اے ابنِ آدم — طیبہ عنصر مغل

اماں کے گھر آئے ہوئے عمیرہ کو دوسرا دن تھا اور وہ کچن میں عائزہ کی مدد کرکے نکل رہی تھی کہ دروازے پر بجتی ہوئی گھنٹی نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ ابھی وہ دروازے کی سمت جا ہی رہی تھی کہ ایک کرخت آواز نے اس کے قدم صحن میں ہی روک لئے۔ شاید وہ کانوں پہ ہاتھ بھی رکھ لیتی مگر اماں کی آواز نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا۔
’’ارے عائزہ باہر اس نگوڑ مارے کو کچھ دے دیجو یہ عمیرہ تو کبھی دروازہ نہ کھولے گی۔ معلوم تو ہے کہ کتنی نفرت کرتی ہے یہ ہیجڑوں سے اور میں تو ان کی بددعا سے ڈروں ہوں۔‘‘
عمیرہ نے اکتا کر سر جھٹکا اور اندر کی طرف بڑھ گئی، آج سے نہیں بچپن سے ہی اسے خواجہ سراؤں سے گِھن آتی تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب چھوٹا بھائی عمیر پیدا ہوا تھا تو ہیجڑوں کی ایک بڑی تعداد ان کے گھر اکٹھی ہوکر اپنی بھدی آوازوں میں گانے گا رہی تھی اور عمیرہ ان کے بے ہنگم میک اپ سے لُپے پتے چہروں اور بھونڈی آوازوں سے ڈر کر بستروں والے صندوق کے پیچھے چھپ گئی تھی، بچپن میں جس احساس کو وہ ڈر سمجھتی تھی، بڑے ہونے پر اس کو آگہی ہوئی کہ اسے تو دراصل ان سے گِھن اور کراہت محسوس ہوتی ہے۔
لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن یہی خواجہ سرا اس کے ہنستے بستے گھر کو تباہی کے دہانے پہ لاکھڑا کریں گے۔
دو ہفتے گزرنے پر بھی جب وہ اپنے گھر واپس نہ گئی تو عمیرہ کے گھر والوں کو تشویش ہوئی کیونکہ وہ تو بہ مشکل دو دن میکے میں گزار کر اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دیتی تھی۔ اماں سے صبر نہ ہوسکا تو پوچھ بیٹھیں:
’’عمیرہ تجھے اس بار اپنے گھر کا ہُڑکا نہ لگا؟‘‘
’’اماں پہلی بار زیادہ دنوں تک رہنے آگئی ہوں تو آپ کو بھاری لگنے لگی؟ ایسا ہے تو بھیا کو بولیں مجھے آج ہی چھوڑ دیں واپس۔‘‘ وہ غصے میں جھنجھلا گئی۔
’’اے لو جی، مجھے کیوں بھاری لگنے لگی؟ میں تو ویسے ہی پوچھ بیٹھی کہ کہیں میاں سے جھگڑا تو نہیں کر بیٹھی؟‘‘ اماں نے اسے گھور کر جواب دیا۔
عمیرہ کو اپنے رویے کی بدصورتی کا احساس ہوا تو اماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر ہنستے ہوئے بولی:
’’اماں جب فیصل سے لڑوں گی تو آپ کو بتا کر لڑوں گی۔‘‘ اماں نے اس کی بات سمجھے بغیر ہاں میں سرہلا دیا اور عمیرہ اور عائزہ کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
اماں کو تو اس نے مطمئن کردیا تھا لیکن خود کو کیسے مطمئن کرتی کہ اصل قصہ کیا ہے؟ قصہ کچھ یوں تھا کہ عمیرہ کی شادی کو پندرہ برس ہوچکے تھے۔ ساس، سسر دونوں عمیرہ کی شادی کے پہلے پانچ برس میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ اس دوران وہ دو پیارے پیارے بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ منال اور حذیفہ بہت اچھے بچے تھے اور فیصل کے اکلوتا ہونے کی وجہ سے راوی عمیرہ کے لئے چین ہی چین لکھتا تھا اور وہ دونوں گھر کو ایک جنت کی شکل دیئے ہوئے تھے۔ جہاں عمیرہ خود نماز، روزہ کی پابند تھی، وہیں فیصل بھی شرعی احکامات کی پابندی کرنے والے ایک نیک انسان تھے۔ آس پڑوس میں بھی عمیرہ کے اچھے تعلقات تھے۔ دائیں جانب والے خواجہ صاحب کی بہو نائمہ سے تو عمیرہ کی گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں ہی فارغ وقت میں خوب محفل جماتیں۔
اس دن بھی عمیرہ گھر کے کاموں سے ابھی فارغ ہی ہوئی تھی کہ نائمہ آ دھمکی۔ وہ چائے بنانے کے لیے کچن کی طرف بڑھی تو نائمہ نے ہاتھ پکڑ کر اس کو روک لیا۔
’’عمیرہ بیٹھو! مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ نائمہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’مجھے معلوم ہے نمی کی بچی! تمہیں ساس، نند یا دیورانی کی شکایتوں کی پوٹلی کھولنی ہوگی۔‘‘ عمیرہ نے ہنس کر جواب دیا۔
’’نہیں عمیرہ! آج ویسا کچھ نہیں ہے بلکہ میں تو تمہیں فیصل بھائی کے بارے میں بتانے آئی ہوں۔ تمہیں معلوم ہے فیصل بھائی خواجہ سراؤں کے ڈیرے پہ جاتے ہیں؟ اور ہیجڑوں کی گرو ’’گوگی‘‘ کو تو اکثر اپنی گاڑی میں بٹھا کر کہیں لاتے لے جاتے ہیں۔’’ نائمہ نے سانس لئے بغیر کہا۔
’’نائمہ تم اتنی گھٹیا بات مذاق میں بھی میرے ساتھ کیسے کرسکتی ہو؟ جب کہ تم جانتی ہو کہ مجھے اس مخلوق سے کتنی نفرت ہے۔ دراصل تم میری آزاد اور خوشحال زندگی سے جلتی ہو۔’’ اور ایسی ہی جانے کتنی جلی کٹی سنا کر میں نے نائمہ کو اپنے گھر سے جانے کا کہہ دیا۔
نائمہ تو اپنے گھر چلی گئی، لیکن میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھی رہی۔ اصل میں میری زندگی میں اتفاقات بھی عجیب ہوئے تھے۔ ہمارا گھر جس گلی میں تھا۔ اسی گلی کے ایک گھر میں خواجہ سراؤں کاڈیرہ تھا۔ اور وہ ہمارے گھر کے دروازے پر نہ آئیں، اس لئے میں نے فیصل کو شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی اپنے ’’فوبیا‘‘ یعنی ہیجڑوں سے چڑ والی بات بتا دی تھی۔ میں نے فیصل کو بھی منع کیا ہوا تھا کہ وہ خواجہ سراؤں کو کچھ نہ دیا کریں۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی خواجہ سرا بھولے بھٹکے بھی ہمارے دروازے پر نہ آتا تھا۔ نائمہ سے بدتمیزی پر میں شرمندہ تھی لیکن اب بچوں کے سکول سے آنے کا وقت ہوگیا تھا، اس لئے میں سر جھٹک کر کچن میں کھانا بنانے لگی۔
یہ دو دن بعد کی بات تھی۔ اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے اس نے گھر بھر کے کپڑے دھو ڈالے تھے۔ فیصل دیر سے سو کر اٹھے تو ناشتہ کے بعد وہ ظہر کی نماز کا کہہ کر نکلے تو عصر کی نماز تک ان کا کچھ پتا نہ تھا۔ موسم ابرآلود دیکھ کر عمیرہ نے چھت کا رخ کیا کہ کپڑے اتار لائے۔ کپڑے اتارتے ہوئے یوں ہی اس کی نظر گلی میں خواجہ سراؤں کے گھر کی طرف گئی اور پھر پلٹنا بھول گئی۔ جو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی، وہی ہوا۔ فیصل کی گاڑی خواجہ سراؤں کے ڈیرے کے باہر کھڑی تھی اور اس میں ’’گوگی‘‘ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے فیصل کی گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ عمیرہ کو لگا جیسے اُس کے ہاتھوں سے جان نکل گئی ہو۔ اس نے کپڑوں کا ڈھیر وہیں رکھا اور مرے مرے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگی۔ بچوں کو نوڈلز بناکر دیئے اور خود کمرے میں آکر بے سدھ پڑ گئی۔
فیصل تو پھر عشاء کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔ عمیرہ کو سویا ہوا سمجھ کر خود ہی کچھ کھا لیا۔ شاید وہ سمجھے کہ عمیرہ تھک گئی ہے یا اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوگی کیوں کہ ان دنوں وہ پھر امید سے تھی۔
رات بھر جاگ کر اس نے سوچا کہ وہ تھوڑے دن فیصل سے دور رہ کر اس بات کا حل نکالے۔ اسی وجہ سے اس نے دوسرے دن فیصل سے کہا کہ وہ اماں کی طرف جانا چاہتی ہے۔ بچوں کو چھٹیاں ہوچکی تھیں اور عمیرہ کی حالت کے پیشِ نظر شاید فیصل کو اس کی خواہش عجیب نہ لگی یا وہ ویسے بھی ایسا ہی چاہتے تھے؟ عمیرہ کے دماغ میں سوالات گردش کررہے تھے۔
دراصل عمیرہ کوئی بھی کام سوچے سمجھے بغیر کرنے کی عادی نہ تھی۔ وہ جب تک اس مسئلہ کو خود حل نہ کرلیتی، اپنے گھر والوں سے بھی چھپانا چاہتی تھی۔ وہ علیحدہ رہ کر سوچنا چاہتی تھی کہ اسے فیصل سے یہ معاملہ کیسے نمٹانا چاہئے؟ کیونکہ دل کے کسی گوشے میں ابھی بھی بے یقینی تھی کہ فیصل ایسے ہو سکتے ہیں؟
اور اب میکے آئے ہوئے مجھے دو ہفتے ہوچکے ہیں اور میں آج اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ مجھے اپنے گھر والوں سے اس بارے میں بات کرنا ہوگی۔ اور اب فیصل سے بھی اس معاملے پر بات کرنا ضروری ہوگیا تھا کیوں کہ وہ بھی میری طرف سے لاپرواہ ہوچکے تھے۔ دو ہفتے میں نہ کوئی چکر لگایا، نہ ہی فون کیا۔ یہ عہد کرکے میں دو رکعت نفل ادا کرنے کھڑی ہوگئی کہ اللہ سے بہتر کوئی مددگار نہیں۔ آج جمعہ کا دن تھا اور ابو اور بھائی جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد گئے ہوئے تھے۔ نوافل ادا کرکے میں بھی اپنے کمرے میں آکر تلاوتِ قرآن پاک میں مصروف ہوگئی۔
تھوڑی دیر بعد مجھے گھر میں چہل پہل کا احساس ہوا۔ مبارکباد کے الفاظ میرے کانوں میں پڑے تو مجھے حیرت ہوئی کہ آج نہ تو رمضان کے چاند کی امید تھی نہ کسی بہن بھائی کی شادی، منگی کا چکر۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے آیت مکمل کرکے قرآن پاک کو چوم کر لپیٹا اور باہر آگئی۔
باہر تو لگتا تھا کہ عید کا سماں ہے۔ سب گھر والے فیصل کو گھیرے ہوئے تھے اور فیصل کے گلے میں ڈھیروں گلابوں کے ہار تھے۔ سب ان کو مبارک باد دے رہے تھے۔ اتنے میں ابو کی نظر مجھ پر پڑی۔ میں جو دروازے کی چوکھٹ کو تھامے کھڑی تھی، ابو کی آواز پہ چونکی۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر مبارک باد دی اور بولے:
’’میری بیٹی تم بہت خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تمہیں ایسا جیون ساتھی دیا جو صرف خود ہی مسلمان نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی دائرہ اسلام میں لانے کا مؤجب بن گیا ہے۔
’’کیا مطلب ابو؟‘‘ میں نے ہونق ہوکر ابو سے پوچھا۔
’’اس بات کا جواب تمہیں میں دوں گا عمیرہ! میری ہی غلطی ہے کہ میں نے تم سے اتنا عرصہ کچھ باتوں کو چھپایا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ تم جو خواجہ سرائوں سے اتنی گھن محسوس کرتی تو ہو میں نہیں چاہتا تھا کہ تمہاری کراہیت اور نفرت میرے راستے میں دیوار بنتی۔ تمہیں یاد ہے کہ یہ اس دن کی بات ہے کہ ایک خواجہ سرا نے ہمارے دروازے پہ آواز لگائی تھی؟ وہ خواجہ سرا نیا تھا۔ تم نے ہمیشہ کی طرح مجھے اس کو کچھ بھی دینے سے منع کردیا تھا۔ میں نماز کے لئے مسجد کی طرف جارہا تھا کہ تقاضا کرتے ہوئے میرے پیچھے مسجد کی گلی میں آگیا۔ میں راستہ بھر اس کو لیکچر دیتا آیا کہ تم لوگ کام نہیں کرتے اور ناپاک حرکتیں کرتے ہو، ناچتے ہو، اور جانے کیا کیا کرتے رہتے ہو؟’’جانتی ہو اس نے میرے سوالوں کا کیا جواب دیا۔
اس نے مجھ سے کہا: ’’کیا آپ مجھے کام پہ رکھیں گے؟‘‘
میرے پاس واقعی اُس کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے کہا:
’’پاک ناپاک کا کیا پتا جب لوگ ہمیں انسان نہ سمجھیں تو ہمیں کیا معلوم ہمارا مذہب کیا ہے؟ وہ مجھ سے باتیں کررہا تھا کہ مسجد کے امام کے حکم پر لوگ اس کو دھکے دینے لگے اور کہنے لگے کہ اس کو گلی سے نکالو، یہ گلی ناپاک کر رہا ہے۔ اور جاتے ہوئے جو الفاظ مجھے وہ کہہ کر گیا، ان الفاظ نے مجھے گوگی کے اڈے پر پہنچایا۔ میں مسلسل صبر کے ساتھ ان کے ڈیرے جاتا رہا اور ان کو دین کی باتیں سمجھاتا رہا۔ پھر میں نے ایک مشہور عالم دین سے مدد لی۔ بالآخر گوگی اور اس کے شاگردوں کو مفتی صاحب سے ملا کر صاحبِ ایمان کردیا۔ اب وہ اپنا ناچ گانا بند کرکے مفتی صاحب کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اور آج وہ اعلانیہ طور پر نماز جمعہ ادا کرکے گئے ہیں۔ الحمد للہ!‘‘
’’عمیرہ تم جانتی ہو کہ اس خواجہ سرا نے مجھے کیا کہا تھا جو مجھے اللہ نے اس نیک کام کے لئے منتخب کرلیا؟‘‘ اس نے کہا عمیرہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’حاجی صاحب لوگ ہمارے ساتھ برا سلوک کرتے ہوئے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی تو آدم کی اولاد ہیں۔‘‘
فیصل اور بھی کچھ کہہ رہے تھے لیکن میرے آنسو تو جانے کب آنکھوں سے رخساروں کا سفر طے کرکے میرا گریبان بھگو رہے تھے اور میرا سر ندامت سے جھکا جارہا تھا یا شکر سے، مجھے خود بھی معلوم نہ تھا۔
اور دو دن بعد آنے والے رمضان کا چاند لگتا تھا آج ہی میرے من میں اتر آیا تھا اوراس کی چاندنی نے میرے وجود کومنور کردیا تھا۔
*********




Loading

Read Previous

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Read Next

صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!