خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)
فلک جب سے اسٹور سے آیا تھا ایک ہی اینگل میں بیٹھا مسلسل سوچوں میں گم تھا۔ سارہ کافی دیر تک دیکھتی رہی، لیکن پھر
فلک جب سے اسٹور سے آیا تھا ایک ہی اینگل میں بیٹھا مسلسل سوچوں میں گم تھا۔ سارہ کافی دیر تک دیکھتی رہی، لیکن پھر
فلک ناشتا تیار ہے جلدی آجاؤ۔ قدسیہ بیگم نے فلک کو آواز لگائی اور چائے دم پر رکھی۔ فلک جو باتھ روم میں آئینے کے
ہر انسان فارغ وقت میں کچھ نا کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب اسے فارغ وقت میں اس کا من پسند کام مل جائے تو وہ
رات کے وقت قبرستان کی ہولناکی دل دہلا دینے والی ہوتی ہے۔ ہر سو اندھیرا، تو ڈراؤنا سناٹا، دھندلکے میں نظر آتی ٹوٹی پھوٹی قبروں
”زینب تم پلیز امی سے بات کرو۔” ثمرہ نے منت بھرے انداز میں میرے ہاتھ پکڑے۔ ”تم فکر مت کرو ثمرہ، میں اُن سے بات
ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب لوگ نہ جانے کب کے سو چکے تھے۔ روہاب نے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے نظریں ہٹا
دل فگار الفاظ لکھتے ہوئے میری انگلیاں کبھی نہیں تھکیں۔ میری نگاہ و دل کی گہرائی و گیرائی اپنے مکمل عروج پر تھی۔ درد لکھنے
بچپن سے پچپن تک میں اسی شش و پنج کا شکار رہا کہ وہ میری آپا ہیں یا میں ان کا بھیا ہوں؟ کیوں کہ
چھوٹے چھوٹے کنکر پاؤں میں چبھ کر جب انہیں زخمی کرتے تو اس کی روح کلبلا اٹھتی۔ آسمان پر چمکتا سورج قہر برساتا تو اسے
نسرین نے کلائی پر بندھی چھوٹے ڈائل والی گھڑی میں گھومتی سوئیوں کو دیکھا اور نائیلون کی چارپائی پر سوئے ناصر کو کندھے سے پکڑ