دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

میں نے اسے پہلی بار لبرٹی بکس پر دیکھا تھا۔ باربی کیو ٹونائٹ پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھے بیٹھے بیٹھے مجھے اچانک کسی کتاب کا خیال آیا۔ اپنے دوست کو میں اس کی ٹیبل پر چھوڑ کر خود لبرٹی بکس کے اندر چلا آیا۔ اور وہیں پہلی بار میں نے مہر کو دیکھا۔ وہ سیاہ سلیولیس شرٹ پہنے ہوئے تھی اور میں نے سیاہ اور سفید کا اتنا خوبصورت Combination یا کنٹراسٹ جو بھی کہہ لیں… پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کے تراشیدہ بال اس کے کندھوں اور پشت پر بکھرے ہوئے تھے اور وہ میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے بار بار انھیں جھٹک رہی تھی اور ہر جھٹکے کے ساتھ اس کی مخروطی گردن کسی Swan کی طرح چند لمحوں کے لیے لمبی ہوتی پھر دوبارہ پہلے والی پوزیشن پر آ جاتی۔ اس کے ہونٹوں پر سرخ لپ اَسٹک لگی ہوئی تھی اور میگزین دیکھتے ہوئے وہ وقفے وقفے سے اپنے ہونٹ سکوڑ رہی تھی اور اس کے ہونٹوں کی ہر حرکت مجھے اس کی طرف کھینچ رہی تھی۔ اور اس کا فگر… کمال کا تھا… وہ ایک خوبصورت Painting تھی جو اس وقت لبرٹی بکس کے اندر ایستادہ تھی… Perfect… میں نے بے اختیار کہا… اگر وہ کہیں سڑک پر ہوتی تو میں پاس سے گزرتے ہوئے سیٹی بھی بجا دیتا… وہ سیٹی Deserve کرتی تھی…
تین سال بعد پاکستان واپس آنے کے بعد یہ کسی لڑکی سے میرا اس طرح کا پہلا ”آمنا سامنا” تھا۔ تین سال پہلے پاکستان میں قیام کے دوران تو خیر روز ہی میں کئی لڑکیوں کو دیکھ کر اس طرح کے احساسات سے دوچار ہوتا تھا جس طرح کے احساسات سے مجھے اس لڑکی نے دوچار کیا تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں حسن پرست تھا بلکہ میں تو فخریہ طور پر اس بات کو کہتا ہوں کہ میں حسن پرست تھا… حسن کا مداح تھا اور خوبصورتی کو سراہتا تھا اور خوبصورتی اگر ایک عورت کی شکل میں ہو تو پھر تو سونے پر سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔
خیر میں سیاہ لباس والی لڑکی کی بات کر رہا تھا جو اس وقت مجھے لبرٹی بکس پر نظر آئی تھی اور جس نے چند لمحوں کے اندر مجھے اپنا معمول بنا دیا تھا۔ میں اس وقت اسے دیکھتے ہوئے یہ قطعاً بھول چکا تھا کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں کھانا کھانے آیا تھا اور میرا وہ دوست آرڈر دینے کے بعد میرے انتظار میں باہر بیٹھا ہوگا اور اگر ویٹر نے کھانا سرو کر دیا تو… شاید مجھے کوس بھی رہا ہوگا۔
یہ نہیں تھا کہ اس شاپ میں اور لڑکیاں نہیں تھیں… تھیں… یہ بھی نہیں تھا کہ میں نے زندگی میں پہلی بار کوئی خوبصورت لڑکی دیکھی تھی… میں روز درجنوں خوبصورت لڑکیاں دیکھتا تھا… مگر بعض چہرے پتہ نہیں آپ کے وجود کے کس حصے پر نقش ہوتے ہیں کہ آپ ان کو چاہنے کے باوجود اپنے اندر سے نکال نہیں پاتے۔ میں نے بھی مہر کے لیے ایسا ہی کچھ محسوس کیا تھا۔





دنیا میں تین قسم کے مرد ہوتے ہیں ایک وہ جو خوبصورت لڑکیوں کو دیکھتے ہیں دوسرے وہ جو ہر لڑکی کو دیکھتے ہیں اور تیسرے وہ جو کسی لڑکی کو نہیں دیکھتے… اور یہ تیسری قسم کے مرد پاگل خانے میں ہوتے ہیں۔ میں خود پہلی قسم کے مردوں میں شامل تھا… صرف خوبصورت لڑکیوں کو دیکھتا تھا… خوبصورت اور فیشن ایبل… یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ… “Presentable” لڑکیاں… اور مہر ایسی ہی ایک لڑکی تھی… اس کو دیکھا جا سکتا تھا، غور کیا جا سکتا تھا، چاہا جا سکتا تھا۔ ”کچھ اور” بھی کیا جا سکتا تھا مگر وہاں لبرٹی پر میں نے اس کو صرف دیکھا… اور ٹکٹکی باندھ کر دیکھا… لڑکیوں کو کوئی دیکھ رہا ہو تو انھیں فوراً پتہ چل جاتا ہے اور میں تو اسے گھور رہا تھا مگر مجال ہے اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا ہو… ہو سکتا ہے وہ ساری عمر اسی طرح دیکھی جاتی رہی ہو اور اس کے اندر سے یہ احساس ہی ختم ہو گیا ہو کہ کوئی اسے معیوب انداز میں دیکھ رہا ہے… مگر میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ بھی مجھے ایک نظر دیکھے… میں خوبصورت مرد تھا کوئی بھی لڑکی مجھ پر دوسری نظر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی تھی… اور میں وہاں کھڑا تھا کہ دوسری نظر تو ایک طرف وہ پہلی بار تو دیکھے مجھے۔
میں کتاب واپس شیلف میں رکھ کر میگزینز کے سیکشن کے پاس چلا گیا۔ اس سے بمشکل دو قدم کے فاصلے پر کھڑے ہو کر میں نے ایک میگزین ہاتھ میں لیا… کم از کم اب تو گردن موڑ کر دیکھ لیتی… نہیں وہ اسی انداز میں میگزین ”پڑھ” رہی تھی… یقینا پڑھ رہی تھی صرف دیکھنے والے تو اتنے محو نہیں ہوتے۔
اور میں اس کے اتنا پاس کھڑا تھا کہ اس کے پرفیوم کی خوشبو کو محسوس کر رہا تھا اس کے برہنہ دودھیا بازو پر کندھے سے کلائی تک مختلف جگہوں پر تین تِل تھے۔ میرا دل چاہا میں اس کے بازو کو چھو کر دیکھوں۔ اس کی شرٹ کے Slits اتنے لمبے تھے کہ اس کی ٹراؤزرز نما پاجامہ سے اوپر سفید کمر کا ایک انچ کے برابر جسم بھی نظر آ رہا تھا… وہ دور سے حسین لگی تھی پاس آ کر میں سحر زدہ ہو گیا تھا۔ اس کی سیاہ مہین شرٹ اس کے دودھیا جسم کو چھپانے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہی تھی اور میرے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہی تھی۔ گردن کے ہر جھٹکے کے ساتھ کچھ دیر کے لیے اس کے تراشیدہ بال اس کی ہیئت سے ہٹتے اور میری نظریں جسم کے اس حصے پر جم جاتیں جو شرٹ کے پچھلی طرف کھلے گلے کی وجہ سے عیاں تھا… بے اختیار میرا دل چاہا میں اس سے بات کروں۔
”کیا میں یہ میگزین دیکھ سکتا ہوں؟” مہر نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کر کے مجھے دیکھا پھر انگلی کے اشارے سے ریک میں لگے اسی میگزین کی دوسری کاپیز کی طرف اشارہ کیا۔ میں بے ساختہ شرمندہ ہوا۔ ”سوری میں نے دیکھا نہیں تھا۔” میں نے کہا۔ ”اس سے بات کرنے کی خواہش پوری نہیں ہوئی مگر چلو اس نے ایک بار دیکھا تو سہی… میں نے دل کو تسلی دی بات تو پھر بھی کی جا… اس سے پہلے کہ میں ایک اور کوشش کرتا مہر میگزین ہاتھ میں لیے کاؤنٹر پر چلی گئی۔ میں منہ کھولے اسے دیکھتا رہ گیا۔ دو منٹ لگے ہوں گے اسے میگزین کی ادائیگی اور پھر لبرٹی بکس سے باہر نکلنے میں… اور میں اگلے دس منٹ اسی ہونق انداز میں منہ کھولے لبرٹی بکس کے گلاس ڈور سے باہر پارکنگ کو دیکھتا رہا جہاں وہ لبرٹی سے نکل کر ایک گاڑی میں بیٹھ کر گئی تھی۔ تو یہ مہر سے میری پہلی ملاقات تھی۔
وہاں باہر اوپن ائیر میں بیٹھے اپنے دوست کے ساتھ اس رات میں کسی چٹنی کے بغیر Vegetable سیخ کباب کھاتا رہا… اور خود بولنے کی بجائے اپنے دوست کی باتیں سنتا رہا اور آس پاس بیٹھی خوبصورت لڑکیوں کو زندگی میں پہلی بار نظر انداز کرتا رہا۔ میرا ذہن صرف اس ایک لڑکی پر جماہوا تھا جو لبرٹی بکس سے باہر گئی تھی۔اس کے برہنہ دودھیا بازو کی پشت کا خوبصورت خم جو اس کے بالوں کے ہٹتے ہی نظر آتا، اس کے لمبے Slits سے نظر آنے والی کمر، اس کی مہین شرٹ سے نظر آنے والا جسم، اس کی لمبی گردن، اس کے ریشمی بال، سرخ لپ اَسٹک میں چھپے خوبصورت ہونٹ، اس کی گھنی پلکوں والی سیاہ آنکھیں… اور اس کے تین تِل… میرے خدا وہ مرد کتنا خوش قسمت ہوگا جو اس کا شوہر بنے گا۔
”مراد یار ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو وہ سیاہ کپڑوں والی لڑکی کو۔” میرے دوست نے کھانا کھاتے ہوئے ٹیبل پر آگے جھک کر میرے کانوں میں جیسے سرگوشی کی۔ میں کرنٹ کھا کر پیچھے مڑا۔ وہ مہر نہیںتھی ایک اور لڑکی تھی ایک گہرا سانس لے کر میں نے گردن سیدھی کی… ”دیکھا؟” میرے دوست نے مجھ سے پوچھا۔ ”ہاں۔” میں نے پانی کا گھونٹ لیا۔ سیاہ لباس کی جو ”تباہ کاریاں” میں لبرٹی بکس پر دیکھ چکا تھا وہ ہر جگہ نظر نہیں آتی تھیں۔ ”اچھی ہے نا؟” میرے دوست نے رائے لی۔ ”اچھی ہے… ہر لڑکی اچھی ہے۔” میں لاپرواہی سے بڑبڑایا۔
……***……
”اگر ہر لڑکی اچھی ہے تو آخر پھر تم میری بات کیوں نہیں سنتے؟” ممی نے بہت غصے سے مجھ سے کہا۔ میں ناشتہ کرنے میں مصروف تھا اور وہ میرا سر کھانے میں…
”آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے کہ میں آپ کی بات پر عمل کیوں نہیں کرتا؟” میں نے لاپرواہی سے ان کی تصحیح کی۔
”مجھے زہر لگتی ہے تمہاری ہر بات کو مذاق میں اڑا دینے کی عادت۔”
”وہ تپیں… اچھا چلیں میں اب سنجیدہ ہو جاتا ہوں اور۔” میں نے یک دم اپنی مسکراہٹ غائب کرتے ہوئے کہا۔
”تمھیں اب شادی کر لینی چاہیے۔” ممی نے تحمل سے کہا۔
”کیونکہ میری شادی کی عمر ہو چکی ہے اور اس لیے بھی کیونکہ میں آپ کا اکلوتا بیٹا ہوں اور اس لیے بھی کیونکہ آپ گھر میں تنہا ہوتی ہیں… دیکھ لیں مجھے آپ کا پورا سکرپٹ یاد ہے۔” میں نے ان کی بات کاٹ کر بڑے اطمینان سے فخریہ انداز میں کہا۔
ممی کچھ لمحے خاموشی سے میرا چہرہ دیکھتی ہیں پھر انھوں نے صبر و تحمل کے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔
”تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ سعیدہ کے گھر چلو گے یا نہیں؟” انھوں نے ایک بار پھر اپنی اسی دوست کا نام لیا جن کی اکلوتی بیٹی کے وجود نے پچھلے تین سال سے میری زندگی حرام کر رکھی تھی۔ Canada ایم بی اے کرنے جانے سے پہلے ممی کئی سالوں بعد اپنی اس دوست سے ملی تھیں اور وہ میری زندگی کا تاریک ترین دن تھا کیونکہ انھیں اپنی دوست کی باحیا، پارسا اور شریف بیٹی بے حد پسند آ گئی تھی۔ مجھے ان کی اس پسند پر بالکل اعتراض نہ ہوتا مگر بدقسمتی سے انھیں وہ لڑکی میرے لیے پسند آ گئی تھی۔
”ممی جب مجھے آپ کی فرینڈ کی بیٹی سے شادی ہی نہیں کرنی تو ان کے گھر جانے کا کیا فائدہ؟” میں نے بے حد سکون سے کہا۔
”تم ایک بار وہاں چلو تو… تم دیکھ لینا وہ لڑکی تمھیں بھی اتنی ہی پسند آئے گی۔ میں نے تین سال پہلے اسے دیکھا تھا اور تب سے آج تک اسے اپنے ذہن سے نہیں نکال سکی۔” ممی نے مجھ سے کہا۔
”جو نقشہ آپ اس لڑکی کا میرے سامنے کھینچتی ہیں وہ میری بیوی والا نہیں ہے۔” میں نے انھیں صاف صاف لفظوںمیں بلاشبہ 250 ویں بار بتایا۔ ”ایک بار دیکھنے میں تو کوئی ہرج نہیں۔” ممی نے کہا۔
”آپ اسے یہاں منگوا لیں میں دیکھ لوں گا۔” میں جملہ بول کر پچھتایا۔ ممی کا پارہ آسمان سے چھونے لگا تھا۔
”یہاں منگوا لوں؟ کوئی چیز ہے… جانور ہے… کیا ہے کہ یہاں منگوا لوں؟ خدا کسی کو اگر اکلوتی اولاد دے تو فرمانبردار دے…” میں نے ان کی بات کاٹی۔
”ورنہ زیادہ بچے دے اور سارے نافرمان دے تاکہ ایک اولاد کو بار بار نافرمانی کے طعنے دے دے کر اس کی زندگی اجیرن نہ کی جا سکے۔” میں نے چائے کا آخری گھونٹ اطمینان سے لیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ممی ناراضگی سے وہیں بیٹھی رہیں۔
تین سال پہلے Canada جانے سے پہلے میری شادی یا منگنی ٹائپ کی کسی چیز کا مسئلہ پہلی بار زیر غور آیا تھا۔ ماؤں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ بیوی کی صورت میں کوئی نکیل لا کر اپنے بیٹوں کے ناک اور منہ میں ڈال دیں گی اور اس کے بعد جدھر چاہے انھیں دوڑاتی پھریں گی… میری ممی بھی مختلف نہیں تھیں: پاپا اور وہ اپنی سوچ اور طور طریقوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ پاپا جتنے لبرل اور ماڈرن تھے۔ ممی اتنی ہی کنزرویٹو… بلکہ Rigid کا لفظ استعمال کروں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ مجھ پر ددھیال کا زیادہ اثر تھا اور ممی کو میرے ددھیال والے ایک آنکھ نہ بھاتے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ میرے ویسٹرنائزڈ ہونے کی بنیادی وجہ میرے ددھیالی کزنز اور ان کی فیملیز ہی تھیں جو میرے ساتھ سکول کالج میں پڑھتے رہے اور جن کے گھر میرا بہت آنا جانا تھا۔
اور بہت شروع سے ہی وہ اس خوف میں مبتلا ہو گئیں کہ اگر میں اپنے جیسی ہی کوئی آزاد خیال لڑکی پسند کر بیٹھا تو ان کا اور ان کی آنے والی نسل کا کیا ہوگا۔ وہ پہلے دبے لفظوں میں… پھر کھلم کھلا… اور پھر دو ٹوک الفاظ میں میری ہر گرل فرینڈ کا فون ریسیو کرنے کے بعد مجھے بتا دیتیں کہ انھیں ”کیسی” بہو چاہیے تھی۔ میں ہر بار ان کی ٹینشن کو کم کرنے کی کوشش کرتا اب گرل فرینڈز کے اس ہجوم میں میں بالآخر عمر کے اس حصے میں بیوی کی تلاش میں مصروف نہیں تھا جب سب کیرئیر بنا رہے ہوتے ہیں اور میں بھی تب سنجیدگی سے اگر کسی چیز کے بارے میں سوچتا تھا تو وہ کیرئیر ہی تھا… گرل فرینڈز پارٹیز، پھرنا پھرانا تو صرف شوق اور دلچسپی کی بات تھی۔
ممی کے برعکس پاپا نے مجھے Free hand دے رکھا تھا۔ انھیں پرواہ نہیں تھی کہ میں گھر سے باہر کیا کرتا تھا اور کس کے ساتھ پھرتا تھا انھیں اگر کسی چیز میں دلچسپی تھی تو وہ میرے گریڈز تھے اور میرے گریڈز ہمیشہ شاندار رہتے تھے۔ ”تمہاری ممی کو خوامخواہ عادت ہے ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ٹینشن لینے کی… تم پرواہ مت کیا کرو۔” وہ ممی کے ہر ”ایمان افروز” لیکچر کے بعد مجھے کہتے اور ممی کے لیکچر کا جو رتی برابراثر ہوتا وہ بھی زائل کر دیتے۔
”میں تمھیں منگنی کیے بغیر Canada نہیں جانے دوں گی۔” میرے گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہی انھوں نے میرے سر پر ایٹم بم پھوڑا تھا۔ میں لو میرج کرنا چاہتا تھا مکمل لو میرج… اپنی مرضی سے اپنی پسند کی لڑکی سے شادی اور ممی… وہ میرے راستے میں کانٹے بچھا رہی تھیں یا کنواں کھود رہی تھیں میں جان نہیں سکا۔
”یہ نری جہالت ہے صفیہ… سو سال پہلے لوگ اس طرح کرتے ہوں گے اب کون منگنیاں کر کے بیٹوں کو پڑھنے کے لیے باہر بھجواتا ہے۔” پاپا نے بے حد ناراضگی کے ساتھ میری حمایت میں ممی سے کہا۔
”آپ کا بیٹا اگر منگنی کے بغیر باہر گیا تو شادی کر کے واپس آئے گا۔” ممی نے جیسے پاپا کو خبردار کیا۔
”اگر میرا ایسا ارادہ ہوا تو وہ تو میں منگنی کے بعد بھی باہر سے شادی کر کے ہی واپس آؤں گا۔ آپ سمجھتی ہیں منگیتر نام کی چیز کوئی امام ضامن ہے جو باہر مجھے ہر لڑکی سے دور رکھے گی۔” میں نے خاصی بدلحاظی سے کہا اور یہ بدلحاظی مجھے خاصی مہنگی پڑی۔ پاپا نے خاصی درشتی سے مجھے ڈانٹا۔
”ہاں ڈھونڈو اس کے لیے کوئی لڑکی… بہتر ہے یہ منگنی کروا کر ہی باہر جائے۔” انھوں نے اعلان کیا اور میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔




Loading

Read Previous

دربارِدل — قسط نمبر ۱

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!