سعی — سحر ساجد

وہ عجیب کیفیت میں تھی ….. ناک کے نتھنوں سے، سانس کے نام پر خارج ہونے والی ہوا تپش لیے ہوئے تھی۔ وہ کہاں تھی، آسمان پر یا زمین پر؟ وہ اپنے وجود کو کسی سطح پر محسوس نہیں کرپارہی تھی۔ سر جس قدر بھاری تھا، وجود اسی قدر ہلکا۔ ذہن کسی ایک سوچ پر مرتکز نہیں ہوپارہا تھا۔ اس کے وجود پر ایک نظر ڈالو تو سانس کا اتار چڑھاوؑ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا تھا۔ لمبے ادھ کھلے بال ، کچھ شانوں پر، کچھ سینے پر اُلجھے، پریشان اور بے ترتیب بکھرے ہوئے تھے۔ خلافِ معمول دوپٹہ گلے میں، کہ ان کے ہاں گھر میں بھی دوپٹہ سر پر لیا جاتا تھا۔ دونوں بازو سیدھے پہلو میں گرے … ہاتھ کی مٹھیاں سختی سے بند کیں۔ لاوؑنج کے کنارے پر کھڑی اک اک چیز کو دیکھے جارہی تھی لیکن نہیں جانتی تھی کہ کیوں دیکھے جارہی تھی۔
فیصلہ سخت تھا جو اس نے کرلیا تھا اور اس فیصلے کی یاد آتے ہی اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی کچھ اور سختی سے بھینچی تھی۔ ہونٹ لرزے اور آنکھ کے کنارے پر اک قطرہ آکر جم سا گیا تھا۔ دل پر جیسے کسی نے خنجر کا وار کیا تھا۔ لرزتے ہونٹوں کے ساتھ اس نے حلق سے نیچے کچھ اتارا تھا اور اس کی نظر ان چیزوں پر کسی آوارہ بد روح کی طرح بھٹکتی تھی ”آپی!….”
اچانک لاوؑنج کے کسی گوشے سے آواز ابھری تھی۔ وہ بُری طرح سے ڈری اور سہم کر آواز کی سمت دیکھا تھا لیکن اس کاارادہ دائیں ہاتھ کی مٹھی کو کمر کے پیچھے چھپانے کا تھا۔”آپی۔ دیکھیں میرا بے بلیڈ۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اسے بھائی کی آواز کسی باز گشت کی طرح محسوس ہوئی تھی۔ اس نے دھندلی آنکھوں سے بھائی کو دیکھا جو لٹو سے کھیل رہا تھا۔ وہ کسی بے جان وجود کی مانند بھائی کی طرف بڑھی تھی۔ وہ نیچے قالین پر بیٹھا میز پر اپنا لٹو گھمارہا تھا اور وہ اس کے پیچھے موجود صوفے پر جاکر بیٹھی تھی۔ دونوں ہاتھوں کی بند مٹھیاں اب اس کے دائیں بائیں سختی سے صوفے پر جمی تھیں اور وہ اپنے بھائی کو دیکھے ہی چلی جا رہی تھی۔ اس کے بھائی نے بٹن دبایا، لٹو میز کی سطح سے ٹکرایا۔ وہ چونک کر آواز کی سمت متوجہ ہوئی۔ لٹو اب گھوم رہا تھا گول، گول اور تیزی سے…. اس کے بھائی نے مڑ کر اس کا گھٹنا ہلاکر اس سے کچھ کہا تھا۔ کیا؟ وہ محض آواز کااِک احساس ہی محسوس کرپائی تھی۔ لٹو گھوم رہا تھا گول گول اور پھر گھومتے گھومتے وہ یک دم بڑا ہوتا گیا۔ ہوتا گیا، ہوتا ہی چلاگیا۔ لٹو اتنا بڑا ہوگیا کہ وہاں موجود ہر چیز پر حاوی ہوچکا تھا۔ وہ ڈر کے مارے صوفے کی پشت سے ٹکرانے کے سے انداز میں جالگی تھی۔ لٹو ا س کے عین سامنے گھومے چلاجارہا تھا۔ وہ نظریں لٹو کی گھومتی دھاریوں سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن سر کو حرکت نہیں دے پارہی تھی۔ نظر گھوم رہی تھی، سر چکرارہا تھا اور اب اسے متلی محسوس ہورہی تھی، اتنی کہ پیٹ میں شدید بل پڑا۔ وہ بے اختیار آگے کو جھکی۔ اسے زور کی ابکائی آئی تھی۔ وہ سانس لینے کو سیدھی ہوئی اور پیروں تلے سے جیسے زمینیک دم نکلی ہو۔ لٹو عین اس کی آنکھوں کے سامنے ہوا میں معلق گھومے جارہا تھا۔ گھبراہٹ کا احساس شدید تھا۔ وہ ہانپتے ہوئے، کف بہتے منہ کے ساتھ، بری طرح سے خوف زدہ ہوکر اس لٹو کو دیکھتی جارہی تھی۔
‘آپی۔ آپی! ” اس کا بھائی شانہ ہلارہا تھا لیکن وہ متوجہ نہ تھی۔ وہ متوجہ ہو بھی کیسے سکتی تھی۔
تنفس کی بگڑی رفتار کے ساتھ وہ خوفزدہ سی لٹو کو دیکھے جارہی تھی۔
”مور، مور” اس کا بھائی ماں کو بلانے بھاگا تھا اور ماں کے آنے تک وہ بے حد گھبراچکی تھی۔ اتنی خوف زدہ ہوچکی تھی کہ اس نے دائیں ہاتھ کی مٹھی کھولی اور اس میں موجود زہریلی گولیاں پھانک لیں۔ اچانک وہاں سناٹا چھاگیا تھا، اتنا کہ جیسے کائنات کی ہر متحرک چیز حالت قرار میں آچکی ہو…. وہاں اب کوئی لٹو نہ تھا۔ وہ بے یقینی سے کھڑی ہوئی لڑکھڑائی اور پھر اوندھے منہ گرگئی اور گرتے ہی تکلیف کی اک لہر، دھماکے کی صورت اس کے وجود سے آن ٹکرائی تھی۔ شدید دباوؑ، اندھیرا ،گھٹن، پیاس، حلق سوکھ رہا تھا اور وہ تڑپ رہی تھی لیکن کمال کی بات یہ کہ وہ خود ہی اپنے تڑپتے وجود کو ذرا فاصلے پر کھڑی دیکھ رہی تھی۔ وہ محسوس کرسکتی تھی کہ اسے کتنی تکلیف ہورہی تھی۔ وہاں زمین پر اس کا تڑپتا جسم تھا اور وہ دور بس، بہتی آنکھوں کے ساتھ کھڑی خود کو بے بسی سے تڑپتا دیکھ رہی تھی اور میز پر لٹو آہستہ ہوتے ہوتے بالکل ساکت ہوگیا تھا۔
٭٭٭٭
یہ انگور کے باغوں کی سرزمین تھی۔ اس کے خاندان والے پتھریلے پہاڑوں کے درمیان بستے اور اک سخت زندگی گزارتے تھے۔ یہ قلعہ سیف اللہ تھا اور وہ اس کی ہونہار بیٹی جاناں کاکڑ۔ اونچی نیچی گھاٹیوں پر جب چلتی تو یوں محسوس ہوتا تھا گویا جنگل میں کسی ہرنی نے کلانچ بھری ہو۔ تعلیم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ اس کی اماں کہتی تھیں۔ ”جاناں پاگل تو نیند میں بھی اسکول کا سبق دہراتی رہتی ہے۔”
اور ہاں وہ اتنی ہی پاگل تھی۔ جنونی تھی۔ اسے پڑھنا تھا بہت سارا۔ ڈھیر سارا۔ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا دیکھنا تھا۔ ڈاکٹر جاناں کاکڑ۔ ڈاکٹر۔ ڈاکٹر جاناں کاکڑ۔ قلعہ سیف اللہ، قبائل کی آماج گاہ تھا۔ جہاں روایات کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ وہ ساتویں جماعت میں تھی تب سے برقعہ پہن کر اسکول جاتی تھی۔ برقعے کے اوپر کالی چادر کے نقاب سے محض اس کی ایک آنکھ ہی نظر آیا کرتی تھی۔ وہ قلعہ سیف اللہ کی ان چندخوش نصیب لڑکیوں میں سے تھی جو پرائمری سے اوپر تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ جاناں وہ طالبہ تھی جس نے اپنا ہر امتحان نمایاں درجے میں پاس کیا تھا۔ وہ برف زاروں میں پل کر بڑی ہوئی تھی لیکن خواہش، اک چنگاری کی صورت، طلب بن کر سینے میں بھڑکتی تھی۔ وہ خوش تھی، مگن تھی اور سمجھتی تھی کہ زندگی کا سفر اسی طرح کامیابی و کامرانی سے طے ہوتا چلا جائے گا۔ وہ امتحان پر امتحان پاس کرتی چلی جائے گی اور پھر… پھر وہ دن ضرور آئے گا کہ جب وہ اسکالرز گاؤن پہنے اپنی Ph.D کی ڈگری وصول کرے گی۔ خوشی سے چیختے ہوئے اسکالرز کیپ کو ہوا میں اچھالے گی اور کوئی نامعلوم فوٹوگرافر اس کی آنکھ کی خوشی، اس کی ہنسی، اس کے چہرے کا جوش، طمانیت سب اک لمحے میں قید کرکے اسے زندہ جاوید بناڈالے گا۔ ہاں… وہ ایسا ہی سوچتی تھی… ایسا ہی سمجھتی تھی۔
جب اس نے میٹرک میں پوزیشن حاصل کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ اتنی خوش تھی اتنی کہ لگتا تھا کہ بس اب خوشی سے مر ہی جائے گی۔ وہ۔ وہ جاناں کاکڑ۔ اک پسماندہ علاقے کی گورنمنٹ اسکول کی طالبہ، اُسی جاناں کاکڑ نے میٹرک میں ٹاپ کیا تھا۔ ٹاپ۔ یہ پہلی بڑی کامیابی تھی۔ پہلی بڑی کامیابی اور اتنی بڑی خوشی جو اُسے مار بھی ڈالتی تو غم نہ تھا۔ لیکن اسے تو جینا تھا۔ بہت سارا ایک لمبی زندگی گزارنی تھی کیوںکہ اسے تو پڑھنا تھا۔ ڈھیر سارا۔ اتنا زیادہ کہ اس کے نام کے ساتھ لکھا جاتا… ڈاکٹر جاناں کاکڑ…
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۸

Read Next

پاتال — حیا بخاری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!