’’اللہ کے نام پر دے دو، معذور ہوں اللہ بھلا کرے گا۔‘‘ وہ خود کو سڑک پر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ہماری گاڑی تک آیا تھا۔
’’جاؤ دفع ہو جاؤ، نہیں ہے ٹوٹے ہوئے پیسے۔‘‘ میری دوست نے اُسے دھتکار دیا، لیکن وہ اُسی طرح اپنے ٹون میں مانگ رہا تھا، میں نے جلدی سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اُس کو دے دیا، میں ایسے معاملے میں کبھی دس بیس روپے کی ریزگاری دیکھتی، ایسی بات نہیں ہے کہ میں بہت سخی یا مال دار ہوں، بس میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ صدقہ ہر مصیبت کو ٹال دیتا ہے اور مانگنے والے کو کبھی میں اس نظر سے نہیں دیکھتی کہ وہ مستحق ہے یا نہیں، کیوں کہ ہم بھی زندگی میں بہت سی چیزوں کے مستحق نہیں ہوتے، لیکن دینے والا ہمیں دیتا ہے۔
’’تم جیسے لوگوں نے عادی بنایا ہے ان لوگوں کو، کوئی معذور نہیں پروفیشنل ہے سب۔‘‘ میری دوست نے مجھ پر غصّہ کیا۔
’’یار! اللہ نے سائل کو جھڑکی دینے سے منع کیا ہے۔‘‘
’’اللہ نے لوگوں کو اس طرح پیسے دے کر ناکارہ بنانے سے منع کیا ہے اور جھوٹوں پر لعنت بھی فرمائی ہے۔‘‘ بحث میں تو وہ اپنی مثال آپ تھی۔
’’ہو سکتا ہے وہ جھوٹا نہ ہو۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ثابت کروں؟‘‘ اُس نے جھٹ سے کہا۔
’’یار! ایک تو تم بھی نا، بس چھوڑ بھی دو اب۔‘‘
’’اِدھر آؤ!‘‘ اُس نے گاڑی روک کر اُس معذور کو اشارہ کیا۔
’’جی بی بی!‘‘ وہ مسکین سی صورت بنا کر بولا۔
’’مجھے پتا ہے تم معذور نہیں ہو، پانچ سو روپے دیتی ہوں اگر اُس اشارے تک دوڑ کے گئے اور پھر آئے تو۔۔۔‘‘
مجھے بہت بُرا لگا یوں کسی کی معذوری کا مذاق اُڑاتے ہوئے، لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ واقعی مقررہ جگہ تک دوڑ کے گیا اور واپس آیا۔ میری دوست نے اُسے پانچ سو کا نوٹ تھمایا اور مجھے غلط ثابت کر دیا۔ اُس کی بحث ابھی جاری تھی کہ ہماری گاڑی سی این جی کی لمبی قطار میں کھڑی ہو گئی۔ ہم سے آگے چھے، سات گاڑیاں تھیں یعنی طویل انتظار۔ اسی لیے گاڑی بند کر کے ہم بحث میں مشغول تھے۔ یہاں بھی بھکاری اِدھراُدھر پھر رہے تھے۔ میری نظر ایک چھے، سات سالہ بچے پر پڑی جس نے خاکی کلر کی شلوار قمیص پہنی تھی۔ جو پتا نہیں کتنے عرصے سے دُھلی نہیں تھی۔ اُس کی رنگت میلی ہونے کے باوجود اُن میلے کپڑوں میں دمک رہی تھی۔ اُس نے بالکل اُسی جگہ اپنا میٹ ڈالا تھا جہاں سے گاڑیاں نکلتی ہیں اور آرام سے پاؤں پر پاؤں رکھے اُس میٹ پر لیٹا ہوا تھا، چوں کہ گاڑیاں تو ساری رُکی ہوئی تھیں لیکن میں اُس کی اس ترکیب پر حیران تھی، کیوں کہ اُسے اُٹھائے بغیر کوئی گاڑی آگے جا نہیں سکتی تھی اور پیسے لیے بغیر وہ اُٹھے گا نہیں۔ مجھے تھوڑی ہنسی بھی آئی بچوں کے شیطانی دماغ پر۔ وہ بلا کے پلانر ہوتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا چھپ کر دیکھوں کہ تیار کرنا چاہتا ہے کہ اچانک میری نظر اپنی دوست پر پڑ گئی جو سٹور سے کھانے پینے کا سامان لے کر نکل رہی تھی۔ میں نے اپنا ارادہ ملتوی کیا، کیوں کہ میں پھر اُس سے بحث کے موڈ میں نہیں تھی۔
اسی اثناء میں ہم سے آگے کھڑی سفید کرولا سے ایک آدمی نکلا۔ سفید کلف لگے کاٹن کے کپڑوں میں ملبوس پیروں میں پشاوری چپل جو پالش کے زور سے چمک رہے تھے بلیک واسکٹ اور کالا چشمہ پہنے وہ بڑے رُعب سے گاڑی سے نکلا اور اُس بچے کی طرف جانے لگا۔ راہ چلتے اگر کوئی اپنے جیسا نظر آئے تو دل کو ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ وہی خوشی اُس وقت مجھے محسوس ہو رہی تھی۔ میری نظریں اُس کا تعاقب کر رہی تھی۔ وہ بچے کے قریب گیا اور اچانک میری نظریں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اُس نے بچے کو زور سے لات ماری، اتنی زور سے کہ مجھے لگا کہ اُس کا گردہ پھٹ چکا ہو گا۔
’’یہاں پڑے ہو کمینے، ابھی تمہارے اُوپر سے گاڑی گزر جائے گی پھر تم بھی احتجاج کرو گے، تمہیں بھی پیسے دینے پـڑیں گے۔‘‘
اُس کا لہجہ کسی سیاست دان کا سا معلوم ہوتا تھا اور میرے دل میں پھر قرآن کی یہی بات آئی کہ ’’کچھ نہ دو لیکن جھڑکی بھی نہ دو۔‘‘
وہ درد سے رونے لگا لیکن اُٹھا نہیں اپنی جگہ سے اور آگے سے آدمی کے منہ پر کہہ دیا:
’’یہ تمھاری جگہ نہیں ہے۔‘‘
مجھے اُس کی جرأت پر حیرت ہوئی۔
’’اُٹھو یہاں سے۔‘‘ آدمی نے پھر زور سے کہا۔
’’نہیں اُٹھتا۔‘‘ وہ اس لہجے میں بھی معصوم لگ رہا تھا۔ اس بار آدمی کو کچھ شرمندگی محسوس ہوئی تو اُس نے جیب سے دس روپے نکال کر دینے کی کوشش کی اور اُٹھنے کو کہا، لیکن بچے نے دس روپے لے کر اُس کے سامنے پھاڑ دیے اور کہا کہ میں نہیں اُٹھوں گا۔ یہ منظر میرے لیے بہت عجیب ہو گیا۔ میری نظریں اُس معصوم چہرے سے ہٹ نہیں رہی تھیں۔ اُس نے نوٹ پھاڑ دینے پر مجھے امجد اسلام کا وہ شعر یاد آگیا:
؎ یہ جو خواہشوں کے پرند ہیں اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اُڑیں گے اپنے لگن میں اسے آب دے کہ سراب دے
اسی دوران دو گاڑیوں میں سی این جی ڈالی جاچکی تھی اور سب کو اپنی اپنی گاڑی آگے کرنی تھی اس لیے وہ آدمی بھی آکر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ دُوسری سائیڈ سے ایک عورت آتی دکھائی دی بھکارن کے روپ میں۔ اُس کی گود میں بچہ تھا اور ہاتھ میں آئس کریم۔ اُس نے آئس کریم لا کر بچے کو دیا اور سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ چُپ ہوکر آئس کریم کھانے لگا۔ مجھے اُس کے عزتِ نفس پر حیرت بھی ہوئی اور دل بھی بھر آیا۔ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ دُنیا میں ہر شخص عزتِ نفس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے (جس طرح اُس بچے نے اُس شخص کے دس روپے اُس کے منہ پر پھاڑ دیے اور ماں کے ہاتھ سے آئس کریم لے کر کھا لی) لیکن ہم انہیں تھپڑ مار کر، لات رسید کر کے، گالیاں دے کر اُن کی عزتِ نفس کو روندتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب یہ سب اُن پر بے اثر ہو جاتے ہیں تو اُن پر بے حس اور بے غیرت کا لیبل لگا دیتے ہیں، معاشرے کے لیے ناسور قرار دیتے ہیں حالاں کہ یہ ہمارے ہاتھوں کے تراشے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ نے تو انھیں احسنِ تقویم پر پیدا کیا ہوتا ہے۔
میں کسی خیال کے تحت گاڑی سے نکل آئی۔ میری دوست نے آواز دے کر روکنے کی کوشش کی لیکن میں رُکی نہیں۔
’’یہ لو بیٹا!‘‘ بچے کے قریب پہنچ کر میںنے اپنے ہاتھ میں پکڑا جوس کا ڈبہ اور چپس کا پیکٹ اُس کے سامنے سامنے کیا۔ اُ س نے ایک نظر مجھے دیکھا اور خاموشی سے دونوں چیزیں لے لیں۔ اُس کی ماں نے مجھے تشکر بھری نظروں سے دیکھا۔
’’یہ آپ کا بیٹا ہے؟‘‘ میں نے رسماً سوال کیا۔
’’جی بی بی!‘‘ اُس نے جواب دیا۔
’’تم کیوں اس کو بھکاری بننے پر مجبور کر رہی ہو؟ یہ اس کے کھیلنے اور پڑھنے کی عمر ہے، تم اتنا تو کماتی ہو گی کہ اس کو کسی سرکاری اسکول میں داخل کر دو۔‘‘
’’اسکول۔۔۔‘‘ وہ طنزیہ ہنسی۔
’’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور آپ اسکول کی بات کرتی ہیں، جب کھلا نہیں سکتے تو پڑھا کیسے سکتے ہیں؟‘‘
مجھے اُ س کے جواب اور طنزیہ ہنسی پر غصّہ آیا۔
’’جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟‘‘ میں نے غصّے سے کہا۔
’’پیدا کرنا ہمارے اختیار میں کہاں ہوتا ہے بی بی! اللہ کی مخلوق ہیں وہ جس کو بھیجنا چاہے گا اُسے آنا ہو گا۔‘‘
اُس نے بہت گہری بات کی تھی اور بہت سچی بات جس کی نفی بہ حیثیتِ مسلمان میں قطعاً نہ کرسکی اور ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئی۔ کہ میرے ایمان سے تو اس عورت کا ایمان زیادہ مضبوط ہے۔
’’اگر میں اسے پڑھاؤں تو تمھیں اعتراض تو نہیں ہو گا؟‘‘ میں نے کارِ خیر میں اپنا حصّہ ڈالا
’’کس طرح؟‘‘ اُس نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
’’میں اسے ہاسٹل میں داخل کرا دوں گی، پڑھائی، کھانا پینا سب اُدھر ہو گا، خرچہ میں دیا کروں گی۔‘‘
’’میں مل سکوں گی؟‘‘ اُس نے کہا۔
’’ہاں کیوں نہیں، ہر مہینے یا دو ہفتے بعد تم ملاقات کے لیے جا سکتی ہو۔‘‘
’’پھر مجھے کوئی اعتراض نہیں بی بی! اللہ آپ کا بھلا کرے۔‘‘
اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔
’’میرے ساتھ جاؤ گے، اسکول اچھا لگتا ہے؟‘‘ میں نے بچے سے جو ہماری باتیں غور سے سُن رہا تھا پوچھا۔ اُس نے مُسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گاڑی کی طرف روانہ ہو گئی۔
میری سوچ میرے پر س کے کارنر جیب میں پڑے اُن پیسوں کی طرف گئی جن کو میں ہر مہینے علیحدہ کرتی ہوں صدقے کے لیے۔ چاولوں کی دیگ منگوا کر اُن گھروں میں بھیجنا جن میں روزانہ کئی اقسام کے خوان پکتے ہیں یا مسجدوں میں دینا جہاں روزانہ دس بندے بھیجتے ہیں، لیکن کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہم ایسے کسی بندے کو تلاش کریں، جس کی زندگی ہمارے ان پیسوں سے سنور سکتی ہے اور عزتِ نفس بچ سکتی ہے اس چھوٹی سی نیکی سے۔