اجنبی — لبنیٰ طاہر

ساجد تھکا ہارا گھر لوٹا جمیلہ نے اسے دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا:”اتنی رات گئے تک باہر کیا جھک مارتے رہتے ہو ۔تنخواہ تو تم اتنی کم رکھتے ہو میرے ہاتھ میں!” اِس کے طرزِ تخاطب پر ساجد چڑ کر بولا” جمیلہ تو اچھی طرح جانتی ہے کہ میں کام کے علاوہ کہیں نہیں جاتا اوور ٹائم کرنے میں دیر ہو جاتی ہے”۔ جمیلہ پھر بھی باز نہ آئی ۔”ہاں ہاں جانتی ہوں سب،فالتو میں مٹر گشت کرتا رہتا ہے اوور ٹائم لگاتا تو آمدن نہ بڑھتی؟ میری بات سن لے توکان کھول کے ،منا اب چار سال کا ہو گیا ہے ،پانچ کا ہوتے ہی میں نے اسے سکول داخل کرانا ہے اس کے لیے مجھے ڈھیر سارے پیسے چاہئیں۔مجھے منے کو وہ بڑے والے سکول میں کرانا ہے جہاں صاحب لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں ۔۔”
ساجد چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا: ”اری بھاگوان اتنے بڑے بڑے ،اپنی اوقات سے اونچے خواب نہ دیکھا کر ،اللہ نے کیا نہیں دیا ہمیں ۔دو وقت حلال روٹی کھاتے ہیں ۔چین کی نیند سوتے ہیں۔اولاد ہے، سکون ہے ،جب منے کے سکول جانے کا وقت آئے گا تو دیکھ لیں گے ابھی تو کچھ روٹی پانی دے۔۔”
جمیلہ جو منے کے سکول کے خواب میں گم تھی خشک لہجے میں بولی :”اچھا دئیے دیتی ہوں۔”
سالن روٹی سامنے رکھنے کے بعد ساجد کے پاس بیٹھتے ہوئے جمیلہ نے نیا نکتہ اٹھایا” ساجی تو باہر کیوں نہیں چلا جاتا ؟”ساجد کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا۔” باہر ؟ ” اس نے ہڑبڑا کے دوبارہ پوچھا ”کیا مطلب باہر ؟؟ ”
جمیلہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی: ”دیکھ ساجی یہاں تم اتنی محنت کرتے ہو، جان مارتے ہو سارا سارا دن لیکن ملتا کیا ہے تمہیںوہی تین ہزار؟ اور اوور ٹائم لگا بھی لو تو ہزار اور مل جاتا ہے ۔لیکن چار ہزار میں جیسے میں مہینہ نکالتی ہوں مجھے ہی پتا ہے ۔20 تاریخ کے بعد ہم نمک مرچ سے روٹی کھانے پہ آ جاتے ہیں اور گوشت تو عید بقر عید پر ہی نصیب ہوتا ہے !تم ایسا کرودبئی چلے جا ؤ،پھر دیکھنا کیسے دن پھرتے ہیں ہمارے ۔ وافر پیسہ آئے گا تو منا اچھے سکول میں پڑھے گا ،میں اچھے کپڑے لے سکوں گی،دیکھو نا مجھے سال سے اوپر ہو گیا نیا جوڑا بنائے ہوئے ”۔ جمیلہ نے ساجد کو نئے خواب دکھائے ۔
ساجد جیسے نیند سے جاگ اٹھا ” نہیں نہیں جمیلہ میں یہاں ہی اچھا ہوں ۔دیکھو بھلے ہی ہم نمک مرچ سے روٹی کھاتے ہیں لیکن سکون سے تو سوتے ہیں نا۔ہم دونوں ایک ساتھ ہیں ، منا پاس ہے اور میں توجب تک تم دونو ں کو نہ دیکھ لوں تو مجھے نیند نہیں آتی۔”
جمیلہ نے کندھے پر ساجد کا رکھا ہاتھ غصے سے ہٹایا اور پیر پٹختے ہوئے بولی:”تم نہیں سمجھو گے ۔ تم وہی کنویں کے مینڈک رہنا ۔۔لوگ ترقی کرتے ہیں تم نمک مرچ پر اٹکے رہنا ۔دیکھوساجد! بس بہت ہو گئی مجھ سے اب ایسی زندگی نہیں گزرتی ۔تمہیں کوئی خیال نہیں میرا ”۔جمیلہ نے منہ پھیر کر ناراضی ظاہر کی۔
”اچھا مان لو اگر میں جانے کے لیے راضی ہو بھی جاؤں تو کیسے ہو گا یہ سب ۔مفت میں تو نہیں باہر جاتے لوگ ”۔ساجد بولا ۔۔
جمیلہ خوشی سے اچھل پڑی” پیسوں کی تم فکر نہ کرو!” بھاگ کے صندوق سے پوٹلی نکال لائی اور پتلی تار جیسی دو چوڑیاں نکال کر کہنے لگی: ”یہ لو انہیں بیچ لو اور کچھ پیسے اپنے بھائی سے ادھار لے لو ،وہاں جا کے اتار دینا”۔منٹوں میں اُس نے مسئلہ حل کر دیا۔
ساجد چارپائی پر لیٹتے ہوئے بولا: ”نیک بخت ابھی سو جا ؤصبح بات کریں گے ”۔
جمیلہ بے صبری سے بولی: ”نہیں بات نہیں کریں گے بلکہ ایسا کرو تم کل فیکٹری سے چھٹی کرلواور میرے بھائی شوکت کو ساتھ لے کر کسی ایجنٹ کے پاس چلے جانا ۔۔”
قرض اور چوڑیاں بیچنے کے بعد حاصل ہونے والی رقم کی مددسے آخر کار ساجد دبئی پہنچ گیا۔وہاں پہنچ کر اس نے دیگر پاکستانی لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک کمرہ کرائے پر لیا اور ٹیکسی چلانے لگا ۔۔۔سارا دن ٹیکسی چلاتا،رات کو تھکا ہارا بستر پر گر جاتا ۔کام کے علاوہ اسے لڑکوں کے ساتھ مل کر کمرے کی صفائی، کپڑے دھونا اور اپنی باری پر کھانا بھی بنانا پڑتا۔
اسے جمیلہ اور منا بہت یاد آتے ،جمیلہ کو فون کرتا،اپنی اُداسی کا بتاتاتو جمیلہ اسے تسلی دیتی کہ اُداس مت ہو،میں اور منا ٹھیک ہیں ۔بس تم ڈھیر سارے پیسے کما لو پھر واپس آجانا۔۔ساجد پھر سے اپنی ٹوٹی ہمت بندھانے لگتا ۔۔۔سب سے پہلے اس نے قرض کے لیے پیسہ جمع کیا اور جب قرض احسن طریقے سے اتر گیا تو ساجد اپنے پاس صرف ضرورت کے پیسے رکھتا ،باقی جمیلہ کو بھیج دیتا ۔۔۔اسی طرح گھن چکر بنے دن رات گزرتے رہے ۔ہر سال وہ وطن جانے کی سوچتا لیکن جمیلہ اسے سمجھا بجھا کے آنے سے منع کر دیتی کہ ابھی تھوڑا اور کما لو پھر آ جانااوروہ منے سے اداس ہونے کی بات کرتا تو جمیلہ کا جواب ہوتا کہ منا کہیں نہیں جا رہا ، ذرا زیادہ پیسے کما لو پھر آؤ گے تو ہم دونوں سے مل لینا۔۔۔چار سال بعد وہ پاکستان جا سکا۔
اس نے جہاز میں بیٹھتے ہی فیصلہ کیا کہ اب واپس دبئی نہیں آئے گا۔۔ گھر پہنچا تو اپنی اس جائے اماں کو پہچان نہ سکا کیوں کہ اس گھر کی حالت بالکل بدل چکی تھی ۔ فرش پر قالین بچھے تھے ۔چارپائیوں کی بہ جائے صوفے اور بیڈ آ چکے تھے ۔نکھری نکھری جمیلہ نے مہنگے کپڑے اور زیور پہن رکھا تھا ۔۔ساجدکو دیکھا تو خوشی سے نہال جمیلہ نے ساجد کو سارا گھر دکھایا کپڑے دھونے کی مشین آچکی تھی ،فریج ٹی وی سب کچھ تھا ۔اگر نہیں تھا تو صرف ساجد۔
اس کے تصور میں اس کا وہی سادہ سا گھر تھا ۔۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا کچھ گم ہو گیا ہے۔۔وہ نمک مرچ کے ساتھ روٹی اور جمیلہ کے ساتھ پیار بھری باتیں ڈھونڈ رہا تھا جب کہ یہاں تو ماحول ہی بدلا ہوا تھا۔جمیلہ اس کے سوٹ کیس میں بھرا سامان شوق سے دیکھ رہی تھی ۔
سوٹ کیس کی تلاشی لیتے لیتے جمیلہ نے فکرمندی سے کہا:”ساجی اب یہ ایک مہینہ تمہاری ٹیکسی بند رہے گی۔پورے مہینے کے پیسے گئے۔۔۔اب دیکھو مہینے سے زیادہ نہ چھٹی کرنا ”۔۔۔ساجد کے دل کو زبردست ٹھیس پہنچی کہ جمیلہ کے لیے اس کی حیثیت پیار کرنے والے شوہر سے زیادہ پیسوں کی مشین کی سی ہو گئی تھی۔ اُسے شوہر کا وقت اور پیار نہیں ،چیزیں چاہیے تھیں ۔
”منا کہاں ہے ”؟ ساجد نے دلی افسردگی چھپائے ہوئے بہ ظاہر خوش دلی سے پوچھا۔
”وہ ابھی آتا ہے ، میں نے اُسے دُکان سے کچھ لانے بھیجا ہے” ۔
سیٹی کی آواز پر ساجد نے مڑ کر دیکھا تو دروازے سے اس کا منا اندر داخل ہو رہا تھا ۔ عمدہ لباس ، کانوں میں ہیڈ فون اور ہاتھ میں موبائیل تھامے تھرکتا ہوا اندر آ رہا تھا ۔ ”بابا” ۔ وہ دوڑ کر بڑھا اور باپ سے لپٹ گیا لیکن اس کے انداز میں وہ گرم جوشی نہ تھی جس کی ساجد کوتوقع تھی۔ اک اجنبیت سی تھی ۔ گھر اور ماحول میں وہ اجنبی سا ہو گیا تھا ان سب کے لیے ۔
اُسے اپنا پرانا گھر اور اپنائیت بھرا ماحول بری طرح سے یاد آ رہا تھالیکن ان تمام آسائشوں نے اُن سب چیزوں کو پس پشت ڈال دیا تھا ۔ اس اجنبی کا ٹھکانہ صرف پردیس تھا ، پردیس۔۔۔اپنوں سے دوری ۔۔۔۔جس سے ا س کے اپنے خوش تھے ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح — آفاق احمد آفاق

Read Next

تحفۂ محبت — لعل خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!