سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے سمے سے باہر نہ نکل۔ جو نکلی تو بھٹک جائے گی۔”
اب سمجھ میں آئی آپی کی بات۔ جب سمجھ لیتی تو رستے سے نہ بھٹکتی، آلنے سے نہ گرتی۔ سمجھ تو گئی۔ پر کتنی دیر پڑی سمجھن کی۔ آپی مجھے سنہرے کہہ کر بلایا کرتی تھیں ۔ کہتی تھیں ”تیرے پنڈے کی جھال سنہری ہے۔ جب رس آئے گا تو سونا بن جائے گی، کٹھالی میں پڑے بنا۔ پھر یہ جھال کپڑوں سی نکل نکل کر جھانکے گی۔”
پتا نہیں میرا نام کیا تھا۔ پتا نہیں میں کس کی تھی، کہاں سے آئی تھی۔ کوئی لایا تھا ۔ بالپن ہی میں آپی کے ہاتھ بیچ گیا تھا۔ اِسی کی گود میں پلی، اِسی کی سرتال بھری بیٹھک کے جھولنے میں جھول جھول کر جوان ہوئی۔ پھر سنہرا امڈ امڈ آیا۔ چھپائے نہ چھپتا تھا۔ آپی بولی نہ دھیے، چھپا نہ۔ جو چھپائے نہ چھپے اِسے کیا چھپانا۔”
کبھی کھڑکی سے جھانکتی تو آپی ٹوکتی ”یہ کیا کر رہی ہے بیٹی ؟ سیانے کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے۔ تیرا کام نہیں۔ دکھنا ہے تو نظر نہ بن، منظر بن۔ اور جو دیکھے بھی تو تو دکھنے کا گھونگھٹ نکال ۔اِس کی اوٹ سے دیکھ، پھر سمے دیکھ سنہرے۔ ابھی تو شام ہے۔ یہ سمے تو اداسی کا سمے ہے۔ دکھ کا سمے ہے۔ شام بھئی گھن نہ آئے۔” آپی گنگنانے لگی ”یاد ہے نا یہ بول؟ شام تو نہ آنے کا سمے ہے۔ تیرا آنے کا سمے ہے۔ پگلی ذرا رک جا۔ اندھیرا گاڑھا ہونے دے۔ پھر تیرا ہی سمے ہوگا، پچھلے پہر تک۔”
ایک دن آپی کا جی اچھا نہ تھا۔ مجھے بلایا، گئی۔ لیٹی ہوئی تھی۔ سرہانے تپائی پر سوڈے کی بوتل دھری تھی۔ ساتھ نمک دانی تھی۔ یہ ان دِنوں کی بات ہے جب سوڈے کی بوتل کے گلے میں شیشے کا گولا پھنسا ہوتا تھا، ٹھا کر کے کھلتا تھا۔
بولی ”سنہرے، بوتل کھول گلاس میں ڈال۔ چٹکی بھر نمک گھول اور مجھے پلا دے۔”میں نے نمک ڈالا تو جھاگ اٹھا، بلبلے ہی بلبلے۔ آپی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ بولی ”دیکھ لڑکی، یہ ہمارا سمے ہے۔ ہمارا سمے وہ ہے جب جھاگ اٹھے۔ ہم میں نہیں، دوجے میں اٹھے۔ دوجے میں جھاگ اٹھانا یہی ہمارا کام ہے۔ خود شانت، دو جا بلبلے ہی بلبلے۔ جب تک جھاگ اٹھتا رہے گا، ہمارے سمے۔ جب دوجا شانت ہو جائے، سمجھ لے ہمارے سمے بیت گیا اور جب سمے بیت جائے دھیرج پاں دھرنا۔ ٹھمک نہ کرنا ۔ ٹھمک کا سمے گیا۔ چمک نہ مارنا، چمک کا سمے گیا۔ پائل نہ جھنکارنا، پائل کی جھنکاربیرن بھئی۔”
پھر وہ لیٹ گئی اور بولی ”سنہرے،میری باتیں پھینک نہ دینا، دل میں رکھنا۔ یہ بھیتر کی باتیں ہیں، اوپر کی نہیں، سنی سنائی نہیں، پڑھی پڑھائی نہیں۔ وہ سب چھلکے ہوتی ہیں، بادام نہیں ہوتیں۔ جان لے بیٹی بات وہ جو بھیتر کی ہو۔ گری ہو، چھلکا نہ ہوا۔ جو بیتی ہو، جگ بیتی نہیں۔ آپ بیتی ہو، ہڈ بیتی۔ باقی سب جھوٹ، دِکھلاوا بہلاوا۔”
آج مجھے باتیں یاد آ رہی ہیں۔ بیتی باتیں۔ بسری باتیں۔ سانپ گزر گئے، لکیریں رہ گئیں، لکیریں ہی لکیریں۔ سانپ تو صرف ڈراتے ہیں، پھنکارتے ہیں۔ لکیریں کاٹتی ہیں، ڈستی ہیں۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ لکیروں نے مجھے چھلنی کر رکھا ہے۔ چلتی ہیں، چلے جاتی ہیں جیسے دھار چلتی ہے۔ ایک ختم ہوتی ہے دوجی شروع ہو جاتی ہے ۔
آپی کی بیٹھک میں ہم تین تھیں۔ پیلی،روپا اور میں۔ پیلی بڑی، روپا منجھلی اور میں چھوٹی۔ پیلی میں بڑی آن تھی، پر مان نہ تھا۔ اس آن میں چھب تھی۔ سندرتا بھرا ٹھہرا تھا۔ یوں رعب سے بھری رہتی جیسے مٹیار رس سے بھری رہتی ہے۔ گردن اٹھتی رہتی، مورتی سمان۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
روپا سر ہی سر تھی۔ شدھ سر۔ تاروں سے بنی تھی۔ اس کے بند بند میں تار لگے تھے۔ سرتیاں سمرتیاں اور وہ گونجنے مدھم میں گونجتے اور پھر سننے والوں کے دلوں کو جھلا دیتے تیجی میں تھی۔ آپی کہتی تھی ”سنہرے، تجھ میں دکھ کی بھیگ ہے ۔ تو بھگو دیتی ہے۔ خود بھی ڈوب جاتی ہے ، دوجے کو بھی ڈبو دیتی ہے پگلی دوجے کو ڈبویا کر، خود نہ ڈوبا کر۔ مجھے تجھ سے ڈر آتا ہے سنہرے۔ کسی دن تو ہم سب کو نہ لے ڈوبے۔”
آپی کی بیٹھک کوئی عام بیٹھک نہ تھی کہ جس کا جی چاہا منہ اٹھایا اور چلا آیا۔ بیٹھک پر دھن دولت کا زور تو چلتا ہی ہے ۔ وہ تو چلے گا ہی ہر بیٹھک پر۔ پر آپی نے برتا کا ایسا رنگ چلا رکھا تھا کہ خالی دھن دولت کا زور نہ چلتا تھا۔ نو دولیتے آتے تھے پر ایسے بدمزہ ہو کر جاتے کہ پھر رخ نہ کرتے۔ آپی کی بیٹھک میں نگاہیں نہیں چلتی تھیں۔اس نے ہمیں سمجھا رکھا تھا کہ لوگ نگاہوں پر اچھالیں گے تو پڑے اچھالیں۔ لڑکیو تم نہ اچھلنا۔ جو نگاہوں پر اچھل جاتی ہیں وہ منہ کے بل گرتی ہیں اور جو گر گئی وہ سمجھ لو، نظروں سے گر گئی ۔ پھر نہ اپنے جوگی رہی نہ دوسروں جوگی۔
آپی کی بیٹھک میں نظریں نہیں چلتی تھیں۔ کان لگے رہتے تھے۔ دل دھڑکتے تھے۔ وہاں ملاپ کا رنگ نہ ہوتا تھا۔ برہا کا ہوتا۔ رنگ رلیاں نہیں ہوتی تھیں، نہ وہاں تماشا ہوتا نہ تماش بین ۔ مجھے وہ دِن یاد آتے ہیں جب ہمارے ہاں ٹھاکر کی بیٹھک لگتی تھی۔ دومہینے میں ایک بار ضرور لگتی تھی۔ ٹھاکر کی بیٹھک لگتی تو کوئی دوجا نہیں آ سکتا تھا۔ صرف ٹھا کر کے سنگی ساتھی۔
ٹھاکر بھی تو عجب تھا۔ اوپر سے دیکھو تو ریچھ۔ طاقت سے بھرا ہوا۔ اندر جھانکو تو بچہ۔ نرم نرم، گرم گرم، ویسے تھا آن بھرا مان بھرا۔ سنگیت کا رسیا۔ یوں لگتا جیسے بھیتر کوئی لگن لگی ہو۔ دھونی رمی ہو،آرتی سجی ہو۔
ٹھاکر کی ہمارے ہاں بڑی قدر تھی۔ آپی عزت کرتی تھی، بھروسا کرتی تھی۔ ٹھاکر نے بھی کبھی نظر اچھالی نہ تھی۔ جھکائے رکھتا۔ پیتا ضرور تھا، پر ایسی کہ جوں جوں پیتا جاتا الٹا مدھم پڑتا جاتا۔ آنکھ کی چمک گل ہو جاتی۔ آواز کی کڑک بھیگ جاتی۔ اس کا نشہ ہی انوکھا تھا۔ جیسے بوتل کا نہ ہو۔ بھیتر کا ہو۔ بوتل اِک بہانہ ۔ بوتل چابی ہو بھیتر کے پٹ کھولنے کی۔
ڈرو سیکھو ڈرو بھیتر کے نشے سے ڈرو۔ بھیتر کے نشے کے سامنے بوتل کا نشہ یوں ہاتھ جوڑے کھڑا ہے جیسے راجہ کے روبرو نیچ کھڑا ہو۔ بوتل کا تو خالی سر چکراتا ہے۔ بھیتر کا من کا جھولنا جھلا دیتا ہے ۔ ڈرو سکھیو ڈرو بھیتر کے نشے سے ڈرو، بوتل کا تو کام کاج جوگا نہیں چھوڑتا۔ بھیتر کا کسی جوگا نہیں چھوڑتا۔ خود جوگا بھی نہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ٹھاکر کے نشے کا ریلا مجھے بھی لے ڈوبے گا۔
ہاں تو اس روز ٹھاکر کی بیٹھک ہو رہی تھی۔ بول تھے ”گانٹھری میں کون جتن کر کھولوں۔ مورے پیا کے جیا میں پڑی رہی۔” گیت نے کچھ ایسا سماں باندھ رکھا تھا کہ ٹھاکر جھوم جھوم جا رہا تھا۔ پھر کہو، پھر بولو کا جاپ کیے جا رہا تھا۔ نہ جانے کس گرہ کو کھولن کی آرزو جاگی تھی۔ اپنے من یا محبوب کی من کی۔ سمے بیتا جا رہا تھا ۔ سمے کی سدھ بدھ نہ رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ سمے جیون سے نکل جاتا ہے کہ کون ہیں، کیا کر رہے ہیں۔ کسی بات کی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ اِس روز وہ سمے ایسا ہی سمے تھا۔
دفعتاً گھڑی نے تین بجائے ۔ آپی ہاتھ جوڑے اٹھ بیٹھی۔ بولی ”شماکرو ٹھاکر جی۔ معافی مانگتی ہوں۔ ہمارا سمے بیت گیا۔ اب بیٹھک ختم کرو۔”
ٹھاکر پہلے تو چونکا پھر مسکایا ”نہ آپی، ابھی تو رات بھیگی ہے۔” آپی بولی ”ٹھاکر ہم سوکھے پروں والے پنچھی ہیں۔ جب رات بھیگ جاتی ہے تو ہمارا سمے بیت جاتا ہے۔ جو ہمارے پر بھیگ گئے تو اڈاری نہ رہے گی۔ فنکار میں اڈاری نہ رہے تو باقی رہا کیا؟” ٹھاکر نے بڑی منتیں کیں، آپی نہ مانی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مشام — میمونہ صدف

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!