تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

دروازے پر لگی گھنٹی کو دوبار بجایا گیا تھا۔ فاطمہ کچن میں مصروف تھی۔ گھر میں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا وہ چاول دھو رہی تھی۔ چاول دھوتے دھوتے وہ برتن رکھ کر ہاتھ پونچھتے ہوئے جب تک دروازے کے پاس آئی۔ دروازے پر لگی گھنٹی ایک بار پھر بجنے لگی تھی۔ شہیر اور ثمر دونوں اس طرح اس وقت گھنٹی بجا کر نہیں آتے تھے اور محلے میں سے جب بھی کوئی آتا، وہ عام طور پر دروازہ ہی بجایا کرتا تھا۔
”کون؟” فاطمہ نے اندر سے ہی پوچھا۔ دروازے کے دوسری طرف کچھ کھسر پھسر ہوئی فاطمہ کو اندازہ ہو گیا کہ وہاں دو افراد موجود تھے۔
”فاطمہ! دروازہ کھولو۔” کسی نسوانی آواز نے اس سے کہا۔
فاطمہ نے دروازہ کھول دیا۔ زمین جیسے یک دم اس کے پیروں کے نیچے سے نکل گئی تھی۔ اسے دروازے پر کھڑے لوگوں کو پہچاننے میں وقت نہیں ہوئی تھی مگر بعض دفعہ پہچاننا اذیت ناک ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ہو رہا تھا۔ اسے لگا اس کا گھر یک دم کسی بھونچال کی زد میں آگیا تھا۔
٭٭٭
”شہیر بھائی؟”نایاب نے قدرے حیرانی سے ثمر سے کہا۔
”ہاں شہیر بھائی۔”ثمر نے اثبات میں سر ہلایا۔
”مگر میری ممی شہیر بھائی سے کب ملیں ؟”نایاب کو حیرت ہو رہی تھی۔
یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ شائستہ ‘شہیر سے مل کر اس طرح باتیں کرتیں وہ تو خود اسے ثمر سے ملنے سے سے منع کر رہی تھیں ۔ پھر شہیر کو اس طرح کے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔
”ایک بار نہیں تمہاری ممی کئی بار شہیر بھائی سے ملی ہیں۔”
ثمر نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کیا شائستہ کا انکشاف نایاب کے لیے بھی انکشاف ہی تھا ۔ اور نایاب کے چہرے کے تاثرات دیکھنے پر اسے یہ اندازہ ہو گیاتھا کہ وہ صرف انکشاف نہیں تھا۔وہ نایاب کے لیے شاک بھی تھا۔
”مگر ممی تمہارے بھائی سے کیوں ملیں گی وہ تو مجھے …”نایاب بے اختیار کہتے کہتے رک گئی۔
”مجھے کیا ؟”ثمر نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔




”مجھے بالکل یقین نہیں ہے اس بات کا کہ ممی تمہارے بھائی سے ملتی رہی ہیں۔”نایاب نے اس کے سوال کا جواب گول کرتے ہوئے کہا۔ ممی کا آخر تمہارے بھائی سے تعلق کیا ہے۔ وہ تو تب تک انہیں جانتی بھی نہیں تھیں جب تک میں نے انہیں تم لوگوں سے نہیں ملوایا۔ اور ممی نے کبھی گھر میں تمہارے بھائی کا ذکر نہیں کیا۔”
”مگر شہیر بھائی ہر بار تمہاری ممی سے ملنے کے بعد گھر میں اس ملاقات کا احوال بتاتے تھے ۔ اس لئے میں کم از کم یہ نہیں مان سکتا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہوں گے۔ ”
ثمر نے نایاب کی بات کاٹ کر کہا ۔ اسے نایاب کے لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا۔ کہ وہ اگلے کسی جملے میں شہیر کو جھوٹا ہی کہتی۔ وہ اسی طرح بے دھڑک کوئی بات کرنے والی تھی اور ثمر اس کے منہ سے شہیر کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں سن سکتا تھا۔
چند لہحے تک دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے۔ اگر پچھلادن ثمر کے لیے بدترین تھا تو آج کا دن نایاب کے لیے مگرنایاب کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ صرف ابتدا تھی۔بد ترین انکشافات ابھی باقی تھے۔
”اگر ممی تمہارے بھائی سے ملتی رہی تھیں تو تم نے پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا؟”نایاب کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔
”بتایا تو انہوں نے بھی تمہیں نہیں ہے۔ ”ثمر نے کہا۔
”تم اپنی بات کرو۔”نایاب نے کچھ ناراضی سے کہا۔
”میں نے ضروری نہیں سمجھا ۔ آخر کیا کہتا تم سے؟ثمر نے کندھے اچکائے۔
”شہیر بھائی ان ملاقاتوں کو اتفاقیہ سمجھتے رہے تھے اور میں بھی یہی سمجھتا رہا۔ ”
”تو ہو سکتا ہے وہ ملاقاتیں اتفاقیہ ہی ہوں ۔”نایاب کو یک دم کچھ حوصلہ ہوا۔
”اتفاقیہ ملاقاتوں کے نتیجے میں کوئی کسی کی پروموشن کرواتا ہے نہ پے بڑھواتا ہے۔”
”ممی نے کس کی پروموشن…”نایاب نے بات ادھوری چھوڑی پلک جھپکتے میں اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ کہ ثمر کس کی بات کر رہا ہے۔
”ہاں ‘تمہاری ممی نے شہیر بھائی کے باس سے کہہ کر انکی پروموشن کروائی ہے۔ ”
نایاب کی ٹانگیں یک دم کانپنے لگیں ۔ وہ اپنے باپ اور ماں دونوں کے نت نئے افیئرز سے واقف تھی۔ اس نے باپ کی طرح ماں کو بھی اپنے سے بہت کم عمر لڑکوں کے ساتھ وقت گزاری کرتے دیکھا تھا مگر وہ سب لڑکے ان کی اپنی کلاس کے ہی ہوتے تھے۔ شائستہ انہیں ہارون کی طرح دوستی کا نام دیتی تھی اور نایاب اور اسد نہ چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں سے ہیلو ہائے کر لیتے تھے۔
نایاب کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ شائستہ ا س کے دوست کے بھائی کے ساتھ اس طرح انوالو ہوگی اور خود اسے اس کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کرے گی۔
”تمہیں اگر اب بھی یقین نہیں آرہا تو تم اپنی ممی سے پوچھ لو۔”ثمر اس کی دلی کیفیات سے بے خبر کہتا رہا تھا۔
”تمہاری ممی نے شہیر بھائی سے کہا کہ وہ ان سے اس لیے بار بار مل رہی ہیں کیونکہ انہیں دیکھ کر انہیں اپنا گمشدہ بیٹا یاد آرہا ہے۔”
نایاب نے بے اختیار آنکھیں بند کر لیں ۔ اسے شائستہ سے گھن آئی تھی۔ وہ شہیر کو پھانسنے کے لیے کس سطح پر گر گئی تھی۔
”انہوں نے شہیر بھائی کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو ۔آج تک ڈھونڈ رہی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ انہیں دیکھ کر انہیں پالیں گی۔ اب تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں ایسے کسی بھائی کا پتہ نہیں ۔”ثمر نے الجھے ہوئے اندازمیںکہا ۔”پھر سچ جھوٹ کا فیصلہ کس طرح ہو تم خود طے کر سکتی ہو کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ۔ تمہاری ممی شہیر بھائی سے اس طرح کے سوالات کر رہی تھیں جیسے انہیں شک ہو کہ وہ ہمارا بھائی نہیں ان کا بیٹا ہے اورمیری امی ہی وہ خاتون ہیں جو انہیں اغوا کر کے لے گئی ہوں۔”
”ثمر!جہاں تک میں جانتی ہوں اسد بھائی کے علاوہ میرا اور کوئی بھائی نہیں ہے۔”نایاب نے لرزتی ہوئی آواز میں اس کی بات کاٹ دی۔
”اور اگر ایسا کبھی کچھ ہوا بھی تھا تو میں اس کے بارے میں نہیں جانتی ۔ ممی نے کبھی ہم لوگوں سے ایسی بات نہیں کی اور ممی نے کیا پاپا نے بھی کبھی ا یسا کچھ نہیں کہا۔ ”نایاب بے حد پریشان نظر آرہی تھی۔
”اور اگراس طرح کی کوئی بات تھی اور وہ تمہارے بھائی سے مل رہی تھیں تو انہیں مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ وہ تو مجھے تم سے ملنے سے منع کرتی رہی ہیں۔اس بار نایاب نے یہ بات نہیں چھپائی تھی۔
”تم لوگوں کی فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں وہ مجھ سے بھی شروع میں پوچھتی رہی تھی مگر میں یہی سمجھتی رہی کہ وہ ایسا صرف احتیاطاً کر رہی ہیں کیونکہ میری تم سے دوستی ہوگئی تھی۔ اس لیے مجھے کبھی یہ شبہ نہیں ہو اکہ وہ یہ چھان بین شہیر بھائی کے حوالے سے کر رہی ہیں…میرے لیے یہ ساری باتیں ناقابل یقین ہیں۔”نایاب نے بے بسی سے کہا۔
”تمہاری جگہ کوئی اور مجھ سے یہ سب کچھ کہتا تو میں سمجھتی کہ وہ بکواس کر رہا ہے۔ میری ممی پر الزام لگا رہا ہے۔گمشدہ بھائی…تم خود سوچو کیا یہ قابل یقین بات ہے؟”
”نہیں…لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور ان کو ایسے کسی حادثے کا سامنا نہیں کرناپڑا تو پھر شہیر بھائی سے ملاقاتوں کا مقصد کیا ہے اور اس طرح کی عنایات اور پھر اس طرح کی باتیں …میں کیا کہوں اس سب کو ؟”
”میں ممی سے بات کروں گی۔” نایاب نے پرسوچ اندازمیں کہا۔
”تمہیں پتا ہے مجھے یوں لگتا ہے میری فیس کی ادائیگی بھی تمہاری ممی نے کی ہے ۔”ثمر نے یک دم جیسے کوئی خیال آنے پر کہا۔
نایاب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
اور صرف اتنا ہی نہیں ‘تمہیں پتہ ہے ثانی کے لیے کسی نے کچھ رقم آئی بی اے کے اخراجات کے لیے بھجوائی ہے…مجھے لگتا ہے یہ عنایت بھی تمہاری ممی ہی کی ہے کیونکہ جس آدمی کا نام ا س خط پر لکھا تھا اسے ہم نہیں جانتے۔ اس کا پتہ بھی غلط ہے اور کوئی کیوں یک دم ہمیں لاکھوں روپے دینا شروع کر دے گا۔ ”ثمر کہہ رہا تھا۔ اور نایاب ہکا بکا اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”یہ سب کچھ تب سے ہونا شروع ہوا ہے جب سے تمہاری ممی نے شہیر بھائی سے ملنا شروع کیا ہے۔ ”
ثمر بات کرتے ہوئے جیسے کڑی سے کڑی ملا رہا تھا۔ نایاب کا دل چاہا ۔ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔ آخر شائستہ کس حوالے سے ان لوگوں پر لاکھوں لٹا رہی تھی۔ کیا صرف شہیر کے چکر میں یا پھر وہ واقعی اسے اپنا بیٹا سمجھ رہی تھی۔ یہ کیا مذاق تھا؟ اس عمر میں پہلی بار ایک گمشدہ بیٹے کی کہانی سامنے آئی تھی۔ اور نایاب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ اس بات پر ہنسے یاروئے۔
٭٭٭
شائستہ ڈائنگ روم سے اٹھ کر تیار ہونے کے لیے اپنے بیڈ روم میں آئی مگر اس کا ذہن مسلسل ہارون اور منصور کے بارے میں سوچ ر ہا تھا۔ آخر دونوں کے درمیان کیا ہو رہا تھا۔ اس نے فوری طور پر ان کی مشترکہ فیکٹری جانے کا فیصلہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ اگر ان کے درمیان بزنس کے حوالے سے کوئی اختلافات ہیں تو وہ فیکٹری جا کر بہت آسانی سے ان اختلافات کا سرا ڈھونڈ سکتی تھی۔ وہ یک دم منصور سے ایک ملاقات کی ضرورت محسوس کرنے لگی تھی۔
تیار ہوتے ہوئے اچانک اسے رات والی انگوٹھی یاد آئی۔وہ رات کو اسے غور سے نہیں دیکھ سکی تھی۔ وہ اس کی مالیت کا اندازہ لگانا چاہتی تھی۔ بالوںمیں برش کرتے کرتے وہ اپنے بیڈ کی طرف چلی آئی۔ برش کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس نے دراز کو پور اکھولا اور اندر موجود چیزوں کو ادھر ادھر کرتے ہوئے انگوٹھی تلاش کرنے لگی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا اس نے رات کو ہارون سے جھگڑے کے دوران انگوٹھی کو دراز کے اندر ہی پھینکا تھا۔ مگر اس وقت چیزوں کو ادھر ادھر کرنے پر بھی اسے وہ انگوٹھی کہیں نظر نہیں آئی تھی ۔ کچھ الجھتے ہوئے اس نے دراز کو باہر کھنیچ لیا اور اس میں موجود چیزوں کوبیڈ پر الٹ دیا ۔ دراز میں اتنی چیزیں نہیں تھیں کہ اسے ان میں کسی چھوٹی سی چیز کو ڈھونڈ نے میں زیادہ وقت لگتا اور خاص طور پر اب جب سب کچھ اس کے سامنے بکھر اہوا تھا۔ وہ ایک نظر میں بھی دیکھ سکتی تھی کہ ان چیزوں کے درمیان اس انگوٹھی کا نام و نشان بھی کہیں نہیں ہے۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!