خوشبو کبھی ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بے چینی سے گھومتی پھیلتی رہتی ہے کیوں کہ اس کی کوکھ میں ایک اسرار ہوتا ہے اور وہ اس اسرار کا پردہ رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جاتی ہے، پھیلتی جاتی ہے اور آواز کی طرح ہوا کے شانہ بہ شانہ چلتی رہتی ہے۔ کیا خوشبو چھپائی جا سکتی ہے؟ کیا آواز دبائی جا سکتی ہے؟ بے شک ہر کردار اپنا اختتام اپنے اعمال کے قلم سے خود لکھتا ہے۔
٭…٭…٭
دہلیز پھلانگنے کی پہلی بنیاد ثما نے رکھی۔ پانچ پھولوں کے درمیان وہ بھی ایک پھول تھی، لیکن کیکر کاپھول۔ بے تحاشا کانٹوں کے ساتھ۔ابا تو گڑ کے بنے تھے تھوڑے سخت لیکن میٹھے، میٹھے۔
دنیا اپنے خیالات کی لیپا پوتی کرنے میںمصروف ہوتی۔ وہ ہنس کر کہتے۔ میری بیٹیاں ہی بیٹوں جیسی ہیں۔ فرط انبساط سے اُن کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ چند ایک نے تو دوسری شادی کی ترغیب بھی دی۔ ابا اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے رہے۔
ثما سب سے چھوٹی تھی اور نین نقش جس طرح سب سے الگ تھے ،اسی طرح مزاجاً بھی مختلف تھی۔ بھوری آنکھیں، لمبی مڑی ہوئی پلکوں سے سجی ،سرخ و سپید رنگت،پتلے ہونٹ، گھنگریالے بال، خاموش بیٹھی رہتی تو اس پر گڑیا کا گمان ہوتا۔
گڑیا جو چابی لگانے سے گھوم گھوم کر بولنے لگ جاتی ہے۔ تو ابا کی گڑیا میں بھی ایک خرابی تھی۔ بنا چابی کے بولے نہ بولے ،بنا اجازت کوئی کچھ کہے تو بے داغ پیشانی شکنوں سے بھر جاتی۔ کچھ خودسر تھی، کچھ ابا کے لاڈ نے بگاڑ دیا تھا ۔چھوٹی عمر میں جب باہر نکلتی تو لوگ اسے پری کہہ کر بلاتے ۔آہستہ آہستہ ارد گرد کے جاننے والے اس کا اصلی نام بھی بھول گئے ۔ اب وہ پری تھی تو پر کیوں نہ نکلتے !
جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی، پر نکلتے گئے۔ اسے اپنے پورے گھر میں واحد چیز جو پسند تھی وہ صنوبر کا درخت تھا، جو داخلی دروازے کے ساتھ ایک شان سے کھڑا تھا۔ ثما بچپن سے اسے ایسے ہی دیکھتی آئی تھی۔ وہی شان اور وہی استقامت، اپنی مخصوص خوشبو کے ساتھ یوں اپنے شاخیں پھیلائے رکھتا جیسے ثما کو اپنے پروں میں چھپانا چاہتاہو ۔ثما کو بھی وہ بے حد پسند تھا۔وہ اکثر رات کو اس کے نیچے بیٹھ جایا کرتی۔ اس کی خوشبو سے اسے عشق تھا۔ ثماکے ساتھ خوشبو گھر بھر میں گھومتی رہتی ،وہ اس کے گرد طواف میں رہتی تھی۔ پر صنوبر کے پہلو میں زنگ آلود دروازے سے اسے سخت نفرت تھی۔کیونکہ وہ ہر آنے جانے والے پر پورا منہ پھاڑ کے شور مچاتا تھا، جیسے سب کو بتانا چاہتا ہے کہ کون آیا اورکون گیا۔
وہ راز رکھنے کا قائل نہ تھا۔ آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھتا ،ذرا جو کوئی دھیرے سے گھر میں داخل ہونا چاہتا، وہ چھنگاڑ ،چھنگاڑ کر اپنے کواڑ کو غصے سے پٹخ، پٹخ کر پورے محلے کو بتا دیتا۔ یوں ثما کو داخلی دروازے کی آواز سے نفرت تھی۔ وہ ان نفرت اور محبت کے دوسانچوں کے درمیان بڑی ہو گئی ،اتنی بڑی کہ اڑنے ہی لگی۔
بات بات پر اسے اپنے گھر، ماحول اور حالات پر اعتراضات ہونے لگتے۔ اماں سمجھاتے سمجھاتے چڑ گئی۔ ابا ہمیشہ اسے بہلاتے رہتے۔
٭…٭…٭
پری سنتے سنتے اس نے آخر ایک دن سچ مچ اڑنے کی ٹھان لی۔ پتا نہیں کون دیو اُسے اڑا کے لے گیا بلکہ اڑا کے کیا لے گیا۔ پری خود چلی گئی۔ اس رات پورے اہتمام کے ساتھ، اس نے ایک دن پہلے دروازے کی چٹخنی کو تیل میں بھگویا تاکہ رات کو شور نہ کرسکے ۔ وہ ہکا بکا اسے دیکھتا رہ گیا۔
رات کوجب ساری دنیا چپ تھی ۔دروازہ بھی چپ تھا تب وہ دھیرے سے نکل گئی اور کیا پتا اس وقت لمحات نے دن سے منتیں بھی کی ہوں گی۔ دن سے کہا ہوگا:
”رک جا۔ رک جا ورنہ… ہمیشہ کے لیے رات آئے گی۔” سب بے کار رہا۔ صحن میں گھومتی صنوبر کی خوشبو اس کے پیروں پر لوٹنے لگی، لیکن اسے پروا کہاں تھی۔
زنگ آلود کواڑ شرم سے کٹ کر رہ گئے، جب منہ اندھیرے ایک قدم لرزتا ہوا باہر نکلا اور اندر کے مکینوں کو کالی بجھنگ دنیا میں چھوڑ گیا۔ہو سکتا ہے اس سے پہلے سروں پر پگڑیاں ایک شان سے ہوں، سر اٹھانے والے زیادہ ہوں ،سر جھکانے والے کم۔
وہ دہلیز ….وہ ہمیشہ کھٹ کھٹ کرتی اس رات خاموش چٹخنی…وہ روشنی کو نگلتی اندھیری رات… اماں کے لیے بعد میں یہ سب ایک خواب بن گیا، ایک بھیانک خواب۔ کون تھا وہ جو ان کے گھر میں نقب لگا گیا؟
اب یہ سوال بے معنی تھا۔ جب بیٹیاں ہوں تو ماں کو سوتے میں آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں اور اماں ایک دن سر درد کی گولی کھا کے سو گئی ۔بس ثما نکل لی اسی رات!
ثما جاتے جاتے بہنوں کی خوشیوں پر تالا لگا گئی۔ پیچھے رہ جانے والی چار بہنیں ایک ایک کر کے ایک سال کے اندر گھر سے نکلتی گئیں۔ چند لوگوں کی موجودگی میں منتشر ہو گئیں۔ اماں کو ان کا خوف پلک جھپکنے نہ دیتا ۔رات کو اٹھ اٹھ کر دروازے کی چٹخنی دیکھتی۔ اب بیٹیوں کا کمرا بند تھا ،چٹخنی سے نہیں تالے سے۔ صبح سات بجے اماں پہلے مرغیوں کا ڈربا کھولتی پھر ان کا کمرا۔ ایک دن اس کمرے سے تالا اٹھایا گیا، جب آخری بیٹی روبا بھی بیاہ کر چلی گئی ۔
بہت دور ……کیسے لوگ!
کہاں کے !!
کون!!!
کوئی سوال نہیں،اماں نے دہلیز کی عزت رکھی ،قرآن کے سائے میں رکھا ،دروازے کے باہر تک ساتھ گئے واپس آکر چٹخنی چڑھا دی۔
اور اماں کہتی:”ثما تو بچپن سے بہنوں کے ہاتھ سے چھین کر کھاتی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا ان کی خوشیاں بھی چھین کر کھائے گی۔”
٭…٭…٭
مٹی کے سیلن زدہ کمرے میں اماں روز دروازے کو دیکھ کر ساکت رہ جاتی ۔ سیلن زدہ گھر روز بہ روز ڈھنے والا ہوتا جا رہا تھا اور اس کے ساتھ اماں ابا بھی۔ بالوں میں وقت نے چاندی کی تاریں بچھا دیں۔بوڑھے ہو گئے دونوں، لیکن معمول ایک رہا۔ سورج جب جاتے جاتے وقت کے ماتھے پر رات کا ٹیکا لگا جاتا ہے تب…تب وہ دونوں دروازے کی چٹخنی بند کر دیتے ۔ صنوبر کی خوشبو سے معطر اس گھر میں غم کا، دکھ کا دھواں تھا۔ ثما جاتے جاتے عزت کے مزار پر جلتا آخری دیا بھی بجھا گئی تھی۔ اسے پتا تک نہ تھا بلکہ اسے کیا کسی بھی بیٹی کو پتا نہیں ہوتا کہ جب وہ لرزتے قدموں سے ہمیشہ کے لیے چوری چھپے دہلیز پھلانگتی ہے تو اس کے پیچھے دبے پاؤں ”عزت” بھی چلی جا رہی ہوتی ہے اور پھر ایک رات اور ایک دن کے اندر اماں ابا دونوں چلے گئے ۔
صبح اماں اور شام کو ابا۔ ویران کواڑ ایک دوسرے سے لپٹ کر روئے۔ کیاری میں موتیے کے پھول خوشبو سے ناراض ہو گئے۔ بیٹیوں میں صرف روبا پہنچ گئی اور سپردخاک کر دیا ۔ اماں کو باغی پری کا غم لے گیا اور ابا کو اماں کا غم۔ ابا تو دنیاداری میں کبھی بھولے سے بھی ثما کا نام نہ لیتے،لیکن وقت گواہ ہے اماں کی زبان پر وقت نزع ایک ہی لفظ ”ثما” تھا اورجس کے پاؤں تلے جنت ہو اس کے وجود کا کیا عالم ہوگا !یہ اولاد تب تک نہیں جان سکتی جب تک اُن کی اولاد نہ ہو۔
٭…٭…٭
تیسرے دین ویران گھر میں دیوار کے ساتھ لگی چارپائی کی گانٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے روبا نے سوچا۔ ثما! اس گھر کی ہوا بھی تمہیں بد دعا دیتی ہے جا خوش رہ۔ ٹھہری ہوا نے وقت سے پوچھا۔ تم نے سنا ہے؟ وقت دور اندیش تھا ،چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
وہ ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے آنکھوں پر کھیرے کے قتلے رکھے ہوئے تھے ۔ بیل کی آواز پر ملازمہ کو آواز دی۔
”نوراں!شہیر آگئے ہیں دیکھ لو۔ ”
شہیر کو اندر آتے دیکھ کر وہ طمانیت سے مسکرا دی۔ بے شک گھر چھوڑ کر آنا مشکل تھا، لیکن اس کے حق میں وہ فیصلہ سب سے بہتر رہا تھا۔ کہیں دور ماضی کے کواڑ کھلے ۔ اماں ابا کا سونا، رات کا پچھلا پہر۔ اس کا زنگ آلود کواڑ کھولنا، باہر کھڑا شہیر مرزا۔ پھر شہیر کے ساتھ یہ گھر۔ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا۔وہ آگے بڑھتا گیا۔
پھر دو بچے،روحا اورحسن کے قد ان کے قد سے اوپر تھے۔ اب تو وہ دونوں بال ڈائی کرنے لگے تھے ۔ اس نے سر جھٹک کر سوچا۔ ہونہہ میں کیا سوچنے لگی ہوں ۔
٭…٭…٭
کئی دنوں سے اسے ایئر فریشنر کی خوشگوارخوشبو میں ایک دھیمی خوشبو آتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ۔ ۔ وہ بلیو لیڈی ،شیلیز ،شی ہر طرح کے پرفیومز چھڑک کر دیکھتی ،خوشبو بڑھتی جاتی۔ ہاں وہ صنوبر کی خوشبو!اماں کے گھر میں دالان والے صنوبر کی خوشبو زندہ وجود دھار چکی تھی اور اب اس کے کلیجے پر لپٹ جاتی، گلے کا ہار بن جاتی ۔ وہ لاکھ سر جھٹکتی، ناک سکیڑ لیتی لیکن وہ مستقل مزاج تھی اور بے حد تھی۔ تبھی تو اسے ڈھونڈتے گھومتے اس کے گھردوسرے فلور میں اس کے بیڈ روم تک پہنچ جاتی۔ پہلے پہل یہ خواب لمحوں کا تھا، جھونکاآتا گزر جاتا، پھر وہ خوشبو اس سے لپٹنے لگی۔ اوّلین ساعتوں میں خوشبو کا طواف اس نے اپنا وہم سمجھا، لیکن بعد میں وہ خوشبو ہر خوشبو پر حاوی ہو گئی۔ البتہ بچوں اور شہیر کے لیے یہ وہم ہی رہا، انہیں کبھی کوئی خوشبو نہیں آئی۔
٭…٭…٭
اور خوشبو کو آئے ایک ہفتہ ہی ہو گیا تھا کہ اس کے گھر کا گیٹ چرخ چرخ کرنے لگا۔
”شہیر! یہ مین گیٹ شور کرتا ہے۔ تیسرے دن اس نے کہہ دیا۔ اوہ کم آن ثما !ایسا کچھ نہیں،یہ کوئی پرانی کٹیا نہیں۔”
ویسے تم بوڑھی ہوتی جا رہی ہو ۔ وہ مسکرایا۔ وہ خاموش رہ گئی۔ روزبہ روز آواز بڑھتی گئی۔ اب تو مین گیٹ دہاڑنے لگا تھا۔ گیٹ سے طرح طرح کی آوازیں نکلتیں۔ اسے یوں لگتا جیسے وہ دونوں کواڑ کھولے ماتم کرتا ہے اور کرتا رہتا ہے جب تک وہ جھنجھلا کر کانوں پر ہاتھ نہ رکھ لیتی۔ رات کو اس کا بیٹا حسن دو بجے واپس آتا۔ چوکیدار گیٹ کھولتا ،دروازہ چیخ اٹھتا۔ وہ نیند سے اٹھ جاتی۔
گیٹ اب اونچی آواز میں دہاڑنے لگا تھا،پھر اس کی آواز بھی صنوبر کے خوشبو کی طرح ہر آواز پر حاوی ہو گئی۔ میں پاگل ہونے لگی ہو ں۔ کبھی کبھی تنہائی میں وہ گھبرانے لگتی۔ پارٹیز، فرینڈ سرکل بڑھانا۔ فنکشنز…اس نے زیادہ وقت باہر گزارنا شروع کیا۔
٭…٭…٭
صبح وہ اٹھی تو خوشبو غائب تھی ۔ اس نے ایک دومنٹ ٹھہر کر کچھ محسوس کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔ شہیر آفس چلے گئے اورگیٹ کی آواز بھی نہیں آئی۔ چند لمحے الجھن سے سوچنے کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک عرصے سے ذہن پر بوجھ بنی آواز اور خوشبو سے آج چھٹکارا مل گیا تھا۔ واش بیسن پر جھک کر پانی کے دو تین چھینٹے اپنے منہ پر مارے۔ خوشگورایت کے احساس کے ساتھ ساتھ ہوش حواس بیدار ہوتے ہی اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔وہ آگہی کا لمحہ تھا۔اسرار سے پردہ اٹھایا گیا اور کس نے اٹھایا بھلا؟
برسوں اس کے اندر کہیں ماضی کے کیاری میں دبی صنوبر کی خوشبو اب پھنکارنے لگی تھی ۔ آواز نے پہلے ناگ کا روپ دھار لیا اور اب پھن اٹھائے کھڑا چرخ چرخ کر رہا تھا۔ وہ دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی، لاؤنج میں ملازمہ ڈسٹنگ کر رہی تھی۔ اسے یوں بھاگتے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔
”کیا ہوا باجی؟ ”وہ ان سنی کرتی آگے بڑھی اور دھڑام سے دروازہ کھول دیا ،کمرا بکھرا پڑا تھا۔ ملازمہ آگے بڑھی۔
”یہ چھوٹی باجی نے کیا حال کر دیا ہے کمرے کا؟”
”باجی جی! یہ کیا ہے ؟” ملازمہ نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا پیڈ کا صفحہ اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔ وہ یوں پیچھے ہٹی جیسے موت کا پروانہ ہو ۔
پیچھے ہٹتے ہٹتے اسے آج آواز اور خوشبو کا اسرار سمجھ آگیا تھا۔
”روحا بھاگ گئی گھر سے … ”
اس کے اندر سے آواز آئی۔
”کیا میں اب دنیا کے سامنے جا سکوں گی؟”
اندر گہرا سکوت تھا۔
ہوا خاموش وقت کی طرف دیکھ رہی تھی۔وقت ہمیشہ کی طرح دور اندیش تھا آگے تو بڑھ رہا تھا لیکن بہت سستی سے۔
٭…٭…٭