الف — قسط نمبر ۱۱

ڈریسنگ روم سے باہر نکل کر بھی وہ مومن کی نظروں کے سامنے سے نہیں ہٹی تھی۔ وہ اُسے اپنے دماغ سے جھٹکنا چاہتا تھا مگر وہ حسنِ جہاں بنی اُس کے دماغ سے چپکی رہی تھی۔
سٹوڈیو میں پوری ٹیم کے سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے مومن کے آنے پر فوری طور پر اُس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔ آنکھیں بند کئے اُنہیں رگڑتے ہوئے اُس نے جیسے ماضی کو ایک بار پھر چھپا دینے کی کوشش کی تھی۔ آنکھیں بند کئے وہ اپنی کنپٹیاں اور آنکھیں رگڑتا رہا اور جب اُس نے بالاآخر آنکھیں کھولی تھیں تو وہ دھک سے رہ گیا تھا۔ مومنہ سلطان سٹوڈیو میں اُس کے بالکل سامنے حسنِ جہاں کے اُسی گیٹ اپ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ داؤد اور ڈیزائنر اُس کے ساتھ اُس کے کاسٹیوم اور وارڈروب کی ڈسکشن میں مصروف تھے اور وہ کچھ فاصلے پر بیٹھا صرف اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کا خیال تھا وہ اُس کی نظروں سے بے خبر تھی کیونکہ وہ مصروف تھی لیکن یہ اُس کی خام خیالی تھی۔ وہ اپنے چہرے پر مرکوز اُس کی نظروں سے باخبر تھی اور اُس کی وجہ سے بھی ۔ وہ مومنہ سلطان کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ حسنِ جہاں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اُس پر کیا اعتراض کرتی۔
٭…٭…٭
”آپ کو باہر تک چھوڑ دیتا ہوں۔”
وہ شام کے وقت اپنا بیگ اُٹھاتے ہوئے گھر جانے کے لئے نکلی تھی جب دروازے کی طرف جاتے ہوئے اُسے اپنے عقب میں مومن کی آوا ز سنائی دی۔ مومنہ نے پلٹ کر اُسے دیکھا۔
”نہیں میں ان تکلفات کی عادی نہیں ہوں۔” مومن نے اُس کی بات کاٹ دی۔
”میں ہوں۔۔۔ آیئے۔” آگے بڑھ کر دروازہ کھولتے ہوئے اُس نے مومنہ سے کہا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ ٹھٹکی پھر وہ دروازے سے باہر آگئی۔
کار پارکنگ تک وہ چپ چاپ چلتے رہے تھے۔ شام ہورہی تھی ۔ پارکنگ میں لگی سٹریٹ لائٹس آن تھیں۔
”داؤد نے مجھے بتایا تھا آپ کیلی گرافی کرتی ہیں۔” اُس نے بالاآخر ساتھ چلتے ہوئے خاموشی توڑی۔
”اب نہیں کرتی۔۔۔ پہلے کرتی تھی۔” اُس نے جواباً کہا۔
”میری طرح بچپن میں۔” مومنہ نے اُس کا چہرہ دیکھا ۔ وہ پہلی بار اُس کے سامنے خطاطی سے اپنے ایسے تعلق کا اظہار کررہا تھا۔ نفی میں سرہلاتے ہوئے اُس نے کہا۔
”نہیں۔۔۔جب تک جہانگیر زندہ رہا۔” مومن کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا۔
”آپ سے معذرت کرنا چاہتا تھا لیکن نہ آپ نے موقع دیا نہ میں دوبارہ ہمت کرسکا۔” اُس نے بالاآخر مدھم آواز میں کہنا شروع کیا تھا۔
”آپ سے پہلی ملاقات میں میرا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔”
”میں ماضی پرست نہیں ہوں۔” اُس نے جواباً اُسی نرمی سے کہا۔
”جانتا ہوں لیکن پھر بھی۔۔۔ مجھے شرمندگی ہے۔” مومنہ نے گردن موڑ کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے حیرانی ہے۔”
قلبِ مومن نے بھی گردن موڑ کر اُسے دیکھا۔
”آپ کہہ لیں آپ کو اجازت ہے۔” اُس نے اتنی فراخ دلی سے کہا تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کہہ سکی۔
گاڑی کے پاس پہنچتے ہوئے یک دم قلبِ مومن نے پشت پر بندھے ہاتھ سیدھے کرتے ہوئے دو سفید گلاب اُس کی طرف بڑھائے۔
”یہ آپ کے لئے۔”
وہ حیران ہوئی اور چلتے چلتے رُک گئی۔
”کس لئے؟” اُس نے اُنہیں پکڑے بغیر کہا۔
اُسے اب اندازہ ہوا تھا وہ مسلسل ہاتھ پیچھے باندھے کیوں چل رہا تھا۔
”آپ کے بالوں میں اچھے لگ رہے تھے۔” اُس کے جواب نے کچھ دیر کے لئے مومنہ کو لاجواب کردیا تھا۔
”وہ کریکٹر کا حصہ تھا۔” اُس نے نظریں چرا کر اُس کے ہاتھ میں پکڑے اُن دو سفید گلابوں کو دیکھا جنہیں وہ اب بھی اُس کی طرف بڑھائے ہوئے تھا اور پھر اُس نے اُنہیں پکڑ لیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ہاتھ میں ان سفید گلابوں کو لمبی ٹہنیوں سمیت پکڑتے ہوئے مومنہ نے بڑی احتیاط سے جیسے اُن کے کانٹے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر ان دونوں گلابوں کی ٹہنیوں پر اُسے کہیں کانٹا نظر نہیں آیا تھا اور مومن نے جیسے یہ بھانپ لیا تھا کہ اُن گلابوں کی شاخوں پر وہ انگلیاں پھیرتی ہوئی کیا ڈھونڈ رہی تھی۔
”میں نے کانٹے ہٹادیئے ہیں ان کے تاکہ آپ کی انگلیاں زخمی نہ ہوں۔” مومنہ نے اُس کی آواز پر بے اختیار سراُٹھا کر اُسے دیکھا تھا۔ قلبِ مومن کی آنکھوں میں اُسے پہلی بار ایک عجیب سی معصومیت اور نرمی نظر آئی تھی۔
”زندگی میں صرف دو عورتوں کے بالوں میں سفید گلاب اتنے خوبصورت لگے ہیں مجھے۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”اس طرح سجتے دیکھا ہے میں نے۔” وہ کسی عجیب سی کیفیت میں اُس سے کہہ رہا تھا۔ اُس سے بہت قریب کھڑے۔ وہ سراُٹھا کر اُس سے نظریں نہیں ملاسکی۔ فیصل کے بعد زندگی میں کسی اور سے اس طرح نظریں چرانے کا اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
”میری گاڑی۔” کچھ بے ربط انداز میں مومنہ نے اُس سے کہا تھا۔
اُس نے اُن دونوں عورتوں کے بارے میں اُس سے کوئی سوال کیوں نہیں کیا تھا جن کا ذکر مومن کررہا تھا۔ اس خیال نے مومن کو عجیب اضطراب میں ڈالا۔ وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ ایک عورت وہ خود تھی۔۔۔ لیکن کیا وہ دوسری عورت کے بارے میں بھی جانتی تھی؟ اُس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے اور اُسے خدا حافظ کہتے ہوئے بھی قلبِ مومن صرف یہی سوچ رہا تھا۔
٭…٭…٭
اپنے کمرے میں ایک گلاس vaseمیں وہ دونوں سفید گلاب پانی میں رکھتے ہوئے مومنہ کو اُس کا وہ جملہ بار بار یاد آتا رہا تھا۔
”اس کے کانٹے ہٹادیئے ہیں میں نے تاکہ آپ کی انگلیاں زخمی نہ ہوں۔”
اُس گھر میں جگہ جگہ پڑے ڈھیروں قیمتی پھولوں کے گلدستوں میں مومنہ سلطان کو صرف وہ دو سفید گلاب یاد رہے تھے۔ صرف ان کو پانی میں ڈال کر رکھنا یاد رہا تھا اور صرف اُنہیں اپنے کمرے میں سجانا یاد رہا تھا۔ اور ان سب چیزوں کی اُس کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔ سوائے حسنِ جہاں کی داستان حیات کا ایک حصہ ہونے کے۔۔۔ اُسے ابھی مومن سے سکرپٹ کے بارے میں بات کرنی تھی۔ انٹرول کے بعد اُس دوسرے حصے میں جس میں اُس کا باپ ”ولن” تھا اور حسنِ جہاں ”ویمپ۔”
٭…٭…٭
ماسٹر ابراہیم نے خطاطی پر لکھا عبدالعلی کا نام بڑے احترام کے ساتھ اپنی انگلیوں سے چھوا۔ اُن کی آنکھیں غم ناک تھیں۔ یوں جیسے وہ اُس لمس سے عبدالعلی کو کھوجنے کی کوشش کررہے تھے۔
”عبدالعلی کے master pieces میں سے ایک ہے یہ۔۔۔ سات Paintingsبنائی تھیں انہوں نے اس سیریز کی۔۔۔ قلبِ مومن کے لئے۔” مومنہ دم سادھے اُنہیں دیکھنے لگی تھی۔
وہ ساتوں پینٹنگز آج اُن کے پاس لے کر آئی تھی اور انہوں نے پہلی خطاطی دیکھتے ہی اُسے پہچان لیا تھا۔
”آپ جانتے تھے یہ مومن کے لئے بنارہے تھے وہ؟” اُس نے اُن کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ہاں ہر بار بتاتے تھے وہ فون پر۔۔۔ مومن کی سالگرہ سے پہلے جو بھی آیت اُس کے لئے خطاطی کرنا شروع کرتے اُس کے بارے میں۔” انہوں نے اس طرح کہا تھا۔ جیسے یہ راز کوئی راز ہی نہیں تھا۔
”تمہارے پاس کیسے آگئیں یہ ساری پینٹنگز مومن نے بیچ دیں کیا؟” انہوں نے اچانک کوئی خیال آنے پر اُس سے کہا تھا۔
”بیچنا چاہتا تھا وہ کسی کو۔۔۔میں نے فلم کے معاوضے کے طور پر اُس سے مانگ لیں اور اُس نے دے دیں۔” مومنہ نے مختصراً کہا تھا۔ وہ بے اختیار ہنسنا شروع ہوئے تھے اور ہنستے ہی چلے گئے تھے۔
مومنہ الجھی تھی۔
”آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟” اُس نے پوچھا تھا۔
”میں قدرت کے کھیل پر ہنس رہا ہوں۔۔۔ تم میرے پاس کیوں لائی ہو یہ ساری پینٹنگز؟” انہوں نے اُس سے پوچھا تھا۔
”آپ قدر دان ہیں اس لئے۔۔۔ اور آپ کے پاس عبدالعلی صاحب کی کوئی پینٹنگ نہیں ہے اس لئے بھی۔” اُس نے اُن سے کہا تھا۔
”ہے میرے پاس اُن کی ایک پینٹنگ۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ماسٹرا براہیم نے مدھم آواز میں سرجھکائے کہا تھا۔ وہ اپنے بستر پر آج بھی ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور کل سے زیادہ تخیف لگ رہے تھے۔
”کہاں ہے؟ آپ نے کبھی دکھائی ہی نہیں۔” مومنہ بے اختیار چونکی تھی۔
”قیمتی ہے ۔۔۔ یادگار ہے اس لئے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔ جب تمہاری شادی ہوگی تو تمہیں تحفے میں دوں گا۔” وہ اس بار اُن کی بات پر ہنس پڑی تھی۔
”ماسٹر صاحب۔۔۔میری شادی کہاں سے یاد آگئی آپ کو۔۔۔ اسے چھوڑیں آپ بتائیں یہ ساری کس کس دیوار پر لگاؤں؟” اُس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
”نہیں بیٹا۔۔۔ یہ مومن کی امانت ہے۔۔۔ اُس کے لئے بنائی تھیں عبدالعلی صاحب نے۔۔۔ اُس کی زندگی کو محور دینے کے لئے۔۔۔ یہ اُسے ہی لوٹادو۔۔۔ نہیں بھی لوٹاؤ گی تو آج یا کل یہ اپنے مالک کے پاس پہنچ ہی جائیں گیں۔” انہوں نے بے حد نرمی سے کہا۔ وہ اُن کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”آپ قلبِ مومن کا ذکر اتنی محبت سے کیوں کرتے ہیں۔ آپ کو اُس کے عیبوں کا پتہ نہیں ہے کیا؟ عبدالعلی صاحب نے بھی کچھ نہیں بتایا آپ کو؟ ” مومنہ نے اس بار بے حد سنجیدگی سے اُن سے کہا۔
”اُس کے عیب میرے عیبوں سے چھوٹے۔۔۔ اُس کے نقص میرے نقص سے کمتر۔۔۔” انہوں نے بے اختیار کہا تھا۔
”پر ماسٹر صاحب آپ تو سیّد ہیں۔ اللہ کے راستے پر چلنے والے سیّد۔” مومنہ نے اعتراض کیا تھا۔
”اسی لئے تو منہ چھپاتا پھرتا ہوں۔۔۔ اسی لئے تو سرجھکائے رکھتا ہوں۔۔۔ کس کی آل ہوں اور کیا اعمال ہیں۔۔۔ پھر بھی پردہ ہے جو ڈال دیا ہے رب نے۔۔۔ پردہ ڈالے ہی رکھے رب سب پر۔۔۔ کسی کا عیب نہ کھولے۔” وہ ہنستے ہوئے آنسوؤں سے کہہ رہے تھے اور مومنہ دم سادھے اُن کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ رہی تھی۔ اُس نے ماسٹر ابراہیم کو کبھی اس طرح روتے نہیں دیکھا تھا۔ اُسے اُن سے جو پوچھنا تھا اُنہیں روتا دیکھ کر سب بھول گئی تھی۔
٭…٭…٭
اُس دن وہاں سے واپسی پر مومنہ کے دل میں جیسے ماسٹر ابراہیم کے جملے کُھب گئے تھے اور اُن جملوں نے بہت سا بغض بہت سا زہر اُس کے دل کے اندر سے نچوڑ کر جیسے اُسے پاک کردیا تھا۔
”آج دل صاف ہوگیا۔۔۔ تمہارے لئے میرا قلبِ مومن۔۔۔ سب نکل گیا جو بھی گڑا تھا۔” گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی اپنے دونوں گالوں سے آنسوؤں کو رگڑتے مومنہ سلطان نے جیسے خود سے کہا تھا۔
٭…٭…٭
وہ صبح سویرے تیار ہوکر آفس جانے کے لئے نکلا تھا اور لاؤنج میں جاتے ہی کھڑا رہ گیا تھا۔ وہاں دیوار پر اھدنا الصراط المستقیم والی وہ خطاطی لگی ہوئی تھی۔ خوشی کی ایک لہر جو بے اختیار اُس کے اندر سے اُٹھی تھی اُسے خوف کی ایک اور لہر نے ڈبو دیا تھا۔ تو کیا اُن سفید گلابوں کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہ اُس کی فلم چھوڑ گئی تھی۔ فلم چھوڑے بغیر ان تصویروں کے واپس آنے کی کوئی صورت باقی نہیں بچی تھی۔
”مومن بھائی یہ مومنہ میڈم کا ڈرائیور دے گیا ہے صبح صبح۔۔۔ میں نے یہ یہاں لگادی اور باقی ساری سٹور میں رکھوا دی ہیں۔” شکور نے اُسے دیکھتے ہی خوشی سے چہک کر کہتا تھا۔
”کچھ اور بھی بھیجا کیا؟” مومن نے جواباً اُس سے پوچھا تھا۔
”کچھ اور کیا۔۔۔؟ ہائے اللہ۔۔۔ آپ نے پھر لڑائی کرلی۔” شکور نے روانی سے پوچھا اور پھر صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوتے ہی اُس نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لئے تھے۔
”میں نے شیلی پر ٹکٹ کے پیسے ضائع نہیں کرنے اس بار۔۔۔ میں آپ کو بتارہا ہوں۔۔۔ میں نے تو سارے دوستوں اور رشتہ داروں کو مومنہ سلطان کے ساتھ بنائی ہوئی سیلفی بھی بھیج دی ہے مومن بھائی۔” دروازے تک جاتے جاتے قلبِ مومن کو شکور کی دُہائیاں سنائی دیتی رہی تھیں مگر خود اُس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!