مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)
”مان گئی وہ؟” ابھی وہ صوفے پر نیم دراز ہوا ہی تھا جب ٹیرس کا دروازہ بند کرتے پیٹر نے اس سے پوچھا۔ ”ہاں بڑی
”مان گئی وہ؟” ابھی وہ صوفے پر نیم دراز ہوا ہی تھا جب ٹیرس کا دروازہ بند کرتے پیٹر نے اس سے پوچھا۔ ”ہاں بڑی
قلعہ اور اس سے منسلک باغات اتنے وسیع وعریض تھے کہ ایک ہی دن میں سب شوٹ کر لینا ممکن ہی نہیں تھا۔ سو ان
اگلے روز وہ چاروں تاریخی کیٹ کیارنی(kate kearney) کاٹیج کیفے کی کھلی فضا میں لنچ کے لیے بیٹھے تھے۔ ”جلدی جلدی بتا کیا آرڈر کرنا
سیاہ چیتا ناجانے کیسے علاقہ غیر میں داخل ہو گیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ جان نہیں پایا تھا کہ وہ بھٹک کر اپنی
ڈھولک بج رہی تھی۔ پورے گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آج اس کی یعنی گھر کے اکلوتے بیٹے شہزاد کی مہندی
رات کا جانے کون سا پہر تھا حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے۔ نیند میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔”آج
”انسان کو کس طرح نیند آتی ہے؟” ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سونے کے لیے لیٹا تھا اور اب اچانک یہ سوال اس کے
”میں اگر قصائی خاندان کا فرد ہوں، میرا باپ قصاب ہے، تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں تو قصائی کا کام نہیں کرتا نا؟
تیز برستی بارش میں جب کسی کی نئی ماڈل کی گاڑی ہچکولے لیتی ہوئی ایک جھٹکے سے رُک جائے تو اس کوفت کا اندازہ صرف
آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں شفق کی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اپنے آشیانوں کی جانب محوِ پرواز تھے۔ ہلکی ہلکی
Alif Kitab Publications Dismiss