جادوئی جنگل | سمیعہ علی

جادوئی جنگل
سمیعہ علی

کسی پہاڑی علاقے میں پانچ دوست رہتے تھے۔ وہ مل جل کر پڑھتے اور ایک ساتھ ہی کھیلتے تھے۔ حمزہ اور عادل بہت شرارتی اور چالاک تھے۔ پنکی اپنے نام کی طرح گلابی سی اور بھولی بھالی لڑکی تھی۔ قاسم ذراسُست مزاج اور دانیال گول مٹول سابچہ تھا۔ ان پانچوں کی دوستی بڑی مثالی تھی۔ ایک دن وہ سب پہاڑی علاقے کی سیر کو نکلے اور گھومتے پھرتے ایک خوب صورت وادی میں داخل ہوگئے۔ اس نئے علاقے کا حُسن دیکھ کر اُن کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”کیاخیال ہے دوستو! اگر ہم اسی جگہ اپنے خیمے لگا لیں۔” عادل نے ایک جگہ رک کر پوچھا۔ پھر سب نے اپنے اپنے خیمے اسی جگہ لگالیے۔ اچانک ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا نے تیز طوفان کی شکل اختیار کرلی۔ آخر کچھ دیر بعد طوفان کی شدت کم ہوئی۔ اب وہ ایک ہرے بھرے علاقے میں تھے۔ ہر طرف خوش نما پھول اورمہکتی فضا، ایسا دل کَش منظر انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اچانک عادل نے زور سے ہنسنا شروع کر دیا:
”ہاہاہا…ہاہاہا… ارے دیکھو! دانیال بھالو بنا ہوا ہے۔” سب نے حیران ہوکر دیکھا۔ واقعی ایسا ہی تھا۔ سب ہنسنے لگے۔
”اوہ… وہ دیکھو! پنکی کتنی پیاری خرگوشنی بن چکی ہے۔” حمزہ چلا ّیا۔ دانیال اب ہنستے ہوئے بولا: ”ہاہاہا!!! عادل! تم ذرا اپنی شکل تو دیکھو… بندر بن چکے ہو تم۔”
اِدھر حمزہ ایک شاطر لومڑ کا روپ دھار چکا تھا۔ سب حیرانی سے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ اچانک انہیں قاسم کا خیال آیا تو وہ چونک گئے۔
”ارے! میں یہاں ہوں، نیچے دیکھو!” سب نے نیچے دیکھا تو زمین پر ایک پیارا سا کچھوا رینگ رہا تھا۔
”دوستو!لگتا ہے ہم کسی جادوئی دنیا میں آ گئے ہیں۔” دانیال بھالو نے کہا۔ ”ہاں شاید… لیکن جلد ہی باہر نکل جائیں گے فکر مت کرو… ہمیں کوئی نہ کوئی راستہ مل ہی جائے گا۔” پنکی نے کہا تو سب کو حوصلہ ہوا۔
پھر وہ سب ذرا آگے بڑھے تو وہاں ایک خوب صورت جھیل نظر آئی۔ وہ سبھی جھیل میں موجود کشتی میں سوار ہو گئے۔ کشتی خود بہ خود چلنے لگی۔ پانی میں پیاری پیاری مختلف رنگوں والی مچھلیاں تیر رہی تھیں، جو خوشی سے دائرہ بناتی ہوئی ان کی کشتی کے پاس آتیں اور پھر تیزی سے دور چلی جاتیں۔ جھیل کے پاراُترتے ہی بندر یعنی عادل سیب کے درخت پر چڑھ گیا۔
”ارے بھائی! ہمیں بھی کھانے ہیںسیب ۔”خرگوشنی،کچھوا اور بھالو نے آواز لگائی۔ بندر نے یہ سن کر درخت کو زور زور سے ہلانا شروع کر دیا۔ اِس طرح بہت سارے سیب نیچے گرگئے۔ اچانک ایک تیز آواز اُن کے کانوں میں پڑی۔ ”رک جاؤ… کون ہو تم؟ پھل ضائع کرنے پر تمہیں سزا ملے گی۔” کرخت آواز سنتے ہی اُن سب نے دوڑ لگا دی۔ اتنے میں آسمان پر موجود بادل کا ایک ٹکڑا اُن کے سروں پر منڈلانے لگا۔ اسے دیکھ کر لومڑ کو خیال آیا: ”دوستو! یہ بادل ہمیں کہیں لے کر جانا چاہتا ہے۔ دیکھو! یہ نیچے آرہاہے ہماری طرف…” لومڑ کی بات سُن کر سب چوکنا ہوگئے۔
”چلوبھئی! بادل آہستہ آہستہ سوار ہوجاؤ۔” بادل کے نیچے آنے پر خرگوشنی نے کہا تو سب سوار ہوگئے۔ بادل نے انہیںایک خوف ناک باغ کے باہر لا کر اُتار دیا۔ اِس باغ میں بے ہنگم پتھر تھے جِن پر پاؤں رکھ کرانہیں آگے بڑھنا تھا۔ اِن پتھروں کے درمیان کہیں آگ تھی تو کہیں پانی اور کہیں رینگتے جانور۔ سب نے اللہ کا نام لے کر پتھر پر پاؤں رکھا اور احتیاط سے آگے بڑھے۔
سامنے ایک بڑی کھائی آگئی۔ بندر نے ایک درخت کے ساتھ لٹک کر اپنی دم سے انہیں وہ کھائی پار کروائی۔ پھر کچھوا اپنے خول میں سمٹا تو سب نے اُس کے سخت خول پر پاؤں رکھ کر وہ ندی پار کی۔ سامنے دور استے تھے۔ ایک راستے پر خاردار جھاڑیاں اور دوسرے پرسُلگتی ہوئی آگ تھی۔ لومڑ نے سمجھ داری سے کام لیا۔ وہ سب کو لے کر جھاڑیوں والے راستے کی طر ف چل پڑا۔ اچانک بندر کو ایک جادوئی چراغ نظر آیا۔ اس نے بھاگ کر چراغ اُٹھا لیا۔ جیسے ہی اس نے چراغ رگڑا اُس میں سے ایک جن نکلا۔ ”ہوہوہو… ہاہاہا… کیا حکم ہے میرے آقا؟”
”اوہ…ج… ج… جن بھائی! ہمارا ایک کام تو کردیں۔” خرگوشنی ذرا ڈر تے بولی۔ ”آقا! میں آپ کا ہر حکم مانوں گا۔”
بھالو بولا: ”مجھے ایک ایسا گھڑا چاہئے جس میں بہت سارا شہد بھرا ہو۔” خرگوشنی بولی: ”مجھے ایک نیک پری بنا دو۔” کچھوا بولا: ”میں تیز تیراک بننا چاہتا ہوں۔” ”خاموش…” بندر چلّایااور بولا: ”ہمیں اس جادوئی دنیا سے باہر جانا ہے جن بھائی! آپ ہمیں باہر جانے کا راستہ دکھادو بس۔”
”جو حکم میرے آقا! تعمیل ہوگی۔” اتنا کہہ کر جن نے کوئی منتر پڑھا تو اطراف سے دھواں اُٹھنے لگا۔ ایک دم کسی چیز نے ان سب کو ہوا میں اُچھالا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ کچھ دیر بعد پائوں زمین پر لگے تو انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ آس پاس کا منظر دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ جادوئی دنیا سے باہر آچکے تھے۔ انہوں نے مل کر ایک عزم کیا کہ وہ آئندہ کبھی گھر والوں کے بغیر اتنی دور کا سفر نہیں کریں گے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

مصطفیٰ — اُمِّ زینب

Read Next

جِن کے تین سنہری بال | سارہ قیوم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!