زندگی جبرِ مسلسل کی طرح — آفاق احمد آفاق

وہ بہت دنوں سے باتیں سن رہا تھا ۔۔ بابا کی ۔۔ اماں کی ۔۔ بہن بھائیوں کی! اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے سب کے پاس اس کے لیے ایک ہی سوال تھا ”شادی کب کروگے؟” وہ واقعی اب تنگ آچکا تھا۔ہزار بار گھروالوں کو کہہ چکا تھا ۔۔بتا چکا تھا کہ وہ ابھی شادی نہیں کرسکتا۔جب مناسب وقت ہو گا تووہ خود ہی بتادے گا لیکن اس کی وہاں سنتا کون تھا؟دنیا کے باقی تمام موضوعات گھر کے تمام افراد کے لیے جیسے ثانوی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ اوّلین حیثیت بس ایک ہی موضوع کو حاصل تھی اور وہ تھا’اس کی شادی۔”
شادی کے متعلق سب کی اپنی منطق تھی۔اس کے بابا کا خیال تھا کہ شادی مرد کی زندگی میں توازن لاتی ہے۔شادی شدہ غیر شادی شدہ مرد کی نسبت زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اماں کو اس کے ذمہ دار بننے کی فکر نہ تھی،انہیں ارمان تھا تو بس اتنا کہ وہ اپنے جوان بیٹے کے سر پر سہرا دیکھ لیں اور ایک پیاری سی بہو بیاہ لائیں جو بالکل چاند کا ٹکڑا ہو۔بہنیں ویسے تو دل ہی دل میں بھائیوں کی شادیوں کی مخالف ہوتی ہیں کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ سہرا سجا لینے کے بعد بھائیوں کے پاس ا ن کی فرمائشیں پوری کرنے اور ان کے بچوں سے لاڈ کرنے کے لیے وقت بچتا ہے اورنہ ہی وسائل۔ کیوں کہ بھائیوں کی جیبیں بہنوں سے پہلے ان کی بیویاں خالی کردیتی ہیں۔ یہاں قصہ کچھ اور تھا۔بڑے بھیا کی شادی کے بعد ایک مدت ہوگئی گھر میں کوئی ہنگامہ ہوا۔نہ ڈھولک کی تھاپ سننے میں آئی تھی۔۔۔اور ایک عرصے سے انہوں نے ایک ساتھ ڈھیر سارے نئے کپڑے بھی تو نہیں بنوائے تھے ۔۔ یہ سب ارمان بہت ستانے لگے تو خیال آیا کہ کیوں ناں چھوٹے بھائی کی شادی ہی کروا دی جائے۔اسی بہانے کچھ دن گھر میں رونق بھی رہے گی اور سب سہیلیوںسے مل بیٹھنے کا موقع بھی ہاتھ آئے گا۔بھائی کے پرائے ہوجانے کا اندیشہ بہ دستور دلوں میں موجود تھا لیکن یہ سوچ کر راضی تھیں کہ ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی ہے آخر کب تک بیل کو کھونٹے سے باندھ کر رکھیں گی۔سو نا چار ضد پر اڑگئیں کہ شادی ہو اور ابھی ہو۔بڑے بھائیوں کی اس کی شادی میں دل چسپی کا واحد سبب، شادی کی تقریبات میں آنے والی خوب صورت ملبوسات اور زیورات سے سجی بہنوں کی سہیلیاں اور رشتے دار لڑکیوں کی آمد تھا ۔بڑے دونوں بھائی شادی شدہ تھے لیکن بدنیتی کسی رشتے سے منسلک تھوڑی ہے۔مرد تو ہے ہی سدا کا رنگین مزاج۔گھر میں بے شک چاند سی بیوی ہو پھر بھی باہر تانک جھانک نہ کی تو سمجھو کچھ نہ کیا۔سو اس کے بھائیوں کا رستہ بھی دنیا کے اکثر مردوں سے الگ نہ تھا۔ سب کی خواہشات اپنی جگہ لیکن اس نے طے کررکھا تھا کہ دوسروں کے نظریات اور فضول خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ اپنی زندگی عذاب نہیں بنائے گا۔یہی سبب تھا کہ اس سے جب بھی شادی کے متعلق پوچھا گیا اس نے ہمیشہ انکار ہی کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ابھی کل کی ہی بات ہے۔وہ جیسے ہی جم سے واپس آیا تو ٹی وی لاؤنج سے گزرتے ہوئے اس کی نظراپنی بڑی بہن آسیہ پر پڑی جس کا واحد مشغلہ اپنے شوہر کی سرکاری افسری کی تعریف کرنا تھا۔اس نے چاہا کہ لاؤنج سے چپ چاپ گزر جائے لیکن اس کی بہن جیسے اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔دیکھتے ہی آواز دی بات سننا ”جی فرمائیں” وہ جانتا تھا کہ اس کی بہن کا بیان ا پنے شوہر کی تعریف سے ہوتا ہوا، اپنی بیٹی علیزہ کی حیرت انگیز حرکات بیان کرنے کے بعد اس کی شادی کے موضوع پر ہی ختم ہوگا لیکن پھر بھی اس نے بہن کی بات سننا ضروری سمجھا۔
”جانتے ہو ذیشان کو گورنمنٹ نے بونس دیا ہے۔کل اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں پچاس ہزار کا چیک بھی ملے گا۔میں نے تو اسے کہہ دیا کہ یہ سب میری وجہ سے ہے۔مانتے ہیں کہ بندہ محنتی ہے ایمان دار ہے لیکن کیا پہلے نہیں تھا؟محنت تو پہلے بھی بہت کرتا تھا لیکن ایسی ترقیاں تو اسے پہلے کبھی نہ ملیں۔قسمت کھلی ہے تو مجھ سے شادی کے بعد۔” اسے بہن کے چہرے پر فخر سے زیادہ غرور کا رنگ نمایاں نظر آیا لیکن ”بہت بہتر”کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔
”دن میں پچاس بارفون کرکے میری اور علیزہ کی خیریت دریافت کرنا تو جیسے اس پر فرض ہو۔ابھی کچھ دیر پہلے اس کا فون آیاکہہ رہا تھا بونس کے پیسوں میں سیونگ کے پیسے ملاکرمجھے سونے کا سیٹ دلائے گا،وہی جو اس دن ڈرامے میں صنم بلوچ نے پہنا تھا۔اچھا تھا ناں؟”
اسے یہ تو علم نہ تھا کہ سیٹ اچھا تھا کہ نہیں۔اسے بس اتنا معلوم تھا کہ مفاہمتی رویہ اس کے حق میں بہتر تھا لہٰذا اسے ”جی اچھا تھا”کہنے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
”’ارے جانتے ہو آج علیزہ نے کیا کیا؟ذیشان کا فون آیا تو موبائل علیزہ کے ہاتھ میں ہی تھا۔جانے کیسے اٹینڈ کرلیا۔یقین جانو پورے دس منٹ اپنے بابا سے بات کی ہے اس نے۔میں تو واقعی دنگ رہ گئی۔ایکسٹرا ا رڈنری ہے میری بیٹی۔”
”لمبی چھوڑنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے” ۔۔ اس نے سوچا۔اب یہ کیسے ممکن ہے کہ دس ماہ کی علیزہ کال اٹینڈ کرلے۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ غلطی اور اتفاق سے ہاتھ لگنے پر فون اٹینڈ ہو بھی گیا تو دس منٹ بات کرنے کی بات تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ دس سال کے بچے نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلیا۔وہ جانتا تھا کہ اس کی بہن جھوٹ بول رہی ہے لیکن یہ بتاکربہن کو اس کی نظروں میں شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے”ماشاء اللہ” کہہ کر جان چھڑانی چاہی لیکن اس کی بہن ابھی جان چھوڑنے کے موڈ میں نہ تھی۔
”اچھا تم بتاؤ شادی کا کیا سوچا؟جس طرح تم انکار پر انکارکیے جا رہے ہو لگتا نہیں کہ تم کسی کو پسند کرتے ہوگے۔وہ لڑکے اور طرح کے ہوتے ہیں تم تو ۔۔”وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی”تم رہنے دو تم سے کچھ نہ ہوگا۔ٹھہرو میں تمہیں کچھ لڑکیوں کی تصویریں دکھاتی ہوں۔لائی ہوں اپنے ساتھ” ذیشان ایک ہفتے سے اسلام آباد گیا ہوا تھا سووہ ایک ہفتے سے علیزہ کے ساتھ یہیں تھی۔پورا ہفتہ وہ اس کی نظر سے بچ کر گزرتا رہا،آج ہاتھ آیا تھا ۔اتنی جلدی تو آزادی نہیں ملنی تھی۔وہ شکر کر رہا تھا کہ اس سے چھوٹی بہن اپنے سسرال کے ساتھ سکھرمیں تھی۔اگر وہ بھی ان دنوں گھر پر ہوتی تو دونوں بہنیں مل کر نہ جانے اس کا کیا حشر کرتیں۔ کچھ دور صوفے پر پڑی ایک فوٹو البم اٹھائے وہ اس کے قریب آئی اور تصویریں دکھانے لگی۔تصویریں دیکھنے سے پہلے اس نے پوچھا’کس کی تصویریں باجی؟’
”لڑکیوں کی اور کس کی؟لڑکوں کی تو دکھانے سے رہی بدھو۔”وہ ہلکے قہقہے کے ساتھ ہنس پڑی۔
”یہ ہے نمرا ہے” ذیشان کی چھوٹی بہن۔حال ہی میں کراچی یونی ورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔یہ دیکھو سعدیہ۔فیشن ڈیزائننگ میں ڈپلومہ کر رکھا ہے۔کیا ڈیزائننگ کرتی ہے بھئی۔چھوٹے ماموں کی شادی میں، میں نے جو غرارہ پہنا تھا ناں،اسی نے ڈیزائننگ کیا تھا۔کیسی تعریف ہوئی تھی خاندان میں!اچھا یہ کیسی ہے؟”وہ ایک قبول صورت لڑکی کی تصویر تھی”یہ ندرت ہے۔پرائیویٹ ایم اے کیا ہے اس نے۔بے چاری سیدھی سادی سی لڑکی ہے۔نہ فیشن کی سدھ ہے نہ دنیاداری کی۔ خاموش سی کم گو۔اماں کو تو نمرا پسند ہے لیکن میں تو ندرت کو ترجیح دوں گی۔دیکھو ناں لڑکی ایسی ہو جو کم بولے مگر کام زیادہ کرے۔رنگ روپ کون سا عمر بھر ساتھ رہنا ہے۔یہ بہار تو آج ہے کل نہیں۔اصل بات ہوتی ہے گھرداری۔سچ پوچھو تو مجھے نمرا ایک آنکھ نہیں بھائی۔ذیشان نے تو بہت کہہ رکھا ہے لیکن میں نہیں چاہتی کہ وہ اس گھر میں آئے۔وہ یونی ورسٹی سے پڑھی ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ یونی ورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیوں کے کتنے افیئرز ہوتے ہیں۔ایسی لڑکیوں سے دور ہی بھلے۔تمہیں کیسی لگی ندرت؟”
”بس کریں باجی بہت ہوگیا۔”اس کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوچکا تھا۔”آپ سب کو ہزار بار کہہ چکا ہوں کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی لیکن آپ کو میری بات سمجھ ہی نہیں آتی۔جب موقع ملتا ہے یہی راگ الاپنا جیسے اپنا فرض سمجھتی ہیں۔مجھے نہیں کرنی ان میں سے کسی کے ساتھ شادی۔آپ کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟کیوں میرے سکون کے پیچھے پڑی ہیں؟”
”بہن ہے تمہاری۔تمہارے لیے نہیں سوچے گی تو کیا ہمسایوں کے لیے سوچے گی؟”اس کی بلند ہوتی آواز سن کر اماں کچن سے نکل کر لاؤنج میں آگئیں۔ ”شادی ہی کا تو کہہ رہی ہے تم سے،کون سے پیسے مانگ رہی ہے جو اس طرح چیخ رہے ہو؟”
”آپ لوگ مجھ سے پیسے لے لیں۔جتنے چاہیں لے لیں لیکن مجھے پھر شادی کے لیے نہ کہیں۔تنگ آگیا ہوں میں آپ کی یہ باتیں سن سن کر۔کل بھی کہا تھا،آج بھی کہتا ہوں میں شادی نہیں کروں گا۔”
اس نے سوچ لیا تھا کہ چپ رہ کر اور اذیت برداشت نہیں کرے گا۔
”ساٹھ ہزار تنخواہ ہے تمہاری۔۔گاڑی ہے۔۔بینک بیلنس ہے۔خوب رُو ہو ،جوان ہو اور کیا چاہیے ہوتا ہے شادی کے لیے؟ ہر طرح سے مکمل ہو ۔۔ کیا کمی ہے تم میں؟”
اس کی بہن نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ منوا کر ہی دم لے گی۔
”ہر طرح سے مکمل ہو ۔۔ کیا کمی ہے تم میں ۔۔ ہونہہ۔۔۔”وہ چاہتے ہوئے بھی کمی کا نہ بتا سکا۔بتا بھی کیسے سکتا تھا؟
”کوئی کمی نہیں،کچھ نامکمل نہیں۔بس دل نہیں چاہتا ۔۔زبردستی ہے کیا؟کان کھول کر سن لیں مجھے شادی نہیں کرنی۔آج پوچھیں گی تو بھی یہی جواب ہے،دو سال بعد پوچھیں گی پھر بھی جواب یہی رہے گا۔سمجھیں!”یہ کہہ کر وہ تیز قدم اٹھاتا لاؤنج سے نکل گیا۔
وہ ناصر حسن،جو زندگی کے اکتیسویں زینے پر پیر رکھ چکا تھا،پرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ایک کامیاب مرد میں جو اور جیسی خوبیاں ہونی چاہئیں،اس میں سب تھیں۔مردانہ وجاہت کا عملی نمونہ،بہترین ملازمت،کار بینک بیلنس ۔۔ کیا نہیں تھا اس کے پاس؟پہلے کالج،پھر یونی ورسٹی اور اب کمپنی میں ساتھ کام کرنے والی کتنی خوب صورت لڑکیوں نے اس کی جانب قدم بڑھائے تھے لیکن اس کے انتخاب کی نظر کسی پر نہ ٹھہری۔اپنی جانب اٹھتی محبت بھری نگاہوں کا جواب اس نے ہمیشہ سردمزاجی سے دیا تھا۔لوگ سمجھتے تھے کہ اس کی سرد مہری اور بے پروائی اس کی مغرور طبیعت کا نتیجہ ہے لیکن ایسا نہ تھا۔یہ درست ہے کہ اس میں وہ تمام اوصاف موجود تھے جو کسی کو بھی غرور کی انتہاؤں تک پہنچاسکتے ہیں لیکن کم از کم وہ مغرور نہ تھا اورجو تھا وہ کبھی کسی نے محسوس ہی نہ کیا۔کوئی محسوس کرتا بھی تو کس طرح؟اس نے کسی کو کبھی اپنے اتنے قریب آنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا کہ وہ اس کے اندر کی دنیا میں جھانک سکے، اسے سمجھ سکے۔وہ اکیلا تھا اور اکیلا ہی رہا۔روشنیوں کے درمیان اندھیروں میں زندگی کیسے گزاری جاتی ہے اسے تجربہ تھا۔وہ جانتا تھا کہ جب زندگی کے تمام رنگ ماند پڑجائیں تو زندگی کیسی ہوتی ہے۔سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی خالی ہاتھ تھا۔بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص طویل مسافت کے بعد سمندر تک پہنچ کر بھی پیاسا رہ جائے۔ایسا ہی تو تھا وہ۔
اس بھری پڑی دنیا میں جہاں انسان ہی انسان تھے وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو اس کے درد اور تکلیف کو جان سکتا،محسوس کرسکتا سوائے ایک عاصم کے۔عاصم اس کا دوست تھا۔ایسا دوست جس کے لیے لفظ دوست حقیقی معنوں میں استعمال کرکے اسے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔وہ جب بھی پریشان ہوتا،دنیا کے سوالوں سے بے زار ہوتا،اسے عاصم ہی یاد آتا۔جس طرح تپتے صحرا میں مسافر کو اکیلے درخت کی صحبت عزیز ہوتی ہے ۔اسے بھی عاصم کی رفاقت عزیز تھی۔جیسے سارا دن دفتر میں کام کرکے تھکن سے چور گھر لوٹتے شخص کو چائے کے کپ،بیوی کی مسکراہٹ اور بچوں کی کھلکھلاہٹ کی ضرورت ہوتی ہے،اسے بھی عاصم کی ایسی ہی ضرورت تھی ۔عاصم بھی تو ایسا ہی تھا۔اس کے دکھوں کو سمیٹنے والا،اس کا ہم درد، اس کا دوست۔اس کی دنیا کے ہر راز سے واقف، ہر احساس سے آگاہ۔آج جب ایک بار پھر زمانے کی روش نے اس کے احساسات کو ٹھیس پہنچائی تو اسے عاصم یاد آیا۔اس نے اسے فون کیا اور اپنے آنے کا بتایا۔پندرہ منٹ کے بعد وہ عاصم کے گھرپر اس کے رو بہ رو بیٹھا چائے پی رہا تھا۔اسے ضرورت نہ تھی عاصم کوسب بتانے کی۔وہ پہلے سے جانتا تھا ۔۔ یہ پہلی بار نہ تھا۔
”تمہیں اماں بابا کو بتانا ہوگا”عاصم نے چائے کا سپ لیتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور آہستگی سے کہا۔یوں جیسے کہ وہ چاہتا ہو کہ اس کی کہی بات وہ نہ سنے۔
”تم جانتے ہو میں نہیں بتا سکتا۔میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ۔۔۔نہیں یار”اس کے لیے بتانا واقعی آسان نہ تھا۔
”ایک دن تو تمہیں بتانا پڑے گا۔آخر کب تک ان سوالوں کو رد کرتے رہوگے؟کب تک بھاگتے رہو گے؟ گھر والوں کی پریشانی بھی تو اپنی جگہ درست ہے۔تمہاری عمر،تمہاری پوسٹ۔تمہاری ساریconditions شادی کے لیے مناسب ہیں۔”
”ساری conditions مناسب نہیں ہیں عاصم۔”اس نے دکھ سے کہا”conditions مناسب ہوتیں تو حالتیں اس قدر غیر مناسب نہ ہوتیں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

آخری لفظ — فارس مغل

Read Next

اجنبی — لبنیٰ طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!