تبدیلی — ثناء شبیر سندھو

بس نے مجھے گاؤں کے اسٹاپ پر اُتارا ۔میں نے اپنا سفری بیگ اُٹھایا اور اپنے گاؤں کی فضا کو محسوس کرتے ہوئے ایک لمبا اور گہراسانس لیا۔ ایک اپنائیت تھی اُس فضا میں۔۔ مانوسیت تھی۔۔ محبت تھی۔۔۔ایک منٹ۔۔ کچھ الگ سا بھی محسوس ہو ا تھا مجھے۔۔کچھ غیر معمولی سے محسوسات ۔۔۔میں سر جھٹک کربے اختیار مسکرا دیا۔ آج پانچ سال بعد میں کویت سے واپس اپنے گاؤں لوٹا تھااور میں نے اپنی آمد کے بارے میں کسی کو کچھ بتایا بھی نہ تھا۔ سڑک پار کرکے گاؤں کی طرف جانے والے راستے پہ قدم رکھ دیے لیکن میں اپنے احساسات کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ مجھے لگا میں بہت پرجوش ہوں جب کہ دوسری جانب میرے جوش اور ہیجان پر گھبراہٹ غالب تھی۔ ملی جلی کیفیت میں گھرا یونہی اپنی سوچوں میں گم قبرستان کے نزدیک پہنچ گیا جہاں میرے پاؤں سست پڑ گئے۔
قبرستان کے چھوٹے سے لوہے کے دروازے کے سامنے یونہی کچھ دیر کو رک گیا۔ اندر کچھ لوگ اپنے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ کچھ بچے بھی ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ ہمارے گاؤں کا قبرستان آبادی کے ساتھ ہی تھا اس لئے بچے بلا خوف وجھجک وہاں گھومتے پھرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک جب قبرستان کا زیادہ حصہ خالی تھا تو بچے وہاں کرکٹ بھی کھیل لیا کرتے تھے۔لیکن اب اُس جگہ بھی قبریں بن چکی تھیں۔
گہراسانس لیتے ہوئے میں نے اپناسفر دوبارہ شروع کیا اور چلتے چلتے اپنے گاؤں میں موجود سب سے بڑے بوہڑ کے درخت کے پاس پہنچ گیا۔ارے یہ کیا؟ بوہڑ کا آدھا درخت کٹ چکا تھا۔ جہاں پہلے وسیع و عریض میدان ہوا کرتا تھا وہاں اب مختلف قسم کے چھوٹے بڑے پکے گھر بن چکے تھے۔ ۔یہ منظر میری آنکھوں کو بالکل نہ بھایا۔ میرے بچپن کے دن جس قطعہ زمین پر کنچے ، کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے گزرے تھے ،آج وہ کسی کی ملکیت بن چکا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہاں ایک عالیشان مکان کھڑا تھا۔ میں سست قدموں سے آگے بڑھا جہاں بوہڑ کے باقی بچے کھچے آدھے درخت کے نیچے ایک چارپائی بچھی تھی اور اُ س پر بیٹھا ایک بوڑھا وجود سوچوں میں گم حقے کے کش لگا رہا تھا۔میں یونہی چلتا ہوا اُس چارپائی کے پاس پہنچا ۔باباجی نے حقہ منہ میں لئے نگاہیں اُٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اُن کی آنکھوں میں واضح الجھن تھی۔اُنہوں نے حقہ چھوڑ کر ہاتھوں سے چھجہ بناتے ہوئے دوبارہ مجھے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کی۔ میں ہلکا سا مسکرایا اور پاس ہی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
”باباجی یہ بوہڑ کا درخت کیسے کٹ گیا۔۔اور یہ سب گھر۔” میری آواز میں دُکھ نمایاں تھا۔
باباجی بھی ہلکا سا مسکرادیئے۔ ان کے چہرے کی جھریوں پر اُداسی سی پھیل گئی ۔
”پتر لگتا ہے تو کہیں باہر سے آیا ہے۔۔۔ تجھے نہیں آنا چاہئے تھا۔۔” انہوں نے مجھے پہچاننے کا ارادہ ترک کر کے حقے کا کش لگایا۔
” بابا جی یہ میرا پنڈ ہے۔۔ میرا گاؤں ہے۔۔ میرا بچپن گزرا ہے اس بوہڑ کے نیچے کھیلتے اور وہاں۔۔ جہاں آج یہ گھر بسے ہیں ۔۔ وہاں ہم گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں بھی بھاگ بھاگ کر نہیں تھکتے تھے۔۔۔۔” میں نے دُکھی لہجے میں کہا ۔
”جانتا ہوں۔۔ میں تجھے پہچان نہیں پایا لیکن تیرا دکھ پہچان لیا میں نے بچہ۔۔اسی لئے تو کہا کہ تجھے نہیں آنا چاہئے تھا۔۔” حقے کی گڑگڑاہٹ میں اِضافہ ہوا۔
”یہ گاؤں میری پہچان ہے۔۔ اس مٹی سے میری شناخت ہے۔۔ یہاں میرے اپنے بستے ہیں۔۔ ایسے کیسے نہیں آتا۔۔ اپنا گھر تو نہیں چھوڑا جاتا نا بابا جی۔۔ ” میں نے جوتے کی نوک سے مٹی کریدتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ بھی عجیب بات ہے۔۔ جو یہاں رہتے ہیں انہیں تو کوئی لحاظ نہیں رہا ان سب باتوں کا۔۔ اور تو۔۔ ” بابا جی طنزیہ مسکرائے۔
”میرا بچپن بھی انہی گلیوں میں بیتا ہے پتر۔۔ کتنا زور لگایا ہم سب یاروں نے کہ یہاں گھر نہ بنیں۔۔ یہ بوہڑ کا درخت جو میرے بچپن کا سنگی ہے۔۔ نہ کٹے ۔۔ میری چھایا مجھ سے نہ چھنے۔۔۔ لیکن وقت کا تقاضا ہے پتر کیا کر سکتے ہیں۔۔تبدیلی۔۔تبدیلی کا رولا ہے آج کل۔۔ یہاں بھی لوگ تبدیل ہورہے ہیں۔۔۔ ”انہوں نے اپنے تہ بند پربیٹھی مکھیوں کو ہاتھ سے اُڑایا۔
”تبدیلی۔۔۔” میں بڑبڑایا۔
”جا گھر جا پتر ۔۔ تیری ماں تیری راہ دیکھ رہی ہوگی۔۔” بابا جی نے شفقت بھری نظروں سے مجھے دیکھ کر کہا۔
”ہاں۔۔ اماں۔۔۔ابا۔۔۔ میری گڑیا سی بہن صفیہ۔۔۔ اور۔۔ اور وہ۔۔۔” میں پرجوش ہوتاایک دم کھڑا ہوا ۔
”اچھا بابا جی اللہ حافظ۔۔ ” میں نے بیگ پھر سے اُٹھا لیا۔
”چنگا پترجیتا رہ۔۔” بابا جی نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔
میں ایک اُداس اور آزردہ نظر بوہڑکے بوڑھے اور نامکمل وجود پر ڈالتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
” وہ کیسی ہوگی۔۔۔ کیا اُسے میرا انتظار ہوگا۔۔ مجھے اچانک دیکھے گی تو کیا کرے گی ۔۔ ”میں اپنے آپ میں گم مسکرایا۔
”اپنا دوپٹہ منہ میں دے کر شرما شرما کر دیکھے گی اور پھر بھاگ جائے گی اور کیا۔۔۔” میں نے سر جھٹکا۔
وہ میرے چاچا کی بیٹی تھی اور میری بچپن کی منگ ۔۔۔ہمارے گھرآس پاس ہی تھے۔ وہ بہت شرمیلی تھی۔ مجھے یاد ہے جب چھے سال پہلے ہماری بات پکی ہوئی تھی ،اُس دن اُس کی سرمہ بھری آنکھیں شرم کے بوجھ سے کیسے جھکی ہوئی تھیں ۔میرے دیکھنے پر وہ کیسے گھبرا کر فوراََ غائب ہوجایا کرتی تھی۔ہماری منگنی کے بعد ایک سال جو میں نے گاؤں میں گزارا وہ اسی لکا چھپی کے کھیل میں گزرا تھا۔ میں چاچا کے گھر دن میں دس دس چکر لگا تا تھا کہ کب اُسے ایک نظر دیکھ پاؤں، اُس سے بات کر پاؤں لیکن وہ تو گویا میری قدموں کی آہٹ بھانپ کر ہی کمرے میں گھس جاتی ۔کئی دفعہ مجھے صفیہ کو کہہ کر اُسے دھوکے سے بلوانا پڑتا اور اُس دوران بھی وہ بس رسی تڑا کر بھاگنے کے چکروں میں رہتی تھی۔
”حسین پتر!!!” میں اُسی کے خیالوں میں گم گھر کے قریب پہنچ چکا تھا اور گھر کے سامنے والی دُکان پر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ابا نے مجھے بے یقینی سے دیکھا اور خوشی سے اپناآپ سنبھالتے آگے بڑھے۔میں تیزی سے آگے بڑھا اور اُن کے گلے لگ گیا۔
”پتر۔۔تو نے بتایا ہی نہیں۔۔ ہم تجھے لینے آجاتے شہر۔۔ ایسے کیسے آگیا۔۔” وہ میرا ماتھا چومتے ہوئے بولے۔
”بس ابا۔۔ میں نے سوچا بغیر بتائے ہی جاتا ہوں سب خوش ہوجائیں گے۔۔” میں نے مسکرا کر جواب دیا۔
”حسین بھرا۔۔۔” یہ کاشی تھا میرے چچا زاد اور”اُس ‘ ‘کا بھائی۔۔۔
”کاشی تو؟یار تو کتنا بڑا ہوگیا ہے۔۔” میں اُس کے اپنے کندھے تک پہنچتے قدکو دیکھ کر حیران ہوا۔جب میں کویت گیا تھا تو وہ پانچویں کا طالب ِ علم اور ایک کمزور مریل سا لڑکاتھا۔
”بس بھائی۔۔۔” کاشی جھینپ کر بولا۔
”چلو ۔۔چلو گھر۔۔ تیری ماں تجھے دیکھے گی توخوشی سے پاگل ہوجائے گی۔۔ روز کہتی تھی حسین کو دیکھے اتنے سال ہوگئے۔۔” ابا خوشی سے بولے۔۔۔کاشی نے فوراََ آگے بڑھ کر میرا بیگ اُٹھا لیا۔ ہم تینوں گھر کی جانب بڑھے۔
گھر میں داخل ہوتے ہی میری نظر برآمدے میں ایک طرف بنے چھوٹے سے باورچی خانے اور اُس کے آگے رکھے مٹی کے چولہے پر پڑھی۔۔چولہے پر کوئی ہانڈی پک رہی تھی اور اماں چو لہے میں جلنے والی لکڑیوں کو اوپر نیچے کر رہی تھیں اور ساتھ ہی پھونکیں مار تی جاتیں۔ میری طرف اماں کی پشت تھی۔
”تائی اماں۔۔ دیکھوتو۔۔” کاشی خوشی سے چلایا۔ اماں نے مڑ کر دیکھا اور اپنی آنکھیں مل مل کر میری طرف دیکھنے لگی۔
”نہ مل اتنی آنکھیں ،تیرا پتر ہی آیا ہے۔۔” ابا نے خوشی سے نہال ہوتے ہوئے کہا۔
”حسین۔۔میرا پتر حسین آیا ہے۔۔ماں صدقے جائے۔۔ ” اماں میری طرف اور میں اماں کی طرف تیزی سے بڑھا۔
اماں نے مجھے دبوچ کر سینے سے بھینچ لیا۔ میں اُن کے وجود کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں محسوس کرنے لگا ۔۔میری آنکھیں بھیگ گئیں۔۔
”تو نے بتایا کیوں نہیں کہ تو آرہا ہے ۔۔ ” اماں نے مجھے گھورا۔
”بس اماں ،پھر تیری یہ خوشی کیسے دیکھتا۔” میں ہنس دیا۔
”چل کاشی جا بھائی کے لئے مالٹے رنگ کی بوتل لے آ۔۔” اماں نے پاس کھڑے دانت نکالتے کاشی کو بھگایا۔
”ارے اماں بوتل کی کیا ضرورت ہے۔۔ میں کوئی مہمان ہوں۔۔” ہم لوگ آگے بڑھ کر آنگن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔
”چل رہنے دے۔۔ مجھے جیسے پتانہیں کہ تجھے وہ والی بوتل کتنی پسند ہے۔۔”اماں نے میرے کندھے پر پیار سے تھپکی لگائی۔
”صفیہ کہاں ہے اماں۔۔” میں نے اِدھراُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”صفیہ کو میں نے تیرے چاچا کے گھر جاتے دیکھا تھا کہہ رہی تھی کوثر سے کوئی کام ہے۔۔”ابا نے خوش دلی سے جواب دیا۔”اُس’ ‘کے نام پر اماں نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں جھینپ گیا۔
”اچھا پھر میں بھی چا چاجی سے مل آؤں اماں۔۔” میں نے بے تابی سے کہا ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ساگ — عنیقہ محمّد بیگ

Read Next

اگر صنم خدا ہوتا — فہیم اسلم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!