الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

(سارہ قیوم)

دسویں رات

رات آئی تو شہرزاد نے کہانی یوں سنائی کہ جب نانی کے پاس بیٹھی ہوئی عورت حسن کے گلے لگ کے رونے لگی تو حسن کو بے انتہا حیرت ہوئی۔ بےحد گھبرایا اور دُبدُہا میں آیا۔ پوچھا: ’’بی بی تم کون ہو؟ اپنا حال من و عن بتاؤ اور یہ تو فرماؤ کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیسا انوکھا ماجرا ہے کہ اشکوں سے منہ دھوتی ہو، غیر مرد کے گلے لگ کر روتی ہو؟‘‘
نانی بولیں: ’’ہائے ہائے غیر مرد کیوں؟ بھائی لگتا ہے تو اس کا۔ مت بھول کہ اس کی ماں تیرے باپ کی سوتیلی پھوپھی کی بیٹی تھی۔ اس رشتے سے یہ تیری بہن ہے۔ تیرا فرض بنتا ہے اس کاخیال رکھنا۔‘‘
یہ سن کے وہ عورت اور بھی زورو شور سے رونے لگی اور کہنے لگی: ’’میرے بھائی، میرا تو کوئی نہ رہا دنیا میں۔ اب تم بھی غیروں جیسی باتیں کرو گے تو میں کہاں جاؤں گی؟ کون بچائے گا مجھے اُس ظالم سے؟‘‘
یہ بات جو حسن نے سنی تو وفورِ شفقت اور برادرانہ جوش سے مغلوب ہوگیا۔ فوراً اس عورت کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا: ’’اے ہمشیرہ، یہ کیا حال ہے؟ تم سے برسرِ جنگ کون بد خصال ہے؟‘‘
عورت نے روتے ہوئے کہا: ’’میرا میاں بڑا تنگ کرتا ہے مجھے۔ ایک تو گھر کا خرچہ نہیں دیتا اوپر سے لڑائی جھگڑا بھی کرتا ہے۔ آج میں نے کہا کہ گھر میں بچے کے لیے دودھ نہیں ہے، لا دو، تو غصے میں آکر مجھے گالیاں دیں اور مارا پیٹا۔ یہ دیکھو میرے بازو پر نشان۔‘‘ یہ کہہ کر حسن کو اپنا بازو دکھایا جس پر نیل پڑے تھے۔
یہ دیکھ کر حسن کو بے حد غصہ آیا۔ طیش میں آکر بولا: ’’کون ہے تمہارا شوہر؟‘‘
نانی بولیں: ’’اپنا بنّا اور کون۔ اسی لیے تو تیری ممانی نے اس کا رشتہ لیا تھا کہ یتیم لڑکی ہے۔ سب مار پیٹ چپ کرکے سہہ جائے گی۔ اب دیکھو کتنا تنگ رکھا ہوا ہے اس کو۔ کہاں جائے بے چاری؟‘‘
بنّے بھائی کا نام سن کر حسن گھبرایا اور بے اختیار مڑ کر پھاٹک کو دیکھا کہ کہیں آتے ہی نہ ہوں۔ کان دبا کر نانی کے پاس جا بیٹھا۔ وہ عورت بڑی دیر تک نانی کے پاس بیٹھی روتی رہی اور شکایت کرتی رہی۔ آخر نانی نے اسے بہت سی تسلیاں اور کچھ رقم دے کر گھر بھیجا۔
وہ چلی گئی تو حسن نے پوچھا: ’’بنّے بھائی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں؟‘‘
نانی نے آہ بھری اور بولیں: ‘‘بس بیٹا کیا بتاؤں۔ باپ پر گیا ہے۔ اس کا باپ بھی یہی سلوک کیا کرتا تھا اس کی ماں سے۔ بھلا خون کا اثر بھی کہیں جاتا ہے؟ وہ تو تیز مزاج تھی، اُسے چھوڑ آئی۔ یہ نسیمہ بے چاری تو مسکین ہے۔ ماں باپ مر گئے، بھائی نے باہر جاکر میم سے شادی کرلی۔ اب پوچھتا تک نہیں بہن کو۔ بے چاری کا اب دنیا میں کوئی نہیں۔ تجھے ہی بھائی سمجھتی ہے اور مجھے ماں۔ بیٹا کبھی کبھی جاکر پوچھ آیا کر غریب کو۔‘‘
یہ حال سن کر حسن کو بہت ترس آیا اور اپنی بے سروسامانی کا زمانہ یاد آیا۔ دل میں ٹھان لی کہ منہ بولی بہن کا حال ضرور پوچھا کروں گا اور گوکہ بنّے بھائی سے چھپ کے اس وقت جاؤں گا جب ان کا سامنا ہونے کا کوئی امکان نہ ہو، مگر اس کو تنہا نہ چھوڑوں گا کہ بہن کا حال دریافت کرنا ضرور ہے اور اس کی مدد نہ کرنا شیوۂ آدمیت سے بعید و دور ہے۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!