الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

شام ہوئی تو حسن کے دوست اسے ملنے آئے۔ نعیم اور بندو آئے اور اپنے ساتھ ایک تیسرے کو بھی لائے۔ یہ وہی جوان رِعنا و طناز تھا جو عالی خاندان و ممتاز تھا۔ جس کا باپ بہت بڑا زمیندار تھا اور جس کو لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ خود کو لڑکوں کا عاشق پاتا تھا، بہت پچھتاتا تھا۔ اس کا نام عاصم تھا۔
حسن دوستوں کو دیکھ کر خوش ہوا اور بعد علیک سلیک ان سے کہا: ‘‘تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟ کیا ضرورت ہے؟ میری تو اب اور ہی صورت ہے۔ مرض میں گرفتار ہوں، جینے سے بے زار ہوں۔’’
نعیم نے کہا: ‘‘یار تیرے فیل ہونے کا بڑا افسوس ہوا۔ میں نے ان لوگوں کو بتایا تو انہوں نے کہا چل کر پوچھنا چاہیے۔ یہ عاصم تو بڑا پریشان رہا تیرے لیے۔’’
بندو نے کہا: ‘‘ہاں یار بڑے پریشان ہوئے ہم۔ لیکن یہ ہوا کیا؟ تو ُ تو کہتا تھا پیپر بڑے اچھے ہوئے ہیں۔ پھر فیل کیسے ہو گیا سب میں؟’’
یہ سوال سن کر حسن نے کفِ افسوس ملا اور کہا: ‘‘خدا جانے کیا ہوا ۔ہر چند کہ محنت سے دل لگایا مگر بجز مایوسی کے اور کچھ اپنی جفاکشی کا صلہ نہ پایا۔ خیرخدا کی خدائی میں کس کو دخل ہے؟ اللہ میاں کبھی گدھوں کو خشکہ کھلاتے ہیں، کبھی بڑے حکما و علما بے آب و دانہ رہ جاتے ہیں۔
بے رضائے تو یکے برگ نہ جنبدز درخت’’
یہ کہہ کر آبدیدہ ہوا، ستم و الم رسیدہ ہوا۔
نعیم نے تسلی دیتے ہوئے کہا: ‘‘چل کوئی بات نہیں، ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھی۔ میری بھی پروگرامنگ میں سپلی آگئی۔ دیکھ، کتنا کہا تھا مجھے نوٹس دے دے۔ تجھے اپنے عشق کی پڑی ہوئی تھی۔’’
بندو ہنسا اور بولا: ‘‘دے بھی دیتا تو اس کے نوٹس سے بھی تیری سپلی ہی آنی تھی۔ یہ بھی تو اپنے نوٹس پڑھ کر ہی فیل ہوا ہے بے چارہ۔’’
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دھاڑ سے دروازہ کھلا اور بنّے بھائی آفت کی طرح نازل ہوئے۔ پیچھے پیچھے ممانی اور ہانپتی کانپتی نانی بھی اندر داخل ہوئیں۔
بنّے بھائی نے چھوٹتے ہی پوچھا: ‘‘ہاں بھئی، کرا آیا ہے خرچہ؟ ایک تو تو ُ نکما، آوارہ گردیاں کر کے الا بلا کھا کے آئے، اوپر سے تجھے جوتے مارنے کی بجائے ہم ہسپتالوں میں لے کے پھرتے رہیں۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔’’
بندو نے زیرِلب لقمہ دیا: ‘‘کوئی ethics ہوتے ہیں۔’’
ممانی چٹخ کر بولی: ‘‘خرچہ تو ابھی ہو گا! نواب زادے کا ایم آر آئی کرانے کو کہا ہے ڈاکٹر نے، تیرہ ہزار کا خرچہ ہے۔’’
بنّے بھائی کی آنکھیں ابل پڑیں۔ ‘‘تیرہ ہزار؟ کوئی ضرورت نہیں کرانے کی۔’’
نانی نے ملتجیانہ انداز میں کہا: ‘‘ضرورت ہے، ڈاکٹر نے کہا ہے دماغ پر چوٹ لگی ہے۔ میں بھی کہوں اتنا سمجھ دار بچہ ایسی باتیں کیوں کرنے لگا ہے۔ لو دیکھ لو، سب چوٹ کی وجہ سے ہے۔’’
بنّے بھائی نے تیوری چڑھائی اور خشمگیں ہو کر بولے: ‘‘کوئی چوٹ ووٹ نہیں لگی۔ اس کو اصل میں چنڈیں نہیں پڑیں صحیح سے کبھی۔ میرے حوالے کرو، پھر دیکھو۔ دو دن میں دماغ بھی ٹھیک کر دوں گا اور بخار بھی۔’’
حسن دم بخود پڑا یہ باتیں سنتا تھا، مارے غم و الم کے سر دھنتا تھا۔بنّے بھائی کچھ دیر مزید کھڑے حسن کو صلواتیں سناتے رہے، خوب دھمکاتے رہے۔ آخر نانی انہیں کھینچ کھانچ کر باہر لے گئیں۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Read Next

عبادالرحمن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!