الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

سارہ قیوم

بارہویں شب کا قصہ:

داستانِ عبرت تو امان یعنی ہسپتال کا بیان:

جب لیلائے شب زلفِ عنبر بارو مشک بو ُ کھولے ہوئے آئی، تو شہرزادِ شیریں زبان و سحر بیاں نے بعد شانِ نازنینی یوں کہانی سنائی کہ جب اس محرمِ راز و یارِ دم ساز نعیم نے رزلٹ آنے کی خبر سنائی تو اس صدمہء دلدوز سے نانی کا جگر پارہ ہوا، دل غم کا مارا ہوا ۔ایک چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی، رنج و محن کے دوش بدوش ہو گئی۔
زلیخا گھبرا کر نانی کے تلوے سہلانے لگی۔ حسن بھی گھبرا کر بھاگا اور نانی کے پاس بیٹھ کر ان کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ بے حد درمندی سے پکارا: ‘‘اے مادرِ مہربان! میرا دنیا میں بجز تیرے کوئی نہیں۔ تجھے یہ کیا ہو گیا؟ تیرے اس صدمۂ علالت و بیماری سے زندگی مجھے جنجال ہے۔ اب تیری طبع مبارک کا کیا حال ہے؟’’زلیخا نے جو یہ باتیں سنیں تو بددماغ ہو کر بولی: ‘‘کتنا کہتی تھی کہ کلاسز اٹینڈ کرو، آوارہ گردی بند کرو اور کچھ پڑھ لو بیٹھ کے۔ نہیں سنی نا میری بات؟ اب اگر ذرا کچھ غیرت ہے تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔’’
حسن بے حد حیران ہوا، پریشان ہوا۔ گھبرا کر بولا: ‘‘وہ سب تو ٹھیک ہے مگر غلام اس قدر تو سن لے کہ خانہ زاد کا کیا قصور ہے اور اس قدر برہم کیوں مزاجِ حضور ہے؟ یوں تو غلام ہر دم گنہگار ہے مگر معلوم تو ہو کہ اب کس جرم میں سزاوار ہے؟’’
یہ سن کر زلیخا کو اور غصہ آیا، ڈپٹ کر بولی: ‘‘بند کرو یہ ایکٹنگ۔ کچھ احساس ہے کتنی بڑی بات ہے امتحان میں ناکام ہونا؟ کنویں میں گئی انجینئرنگ۔ اب ساری زندگی سیلز مین بنے رہنا۔’’
زلیخا تو یہ باتیں سناتی تھی اور ڈانٹتی تھی مگر حسن بدرالدین نے صرف ایک ہی جملہ سنا تھا۔جب اس نے یہ سنا کہ امتحان میں ناکام ہو گیا ہے تو اس کا رنگ فق ہو گیا، کلیجہ شق ہو گیا۔ دل کو اس زور کا دھچکا لگا کہ غش آگیا۔
بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش۔
ہوش آیا تو خود کو برآمدے میں نانی کے تخت پر لیٹا پایا۔ نانی کو ہوش آچکا تھا اور وہ حسن کے پاس بیٹھی زار زار روتی تھیں۔ پاس زلیخا پانی کا کٹورا ہاتھ میں لیے کھڑی تھی اور بے بسی سے کبھی حسن کو کبھی نانی کو دیکھتی تھی۔ نعیم کہیں غائب ہو چکا تھا۔
حسن نے نانی کو آٹھ آٹھ آنسو روتے دیکھا تو حال زار ہوا، دل بے قرار ہوا۔ دل میں سوچا، یہ مجھ سے کیا حرکتِ ناپسندیدہ بیش آئی کہ امتحان میں فیل ہو گیا۔ کاش موت آتی، امتحان سے پہلے ہی جان نکل جاتی تو اس مصیبت سے چھوٹ جاتا، یہ خرابۂ دہشت خیز دیکھنے میں نہ آتا۔ میرے باپ نے مجھے اعلیٰ سے اعلیٰ مدرسوں میں پڑھایا، تجارت کا ہر گُر سکھایا اور آج میں نے باپ کے نام کو بٹہ لگایا۔
باپ کی یاد آئی، حسن بدرالدین کی آنکھ بھرآئی۔ بے قرار ہو کر رونے لگا، اشکوں سے منہ دھونے لگا۔ نانی نے جو اس کو یوں روتے دیکھا تو تڑپ کر اس کا سر سینے سے لگا لیا اور روتے ہوئے بولی: ‘‘ماں صدقے، ماں قربان۔ نہ میرا بچہ، نہ رو۔ پاگل ہیں سارے پروفیسر جنہوں نے تجھے فیل کر دیا۔ میں تیرے کالج جاؤں گی، خود بات کروں گی پروفیسروں سے۔ بھلا ایسے کیسے فیل کر دیا انہوں نے تجھے؟ تو ُ فکر نہ کر، تیری نانی زندہ ہے ابھی۔’’
نانی کی اس محبت کو دیکھ کر حسن کے دل میں اور بھی شرمندگی کا زور ہوا، مارے ندامت کے زندہ درگور ہوا۔ لڑکھڑاتا ہوا وہاں سے چلا اور اپنے کمرے میں آکر پڑ رہا۔
شام تک ملال والم گراں بار ہوا، حسن مارے قلق کے بیمار ہوا۔ ہلہلا کر تاپ چڑھا اور حال ناگفتہ بہ ہو گیا۔ نانی پاس بیٹھی بلائیں لیتی تھی، دعائیں دیتی تھی۔ چپکے چپکے سسکیاں بھرتی تھی، آنسو پونچھتی تھی۔ اس خاتونِ بزرگ و مقدس میں حسن کو اپنی مادرِ مہربان نظر آتی تھی، اس کو یوں گلوگیر دیکھ کر رنج کے سبب سے حسن کی جان نکلی جاتی تھی۔ زلیخا بار بار آتی تھی، کبھی چائے تو کبھی دوا لاتی تھی۔ حسن کچھ نہ کھاتا تھا، بے ہوش ہوا جاتا تھا۔ صیدِمصیبت و ادبار تھا، اجل سے دوچار تھا۔
صبح صبح چند آوازیں حسن کے کان میں پڑیں اور اسے ہوش آیا۔ آنکھیں کھولنے کا یارا نہ تھا، سو آنکھیں موندے چپکا پڑا رہا اور نانی اور زلیخا کی آوازیں سنتا رہا جو چپکے چپکے ہلکی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔
حسن نے سنا ، زلیخا کہہ رہی تھی: ‘‘آپ کیوں اٹھ کر آگئیں دادی اماں؟ رات دو بجے تو سوئیں تھیں۔ اس طرح تو آپ بھی بیمار ہو جائیں گی۔ آپ آرام کریں، میں ہوں حسن کے پاس۔’’
نانی نے گلوگیر آواز میں جواب دیا: ‘‘مجھ بوڑھی کا کیا آرام اور کیا بیماری۔ میری زندگی میرے بچے کو لگ جائے۔ دیکھو ایک رات میں کیا حال ہو گیا ہے بے چارے کا۔’’ اتنا کہہ کر نانی کی آواز بھر آئی اور وہ سسکیاں لے کر رونے لگی۔
زلیخا نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولی: ‘‘پتا نہیں کتنے سبجیکٹس میں فیل ہوا ہے، نعیم آئے تو اس سے پوچھوں۔ ویسے جس طرح اس نے خبر دی تھی، لگتا ہے تین سے زیادہ میں ہی فیل ہوا ہے۔’’
نانی تڑپ کر بولیں: ‘‘اللہ نہ کرے۔ ہاتھ ٹوٹیں ان پروفیسروں کے جنہوں نے میرے حسن کو فیل کر دیا۔ اتنا محنتی لائق فائق بچہ ایسے کیسے فیل ہو سکتا ہے؟’’
زلیخا کچھ گو مگو کے عالم میں دبی آواز میں بولی: ‘‘ہو بھی سکتا ہے۔’’
نانی برا مان گئیں: ‘‘کیوں ہو سکتا ہے؟ دیکھتی نہیں تھی کتنا پڑھتا تھا؟’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Read Next

عبادالرحمن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!