دانہ پانی — قسط نمبر ۱

انتساب

دانہ پانی کے نام
جس کی تلاش کچھ کو پارس کرتی ہے کچھ کو پتھر

=====================================

پیش لفظ

کبھی کبھی کہانی کاغذ پر شہد کی طرح بہتی ہے۔ ایک تار بناتے ہوئے، پھیل کر سمٹتے ہوئے، سمٹ کر پھیلتے ہوئے۔اپنی مٹھاس سے دل کو شکر کردیتی ہے۔
دانہ پانی بھی کچھ ایسے ہی لمحوں میں لکھی ہوئی کہانی ہے، جب حرف کاغذ پر اُتر کر پہلے لفظ،پھر کہانی بُننے لگتے ہیں۔ کچھ کہانیاں دماغ کو کھپادیتی ہیں، کچھ دل کو چرخہ بنادیتی ہیں۔ تار تار کاتتے کاتتے ایک ایسا جہاں ایسے کرداروں کے ساتھ آکر آباد ہوجاتا ہے جوکبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ دانہ پانی بھی ایسے ہی جہاں کے ایسے ہی کرداروں کی کہانی ہے۔
تکبّر سے دیا گیا دانہ اور عاجزی سے پلائے ہوئے پانی کے بیچ کوئی رشتہ کیسے جُڑ سکتاہے؟ جُڑ بھی جائے تو توڑ نہیں چڑھتا، توڑ چڑ ھ بھی جائے تو ہوک اور آہ میں ختم ہوجاتا ہے۔ قصّہ کہانی بن جاتا ہے… دانہ پانی بھی قصّہ کہانی بن گئے اور میں داستان گو۔
تو چلیں آج سناتی ہوں کہانی دانے کی، جس کو تکبّر تھا کہ وہ لوگوں کی بھوک مٹاتا ہے، وہ نہ ملتا تو دُنیا مرجاتی… اور پانی کی جو کہتا ہے وہ نہ ہوتا تو دانہ سوکھا ہی بنجر مرجاتا، نہ اُگتا، نہ لہلہاتا، نہ کسی کے گھر کا گیہوںبنتا۔
دانہ جھگڑالو تھا، خوب باتیں سُناتا، خوب لڑتا، طنز، طعنے، تہمت سب کہہ دیتا۔ ہر دوسرے کی بات پر پھٹ پڑتا۔
پانی صلح جُو تھا۔ سب سُن لیتا۔ گہرا تھا، سب پی جاتا۔
پر ایک دن پانی کو غصّہ آگیا تھا دانے کے تکبّر پر… بس ایک دن ہی غصّہ آیا تھا اور ایسا غصّہ کہ سب قصّہ کہانی بن گئے… دانہ بھی اور پانی بھی…موتیا بھی اور مراد بھی۔
عمیرہ احمد

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Read Next

عام سی عورت — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!