تحفۂ محبت — لعل خان

رات اپنے تیسرے پہر میں داخل ہو چکی تھی ،میں شیشے سے سر ٹکائے تیزی سے باہر دوڑتے ہوئے مناظر دیکھ رہا تھا،کہیں کہیں لائٹس کی وجہ سے منظر صاف ہو جاتا اور پھر اگلے ہی لمحے مہیب تاریکی میں ڈوب کر مجھے تھوڑا سا اداس کر جاتا تھا،جاتی سردیاں تھیں ،شیشے کے بیرونی حصے پر پڑی ہوئی اوس کی چادر مجھے اندر سے ہی محسوس ہو رہی تھی ،گاڑی میں ہلکا ہلکا میوزک چل رہا تھا،گائیک گارہا تھا۔۔
”نی اک پھل ….موتیے دا مار کے جگا سوہنیے”
میرے ساتھ والی سیٹ خالی تھی ،اچانک میری سماعتوں سے ایک مترنم آواز ٹکرائی ۔۔
”ایکس کیوزمی ”
میں نے سر گھما کر آواز کاتعاقب کیا اور میری نظروں سے ایک خوب صورت گناہ سرزد ہو گیا،مجھے مولانا صاحب کی دوران تبلیغ ہزار بار کی گئی تاکید یاد آگئی …”نامحرم پر دوسری نظر حرام ہے” …پر میری آنکھیں تو پہلی بار ہی تھم گئی تھیں ،میرے جسم کی پوری قوت جیسے سمٹ کر آنکھوں میں آگئی تھی ،میں آنکھیں جھپکنا نہیں چاہتا تھا ،کہیں یہ جھپکیں اور منظر غائب ہو جائے ،جو قسمت نے رات کے آخری پہر میں سنسان سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں بیٹھے ہوئے درجنوں لوگوں کے بیچوں بیچ میرے سامنے کشید کر ڈالا تھا،میں مبہوت تھا ،میری نظریں باغی ہو چکی تھیں ،کیوں نہ ہوتیں ….
یہ بھی اپنے اندر بھوک رکھتی ہیں …طلسمی مناظر کی بھوک …..اور اس سے بڑا طلسمی منظر اور کیا ہو سکتا تھا ؟
میں نے پانچ سیکنڈز میں لولی ووڈ ،بولی ووڈ اور ہولی ووڈ کے تمام حسین چہروں کو اس کے آگے پانی بھرتے پایا جنہیں میں اب تک دیکھ چکا تھا ،وہ تو جنت سے اتری ہوئی کوئی حور تھی،حسن کے بے مثال جلووں سے چور چور تھی ،وہ بے نور آنکھوں کے لئے وجہ نور تھی ،وہ جو بھی تھی …….پر مجسم حسن ضرور تھی ..
میں یک ٹک اسے تکے جا رہا تھا ،اور وہ مسکراتے ہوئے اک ادائے بے نیازی سے کھڑی تھی۔اس نے تھوڑی دیر تک میری بے قابو ہوتی نظروں کو میرے تابع ہونے کا انتظار کیا مگر پھر اسے احساس ہوا ،اس کا انتظار بہت طویل بھی ہو سکتا ہے ،اس نے میری ساکت آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلا کر پھر سے میری سماعتوں میں سریلا رس گھولا۔
”ہیلو ۔۔۔۔کین یو ہیر می ؟”
اور جیسے مجھے کسی نے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ہی ڈالا ہو ۔
میں نے ہڑبڑا کر ہونقوں کی طرح آگے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا۔
بس میں اس وقت تقریباًسب ہی مسافر سو رہے تھے ۔
”کیا میں یہاں تھوڑی دیر بیٹھ سکتی ہوں ؟”
وہ اپنے صبیح چہرے پہ دل فریب مسکراہٹ سجائے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔
”جج ۔۔جی ۔۔۔”
میں نے حلق میں اٹکتے لفظ حلق میں ہی چھوڑ دیے ،اور جو مشکل سے نکلا ،اسے ہی غنیمت جان کر خاموش ہو گیا۔
”تھینکس ”۔اس نے ماتھے پہ آئی لٹ بائیں کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا اور جھٹ سے میرے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گئی ۔
میں تھوڑا سا سمٹ کر کھڑکی سے لگ گیا۔
”تو ….نام کیاہے آپ کا ؟”اس نے سرتھوڑاترچھا کر کے مجھ سے سوال کیا۔
میں ابھی تک اس صورت ِ حال کو قبول نہیں کر پا رہا تھا،میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے،حلق میں کانٹے اُگ آئے تھے ،مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا ۔
اس نے میری جھجک محسوس کر لی تھی ….
”آپ کو میرا یہاں بیٹھنا اچھا نہیں لگا ”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس نے صاف اور سادہ سے انداز میں مجھ سے پوچھا۔
”نن …نہیں …..مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ”
بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔مجھے یاد آچکا تھا میں لڑکا ہوں ..وہ لڑکی ہے ،جھجکنا اسے چاہیے ….مجھے نہیں۔
”تو پھر بتائیے نا؟….نام کیا ہے آپ کا؟”اس نے ہولے سے اپنا سوال دہرایا۔
مجھے اس سوال سے بہت چڑ ہے ، اسکول ،مدرسہ ،کالج ،اکیڈمی اور آفس ،یہاں تک کے گھر میں آنے والے مہمان بھی اگر میرا نام پوچھ لیں تو ایک بار میری سٹی ضرور گم ہو جاتی ہے ،اب بھلا آپ خود سوچئے ،یہ بھی کوئی نام ہے؟ جو میرے دادا حضور نے اپنے ابو جان یعنی میرے پردادا جان کے نام پہ رکھ چھوڑا تھا،اور اس وقت تو حالات اور بھی مخدوش تھے ،مجھے ایک ایسی نڈر ،بے باک اور لبرل خاتون کو اپنا نام بتانا تھا،جو اپنی سیٹ سے اٹھ کر گپ شپ کرنے کے لئے میرے پاس آ بیٹھی تھی ۔اب اگر میرا نام ہی اسے امپریس نہ کرپائے گا ،تو بات چیت کیا خاک کرے گی وہ ۔؟
میں سوچ و بچار میں مصروف تھا کہ اسے سچ سچ بتا دوں یا آج کل کے حساب سے کوئی ماڈرن نام بتا کر ایک عدد جھوٹ کا گناہ اپنے کھاتے میں لکھوا لوں…جب اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
”کیا ہوا ۔۔آپ کو اپنا نام یاد نہیں آ رہا؟”
”نام تو یاد ہے مجھے …سوچ رہا ہوں آپ کو بتاؤں یا نہیں؟” اس بار میں نے تھوڑے سے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔
”کیوں بھئی ۔۔۔۔؟ایسا بھی کیا چھپا ہے آپ کے نام میں ؟”اس کی آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی تھی ۔
”لعل خان ”میں نے ایسے بتایا جیسے کوئی بوجھ سر سے اتارا ہو۔
”کیا؟”اس نے ناسمجھی سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
مجھے پہلے سے ہی پتا تھا….وہ اب یہ سوال ضرور کرے گی ،میں نے آج تک جسے بھی اپنا نام بتایا ہے ۔۔۔اسے تھوڑا سا پریشان اور خود کو پشیمان پایا ہے ۔۔حالاں کہ اس میں میرا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔
”جی لعل خان ہے میرا نام ……آپ شائد سمجھ نہیں پائیں۔”میں نے گہرا سانس لے کر اعترافِ جرم کیا۔
”اوہ ۔۔۔”اس کے ہونٹ سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ گئے۔
”لال کا مطلب تو سرخ ہوتا ہے نا؟”پتا نہیں وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی …یا مجھے بتا رہی تھی ۔
”جی نہیں ۔۔یہ وہ والا لال نہیں یہ لام عین لام والا ”لعل” ہے جو ایک قیمتی پتھرکا نام بھی ہے ۔”
میں نے تیزی سے اپنے نام کی وہ وضاحت اس کے سامنے بھی پیش کر دی جومیں لاتعداد بار، لاتعداد لوگوں کے سامنے کر چکا تھا۔
”اچھا…….مطلب آپ ایک قیمتی پتھر ہیں ۔”میں نے سر گھما کر سیدھا اس کی طرف دیکھا۔وہ زیر لب مسکرا رہی تھی ۔
”میں انسان ہوں ”میں نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔مجھے لگا وہ میری دی گئی وضاحت کا مذاق اڑا رہی ہے ۔
”اور ویسے بھی لوگ نام سے نہیں کام سے پہچانے جاتے ہیں ۔”میری آواز میں روکھا پن کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا ،تبھی اس نے فوراً ہی کہا۔
”میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی ،ورنہ نام میں کیا رکھا ہے ….نام تو نام ہی ہوتا ہے ۔”
”جی”۔میں نے صرف جی کہنے پہ اکتفا کیا۔
میرے جی کہنے پہ وہ اک ذرا سی خاموش ہوئی تو مجھے لگا شائد وہ اب میری طرف سے کچھ پوچھے جانے کی متمنی ہے۔
میں نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور وہی سوال پوچھ لیا جو پہلے اس نے پوچھا تھا۔
”آپ کا اسم گرامی کیا ہے ۔؟”
اس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
”اوہ پلیز ۔۔۔۔اتنی پر تکلف اردو مت بولئے ، میں یہاں تھوڑا سا وقت گزارنے آئی ہوں،آپ سے اردو کا مقابلہ کرنے نہیں”۔
میں نے جھینپ کر کھڑکی سے باہر گھپ اندھیرے کو تاکنا شروع کر دیا ۔
”باہر اگر کچھ نظر آتا ….تو میں یہاں آپ کے پاس آ کر نہ بیٹھتی ۔”اس نے مجھے کھڑکی سے باہر گھورتے پا کر ہلکے سے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”مجھے اندھیرے میں دیکھنا اچھا لگتا ہے ”۔ بڑا عجیب سا لہجہ تھا ،مجھے خود بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
”روشنی میں بیٹھ کر اندھیرے میں دیکھنے والے لوگ ناشکرے کہلاتے ہیں ”۔
اس نے ایک دم ہی فلسفیانہ لہجہ اختیار کر لیا تھا۔
میں نے سر گھما کر اسے دیکھا ،وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھے سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے بس کی چھت کو تک رہی تھی۔
”آپ شائد ٹیوب لائٹ اور بلب کی روشنی کو ہی روشنی کہتی ہیں ۔”
میرا لہجہ تھوڑا سا استہزائیہ تھا۔
”نہیں ۔”
اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
”پھر ”؟میں نے سوال کیا۔
”اللہ تعالیٰ ہمیں ایک خوبصورت دل کی شکل میں روشنی کا وہ ذریعہ عطا کرتا ہے ،جس کے صحیح استعمال سے ہم خود کو روشن کر سکتے ہیں ،اور یہی روشنی ہماری آنکھوں سے نکل کر ہمارے لئے اس دنیا کی ہر شے کوخوب صورت اورچمک دار بنا دیتی ہے ،یہ روشنی ہمیں اندھیروں سے بچاتی ہے اور روشن رستے دکھاتی ہے ،ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ اسے اندھیرے میں دیکھنا پسند ہے …..تو میں تو اسے ناشکرا ہی کہوں گی ۔”
بہت خوب صورت لہجے میں بولتی ہوئی وہ حور شمائل مجھے تھوڑی دیر کے لئے لاجواب کر گئی تھی۔
”نام کیا ہے آپ کا ۔”
میں اپنے پہلے سوال پہ آ چکا تھا ۔
”ماہین۔۔” وہ بہت آہستہ سے بولی ۔ وہ ابھی تک چھت کو دیکھ رہی تھی۔
”اچھا نام ہے ۔”میرا لہجہ رسمی تھاجسے اس نے محسوس کیا اور فوراً بولی ۔
”شکریہ۔”وہ بھی رسم ہی ادا کر رہی تھی۔
ہمارے درمیان ایک بار پھر خاموشی آ چکی تھی۔
وہ میری منتظر تھی۔۔۔۔
میں اس کا منتظر تھا۔۔۔
گاڑی اپنی فل اسپیڈ کے ساتھ میری اور اس کی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی ،ہم سندھ کراس کر کے پنجاب میں داخل ہو چکے تھے شائد،ابھی کچھ کہنا مشکل تھا ،اندھیرے کے راج کی وجہ سے۔
”آپ کیا کرتے ہو؟”
اس نے چھت کو تکتے تکتے کافی بے تکلفی سے سوال کیا۔مجھے ایسا لگا وہ خاموشی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی تھی ….
”جاب کرتا ہوں کراچی میں۔”میں نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا ۔
”کیا جاب کرتے ہو۔؟اس نے پھر پوچھا۔
”پرائیویٹ جاب کرتا ہوں،ایک فوڈ انڈسٹری میں،آپ کیا کرتی ہو؟۔
میں نے جواب دے کر سوال بھی کر دیا تھا۔
”میں ایم بی اے کر رہی ہوں۔”
”ویری نائس”۔
میں نے بے اختیار توصیفی لہجے میں کہا۔
”آگے کیا ارادہ ہے آپ کا ۔”
میں نے جلدی سے اگلا سوال کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اجنبی — لبنیٰ طاہر

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!