الف — قسط نمبر ۱۱

”مجھ سے اتنی نفرت ہوگئی ہے مومن کو اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔”
حسنِ جہاں نے سوئے ہوئے قلبِ مومن کو دیکھتے ہوئے جیسے بڑبڑاتے ہوئے وہ خط سلطان کی طرف بڑھایا تھا۔ مومن کا لیٹر باکس خطوں کے ڈھیر کے ساتھ حسنِ جہاں کے سامنے میز پر پڑا ہوا تھا اور وہ ایک کے بعد ایک خط کو اُٹھا کر پڑھتے ہوئے روتے ہوئے سوئے ہوئے مومن کو دیکھتی جاتی تھی جس کے بازو پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔
”وہ بچہ ہے۔۔۔بچوں کو محبت اور نفرت کا کیا پتہ؟” سلطان نے خط پر ایک نظر ڈالی تھی اور حسنِ جہاں سے کہا تھا۔
”تم اس کے خط پڑھوسلطان ۔ وہ جانتا ہے وہ مجھ سے نفرت کیوں کررہا ہے۔” سلطان کی دلیل نے جیسے اُسے قائل نہیں کیا تھا۔
اس سے پہلے کہ سلطان کچھ کہتا کمرے کا دروازہ دھڑ سے کھلا تھا اور ممتاز اندر آتے ہوئے چلائی تھی۔
”تماشہ بنایا ہوا ہے تو نے حسنِ جہاں۔”
”اماں وہ سو رہا ہے۔”
حسنِ جہاں جیسے مومن کی طرف دیکھ کر منت والے انداز میں گڑگڑائی تھی۔ جو ممتاز کی بلند آواز پر کسمسانے لگا تھا۔
”سورہا ہے۔۔۔ مر تو نہیں گیا۔۔۔ میں تیرے لئے رزق تلاش کرتی پھر رہی ہوں اور تو۔۔۔ تجھے مومن کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ فلمیں تجھے مل نہیں رہیں۔ اب یہ پرائیوٹ محفلیں بھی نہیں ہوں گی تو تجھ سے پہلے یہ مرے گا۔ ۔۔یاد رکھنا تو۔” وہ اُسی طرح بلند آواز میں مومن کی طرف ہاتھ لہرا لہرا کر کہتی گئی تھی۔
”میں نہیں کرنا چاہتی یہ پرائیوٹ محفلیں اماں۔۔۔” حسنِ جہاں نے یک دم خفگی سے کہا تھا۔
”تو کیا کرے گی تو۔۔۔؟ بتا کیا کرے گی؟ عمر دیکھی ہے اپنی۔۔۔؟ شکل دیکھی ہے؟ تجھ سے آدھی عمر کی لڑکیوں نے انڈسٹری سر پر اُٹھا رکھی ہے اور تو۔۔۔ تو سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو حسنِ جہاں۔۔۔ کون ہے تو کہ تیرے لئے آتے رہیں گے لوگ۔” ممتاز بولتی چلی گئی تھی۔
”آپا ممتاز۔۔۔” سلطان نے جیسے حسنِ جہاں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
”دفع دور۔”
وہ اُسے پھٹکارتی وہاں سے چلی گئی اور اُس کے جاتے ہی حسنِ جہاں نے مومن کو دیکھا تھا۔ وہ اپنے بستر میں آنکھیں کھولے لیٹا تھا۔ ممتاز اور حسنِ جہاں کی ساری باتیں یقینا اُس نے سنی تھیں۔
”مومن۔” حسنِ جہاں بے اختیار اُس کی طرف لپکی تھی۔ اُس نے کروٹ لیتے ہوئے بستر پر اُس کی طرف پشت کرلی تھی۔
”مجھے بات نہیں کرنی آپ سے۔۔۔ آپ میری ممی نہیں ہیں۔” حسنِ جہاں وہیں رُک گئی تھی۔ سلطان لپکا آیا تھا۔
”بچہ ہے بھول جائے گا۔” سلطان نے اُس کا کندھا تھپک کر اُس کو تسلی دی ۔ حسنِ جہاں نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”ہاں بچہ ہے بھول جائے گا۔” وہ کیا سوچ رہی تھی سلطان کو اندازہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اگلے چند ہفتوں میں اُس نے مومن اور سلطان کے لئے ترکی جانے کے انتظامات کئے تھے اور سلطان کو اُس دن اطلاع دی تھی جس دن اُن دونوں کی سیٹ بک ہوگئی تھی اور وہ قلبِ مومن کو بتادینے کے بعد اُس کا سامان پیک کررہی تھی۔
”آپ اُسے بھیج دیں گی تو کیا محبت اور عزت کرنے لگے گا آپ سے؟” سلطان نے اُسے روکنا چاہا تھا۔
”اُسے لانا ہی نہیں چاہیے تھا مجھے پاکستان۔” وہ رُکی نہیں تھی اُس کا سامان سمیٹتی رہی تھی۔
”بابا کے پاس چھوڑ دینا چاہیے تھا۔”
”وہ بھی غلط فیصلہ ہوتا آپ کا۔۔۔ جیسے یہ غلط فیصلہ ہے۔ایک بوڑھا خطاط اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اُسے کیا بتائے گا۔۔۔ کیا سکھائے گا۔” سلطان نے اعتراض کیا تھا۔
”جو بھی بتائے گا حسنِ جہاں سے بہتر بتائے گا۔ جو بھی سکھائے گا حسنِ جہاں سے بہتر سکھائے گا۔” وہ اُس کا سامان پیک کرچکی تھی۔
”اُس پر اتنا یقین کیوں ہے آپ کو؟” سلطان نے بُرا منایا تھا۔
”حلال کماتے ہیں نا وہ جو میں نہیں کماتی۔۔۔وہ قلبِ مومن کو حلال پر پالیں گے جو میں نہیں پال سکتی۔” سلطان کا دل جیسے خون ہوا اُس کے ان جملوں پر ۔
”ایک منٹ لگایا آپ نے اپنی اور میری خون پسینے کی کمائی کو گٹر میں ڈالنے میں۔۔۔ سب حرام تھا۔۔۔ سب حرام ہے۔۔۔ ایسی بے رحمی کہاں سے سیکھ لی آپ نے حسنِ جہاں جی۔” وہ اُس سے لڑنے لگا تھا۔
”اپنی بیٹی کو حسنِ جہاں بناؤگے سلطان؟” حسنِ جہاں نے یک دم اُ س سے کہا وہ بول نہیں پایا۔
”سوچناپڑ رہا ہے نا۔۔۔ بس یہی سوچ پھندہ بن گئی ہے میرے پیروں کا بھی۔۔۔ ساری زندگی یہی کمایا ہے اور یہی کھایا ہے کسی سوال کسی ضمیر کی چبھن کے بغیر۔۔۔ پر طہٰ عبدالعلی نے بیڑا غرق کردیا ہے میرا۔۔۔ سوال دے دیئے ہیں مجھے۔۔ اللہ سے آشنائی کروا دی ہے۔
وہ مجھ سے پیار کرتا ہو نہ کرتا ہو خوش ہو نہ ہو پر اُس کی طرف جانے والا راستہ نظر آنے لگا ہے مجھے۔۔۔ اور وہ راستہ یہ نہیں ہے جس پر میں اور تم چل رہے ہیں۔حسن اور جسم کی روٹی بھی کوئی روٹی ہے۔” وہ روتے ہوئے ہنسی تھی۔
”اب عروج نہیں آئے گا آپ پر حسنِ جہاں جی۔۔۔اب عروج نہیں آئے گا۔ آپ تو حرام اور حلال کے چکروں میں پڑگئی ہیں۔ عروج آکر کرے گا کیا آپ کے پاس؟”
سلطان نے طیش کے عالم میں اُس سے کہا تھا۔ اُسے جیسے پروا ہی نہیں تھی۔
”عروج کا اب کرنا کیا ہے میں نے سلطان۔۔۔ عروج مجھ سے طہٰ لے گیا۔۔۔ زوال مومن لے کر جارہا ہے۔۔۔ کون اچھا ہے کون بُرا۔۔۔؟ تم بتاؤ۔”
سلطان چپ ہوگیا تھا۔وہ ایک محبوبہ اور ماں کا اعتراف شکست تھا وہ اُس کے سامنے جو بھی دلیل دیتا ہار جاتا۔
٭…٭…٭
”اب میرا کام ختم۔”
عبدالعلی کے گھر کے دروازے پر مومن کی اُنگلی اُن کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اُس نے عبدالعلی سے کہا تھا۔ وہ اُن کے اصرار کے باوجود اندر نہیں گیا تھا اور مومن بے حد خوشی کے عالم میں داداسے ملا تھا۔
”آپ کا سامان آپ کے حوالے اب میں چلتا ہوں۔۔۔ میرا بس اتنا ہی کام تھا۔” اُس نے عبدالعلی سے کہا تھا۔
”حسنِ جہاں کیسی ہے؟” عبدالعلی نے بے اختیار پوچھا تھا۔
”آپ نے اُنہیں کسی کام کا نہیں چھوڑا ۔۔۔ نہ اس دُنیا کا نہ اگلی دُنیا کا۔۔۔” سلطان کو جیسے اُن کے اس سوال نے بھڑاس نکالنے کا موقع دے دیا تھا۔
”مجھ سے حرام حلال کی باتیں کرتی ہیں۔ کہتی ہیں آپ مومن کو حلال پر پالیں گے تو وہ نیک بنے گا۔۔۔ نیک بننا اتنا آسان ہوتا ہے کیا کہ حلال کھاؤ اور مومن ہوجاؤ؟” اُس نے عبدالعلی کو جیسے طعنہ دیا تھا۔ وہ چپ چاپ کھڑے سنتے رہے تھے۔ حسنِ جہاں کے زوال کی داستان بہ زبان سلطان۔
”وہ آجاتی یہاں۔۔۔ وہ کیوں نہیں آئی۔۔۔؟ اس گھر میں اُس کے لئے بہت جگہ ہے۔۔۔ میرے پاس اُس کے لئے بہت رزق ہے۔” سلطان نے عبدالعلی کو غمگین آواز میں کہتے پایا۔
”اس گھرمیں طہٰ کے ساتھ آنے یا رہنے دیا ہوتا آپ نے۔۔۔ تو آج حسنِ جہاں یہیں ہوتی۔۔۔ اب یہاں کیسے آئے کیسے رہے وہ۔۔۔ آپ چاہتے ہیں روز جیئے روز مرے وہ۔” سلطان نے اُن سے کہا تھا اور پھر وہ وہاں سے پلٹ آیا تھا۔
٭…٭…٭
”حسنِ جہاں کی کوٹھی تھی۔۔۔کیسے بیچ دی آپ نے؟”
ترکی سے واپس آتے ہی جو پہلی بجلی سلطان پر گری تھی وہ یہی تھی کہ اُس کی عدم موجودگی میں ممتاز بیگم نے حسنِ جہاں سے کاغذات پر دستخط کروا کر اُس کی کوٹھی کا سودا کرلیا تھا اور سلطان یہ بات پتہ چلنے پر حسنِ جہاں کے منع کرنے کے باوجود ممتاز سے لڑنے پہنچ گیا تھا۔
”تو جو قرضے اس گھر پر چڑھ گئے تھے وہ حسنِ جہاں کا باپ اُتارتا آکر۔” ممتاز نے بے حد بدتمیزی سے اُس سے کہا تھا۔
”اتر جاتے قرضے کررہی ہیں وہ کام۔” اُس نے ممتاز سے کہا تھا۔
”ختم حسنِ جہاں۔۔۔ اب کوئی کام نہیں۔۔۔ کتنے مہینے ہوگئے کوئی ایک پارٹی نہیں ہوئی۔۔۔ تو خود جا جا کر پروڈیوسر وں کو بلاتا رہا ہے۔۔۔ بتا کتنے آئے تیرے دعوت ناموں پر۔” ممتاز نے تنک کر اُس سے کہا۔
”آپ نے چھوٹی بہن کو سٹار بنادیا ہے اس لئے کوئی نہیں آتا حسنِ جہاں کے لئے۔ اُس کو پروموٹ کرنے میں لگی ہیں آپ آپا ممتاز حسنِ جہاں کے پیسے پر۔” سلطان نے تلخی سے اُن سے کہا تھا۔
”آپا ممتاز۔۔۔ وہ بھی بیٹی ہے آپ کی ۔۔۔ لاکھوں کما کر دیتی رہی ہے۔ اب بُرا وقت آیا ہے تو آپ کیسے چھوڑ رہی ہیں اُسے۔” سلطان نے یک دم اپنا لہجہ نرم کرلیا تھا وہ اب منت والے انداز میں ممتاز سے بات کرنے لگا تھا۔
”ارے چھوڑ کہاں رہی ہوں۔مخدوم صاحب سے بیاہ رہی ہوں اُسے۔” ممتاز بیگم نے بڑے انداز سے کہا تھا۔
”آپا خدا کے لئے مخدوم صاحب سے بیاہنے کی بات نہ کرنا۔ اُن کی حویلی میں گھوڑے، کُتے، عورتیں ہیں اور تینوں میں کوئی فرق نہیں۔۔۔ اور حسنِ جہاں۔۔۔ حسنِ جہاں ہے۔” اُس نے ممتاز کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔
”اس عمر میں یہ بھی مل رہا ہے تو غنیمت ہے تو چاہتا ہے کوئی بھی نہ ملے اُسے۔” ممتاز نے ہتک آمیز انداز میں کہا تھا۔
”میں آگ لگا دوں گا اس گھر کو اگر اس گھر سے کوئی حسنِ جہاں کو نکالنے آیا تو۔” سلطان اُس کے جملوں پر یک دم آپے سے باہر ہوا تھا۔
ممتاز اُس کے چلانے پر چیخ چیخ کر اپنے ملازموں کو بلوانے لگی تھی۔ سلطان کو گالیاں دیتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی۔
”تجھے تو کُتوں کے سامنے ڈلواتی ہوں ٹکڑے کروا کے تیرے۔”
اس سے پہلے کہ ملازم آتے اور سلطان پٹتا حسنِ جہاں بھاگتی ہوئی آکر ماں کے سامنے سلطان کے لئے ڈھال بن گئی تھی۔
”اماں کچھ نہیں کہے گا یہ اب۔۔۔ گھر تو بیچ دیا۔۔۔ مجھے بتانا کب خالی کرنا ہے سلطان کو کچھ مت کہہ۔”
”اب اس پالتو کو پٹہ ڈال کر رکھ۔” ممتاز رعونت سے کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی اور حسنِ جہاں سلطان کو کھینچتے ہوئے اپنے کمرے میں لے آئی تھی۔
”تم بھی چلے جاؤ سلطان۔۔۔ تمہارے بیوی بچے ہیں۔۔۔ کب تک میرے ساتھ لٹکے رہو گے۔” اُس نے کمرے میں آتے ہی اُس سے کہا تھا۔
”کوئی ایسا نہیں ہے جو آپ کی حفاظت کرے۔ آپ کو بچالے مخدوم صاحب سے۔” سلطان یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
”اللہ سے کہا ہے میں نے سلطان۔۔۔ وہ مدد بھیجے گا۔۔۔ وہ مدد بھیجے گا۔”
وہ بڑبڑا رہی تھی اور سلطان کو لگا تھا وہ پاگل ہورہی تھی۔ نہ وہ ولی تھی نہ قطب نہ درویش۔۔۔ اُس کے لئے کون سا معجزہ ہوتا کون سی مدد آجاتی۔ وہ یہ سب اُس سے کہہ نہیں سکتا تھا مگر زندگی میں پہلی بار سلطان نے دُعا کی تھی کہ کوئی مل جائے حسنِ جہاں کو۔۔۔ کوئی زندگی کا ساتھی جو حسنِ جہاں کا زوال روک لے اُسے بچالے اُن سب بلاؤں سے جن سے سلطان نہیں بچاپا رہا تھا۔
اور مدد آگئی تھی۔
٭…٭…٭
”عبدالعلی نے ٹکٹ بھجوادی تھی اُس کے لئے ترکی سے۔ اُس کے پاس ترکی کی شہریت تھی۔ ویزہ لینے کی ضرورت نہیں تھی اُسے۔” وہ عجیب شکست خوردہ بتا رہا تھا۔
”میں نے بھگادیا اُسے لیکن یہ ڈرامہ رچایا کہ حسنِ جہاں نے سمندر میں کود کر خودکشی کرلی ۔ سمندر کے کنارے اُس کا بیگ جوتے اور اُس بیگ میں خودکشی کا رُقعہ میں رکھ کے آیا تھا اور میں نے ہی اپنے ایک دوست سے کہہ کر اُس کی خودکشی کی خبریں اخباروں میں لگوائی تھیں۔ اُس کی خودکشی کاڈرامہ نہ رچاتے تو مخدوم صاحب کے آدمی ترکی میں بھی ڈھونڈ لیتے اُسے۔۔۔ ممتاز بیگم جان سے ماردیتی مجھے۔ مجھ پر شک تھا اُسے پر میرا غم دیکھ کر یقین ہوگیا تھا اُسے کہ وہ واقعی مر گئی تھی۔ ”
مومنہ باپ کا چہرہ دیکھ رہی تھی وہ کیا آدمی تھا۔۔۔ وہ کیسی محبت تھی۔۔۔ قصے کہانیوں والی۔۔۔ مومنہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ اُس سے کیا کہتی۔
وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کبھی اُنہیں رگڑنے لگتا کبھی پھر دیکھنے لگتا۔
”ترکی میں شادی کرلی تھی اُس نے۔۔۔ پھر دوبارہ کبھی رابطہ نہیں ہوا۔۔۔ ہوسکتا ہے اُس نے کیا ہو۔۔۔ کوئی خط کبھی لکھا ہو میرے نام پر گھر بدل لیا تھا میں نے۔۔۔ اگر کوئی خط آتا بھی تو کہاں آتا۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”ابا کیا تھا حسنِ جہاں میں کہ اس حد تک چلے گئے آپ۔۔۔ ایسے کون کرتا ہے کسی کے لئے محبت میں…؟” مومنہ نے باپ سے کہا تھا۔
سلطان نے سراُٹھا کر اُسے دیکھا۔ اُس کی نظروں میں چمک آئی چہر ے پر مسکراہٹ پھر اُس نے بڑے فاتحانہ انداز میں مومنہ سے کہا ۔
”سلطان۔”
”صرف سلطان ہی کرسکتا ہے۔” مومنہ نے باپ کو جیسے داد دی تھی۔
”کس سے شادی ہوئی تھی؟ آپ جانتے ہیں؟” اُس نے جاتے ہوئے سلطان سے پوچھا تھا۔ اُس نے کھڑے ہوتے ہوئے نفی میں سرہلایا ۔
”یہ کیسے پوچھتا کس سے ہوئی۔۔۔ اتنا ظلم کیسے کرتا سلطان اپنے آپ پر۔۔۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں جس سے بھی ہوئی تھی۔۔۔ وہ خوش ہوگی۔۔۔ نہ ہوتی تو سلطان کو ضرور پکارتی۔” اُس نے کہا تھا اور لنگڑاتا ہوا اُس کے کمرے سے چلا گیا تھا۔
وہ محبت کی ایک عجیب داستان تھی جس کا تیسرا نہیں چوتھا کو نہ سلطان تھا۔ مومنہ وہاں بیٹھی حسنِ جہاں کی زندگی کی بھول بھلیوں میں سلطان کو ڈھونڈ ھ رہی تھی۔ اُسے حسنِ جہاںپر عجیب رشک آیا تھا۔ اُس میں کیا تھا کہ اُسے یوں چاہا جاتا ۔۔۔ کیا تھا کہ وہ یوں چاہی گئی۔
ایک عجیب کھوج تھی جو اُسے حسنِ جہاں کے بارے میں لگی تھی۔۔۔ وہ کہاں تھی اور اگر زندہ تھی تو قلبِ مومن سے دور کیوں تھی۔۔۔ اور سلطان۔۔۔ سلطان سے دور کیوں تھی۔
٭…٭…٭
گھر کے دروازے پر بیل ہونے پر ثریا نے باہر جاکر دروازہ کھولا تھا ۔ قلبِ مومن نے اُس کو سلام کرتے ہوئے کہا۔
”السلام علیکم۔۔۔ یہ مومنہ سلطان کا گھر ہے؟” ثریا نے اُس کے ہاتھ میں پکڑے سفید گلاب دیکھ کر کہا۔
”ہاں۔۔۔ ہاں اُسی کا ہے ۔ پھول دینے آئے ہیں؟” قلبِ مومن کچھ شرمندہ ہوا۔
”نہیں آنٹی میں۔۔۔ میرے ساتھ فلم میں کام کررہی تھی وہ۔”
قلبِ مومن کو اپنا نام لیتے ہوئے عجیب جھجھک ہوئی لیکن ثریا نے بے اختیار اُس سے کہا۔
”قلبِ مومن؟” مومن ٹھٹکا۔
”آپ جانتی ہیں مجھے؟”
”ارے ہاں ہاں میں مومنہ کی ماں ہوں ثریا۔۔۔ میں سب جانتی ہوں۔۔۔ اندر آجاؤ۔”
اُس کا ہاتھ پکڑے وہ اُسے اندر لے آئی تھی۔
”گھر میں کوئی ہے ہی نہیں ملازم چھٹی پر ہے۔ ڈرائیور مومنہ کو لینے گیا ہے اور مومنہ کے ابا کسی دوست کے گھر گئے ہوئے ہیں۔” اُس نے مومن کو لاؤنج میں لاکر بٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
”اور آپ پھر بھی مجھے اندر لے آئیں۔ آنٹی یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔” قلبِ مومن نے جیسے اُسے سمجھایا تھا۔
”کوئی کیا لے جائے گا ہم سے بیٹا۔۔۔ عمر کے اس حصے میں اب کسی سے ڈر نہیں لگتا۔ ارے یہ سفید گلاب تم دیا کرتے تھے مومنہ کو۔”
ثریا نے کہتے کہتے اُس کے ہاتھ میں پکڑے سفید گلابوں کو دیکھا اور یک دم جیسے اُسے مومنہ کے کمرے میں vaseمیں رکھے ہوئے گلاب یاد آئے تھے۔ قلبِ مومن گڑبڑا گیا تھا۔ نہ وہ ہاں کرسکا نہ ہی نہ۔
”گلدان میں رکھے رکھتی تھی مرجھائے اور سوکھے ہوؤں کو بھی۔۔۔ پھینکنے نہیں دیتی تھی۔ وہ تو اب پھینکنے دیئے ہیں مجھے۔” ثریا روانی میں بتاتی گئی تھی۔ مومن کے چہرے پر جیسے ایک رنگ آکر گزرا تھا۔
”لاؤ یہ گلاب رکھ آؤں اُس کے کمرے میں۔” ثریا نے اُس کے ہاتھ سے گلاب لے لئے تھے۔
”پتہ نہیں آپ کا چہرہ کیوں دیکھا دیکھا لگتا ہے مجھے۔”
مومن کو یہ احساس اُسے دروازے پر دیکھ کر ہوگیا تھا لیکن اندر آکر اُس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے یہ احساس مزید گہرا ہوگیا تھا کہ وہ ثریا سے مل چکا تھا۔
بچپن میں ایک بار ثریا حسنِ جہاں سے ملنے آئی تھی اور تب قلبِ مومن نے بے حد سرسری انداز میں اُسے دیکھا تھا۔ وہ اُس وقت ثریا اور حسنِ جہاں کے پاس بیٹھا ہوتا تو آج ثریا کو پہچاننے میں اُسے دقت نہ ہوتی لیکن اس کے باوجود ثریا کا چہرہ اُس کے لاشعور میں کہیں محفوظ ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
لاؤنج میں شام کے وقت داخل ہونے پر مومنہ کو وہاں ثریا کے ہنسنے اور گانے کی آواز سنائی دی تھی اور خوف کی ایک لہر اُس کے جسم میں سے گزر کر گئی تھی۔ وہ کیا پھر اُسی کیفیت میں تھی۔۔۔؟ پھر جہانگیر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی؟ مومنہ کچھ دیر کے لئے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے وہیں کھڑی رہی تھی۔
”اب تو سالوں ہوگئے گائے۔۔۔ لیکن تم کہہ رہے ہو تو اس لئے کوشش کررہی ہوں۔۔۔کیا گاؤں؟ اور کیا گاؤں؟”
اُس نے ثریا کو کہتے سنا۔ وہ لاؤنج کے آخری کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔
”ارے ہاں سناتی ہوں۔۔۔بس کبھی دل آئے تو سناتی ہوں یہ۔۔۔ آج صرف تمہارے لئے۔”
وہ جیسے کسی سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی اور گلا صاف کرتے ہوئے اُس نے بے حد سریلے انداز میں گانا شرو ع کردیا۔
”میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا۔”
مومنہ آگے بڑھ آئی تھی۔ ثریا کی پشت اُس کی طرف تھی اور مومنہ صرف اُسی کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاؤنج میں کوئی اور شخص ہوسکتا ہے اور وہ بھی قلبِ مومن۔
وہ ایک تالی کی آواز تھی جس نے مومنہ کو چونکا یا تھا اور اُس نے ایک دوسرے صوفہ پر بیٹھے قلبِ مومن کو دیکھا۔ وہ بھی اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ثریا کو گانے کے بیچ میں داد دے رہا تھا۔
مومنہ آگے نہیں بڑھ سکی۔ وہ منظر اُس کے لئے اتنا ہی ناقابل یقین تھا ۔ وہ وہاں کیسے موجود تھا؟
”کمال گایا ہے آپ نے آنٹی؟” وہ ثریا سے کہہ رہا تھا اور وہ عجیب خوشی کے عالم میں ہنستے ہوئے شرما رہی تھی۔
”نہیں نہیں تم میرا دل رکھ رہے ہو۔”
”بالکل بھی نہیں۔۔۔ میں نے فون پر ریکارڈ کیا ہے۔ ہیڈ فون ہے آپ کے پاس تو میں آپ کو سناتا ہوں۔ ہیڈ فون لگا کر سنیں۔” اور یہ کہتے ہوئے اُس نے پہلی بار صوفے کے پار کھڑی مومنہ کو دیکھا اور وہ خاموش ہوا تھا۔
”ارے مومنہ یہ قلبِ مومن آئے ہیں تم سے ملنے۔ میں ذرا ہیڈ فون لاکر دیتی ہوں انہیں… کہہ رہے ہیں فلم میں میرا گانا شامل کریںگے۔” ثریا نے اُس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے مومنہ کو دیکھا تھا اور زیادہ دلچسپی لئے بغیر روانی میں اُس سے کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئی تھی۔
”بیٹھیں۔”
مومنہ نے جو کہا تھا مومن کو اُس کی توقع نہیں تھی لیکن وہ دوبارہ بیٹھ گیا تھا ۔ وہ بھی آکر دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ ثریا کو اُس کے ساتھ خوش دیکھ کر مومنہ کا دل عجیب انداز میں پگھلا تھا۔
”میں معذرت کرنے آیا تھا۔” قلبِ مومن نے بغیر کسی تمہید کے اُس سے کہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں نے بھی شاید اوور ری ایکٹ کیا۔” مومنہ نے جواباً اُس سے کہا تھا۔
وہ اُس کی فلم کی ضرورت تھی اور اگر وہ فلم بچانے کے لئے اپنی انا چھوڑ کر اُس کے پاس آگیا تھا تو مومنہ کے لئے یہ حیران کن نہیں تھا۔ وہ اس سے زیادہ اپنے گھر پر اُس کے آنے کو کوئی مفہوم دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔
”زندگی میں پہلا تھپڑ کھایا ہے۔۔۔ کوشش کروں گا کہ آخری ہو۔” مومن نے اُس سے کہا تھا۔ وہ اُس کے جملے پر مسکرادی تھی۔ مومن بھی مسکرایا تھا۔
”حسنِ جہاں کو کیسے جانتی ہیں آپ؟” مومن نے اگلے ہی لمحہ اُس سے پوچھا تھا۔
”اُس سے کیا تعلق ہے آپ کا؟” قلبِ مومن نے کُریدا تھا۔ مومنہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ وہ جیسے اُس کے سوال کا کوئی مناسب جواب دینے کے لئے لفظوں کاانتخاب کررہی تھی۔ لیکن اُسے اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔
”مومنہ۔۔۔”
قلبِ مومن اور مومنہ نے بیک وقت گردن موڑ کر باہر سے آتے سلطان کو دیکھا تھا اور مومن جیسے کرنٹ کھا کر کھڑا ہوگیا تھا اُسے ایک لمحہ لگا تھا سلطان کو پہچاننے میں۔۔۔ اور پھر یہ جاننے میں کہ مومنہ سلطان کون تھی۔ سلطان کا چہرہ اُس کے حافظے پر نقش تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!