دانہ پانی — قسط نمبر ۸

تاجور کے پاس اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ہر دُعا اُس نے کر چھوڑی تھی۔ ہر وظیفہ اُس نے آزما لیا تھا۔ پیر ابراہیم سے اُن کی ناراضی کے باوجود دعائیں کروائی تھیں، پر کوئی دُعا، کوئی جتن مراد کے دل کا بند تالہ نہیں کھول پائے تھے اور اب ماہ نور اُس سے ایک بار پھر وہی سوال کررہی تھی۔
”وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا۔ ابھی تو دو سال ہی گزرے ہیں نا۔کتنے اور سال چلے گا یہ جادو؟ بھول جائے گا مراد موتیا کو۔ ہوجائے گی کاٹ۔تو نہ گھبرا ماہ نور۔ دیکھنا اِس بار بھی بیٹا ہوگا اور جب دو بیٹوں کی ماں ہوجائے گی تُو تو مراد کو عزت دینی ہی پڑے گی تجھے۔”
تاجور کو جو تاویلیں، جو طفل تسلیاں آرہی تھیں، وہ اُسے دے رہی تھی اور ماہ نور تھی کہ بہلنے میں ہی نہیں آرہی تھی۔
”عزت کا مسئلہ نہیں ہے پھوپھو! عزت تو بہت کرتا ہے وہ، پر پیار نہیں کرتا۔ خیال کرتاہے، قدر نہیں کرتا۔ سر پر بٹھاتا ہے، دل میں نہیں بٹھاتا۔”ماہ نور اب پہلی بار روئی تھی۔
”عزت کا تومسئلہ ہی نہیں ہے میرے اور مراد کے درمیان۔ عزت ہی عزت رہ گئی ہے۔ پیار تو ہے ہی نہیں۔”
وہ روئے جارہی تھی اور تاجور کو لگا تھا کسی نے رسّی سے اُس کے وجود کو لپیٹنا شروع کردیا تھا۔ وہ اتنی ہی بے بس ہوگئی تھی ماہ نور کے آنسوؤں کے سامنے جو اُس کی بھتیجی تھی اور جس کے وجود سے اُس کے خاندان کی اگلی نسل چل رہی تھی۔
”بس تھوڑا صبر دھیئے! بس تھوڑا صبر۔ وہ تیرا ہوگیا ہے، اُس کا دل بھی تیرا ہوجائے گا۔” تاجور نے اُسے اپنے ساتھ لپٹایا تھا اور تسلّی دی تھی۔ اُس کا بیٹا ماں کو روتے دیکھ کر منہ بسورنے لگا تھا۔
”میں اُس سے بات کرو ںگی۔” تاجور نے اُسے ایک اور تسلّی دی تھی، یہ جاننے کے باوجود کہ اُس کے پاس ایسے کوئی الفاظ نہیں تھے جو اُس کے بیٹے کا دل نرم کرتے۔
موتیا کو اُس نے بس مراد کی زندگی سے نکال دیا تھا، اُسے وہم ڈال کر ۔ پر مراد کے دل سے اُس کا پیار نکالنے کے لئے اُس کے پاس کوئی چال، کوئی چلتر، کوئی جنتر منتر نہیں تھا۔ بس دعائیں اور وظیفے تھے اور تاجور کو پتہ نہیں کیوں اب لگتا تھا جیسے اُس کی دعاؤں میں کچھ مسئلہ ہونے لگا تھا۔ نہ اُس کی دعاؤں سے مراد پگھلتا تھا، نہ پانی برستا تھا۔ وہ آج بھی کڑوا پانی پیتی تھی جو اُس کے علاوہ کسی کو کڑوا نہیں لگتا تھا۔ اُس کے گھر کے ایک کمرے سے آج بھی راتوں کو موتیا کی خوشبو پھوٹتی تھی اور اُس خوشبو کے بارے میں بھی وہ کچھ نہیں کرپائی تھی سوائے مراد کے کمرے کو ہمیشہ کے لئے بند کردینے کے کیونکہ اُسے لگتا تھا وہاں جادو کیا گیا تھا، وہاں اثر تھا۔ پر وہ اثر اب اُن کی پوری زندگیوں پر آنا شروع ہوگیا تھا۔
چوہدری شجاع اب پہلے کی طرح اُس کی عزت نہیں کرتا تھا۔ اُس سے روکھا بولتا تھا۔اُس کا باپ پیر ابراہیم اب اُس کے آنے پر چادر نہیں بچھاتاتھا، اُٹھ کر کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ اُس سے مختصر بات کرتا تھا۔ تاجور اپنے تکبر اور غرور سے باہر نکل کر کھڑ ی ہوتی تو اُسے یہ سب کچھ محسوس ہونا شروع ہوجاتا اور پھر وہ ایک بار پھر اپنی ”میں” کی چادر اوڑھ لیتی، اور ایک بار پھر وہ بے حس ہوجاتی۔ وہ جیت تو گئی تھی نا موتیا سے، بس اتنا کافی تھا اُس کے لئے۔ باقی سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجانے والا تھا۔ وہ ضمیر کے ہر چابک کی چوٹ کو ان ہی لفظوں سے سہلاتی۔
”مراد! تو ماہ نور سے پیار کیا کر۔” فون پر چند دن بعد بالآخر تاجور نے بیٹے سے وہ ذکر چھیڑ ہی دیا تھا جس کے لئے لفظ ڈھونڈتے اُسے کئی دن لگے تھے۔
”وہ کیا ہوتاہے؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مراد نے بنا رکے پوچھا تھا۔ تاجور کو سمجھ نہیں آئی وہ کیا جواب دے۔ موتیا کا ذکر کئے بغیر مراد کوپیار کیسے سمجھائے۔
”وہی پیار جو تو موتیا سے کرتا تھا۔”اُس نے بالآخر یہ بات کہنے کی ہمت کرلی۔
”اُس پیار کوتو اُسی رات گاؤں کے قبرستان میں دفن کرآیا تھا جس رات آپ نے مجھے کنویں پر بھیجا تھا موتیا کی بے وفائی کے ثبوت دیکھنے۔ ”
پتہ نہیں اُس کے لہجے کی ٹھنڈ ک میں وہ کون سی آگ تھی جس نے تاجور کو جھلسایا تھا۔
”غلط کیا تھا کیا تجھے اُس رات وہاں بھیج کر؟” تاجور کہے بغیر نہ رہ سکی۔
”ہاں! نہ بھیجتیں تو پیار پر سے میرا اعتبار نہ اُٹھتا۔ وہ میری زندگی کا پہلا پیار تھا آپ نے اُسے ختم نہیں کیا، آپ نے اُسے ذبح کر کے ماراہے۔ اب مجھے ماہ نور سے پیار کرنے کو نہ کہیں۔ یہ میں کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں۔”
مراد نے فون بند کردیا تھا پر تاجور بہت دیر فون ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی تھی۔ پھر اُس نے سوچا تھا وہ اِس بار بڑا بھاری وظیفہ کرے گی مراد کے دل سے موتیا کو نکالنے اور بھلانے کے لئے۔ ایسا وظیفہ کہ مراد کو موتیا کے نام سے بھی نفرت ہوجاتی۔ تین مہینے ہر رات کی لمبی پڑھائی تھی، پر تاجور تیار تھی۔ اُس نے عبادت ہی کرنی تھی، اللہ کا نام ہی لینا تھا، نیکی ہی کرنی تھی۔ وظیفہ کامیاب ہوجاتا تو بھی عیش تھے، نہ ہوتا تو بھی آرام تھا۔ مراد دور رہتا تب بھی اللہ تو پاس ہی رہتا۔ تاجور نے اللہ کو منانا اور راضی رکھنا مراد کو منانے سے بھی زیادہ آسان سمجھ لیا تھا۔
بے شک انسان اپنے گمانوں سے مارا جاتا ہے اور بدگمانیوں پر پچھتاتاہے۔ بے شک انسان خسارے اور شر کاسودا بڑے ہی فخر سے کرتاہے۔ بے شک غرور اللہ کی صفت ہے اور اُس کے علاوہ کسی کو نہیں سجتی۔
…٭…
گاؤں والوں نے اُس صبح گامو کو بڑی حیرانی سے دیکھا تھا جو کھیتوں کے بیچوں بیچ اپنے ایک چھوٹے سے کھیت میں لگی سبزیاں اُکھاڑ کر وہاں بھٹّی بنا رہا تھا۔ وہ قطعہ اراضی چھوٹا تھا اور گاؤں والوں کی زمینوں کے بیچوں بیچ تھا۔ گامو اُس پر تھوڑی بہت سبزی لگادیتا جو اُس کے گھر استعمال ہوتی، اور اب اُس چھوٹے سے کھیت کے بیچوں بیچ اُس بھٹّی کی سمجھ کسی کو تب تک نہیں آئی تھی جب تک گامو نے بھٹّی بناکر اُس میں آگ جلا کر ایک کڑاہی میں ریت ڈال کر دانے بھوننا شروع نہیں کردیئے تھے۔ وہ کڑکتی دھوپ کے بیچوں بیچ اُس بھٹّی پر دانے بھون رہا تھا، خریدار کا انتظار کئے بغیر۔
”گامو کیا کررہا ہے تو؟”
گاؤں کے لوگوں نے کچھ دیر تک آپس میں کُھسر پُھسر کی ، پھر انہیں لگا کسی نہ کسی کو جاکر گامو کو سمجھانا چاہیے اور اب وہ اُسے سمجھانے آئے تھے۔
” دیکھ نہیں رہے دانے بھون رہا ہوں!”
گامو نے اُسی روکھے اندازمیں بغیر اُن لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے کہا تھا۔
”ہاں! دیکھ رہے ہیں، پر کس کے لئے دانے بھون رہے ہو؟” اُس آدمی نے اس بار کچھ تشویش سے استفسار کیا، جو اُس سے بات کررہا تھا۔
”کوئی نہ کوئی تو خریدے گا۔ نہیں خریدا کسی نے تو پرندوں کو ڈا ل دو ںگا۔” گامو لاپرواہی سے بولا تھا۔
” پر تُو تو پانی پلاتا تھا گامو، تو پانی نہیں پلائے گا تو گاؤں والوں کی پیاس کون بجھائے گا؟”
اُس آدمی نے بڑی فکرمندی سے اُس سے کہا تھا۔ گاموجس درانتی سے ریت میں دانے بھون رہا تھا، وہ پھیرتے پھیرتے رُک گیا۔
”پانی کسی کو نہیں چاہیے، سب کو دانے چاہئیں۔ گامو نے پیاس بجھا کر کیا پایا؟ دیکھتا ہوں اب آگ لگا کر کیا ہوتاہے۔” وہ اُسی اندازمیں بولا تھا۔
”کھیتوں کے درمیان بھٹّی لگا کر بیٹھا ہے۔ تیری آگ کی کوئی ایک چنگاری اُڑ کر کسی کی تیار فصل پر گرگئی تو پورے گاؤں کے دانے جل کر راکھ ہوجائیں گے۔”
ایک دوسرے آدمی نے جیسے اُس کی بھٹّی کی آگ کے ممکنہ خطرات سے اُسے آگاہ کیا۔
”گامو کی آگ نے کسی کو کیا جلانا ہے۔ وہ تو خود راکھ بنا ہواہے۔”
گامو نے جواباً کہا تھا اور پھر ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں جانے کا کہا تھا۔ وہ لوگ ناخوش وہاں سے چلے گئے تھے لیکن وہ گامو کی شکایت چوہدری شجاع کے پاس لے گئے تھے۔ ہر ایک کو گامو سے ہمدردی تھی، مگر اُس ہمدردی میں وہ اپنے کھیتوں میں لگی فصل کو تباہ ہوتے دیکھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
چوہدری شجاع حقّہ پیتے ہوئے اُن کی بات سنتا رہا۔ جب گاؤں والوں نے اپنے سارے خدشات کا اظہار کردیا تھا تو حقّہ گڑگڑانا چھوڑ کر چوہدری شجاع نے کہا:
” گامو کے کھیت کے ساتھ کس کے کھیت ہیں؟” دو آدمیوں نے ہاتھ اُٹھائے۔
”تم دونوں گامو کے کھیت کے اردگرد ایک ایک پیالی خالی چھوڑدو…وہاں فصل نہیں لگے گی۔ گامو کی بھٹّی سے کوئی چنگاری اُڑی بھی تو بس اتنی دور ہی جائے گی۔”
چوہدری شجاع نے عجیب فیصلہ دیا تھا۔ گاؤں والے اُس کا منہ دیکھنے لگے تھے۔
”چوہدری صاحب! آپ اُس کو بلا کر سمجھائیں۔”
”میں نہیں سمجھا سکتا… نہ وہ میرے کہنے پر آئے گا نہ میں اُسے سمجھانے اُس کے سامنے جاؤں گا۔ بس اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دو۔ کبھی نہ کبھی تو ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ غصّہ میں ہے۔لگانے اور بھڑکانے دو آگ۔کتنی بھڑکائے گا؟”
چوہدری شجاع نے جیسے فیصلہ دے دیا تھا۔
گامو سارا دن اُس بھٹّی میں بیٹھ کر دانے بھونتا رہا۔ پہلے پہل گاؤں والوں نے اُس سے دانے نہیں لئے، پھر آہستہ آہستہ لوگ گزرتے ہوئے اُس سے دانے بھنوانے لگے۔ کبھی کوئی بھنے ہوئے دانے بھی لے لیتا۔ کبھی کوئی عورت آٹا لے کر روٹی لگوانے آجاتی۔ کھیتوں کے بیچوں بیچ وہ چھوٹا سا کھلیان اب سبزی نہیں اُگاتا تھا۔ لوگوں کے آنے جانے، چلنے پھرنے کی وجہ سے وہ بنجر ہوگیا تھا اور وہاں سے اُٹھتا دھواں گاؤں والوں کو ناخوش کرتا اور متفکر بھی ، لیکن کوئی گامو کو کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔
”دعا کر گامو! مینہ برسے ورنہ سوکھا پڑجانا ہے۔”لوگوں نے اُسے کہنا شروع کردیا۔
” کیا کرنا ہے پانی کا تم لوگو ں نے۔ دانے لگاؤ،دانے بیجو، دانے کھاؤ۔” وہ جواباً ہنستا ہواکہتا۔ لوگ اُس کے ہنسنے پر خفا ہوئے، وہ پاگل نہیں تھا پر غصّہ دلانے والی باتیں کرتا تھا۔
” پانی نہیں ہوگا تو دانہ کہاں سے آئے گا گامو؟” کوئی نہ کوئی اُسے کہہ دیتااور گامو ہنستا ہوا دانے بھونتے بھونتے اُنہیں جلا کر راکھ کردیتا۔
چوہدر ی شجاع نے سوچا تھا وہ بھٹّی گامو کے غصّے کی آگ کو بجھا دے گی۔ وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہونا شروع ہوجائے گا۔ پھر ماشکیوں والے کام پر چلاجائے گا۔ اُس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ گامو کی بھٹّی سے اُٹھتے ہوئے دھویں نے آسمان کے بادلوں کا پانی پینا شروع کردیا تھا۔ جھوک جیون کے کھیت پانی سے بھری بدلیوں سے برسنے والی ایک ایک بوند کے لئے ترستے رہتے۔ کھیتوں نے سوکھنا شروع کردیا تھا اور گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ چوہدریوں کو بھی پریشانی لاحق ہوگئی تھی۔ دعائیں، خیرات، صدقہ جو کرسکتے تھے انہوں نے کیا تھا بارش نہیں برسی تھی مگر اسی سب کے دوران چوہدریوں کے ہاں مراد کا دوسرا بیٹا آگیا تھا۔
دھوم دھڑکا اب بھی پہلے ہی کی طرح ہوا تھا۔ بارش ہوتی نہ ہوتی، فی الحال چوہدریوں کے بھڑولے اناج سے بھرے ہوئے تھے اور وہ پیسہ لٹا سکتے تھے، جتنا بھی لُٹانا چاہتے۔ گامو اور اللہ وسائی کے دل پر ایک بار پھر چھریاں چلی تھیں جب مٹھائی کے ٹوکرے پورے گاؤں کے ساتھ ساتھ اُن کی گلی میں بھی ڈھول باجے اور ہیجڑوں کے ناچ گانے کے ساتھ بانٹے گئے تھے۔ وہ پہلا موقع تھا جب اُنہیں موتیا کی ذہنی کیفیت کے خراب ہونے پر اطمینا ن ہوا تھا۔ وہ ٹھیک ہوتی تو یہ سب کیسے سہتی؟
…٭…

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

پنج فرمان — سحر ساجد

Read Next

سعی — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!