اتنا کہہ کر نانی کو اچانک کچھ خیال آیا اور رازدارانہ انداز میں زلیخا سے بولیں: ‘‘میری بات سن زلیخا، یہ حسن کے رزلٹ والی بات کسی کو بتانا نہیں، اچھا؟ کوئی پوچھے بھی تو کہنا معلوم نہیں۔ حسن صرف خبر سن کر اس حال کو پہنچ گیا ہے، لوگوں تک خبر پہنچی تو اس بدنامی کو سہہ نہیں پائے گا۔’’
زلیخا نے تسلی دیتے ہوئے کہا: ‘‘فکرمت کریں دادی اماں۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔ میں نے تو ماما کو بھی نہیں بتایا۔’’
نانی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا: ‘‘ہاں میری بچی، تجھ سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے فیل ہونے کا دکھ؟ تُو بھی تو انٹری ٹیسٹ میں فیل ہو ئی تھی۔’’
زلیخا روہانسی ہو گئی: ‘‘میں فیل نہیں ہوئی تھی دادی اماں، صرف تین نمبروں سے میرٹ رہ گیا تھا اور ایف ایس سی میں تو میرے نائٹی سیون پر سینٹ مارکس تھے، فیل کیسے ہوسکتی تھی میں بھلا؟’’
نانی بولی: ‘‘میں تو کہتی ہوں کسی حاسد کی نظرِبد لگ گئی میرے بچوں کو۔ اتنا لائق بچہ تھا حسن، اور محنت بھی کتنی کی اس نے۔ پتا نہیں کس نے کیا کرا دیا کہ دماغ باندھ دیا اس کا۔’’
زلیخا نے سوچتی ہوئی آواز میں کہا: ‘‘ویسے بہکی بہکی باتیں تو بڑے عرصے سے کر رہا ہے۔ یاد ہے جب ایک دن صبح سو کر اٹھا تھا اور آپ سے پوچھنے لگ گیا تھا کہ یہ کون سا زمانہ ہے؟ بس اس کے بعد سے عجیب عجیب باتیں کرتا تھا۔ مجھے لگتا ہے واقعی کچھ دماغ پہ اثر ہو گیا ہے اس کے۔’’
نانی پریشان ہو کر بولیں: ‘‘رات بخار میں بھی بڑبڑاتا رہا ہے۔ مرحوم بدرالدین کو یاد کرتا تھا۔’’
زلیخا بولی: ‘‘اور آپ کے جانے کے بعد پھوپھو کو آوازیں دیتا تھا۔ امی امی پکارتا تھا لیکن ساتھ یہ بھی کہتا تھا کہ میری ماں نواب خاندان سے تھی اور ہیرے جواہرات کی مالک تھی اور بھی پتا نہیں کیا کیا کہتا تھا۔’’
حسن کی آنکھیں بند تھیں مگر جب نانی بولیں تو ان کی آواز سے حسن کو اندازہ ہو گیا کہ کس درد سے گزر رہی ہیں۔ نانی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے چوم کر بھرائی ہوئی آواز میں بولیں: ‘‘ہائے میرا یتیم بچہ۔’’
اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ اب حسن سے رہا نہ گیا، اس نے آنکھیں کھول کر نانی اور زلیخا کو دیکھا۔ لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ تھیں، زلیخا نے نانی کا سر اپنے کندھے سے لگا رکھا تھا اور چھوٹے بچے کی طرح انہیں تھپک رہی تھی۔ نانی رو رہی تھیں۔
زلیخا نے نانی کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ‘‘آپ فکر نہ کریں۔ میں حسن کا کیس اپنی سائیکالوجی کی ٹیچر سے ڈسکس کروں گی۔ اگر اس کے دماغ پر کوئی اثر ہے تو اس کا علاج کرائیں گے۔’’
نانی نے آنسو پونچھ کر کہا: ‘‘اور آج اس کو ہسپتال لے جا زلیخا۔ مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی۔’’
زلیخا نے نانی کو تھپکتے ہوئے کہا: ‘‘ہاں ہاں بالکل لے جاؤں گی۔’’
نانی نے چھوٹے سے بچے کی طرح بازو زلیخا کے گرد حمائل کر دیے اور آہستہ سے بولیں: ‘‘بس تیرا ہی سہارا ہے مجھے اس پورے گھر میں۔ تو ہی میرے ساتھ چلے گی اس کے کالج، پروفیسروں سے بات کرنے۔ زاہد کا تو تجھے پتا ہی ہے۔ وہ تو اپنی بیوی کے آگے سر نہیں اٹھا سکتا، کسی اور سے کیا بات کرے گا اور رہ گئی تیری ماں۔۔۔۔۔۔’’
ادھر نانی نے نام لیا اور ادھر زناٹے سے دروازہ کھلا اور ممانی اندر داخل ہوئی۔ آتے ہی ڈپٹ کر زلیخا سے بولی: ‘‘تم یہاں کیا کر رہی ہو؟’’
زلیخا نے صفائی دیتے ہوئے کہا: ‘‘ماما، حسن کی طبیعت بہت خراب ہے۔ میں ذرا اس کی دیکھ بھال میں دادی اماں کی ہیلپ کر رہی تھی۔’’
ممانی نے خشمگین ہو کر کہا: ‘‘کیوں؟ تم کہاں کی ڈاکٹر لگی ہوئی ہو؟بڑی آئی ہیلپ کرانے۔ـ’ـ’
زلیخا نے روہانسی ہو کر کہا: ‘‘ماما ہر بات میں یہ طعنہ نہ دیا کریں۔’’
ممانی نے سنی ان سنی کر دی: ‘‘اور یہ مفت خورہ کس خوشی میں خدمت کرا رہا ہے؟ میں سب جانتی ہوں۔ نرے بہانے ہیں یہ۔’’
ممانی کی یہ بات سنی تو نانی کی آنکھ بھر آئی۔ آہستہ سے بولی: ‘‘اپنا وقت یاد کر پروین۔ تو بھی تو بن باپ کے بچے کی ماں تھی۔ اس کی جگہ اپنے بنّے کو رکھ کے دیکھ۔ اس غریب کی تو ماں بھی نہیں۔’’
ممانی کے چہرے پر ایک رنگ آکے گزر گیا۔ کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گئی۔ پھر آگے بڑھی اور حسن کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی: ‘‘بخار تو کم ہے۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ساری رات پٹیاں رکھتے رہے ہیں۔ اس لیے ابھی ذرا اترا ہے۔’’
نانی نے کہا: ‘‘اسے ڈاکٹر پر لے چل ،زلیخا۔’’
ممانی بولی: ‘‘اکیلی کہاں لے جائے گی زلیخا۔ میں بنّے کو بلاتی ہوں، وہ لے جائے گا۔’’
بنّے بھائی کا نام سنا تو حسن بدحواس ہو گیا۔ اچھل کر اٹھ بیٹھا اور گھبرا کر کہا: ‘‘اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ خدارا بنّے بھائی کو نہ بلائیے، میں کہیں نہیں جاؤں گا۔’’
اس بات کے جواب میں ممانی نے دروازے کی طرف منہ کر کے ہانک لگائی: ‘‘بنّے ۔۔۔ بنّے بیٹا بات سن، ادھر آنا ذرا۔’’