھلا میں نے دیکھا تو صفائی والی مائی تھی ”،نی کڑئیے۔۔۔ ” آج اگر یہ مجھے کچھ کہتی تو میں اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتی۔ وہ میرے پاس آئی اور بند مٹھی پھیلا دی اس میں ایک چُرمرایا ہوا کاغذ تھا۔ ہاتھوں سے وہ کاغذ کانپتے کھولا تو ایک گاڑی کا نمبر لکھا تھا۔ آئی ۔ایس۔بی۔ سات ہزار پانچ سو اسی۔۔۔

٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۱

Read Next

کتنی صدیاں بند ہیں —- فائزہ افتخار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!