بلتستانی لوک کہانی
ماس جنالی
محمد عثمان طفیل
محمد عثمان طفیل 1984ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ بی ایس سی کے بعد لاہور چلے آئے اور ایک ادبی جریدے سے منسلک ہوگئے۔ اس کے بعد اخبار طلبہ، مجلة الاساتذہ اور روضہ الاطفال کے مدیر رہے۔ بچوں کی علمی، ادبی اور تربیتی سرگرمیوں میں بھرپور دل چسپی لیتے ہیں۔ مختلف ادروں سے بیس سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور ایک تعلیمی ادارے کی نصابی کتب کی تیاری کا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ الف نگر کے لیے قلمی تعاون اور مشاورت میں خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔
”مومو…! مومو…!”
عبداللہ یوگوی نے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کیا اور آواز کی سمت دیکھا۔ اس کا بھانجا بلتی زبان میں ماموں، ماموں کہتا ہوا اُس کی طرف آ رہا تھا۔
” اللہ خیر کرے۔” اس نے دل ہی دل میں سوچا پھر کندھے پر ٹکائی ”کدال” اور ہاتھ میں پکڑا ”پھاوڑا ”زمین پر رکھ دیا۔
”چی سونگس جولے؟” (کیا ہوا؟)
بھانجے کے قریب پہنچتے ہی عبداللہ یوگوی نے پریشانی سے پوچھا۔ اس کے بھانجے نے بولنے کی کوشش کی مگر پھولی سانسوں کے سبب یہ ممکن نہ سکا۔ اس نے ہانپتے ہانپتے ایک جانب اشارہ کیا۔ عبداللہ نے دیکھا تو یوں لگا جیسے دور کہیں لوگوں کا ہجوم سا ہو۔غور کرنے پر اُسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ سب اِسی طرف آ رہے ہیں۔ وہ غلط نہیں تھا، ہجوم اُسی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے منظر واضح ہونا شروع ہوا اور لوگوں کے چہرے نظر آنے لگے۔
”ان میں تو نیت قبول حیات کاکا خیل بھی موجود ہیں۔” عبداللہ بڑبڑایا۔ نیت قبول حیات ضلع غذِر کے حاکم تھے۔ ان کے ساتھ بہت سے مقامی نوجوان تھے جنہوں نے عبداللہ ہی کی طرح کدا لیں اور پھاوڑے اٹھا رکھے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے دل میں اُبھرتے تمام سوالوں کے جواب مل گئے۔ اپنے حاکم کی ہدایت پر اس نے دیگر نوجوانوں سے مل کر ایک بڑے میدان کو ہموار کرنے کا کام شروع کردیا۔
…٭…
”آہ میرے مولا!” عبداللہ یوگوی نے کدال زمین پر ماری اور مٹی کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ وہ سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر موجود تھا مگر اس کے باوجود پسینا پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ یہ معاملہ صرف اسی کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے تمام ساتھی پسینے سے بھیگے ہوئے تھے۔ اس نے کچھ دیر سانس درست کیا اور پھر سے کام میں جت گیا۔ گھنٹے دنوں میں اور دن ہفتوں میں ڈھلتے رہے۔ ان کے حاکم نیت قبول حیات مسلسل اُن کی حوصلہ افزائی میں مصروف تھے۔ بالآخر وہ وقت آیا کہ لگ بھگ 56 میٹر چوڑا اور 200 میٹر لمبا زمین کا ٹکڑا بالکل ہموار ہوگیا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا لیکن انسانی ہمت و حوصلے نے اسے آسان بنا دیا۔
نیت قبول حیات کو کام مکمل ہونے کی اطلاع ملی تو وہ بھاگم بھاگ وہاں پہنچے۔ انہوں نے ایک نظر اس میدان کودیکھا اور تصور ہی تصورمیں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ ”ایولین ہے کوب” کا چہرہ دیکھا جو اس میدان کو دیکھ کر خوشی سے چمک اٹھے گا۔ چند دن بعد جب تمام تیاریاں مکمل ہوگئیں تو ”ای ایچ کوب” نے اس میدان کا دورہ کیا۔ کام اس کی توقع سے بھی بڑھ کر شان دار ہوا تھا۔ اس نے نیت قبول حیات کو بہت اعلیٰ انعام کی پیش کش کی۔ بھلا ایسے کام انعامات کی لالچ میں کب مکمل ہوتے ہیں۔ نیت قبول حیات تو اپنے آباء و اجداد بالخصوص علی شیر خان انچن سے متعلق سوچ رہا تھا جس نے یہ سارا علاقہ فتح کرکے پہلی بار یہاں ”ماس جنالی” بنایا اور ”چوگان” جیسے کھیل کا آغاز کیا۔ سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں نہ جانے کیا آیا کہ اس نے ای ایچ کوب سے ایک انوکھی فرمائش کی۔
”بس آپ یہ کام کروا دیں، میں اسے ہی اپنا انعام سمجھوں گا۔”
ای ایچ کوب کچھ لمحے ہچکچایا اور پھر بولا: ”ٹھیک ہے۔ تمہاری خواہش پر ایسا ہی ہو گا۔”
…٭…
سیٹی بجی اور کئی گھوڑے ہنہناتے ہوئے ”پڑنجو” (پولو والی گیند) کی طرف لپکے۔ شانزے نے بھی جلدی سے اپنے عربی گھوڑے کو ایڑلگائی۔ گھوڑے نے کچھ اَڑی کی اور پھر سوار کے حکم پر دوڑ پڑا۔ یہ گھوڑا اس کے لالہ کا تھا۔ شانزے اپنے سرخ و سپید لالہ کو اس سرمئی گھوڑے کو دوڑاتا ہوا دیکھتی تو ماشاء اللہ ماشاء اللہ کا ورد کرنے لگتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لالہ گھوڑے کی شان بڑھا رہے ہیں یا گھوڑا لالہ کی۔
لالہ جانتے تھے کہ شانزے کو گھڑ سواری کا بہت شوق ہے۔ انہوں نے خود اُسے ایک بہترین گھڑ سوار بنایا تھا۔ اس وقت بھی شانزے ہاتھ میں ایک لمبی سی ہاکی تھامے گھوڑا دوڑا رہی تھی۔ وہ ہر صورت میں ”پڑنجو” حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا ہو نہیں پارہا تھا۔ دوسری ٹیم کے کھلاڑی مسلسل ایک دوسرے کی طرف پڑنجو پھینک رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ گول کرنے میں کامیاب ہوجاتے، شانزے کی ٹیم کے ایک کھلاڑی نے پڑنجو چھین لی۔ اگلے ہی لمحے پڑنجو شانزے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ شانزے نے بڑی مہارت سے اُسے روکا اور آگے بڑھا دیا۔
وہ اس وقت ”ماس جنالی” کے تاریخی میدان میں موجود تھی۔ ”چوگان” اپنے عروج پر تھا اور ان کا مقابلہ چترال کی بے حد ماہر ٹیم سے تھا۔ شانزے بلتستانی ٹیم کا حصہ تھی اور اس وقت وہ اپنے لالہ کے گھوڑے پر سوار تھی۔ یہ خیال آتے ہی کہ وہ لالہ کی بجائے خود ٹیم کا حصہ ہے، شانزے چونک سی گئی۔وقت اچانک ٹھہر گیا اور اُسے لگا کہ شندور کا میدان بلند ہوتے ہوتے بادلوں کے ساتھ تیرنے لگا ہے۔ گھوڑے دوڑنے کے بجائے اُڑنے لگے تھے اور پڑنجو کو بھی پر لگ چکے تھے۔ وہ بڑی پھرتی سے مخالف ٹیم کے سب کھلاڑیوں کو پیچھے چھوڑتی آگے بڑھ رہی تھی۔ گول کے قریب پہنچ کر اُس نے ہاکی فضا میں بلند کی اور بس یہی وہ لمحہ تھا جب اس کا توازن بگڑ گیا۔ ایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ شانزے گھوڑے سے نیچے آگری۔نیچے زمین تو تھی نہیں، اسے لگا کہ وہ نیچے ہی نیچے گرتی جا رہی ہے۔
…٭…
کیا ہوا شانزے؟ یہ آواز کیسی تھی؟
ساتھ والے کمرے سے آئی لالہ کی آواز شانزے کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ جو خود حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی، اچانک ہوش میں آئی۔ اُسے چند لمحے پہلے دیکھا جانے والا خواب یاد آگیا۔
”شانزے؟” لالہ کی آواز دوبارہ سنائی دی تو وہ فوراً بولی:
”کچھ نہیں لالہ! میری قمیص نیچے گر گئی تھی۔”
”قمیص گرنے کی آواز کچھ زیادہ نہیں تھی؟” لالہ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔
”جی لالہ! قمیص کے اندر میں بھی تھی۔” شانزے نے زمین سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ لالہ نے ہنستے ہوئے اسے تھپکی دی اور مسکراتے ہوئے بولے:
”شکر ہے کہ تم خواب میں ہی پولو کھیلتی ہو ورنہ نہ جانے کتنی بار چوٹ لگتی۔”
”اب ایسی بھی کوئی بات نہیں۔” شانزے نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تو لالہ پھر ہنس دیے۔
”ویسے لالہ! کیا تاریخ میں کبھی لڑکیوں نے یہ کھیل کھیلا ہوگا؟” شانزے نے معصومیت سے پوچھا۔
”بھئی! میرے خیال میں تو نہیں، لیکن پھر بھی تم یہ بات بابا سے پوچھنا۔”
”بابا سے؟ ” شانزے ہچکچائی۔
”ہاں بھئی! اس بہانے تم اس کھیل کی تاریخ بھی جان لوگی۔” لالہ کے کہنے کی دیر تھی، شانزے فوراً اٹھی اور بال سمیٹتی ہوئی بابا کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
…٭…
”وہ کیا خواہش تھی بابا؟”شانزے ابھی تک نیت قبول حیات کے اس انعام میں الجھی ہوئی تھی جو ماس جنالی بنانے پر گلگت و بلتستان کی ساری عوام کو دیا گیا تھا۔
”بھئی بتاتا ہوں۔ پہلے اپنی ماں سے میرا ناشتا تو لے آئو۔”
”جی بابا!” شانزے اٹھی اور تھوڑی ہی دیر میں بھاپ سے تیار کی گئی ٹراؤٹ مچھلی بابا کے سامنے تھی۔
”تم نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ مچھلی اس علاقے بلکہ اس براعظم میں بھی نہیں ہوتی تھی، پھر یہ یہاں کیسے آگئی؟”
”بابا اس میں کیا مشکل ہے؟ کسی اور دریا سے آگئی ہوگی۔” شانزے اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔ اسے بس اپنے سوال کا جواب چاہیے تھا۔
”لو بھلا اتنی بلندی پر کون سے دریا آپس میں ملتے ہیں پھر کسی اور ملک کا کوئی دریا کیسے پاکستانی دریائوں سے ملے گا؟ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی اور ملک سے یہ مچھلی منگوا کر یہاں کی جھیلوں میں ڈالی گئی ہو۔”
”کسی اور ملک سے…؟ مگر یہ تو ٹھنڈے پانی میں رہتی ہے اور ٹھنڈا پانی کن کن ملکوں میں زیادہ ہے؟” شانزے سوچ میں پڑ گئی۔
”ارے ارے! کہیں یہ اس انعام کا نتیجہ تو نہیں جو نیت قبول حیات نے مانگا تھا؟” وہ اچانک چونکی اور بابا مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلانے لگے۔ شانزے نے اپنی سہیلیوں کو بھی مزے لے کر یہ بات بتائی کہ پولو یا چوگان کا آغاز کیسے ہوا اور انعام میں یہاں کے حاکم نے کس طرح برطانوی افسر سے ٹرائوٹ مچھلی کی فرمائش کی۔ اس کی فرمائش پوری کی گئی۔ آج بلتستان کے ضلع شندور کے اس حاکم کی وجہ سے نہ صرف پولو پورے ملک میں کھیلی جاتی ہے بلکہ ٹرائوٹ مچھلی بھی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔
…٭…
پاکستان کا حسین ترین علاقہ یعنی گلگت و بلتستان کا خطہ لوک کہانیوں سے بھر ا پڑا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو ایسی تمام شخصیات کے قصے سناتے ہیں جن کو جانے بغیر اس خطے کا تعارف مکمل نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ہر لوک کہانی کسی نہ کسی شخصیت سے جڑی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا محور کوئی عمارت، میدان، علاقہ ہی کیوں نہ ہو مگر اس علاقے کی فتح اور میدان یا عمارت کی تعمیر کے پیچھے بھی کسی نہ کسی شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جس میں ضلع غذِر کے ایک حاکم کا تذکرہ ہے جس نے اپنے جد ِامجد علی شیر انچن کے نقش قدم پر چل کرلگ بھگ ایک صدی قبل1935ء میں ”ماس جنالی” بنوایا۔ ماس کے معنی ہیں چاند جبکہ جنالی کھلے میدان کو کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسے میدان کی تعمیر کا قصہ ہے جہاںچاند کی روشنی میں چوگان کھیلا جاتا تھا۔ اسے بنانے پر حاکمِ غذِر کو برطانوی حکومت کی جانب سے بڑے انعام و اکرام کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اپنی ذات سے زیادہ عوامی فلاح کو مقدم رکھا۔