کئی دن بعد آج موسم کافی خوشگوار تھا… آسمان سرمئی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا… میں گھر میں بیٹھے بیٹھے اکتا سا گیا تو سوچا آج کچھ باہر کی سیر ہوجائے … تازہ دم ہو کر میں نے لباس تبدیل کیا اور گھر سے روانہ ہوگیا…
آج سارا شہر ہی بدلا بدلا سا لگ رہا تھا…بجلی کی زور دار کڑک سے بادل برسنے لگے … سڑک کے دونوں طرف درختوں کا جھنڈتھا ,خوبصورت مہکتے ہوئے گلاب و جاسمین کے پھول جو بھیگ کر اور نکھر چکے تھے…فضا میںاڑتے رنگ برنگے پرندے اپنی پناگاہ کی سمت جارہے تھے … میرے بدن پہ پڑتی یخ بوندیں مخمور کرنے لگیں… چلتے چلتے اب میں جھیل کنارے آن پہنچا جہاں ایک قد آور درخت تھا جس کی عمر صدیوں پر محیط لگتی تھی… شام ڈھلنے لگی بادل چھٹ گئے رات نے جگماتے ستاروں کی چادر اوڑھ لی… جھیل میں چاند کا عکس تیر رہا تھا… تیز ہوا کے جھونکے درخت کی ٹہنیوں کو چھو رہے تھے اور پتے جھیل میں گر رہے تھے … ہوا میرے جسم کے انگ انگ میں سرایت کرنے لگی ۔ مجھے اپنا خون جمتا ہوا محسوس ہوا۔ایسے میں اک آشنا لمس مجھے اپنے شانے پر محسوس ہوا۔میں نے نظر پھیر کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔پھر بھی مجھے محسوس ہورہا تھا کہ کوئی تو ہے جو میرے آس پاس ہے۔
پلک جھپکتے ہی سارا منظر تبدیل ہونے لگا تھا۔ جھیل میں چاند کا عکس اب دھندھلانے لگا اور سرخ ہونے لگا تھا۔ جیسے کوئی چاند کے سینے میں بھالے مار کر اسے زخمی کر رہا ہو۔پانی خون میں تبدیل ہوتے ہوتے اب خشک ہونے لگا تھا۔کچھ ہی دیر میں وہاں کوئی جھیل باقی نہ رہا۔ایک ویران صحرا دکھائی دے رہا تھا۔درختوں کی چیخ سنائی دی پھر اچانک ہی گہری خاموشی چھا گئی۔بیتاب پرندے کبھی یہاں پر مارتے کبھی وہاں پر مارتے۔جیسے انہیں کوئی پناہ گاہ نہ مل رہی ہو۔ آسمان دھویں سے بھر چکا تھا جیسے اجالوں کا راستہ اب ہمیشہ کے لیے ہی بند کردیا گیا ہو۔اور اندھیرا زمین کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہو۔پھول ہر سو بکھرے ہوئے نظرآرہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اب کوئی موسم نہیں بدلے گا اور خزاں ہمیشہ کے لیے قائم رہے گی۔ہوا میں تپش تھی اور ایسا لگتا تھاجیسے وہ بھی سسکیاں لے کر رورہی ہو۔صدیوں پرانے اس درخت کے سارے پتے ٹوٹ کر بکھر چکے تھے۔ زمین سے اس کی جڑیں نکلی ہوئی تھیں ٹہنیاں سیاہ ہو چکی تھیں۔میں حیرت و استعجاب سے سب کچھ دیکھتا رہا۔میں نے پیچھے کی طرف رخ پھیرا تو سامنے ہی قدیم طرز کا بنا ہوا کسی بادشاہ کا کھنڈر نما تربت تھا … ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی انجانی طاقت مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہو… میںاس طرف اپنے قدم بڑھاتا چلا گیا… پیروں میںخارچبھنے لگے ۔میں نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا اور ششدر رہ گیا کہ میرے چپل کہاں ہیں…آج تک ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں برہنہ پا ہی کہیں چلا جاؤں…
پیروں سے رستے خون سے بے نیاز میں اس تربت کے زینے چڑھتا گیا… وہاں رینگتی ہوئی عجب عجب سی مخلوق نظر آرہی تھی ان میں سانپ بھی تھے بچھو بھی تھے اور جانے کیا کیا… … مجھے تو یاد تھا کہ میں جب کسی بچھو کو دیکھتا تھا تو پسینے ہی چھوٹ جاتے تھے پھر یہ آج ہو کیا رہا تھا میں سمجھنے سے قاصر تھا…
تھکاوٹ سے بدن ایسے چور ہورہا تھا جیسے میں نے میلوں کا سفر طے کر لیا ہوجبکہ یہ صرف چند قدم کا ہی فاصلہ تھا… اب میں اس تربت کے بالائی احاطے میں کھڑا تھا وہاں قبریں ہی قبریں نظر آرہی تھیں۔بڑے بڑے ستون تھے جن پرلگا ہوا خون اب سیاہ ہوچکا تھا… ایک بڑا سا پتھر دیکھ کر میں اس کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا…
اتنے میں فضا میں لرزش سی پیدا ہوئی اور ایک سایہ سامنے کی دیوار پر ابھر آیا اور مجھ سے ہم کلام ہوا…
“تم اپنے گھر سے کس حالت میں روانہ ہوئے تھے اور ابھی دیکھو خود کو”
میں سہم گیا اور خود کو دیکھنے لگا میرالباس ہر جگہ سے پھٹ چکا تھا ہاتھوں پر چھالے تھے اور پاؤں پر آبلے پڑ گئے تھے …
” دائیں طرف دیکھو اس ٹوٹی دیوار کے پیچھے ”
میں نے نگاہوں کو اس طرف پھیرا تو میرے ہوش اڑ گئے وہی جھیل وہی حسین منظر اور وہی میں تھا جو دنیا و مافیا سے انجان بس اک سحر میں جکڑا ہوا تھا…مجھے کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کچھ بولنے کی کوشش کرنے لگا تو حلق میں آواز رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی… میں نے ہمت کی اور اس سائے سے پوچھا…
“میں کہاں پر ہوں مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا”
سایہ ہنسنے لگا۔ اس دیوار سے ہٹا اور اب دوسری دیوار پر ابھر آیا…
” تم خوابوں کی دنیا کے پیچھے بھاگتے بھاگتے یہاں پہنچ چکے ہو…اور یہ حقیقت کی دنیا ہے …تم جو دیکھتے ہو در حقیقت وہ اس کا ظاہر ہوتا ہے۔تم نے کبھی دنیا کا باطن دیکھا ہی کب ہے۔ یہ دریا اصل میں صحرا ہیں یہ گلستان ویرانے ہیں۔ ”
“اور تم کون ہو” میں چلایا…
“خواب”
اس نے کہا اور میں ہانپتے ہوئے نیند سے بیدار ہوگیا… جسم پسینے میں شرابور تھا… گھڑی پر نظر گئی تو پتا چلا صبح ہوچکی ہے …