وہ ساگ کا تڑکا تیار کرتے ہوئے مسکرائی…. اور پھر منہ ہی منہ میں بڑبڑائی!!! ”ایمان آج میرا پکایا ہوا ساگ تمہارے چہرے سے شرافت کا نقاب اتارڈالے گا، اویس کو میری ہر بات پر یقین آجائے گا۔” اور تڑکا ساگ پر پھیلا دیا …. آج سے پہلے اس نے اتنی محنت سے کبھی ساگ نہیں پکایا تھا… کیوں کہ اس کی نند ایمان کو ساگ پسند نہیں تھا… شادی کے کچھ دنوں بعد ہی اویس نے اپنی چھوٹی بہن کی پسند ناپسند اسے بتادی… کیوں کہ وہ گھر کے خرچ میں برابر کی شریک کار تھی ۔
”تو کیا…. ساگ کبھی نہیں پکے گا؟” اس کا موڈ آف ہوگیا۔ ”نہیں…. اب ایسا بھی نہیں!!…. البتہ میں اور ایمان پسند نہیں کرتے …. میں پھر بھی کبھی کبھار کھالیتا ہو…. مگر ایمان نہیں کھاسکتی اور ایسے میں وہ آفس سے تھک ہار کر گھر آئے گی… تو کیا کھائے گی!” بڑا بھائی ہونے کے ناطے وہ اپنی چھوٹی بہن کے لئے فکر مند تھا ۔ایسی بہن جس نے اویس کو کبھی کسی چیز کے لیے پریشان نہیں کیا تھا… والدین کی وفات کے بعد اس نے ملازمت کرلی اور اپنے بھائی کی ہر معاملے میں مددگار بن گئی ۔
اویس نے اپنی شادی کے بعد اس کے لیے بھی رشتے تلاش کیے…. لیکن جانے اللہ کو کیا منظور تھا…. کہیں کوئی بات نہ بن سکی اور ایمان نے بھی کبھی کسی سے شکوہ نہ کیا…. مگر دوسری طرف اس کی بھابھی ارم کو اس سے بلاوجہ ہی اتنے شکوے تھے کہ اویس کی شادی شدہ زندگی مشکلات کا شکارہونے لگی…
ارم کو ایمان کا وجود خوامخوا ہی کھٹکنے لگا..وہ اسے اپنے گھر میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی ۔ ایمان جانتی تھی.کہ اس کی بھابھی اسے پسند نہیں کرتی۔ مگر وہ اپنے بھائی سے اتنی محبت کرتی تھی کہ بھابھی کی نفرت اسے نظرنہ آتی تھی۔
”ٹھیک ہے! کبھی ساگ نہیں بناؤں گی….” اس کے چہرے پر خفگی نمایاں تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
” ارم! بچی مت بنو… تمھارا جو دل کرتا ہے کرو میں نے تمہیں کب منع کیا ہے؟” اس نے بیوی کا ہاتھ تھام لیا… اور کرتا بھی کیا ۔بہن کے ساتھ ساتھ بیوی کو بھی خوش رکھنا چاہتا تھا… مگر ارم تھی کہ خوش ہونے کے بجائے خفا خفا ہی رہتی۔ جس سے گھر کا ماحول نا خوش گوار رہتا..
ایمان نے گھر کے کاموں میں مداخلت کرنا چھوڑدی تھی اور اوپر ی منزل پررہنے لگی ۔
”بچی میں نہ بنوں…ہاں اورآپ کی بہن نے تو بچی بننے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ عمر تیس کی…. اور عقل سمجھ دس سال کی بچی جیسی ۔”
”آہستہ بولو… ارم! کیوں ہر وقت اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو۔آخر اس نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟ جس کی وجہ سے تم اس کی جان نہیں چھوڑتی”…. اس نے بھی غصے سے پوچھا۔
”میں اس کی جان نہیں چھوڑرہی… یا وہ ہماری؟…. آخر کب تک بیٹھی رہے گی اس گھر میں …. شادی کیوں نہیں کرتی…. کہیں…. کہیں…. کچھ ایسا تو نہیں… جو آپ نہیں سمجھ رہے۔” اس نے سوچتے سوچتے حیرانی ظاہر کی۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟” وہ اس کو غصے سے گھورنے لگا۔
”میرا مطلب ہے…. کہ کسی سے محبت وغیرہ !!۔” اس نے دبی آواز میں جواب دیا۔
خبردار! جو میری بہن کے بارے میں ایسا سوچا…. تمہاری بہن جیسی نہیں ہے وہ جو سب کی عزت رُسوا کرکے گھر چھوڑ کر بھاگ جائے۔”
”یہی سننا باقی رہ گیا تھا…. دیں اور طعنے! ہاں میری بہن بری تھی بہت بری، بس آپ کی بہن بڑی پارسا ہے، باقی سب برے ہیں !” وہ رونے لگی… اس کے آنسو ہمیشہ کام کرجاتے اور وہ پسپائی اختیار کر جاتا۔
اس نے ساگ بھون لیا تھا… اور پھر ہری مرچیں دھوکر کاٹنے لگیں۔ ”ایمان تمہاری وجہ سے میری ہر خوشی کڑوی ہوجاتی ہے۔ اب دیکھنا میں کیسے تمہاری زندگی کاسچ سب کے سامنے لاتی ہوں۔” اس نے ساگ کے اوپر ہری مرچیں ڈال دیں… ساگ نئی نویلی دلہن کی طرح سجا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
”اویس… اویس…! سچ… یقین کریں پہلے وہ تھوڑا سا سالن … ایک روٹی لے کر اوپر چلی جاتی تھی… مگر پچھلے ایک ماہ سے دو روٹیاں… اور بہت زیادہ سالن لے کر جارہی ہے۔”
”ارم …. وہ اس گھر کی عزت ہے… جیسے تم!! وہ تمہاری بھی بہن جیسی ہے… اللہ سے ڈرو…. وہ کبھی بھی مجھے شرمندہ نہیں کرسکتی۔”اویس نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
”اچھا… اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو… تو…. آپ بے شک مجھے گھر سے نکال دیجیے گا۔”ارم نے ایک اور تیر چلایا۔
”توبہ…. ارم! کیسی باتیں کرتی ہو… میں بھلا تمہارے بغیر جی سکوں گا۔” اس نے دونوں ہاتھ تھام کر اسے اپنی محبت کا احساس دلایا مگر وہ شوہر کی محبت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی دھن میں بولتی گئی۔ ”اگر سچ میں اس کی زندگی میں کوئی لڑکا نہیں… تو پھر اس نے حسنین شاہ سے شادی کرنے پر کیوں اعتراض کیا تھا؟” اس بات پر وہ بھی سوچنے لگا ”سچ اویس…. وہ آپ کو بیوقوف بنارہی ہے…. اور پھر اوپر جاکر رہنے کی کیا تک ہے… کمرے تو نیچے بھی ہیں…”
”صاف… صاف کہو… تم کیا کہنا چاہتی ہو؟” اس کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں۔
”چھوڑیں… کچھ نہیں…” وہ منہ پھیرکر بیٹھ گئی۔
”بولو… اب بول کیوں نہیں رہی۔” اس نے غصے سے پوچھا۔
”اویس..لگتا ہے رات کو ہماری چھت پر کوئی آتا ہے!”… اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
”کون…؟؟ … اور کب سے… تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟” اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
”یہ تو میں نہیں جانتی… کیوں کہ وہ سیڑھیوں کا دروازہ بند کردیتی ہے… مگر میں نے کئی دفعہ آوازیں سے سنی ہیں۔”
”اچھا… تو… تو… وہ حیدر خبیث ہوگا… آخر کار اس نے اپنا کام کر دکھایا۔”
”کون حیدر؟”… وہ جیسے حیرانی سے بولی۔
”وہی… حیدر… جو محلے کی ہر لڑکی کو خوب صورت خواب دکھاکر ان کی زندگیوں سے کھیلتا ہے۔” اویس کے لہجہ میں کڑواہٹ گھل گئی ۔
”وہ بدمعاش جو گلی کے نکڑ پر آوارہ لڑکوں کے ساتھ بیٹھتا ہے۔؟” ارم نے تجسس سے پوچھا۔
”ہاں… ہاں ۔۔وہی….!!… مگر ایمان تو اتنی سمجھ دار ہے… تو کیسے وہ اور حیدر… یقین نہیں آرہا”۔ اس نے پھر سے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا شروع کردیا….
مگر ارم اسے مزید تپا گئی جو آگ پر تیل ڈالنے کا کام چھوڑ نہیں رہی تھی۔
”یاد آیا… اس دن جب میںایمان کے ساتھ کلینک پر گئی تھی تو وہ ایمان کو دیکھ دیکھ کر مسکرارہا تھابلکہ اس نے پیچھا بھی کیا تھا۔”
”کیا؟ اس کی اتنی جرأت؟ میںاس کا وہ حال کروں گا کہ پورا محلہ دیکھے گا”۔
”اویس تحمل سے کام لیں۔جرأت ایمان نے دکھائی ہے… تبھی تو اس نے پیچھا کیا تھا… اور پھر پورے محلے کے سامنے ….. اس نے یہ ثابت کردیا کہ ایمان اور اس کا چکر ہے… تو؟ … …. کتنی بے عزتی ہوگی… آپ کی اس خاندان کی… اور ہمارے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔” اویس نے گھبراکر اسے دیکھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});