اسپیس شپ کا فرار | علینا ملک

اسپیس شپ کا فرار

علینا ملک

بازل، وہاج اور فاتح بلا کے شرارتی اور بے حد ذہین بچے تھے۔ پورا محلہ ان کی شرارتوں سے واقف تھا۔ ایک دن وہاج نے فاتح اور بازل کو ساتھ لیا اور دادا جان کی لائبریری کی طرف چل پڑے۔
”داداجان! ہمیں ضروری بات کرنی ہے۔” تینوں نے لائبریری میں داخل ہوتے ہی کہا۔ ”ہاں بولو! ” دادا جان اپناچشمہ درست کرتے ہوئے بچوں کے چہروں کا جائزہ لینے لگے۔
”دادا جان! اِس بار ہم آپ کے ساتھ شکار پر جائیں گے۔” بازل نے کہا۔
”ارے! کیوں بھئی؟ تم لوگ تو بہت شرارتی ہو۔ تمہارے والدین نہیں مانیں گے۔ انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ”دادا جان! پلیز ، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ وہاں کوئی شرارت نہیں کریں گے۔” تینوں کے اصرار پر دادا جان خاموش ہوگئے۔ دادا جان کے دوست قریشی صاحب کا شہر سے دورایک بہت بڑا فارم ہائوس تھا۔ اِس کے تین اطراف گھنا جنگل تھا۔
قریشی صاحب اور اُن کے دوست مہینے میں ایک بار شکار کے لیے وہاں جاتے تھے۔ ”بچو! ایک بات یاد رکھنا۔ فارم ہائوس کے اطراف میں خوف ناک جنگل ہے۔ وعدہ کرو کہ تم اُس کے کاٹیج سے باہر نہیں نکلو گے۔” دادا جان نے مقررہ دن فارم ہاؤس پہنچ کر بچوں کو نصیحت کی۔ ”جی دادا جان! ہم ایسا ہی کریں گے۔ آپ بے فکر رہیں۔”
فارم ہائوس واقعی کسی جادوئی محل یا پرستان سے کم نہ تھا۔ چاروں طرف سبزہ، خوب صورت باغات، بے شمار پھل دار درخت اور خوش نما پھول، پودے اِس پیارے منظر کو چار چاند لگا رہے تھے۔ دادا جان بچوں کو سمجھا کر دوستوں کے ہمراہ شکار کے لیے چل دیے۔
ُہرّرے… اب آئے گا مزہ! تینوں نے جیپ کونظروں سے اوجھل ہوتے ہی نعرہ لگایا اور باغ کے پچھلے حصّے میں نکل آئے۔ ”اوہ… تم دونوں ادھر آئو، دیکھو یہ کیا چیزہے؟” بازل نے فاتح اور وہاج کو پکارا۔ ”ہائیں! یہ کوئی خفیہ دروازہ لگتا ہے۔” تینوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
”اس کے پیچھے شایدجنگل ہے جس کا ذکر دادا جان کر رہے تھے ۔” فاتح نے کہا۔ دروازے کو تالا لگا دیکھ کر وہ تینوں رسی کے ذریعے دوسری طرف کود گئے اور کسی ماہر جاسوس کی طرح وہ جنگل میں آگے بڑھنے لگے۔ اچانک انہیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔ وہ تینوں سہم گئے۔ پھر ایک طرف سے آہنی ہاتھ ان کی طرف بڑھے۔ انہوں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلیں اور آہنی ہاتھ انہیں گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ ”اوہ …اوہ … ہم اس وقت کہاں ہیں؟” ہوش میں آتے ہی بازل کی آواز گونجی۔ چاروں طرف شیشے اور اسٹیل کی دیواریں تھیں۔ چھت کے ساتھ ایک بڑی اسکرین نصب تھی۔ یہ کوئی اسپیس شپ تھی جس کے آہنی پنجے اِنہیں پکڑ کر شپ میں لے آئے تھے۔وہ تینوں خوف زدہ تھے۔
اچانک دیوار ذرا آگے کو سرکی اور ایک لمبا روشن راستہ دکھائی دیا۔ اس راہ داری کی دوسری طرف کچھ فولادی مشینیں نصب تھیں۔ چند عجیب و غریب روبوٹ نما بلائیں کمرے میں داخل ہوئیں۔ ”مجھے لگتا ہے یہ ہماری زمین پر کوئی خطرناک منصوبہ لے کر آئے ہیں ۔”وہاج نے کہا۔
”ہاں! تم ٹھیک کہہ رہے ہووہاج! ہمیں کچھ کر نا ہوگا، لیکن پہلے یہاں سے فرار ہونے کاراستہ تلاش کرناچاہیے ۔” بازل نے کہا۔ ”دیکھو! نیچے فرش پر کچھ ہندسے لکھے ہو ئے ہیں۔ یہ ہندسے راستہ کھلنے کا کوڈ ہوگا۔” فاتح نے ذہن لڑایا۔ ابھی وہ باتیں کررہے تھے کہ جادوئی دروازہ ایک بار پھر کھلا کوئی روبوٹ نما مخلوق اندر داخل ہوئی۔ اُن کے ہاتھوں میں فائلیں اور الیکٹرک پیڈ زتھے۔
اندر آنے والے یہ عجیب و غریب روبوٹ ایک اسکرین کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ بازل اُن کی حرکات کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اُن کے واپس جاتے ہی بازل نے فرش پر لکھا کوڈ ملایا تو دروازہ خود بہ خود کھل گیا۔ انہیں سامنے ایک سیڑھی نظر آئی۔ وہ جلدی سے سیڑھی کے ذریعے نیچے اُتر گئے۔ کچھ دیر رینگنے کے بعد انہوں نے دوڑ لگادی اور اسپیس شپ سے کافی دُور نکل آئے۔
ابھی وہ اپنی سانسیں بحال کر رہے تھے کہ ایک دم سے ان کے قدم زمین کے ساتھ چپک کررہ گئے۔ سامنے دادا جان کی جیپ کھڑی تھی۔ ”اُف! دادا جان تو آگئے۔ اب کیا ہوگا!” فاتح نے گھبرا کر پوچھا۔ ابھی وہ پریشانی کے عالم میں تھے کہ اچانک ایک آواز نے انہیں چونکا دیا۔ ”تم لوگوںنے تو وعدہ کیا تھا مجھ سے؟ تم واقعی اعتبار کے قابل نہیں ہو۔” دادا جان کی آنکھیں غصّے سے سرخ تھیں۔
”دادا جان! ہمیںمعاف کر دیں۔ ہم سے واقعی غلطی ہوگئی۔” فاتح نے سر جھکاتے ہوئے کہا پھر بازل نے سارا واقعہ سنا یا تو دادا جان حیران رہ گئے۔ ”دادا جان! ہمیں اس مخلوق کو یہاں سے بھگانا ہوگا۔” یہ کہہ کر تینوں نے اپنا منصوبہ دادا جان کو بتا دیا۔ پھر سب نے مل کر بہت سی لکڑیاں جمع کیں اور اُنہیں اسپیس شپ کے چاروں طرف پھیلا کر آگ لگا دی۔
جیسے ہی آگ بھڑکی، اسپیس شپ میں ہل چل مچ گئی۔ ہر طرف دھواں اُٹھنے لگا۔ کچھ دیر بعد دھویں کے بادل چھٹنا شروع ہوئے تو بچوں کو اسپیس شپ آسمان کی طرف جاتی دکھائی دی۔ سب نے زور دار نعرے لگانا شروع کردیے۔ دادا جان نے تینوں کو پیار سے گلے لگا لیا۔
”داداجان! آپ ہم سے ناراض تو نہیں ہیں نا۔” واپسی پر بچوں نے دادا جان سے سوال کیا ۔
”دیکھو بچو! تم لوگوںنے وعدہ خلافی کی جس کا مجھے افسوس ہے۔ میں تم سب سے خفا ہوں۔ ہاں! البتہ مجھے خوشی ہے کہ تم نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اس پر میں تم سب کو شاباش دیتا ہوں لیکن یاد رکھنا کہ قسمت ہمیشہ مہربان نہیں ہوتی اس لیے بڑوں کا کہنا ماننا سیکھو۔ اسی میںتمہاری کامیابی ہے۔”
”جی دادا جان! ہم آیندہ کہنا مانیں گے۔” تینوں نے یک زبان ہوکر کہا اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

سونے کا انڈا | احمد عدنان طارق

Read Next

تالاب کا مینڈک

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!