رات کے دو بج رہے تھے ۔اس کی آنکھ کھلی ، کمرے میں گھپ اندھیرا، اور خاموشی کا دور دورہ تھا۔ اس نے پانی کا ایک گھونٹ بھرا اور اپنا موبائل دیکھا تو دس مسڈ کالز اور آٹھ میسجز آئے ہوئے تھے۔ موبائل کی روشنی سے کمرہ روشن ہو رہا تھا۔ اس نے فوراً سے پہلے سکرین کو ہتھیلی میں دبایا کہ روشنی کی وجہ سے قریب سوئی سدرہ کی آنکھ نہ کھل جائے۔وہ بغیر پیچھے مڑے بیڈ پر سے اترا اور دبے قدموں کمرے سے باہر آگیا۔ باہر آتے ہی اس نے ایک نظر کمرے کے دروازے پر ڈالی اورسیڑھیوں کی طرف بڑھتے ہوئے میسجز پڑھنے لگا۔
علی پلیز! بات کرو ناں۔ جان کہاں ہو؟ کال می۔ ریپلائے تو دے دو۔ میں ویٹ کر رہی ہوں۔‘‘ میسج پڑھتے ہوئے اس نے ریپلائے دیا:
’’میں سو رہا تھا۔‘‘ یہ میسج سینڈ کرنے کی دیر تھی کہ کال آنے لگی۔اس نے کال کاٹی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔اس نے سوچا اوپر جا کر کے بات کرتا ہوں، سناٹا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سدرہ کی آنکھ کھل جائے۔ اس نے میسج کیا۔
’’وہ سوئی ہوئی ہے ، تم کیا کر رہی ہو؟‘‘جواب آنے پر اس نے میسج کیا ۔
’’اوہو سوری! میری آنکھ دیر سے کھلی۔میں تو تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا کہ پتا ہی نہیں چلا آنکھ لگ گئی اور تم انتظار کرتی رہیں۔ اچھا ر! کو میں چھت پر جا کر کال کرتا ہوں پھر بات کرتے ہیں۔‘‘
علی پانچ سیڑھیاں ہی چڑھا تھا کہ اس کے پاؤں جم گئے۔ اسے چھت پر سے باتوں کی آواز آرہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ آواز کیسی ہے؟ سدرہ تو بیڈ پر تھی پھر یہ آواز ؟ اس نے آواز پہچاننے کی کوشش کی۔ اتنے میں موبائل پر میسج کی بیپ بجی۔
’’بولو ناں علی۔۔کیا ہوا؟ ریپلائے تو دو۔‘‘ اسے میسج ملا ،ساتھ ہی موبائل سکرین جگمگانے لگی۔ اس نے کال کاٹ دی۔ وہ آواز پہچان چکا تھا۔اب اسے سدرہ کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ اس کا سر تو بھاری ہو گیا تھا پاؤں بھی منوں وزنی ہو رہے تھے۔ اس کے ماتھے پر سلوٹوں کا جال بچھ چکا تھا۔ دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا۔ پسینہ سر کی چوٹی سے پاؤں کی طرف لڑھک رہا تھا۔ سانس نتھنوں سے الجھ رہی تھی۔ایک رنگ آرہا تو ایک جارہا تھا۔
’’بے غیرت مجھ سے دھوکہ کرتی ہے۔ میری آنکھوں میں دھول جونک رہی ہے۔‘‘ کے الفاظ ہواؤں کے تھپیڑے کی طرح استقبا ل کر رہے تھے۔ سدرہ کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
’’ہاں یار ! بہت بہت شکریہ۔ یقین کرو تم نہ ہوتے ناں توپتا نہیں کیا ہوجاتا۔ علی کو تو فرصت ہی نہیں ہے۔ نہ وہ توجہ دیتے ہیں اور نہ پیار۔ میرا بھی دل کرتا ہے وہ مجھ سے پیار بھری باتیں کریں۔ دکھ سکھ شیئر کریں۔ میں انہیں دل کی باتیں بتاؤں۔ راز و نیاز کی باتیں ہوں۔ مگر وہ تو، وہ تو کہیں اور ہی انٹرسٹڈ ہیں ۔ابھی کل ہی میں کوئی بات کرنے لگی تو مجھے ایسے جھاڑا جیسے میں ان پر مسلط کی گئی ہوں ۔پتا نہیں کیوںوہ مجھے اگنور کر رہے ہیں ؟ ان پر کسی چڑیل کا سایہ ہے۔ یقین کرو جب سے اس کے میسجز ان کے موبائل میں پڑھے ہیں ، کھلی آنکھوں یقین نہیں آتا کہ وہ شخص جو مجھ پہ جان چھڑکتا تھا وہ کسی اور کوجان بنائے ہوئے ہے۔ وہ شوہر جس کے لیے میں نے اپنے گھر بھار، سکون وآرام، ماں باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑا وہ ہی مجھے دھوکا دے رہا تھا۔ وہ تو میرے پاس ہوتے ہوئے بھی میرا نہیں تھا۔میں تو یہ سوچ سوچ کے ہی مر جاتی اگرتم نہ ہوتے۔ بہت بہت شکریہ یار،کوئی تو ہے جو میرے دکھ درد کو سمجھتا ہے۔ میرا غم بانٹتا ہے۔ میرے پاس الفاظ ہی نہیں میں کیسے تمہارا شکریہ ادا کروں؟‘‘
علی کا خون کھول رہا تھا۔ خوفناک تاثرات اس کے چہرے پر منجمد تھے۔ زبان تالو سے چپک رہی تھی۔اس نے ایک قدم آگے بڑھایا کہ میں ابھی جا کے اس کو سبق سکھاتا ہوں۔ میرے ساتھ بے وفائی کرتی ہے۔ میںاسے اس کی اوقات دکھاتا ہوں صاف کرتا ہوں اس کی طبیعت مجھے دھوکہ؟ اسے معلوم نہیں میں کون ہوں۔ اسے غیرت سی آنے لگی ۔ یہ سوچ کر وہ ایک سیڑھی ہی چڑھا تھا کہ میسج ٹون بجی۔
’’جان! آؤ ناں میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔‘‘اسے ایسے لگا جیسے بھری بالٹی یخ ٹھنڈے پانی کی کسی نے اس پر انڈیل دی ہو۔ وہ جس بیماری میں خود مبتلا تھا اس کی دوا کسی اور کوکیسے دے سکتا تھا؟ علی نے موبائل آف کیا۔ وہ اوپر چڑھ ہی نہیں پایا تھا۔اس کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتا، اس نے خود کو سنبھالا دیااور سیڑھیاں اترنے لگا۔ خود کو گھسیٹ کر بیڈ تک پہنچایا، موبائل زمین پر پٹخااور بیڈ پر گر گیا۔
کمرے کا اندھیرا اسے کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ پنکھے کی ساں ساں گاں گاں کمرے کے ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کیں ۔ اسے لگا جیسے منوں وزنی کوئی چیزاس پر گر پڑی ہو۔ سر پر ہاتھ رکھاتو سر ابل رہا تھا۔ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے آنسوؤں کو پیتے ہوئے کڑوے گھونٹ کو نگلا اور تکیہ سر پر رکھ لیا۔ آج تو نرم گرم بستر پر بھی کانٹے بچھے تھے۔ دماغ کے کسی کونے میں محاسبہ شروع ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی ترازوکے ایک پلڑے میں سدرہ کو رکھ کے دوسرے میں خود کا وزن کر رہا تھاکہ غلطی پہ کون ہے؟
٭…٭…٭