معصوم سوال — ناہید حیات

’’دادی دیکھیں پھر میری گاڑی لے کر بھاگ رہی ہے۔ مجھے دے نہیں رہی۔‘‘ عون، ماہا کے پیچھے بھاگتا ہوا دادی کے کمرے میں داخل ہوا جو نماز پڑھنے کے بعد وظیفے میں مصروف تھیں۔
’’اِدھر آئو دونوں‘‘ دادی نے دونوں کو جائے نماز پر ہی اپنے دائیں بائیں بٹھایا۔ ماہا نے بھی گاڑی نیچے رکھ دی جسے عون نے جلدی سے اٹھا کر اپنی طرف رکھا اور تمیز سے دادی کے پاس بیٹھ گئے۔ دادی نے ان سے کلمہ اور نماز سنی، جو انہوں نے کچھ اٹک اٹک کے سنا دی۔ ’’چلو اب دُعا مانگو‘‘ دونوں نے اپنے ہاتھ دُعا کے انداز میں بلند کیے ’’اللہ میاں ہمیں بھائی دے دے‘‘ آنکھیں بند کر کے انہوں نے طوطے کی طرح رٹی رٹائی دعا مانگی کیوں کہ آج کل گھر میں ہر کوئی ان بچوں سے یہی دعا منگوا رہا تھا۔ دادی نے جوش سے آمین کہا۔ ’’اُلو تمھارے تو پہلے ہی دو بھائی ہیں۔‘‘ پٹاخہ سی ماہا نے کہا۔
’’مگر دادی کہتی ہیں میں تم سب کا بڑا بھائی ہوں۔ کیوں دادی؟‘‘ عون نے چہرے پر رعب طاری کر کے کہا۔
’’تم میرے کزن ہو اور ہم دونوں سکس ایئر اولڈ ہیں‘‘ ماہا نے جتایا۔
’’میں سکس اینڈ آ ہاف ہوں‘‘ عون کو اپنا چھے مہینے کا بڑا پن بھی نہیں بھولتا تھا ان دونوں کو بحث کرتا چھوڑ کر دادی خشوع و خضوع سے دعا مانگنے لگئیں۔
اچھے وقتوں کے بنے اس چھوٹے سے شہر کے بڑے سے گھر میں دادی اپنے تین بیٹوں ساجد، راشد اور واجد کے ساتھ رہ رہی تھیں جب کہ تین شادی شدہ بیٹیاں اپنے اپنے گھر میں خوشحال زندگی گزار رہی تھیں۔ دادا کا کچھ عرصہ پہلے ہی انتقال ہوا تھا۔ ساجد اور راشد کی اکٹھی ہی شادی ہوئی تھی۔ ان کی مین بازار میں اچھی چلتی ہوئی کپڑے کی دُکان تھی جب کہ واجد ابھی غیر شادی شدہ تھا اور لاہور میں پڑھ رہا تھا۔
اوپر تلے بچوں کی پیدائش سے گھر کا کام اور ذمہ داریاں بڑھنے کے باوجود مجموعی طور پر گھر کا ماحول خوش گوار ہی تھا جس کی وجہ دونوں بہوئوں مریم اور آسیہ کا آپس میں سگی بہنیں ہونے کے علاوہ دادی کی نرم اور صلح جو طبیعت بھی تھی۔ ساجد اور مریم کے تین بیٹے تھے بڑا عون اور اس سے دو سال چھوٹے جڑواں سعد اور فہد، جو اب چار سال کے ہو چکے تھے۔ راشد اور آسیہ کی تین بیٹیاں تھیں۔ ماہا، زویا اور پھر حبہ۔ حبہ کی پیدائش کے وقت کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے ڈاکٹر نے آئندہ احتیاط کرنے کو کہا۔ چوں کہ آسیہ مرتے مرتے بچی تھی تو بیٹے کی شدید خواہش ہونے کے باوجود راشد نے کہہ دیا کہ تین بچے ہی بہت ہیں خود آسیہ نے بھی بہت دعائیں کی تھیں مگر اللہ کی مرضی کے آگے سر جُھکا لیا اور اب تو حبہ بھی ڈھائی سال کی ہو چکی تھی۔ دادی کو پوتیوں سے بے حد پیار تھا مگر جب راشد کو دیکھتیں ایک سرد آہ ان کے لبوں سے نکل جاتی۔ راشد کو بھی بیٹیوں سے بہت لگائو تھا آسیہ کا بھی خیال رکھتا مگر جب جب ساجد اپنے بیٹوں کو دکان پر لے جاتا یا مسجد میں وہ اس کے ساتھ جاتے تو وہ بڑی حسرت سے ان کو دیکھتا۔ ساجد ہمیشہ بچیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا اور راشد سے کہتا رہتا تھا کہ تمہیں ان کی فکر کی ضرورت نہیں۔ دادی کو بھی تسلی تھی کہ دونوں بھائیوں کا اتفاق قائم رہا تو وہ یہ ذمہ داریاں مل بانٹ کر اٹھالیں گے مگر پھر بھی راشد کے دل میں کوئی کسک تھی، حسرت تھی یا خواہش جو دن بدن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس کے رویے میں ایک کھچائو سا آگیا تھا۔ جو گھر میں سب نے ہی محسوس کیا تو آسیہ کیسے نہ کرتی اور تب ہی اس نے ایک بار اور قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ راشد نے بھی حبہ کی پیدائش پر جذبات میں آکر کہہ تو دیا تھا کہ تین بچے بہت ہیں مگر اب آسیہ کی خواہش کی مخالفت نہیں کی۔ مریم نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانی۔ جلد ہی اللہ نے امید لگائی تو دادی اور مریم نے اسے مکمل آرام دیا اور ہر طرح سے ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرایا۔ جوں جوں دن قریب آرہے تھے لگتا تھا سب نے جائے نماز سنبھال لی۔ صدقہ، خیرات اور دعائیں جاری تھیں کوئی بچہ کچھ کھانے کو بھی مانگتا تو کہا جاتا پہلے دعا کرو اللہ چاچو کو بیٹا دے اور ماہا تو خود ہی پہلے دعا مانگتی: ’’اللہ میاں ہمیں بھائی دینا‘‘ اور پھر اگلی بات شروع کرتی مگر جب دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو اس کی مصلحت صرف اللہ جانتا ہے، انسان تو صرف رونا پیٹنا ڈال دیتا ہے۔
ایک عام سی صبح ماہا اور عون سو کر اٹھے تو گھر میں عجیب طرح کی خاموشی تھی روز والی بھاگ دوڑ نہیں مچی تھی۔ دادی بالکل خاموش اپنے بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھیں اور مریم زوہا اور حبہ کو خاموشی سے ناشتہ کروا رہی تھی۔
’’امی کہاں ہیں۔‘‘ ماہا کو اُٹھتے ہی آسیہ کی غیرموجودگی کا احساس ہو گیا تھا۔
’’وہ ہسپتال میں ہیں۔‘‘ آسیہ نے بتایا۔
’’تمھاری بہن پیدا ہوئی ہے۔‘‘ آسیہ نے یہ خبر جتنے غمناک انداز میں سنائی ماہا اور عون نے اتنی ہی خوشی کا اظہار کیا۔
’’ہمارے گھر چھوٹا بے بی آیا ہے۔‘‘ دونوں ہی یہ بھول گئے تھے کہ ’’بے بی‘‘ لڑکا ہے یا لڑکی۔ ان کے لیے یہ کافی تھا کہ اب کھیلنے کے لیے ایک کھلونا آرہا ہے۔
’’اچھا جلدی سے ناشتہ کر کے تیار ہوئے سکول جائو تاکہ میں ہاسپٹل جا سکوں۔‘‘ مریم نے کہا۔
’’ہم نے بھی بے بی دیکھنا ہے۔‘‘ ماہا نے ضد کی۔
’’نہیں بیٹا۔ ابھی اس کی طبیعت نہیں ٹھیک، شام کو چلے جانا۔‘‘ مریم نے بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجا تاکہ سکون سے کام کر کے ہاسپٹل جا سکے۔
تین دن ہاسپٹل رہ کر آسیہ ننھی سی لائبہ کو لے کر گھر آگئی۔ اپنی جان پر کھیل کر دنیا میں لانے والے وجود سے آسیہ تو زیادہ دیر غافل نہ رہ سکی مگر راشد نے تو اپنے جذبات چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ ساجد اور تینوں بہنوں نے ہر طرح سے سمجھانے اور دل جوئی کرنے کی کوشش کی مگر اس کے چہرے پر جامد تاثرات رہتے۔ ڈھیر سارے دن ایسے ہی گزر گئے مگر راشد کے رویے میں فرق نہ آیا۔ دکان سے بھی وہ اکثر غائب رہتا۔ ساجد کافی عرصے سے دیکھ رہا تھا کہ اس کا اٹھنا، بیٹھنا کچھ اچھے لوگوں میں نہیں ہے۔ اس نے سمجھانے کی کافی کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہ یار دوست ہی تھے جنہوں نے راشد کو گھر سے دور کیا ہوا تھا اور وہی ایسے الٹے سیدھے مشورے دیتے رہتے تھے کہ وہ تو مرد ہے کیا ہوا کہ ایک بیوی بیٹا نہیں دے سکی وہ دوسری لا سکتا ہے جب تک یہ باتیں گھر پہنچتیں اور گھر والے کچھ کر پاتے پتا چلا کہ راشد نے دوسری شادی کر لی ہے اپنے انہی دوستوں میں سے کسی ایک کی طلاق یافتہ بہن کے ساتھ۔ چھوٹے سے شہر میں یہ بات کب تک چھپتی اور راشد نے چُھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ آسیہ پر تو جو قیامت گزری سو گزری باقی گھر والے بھی ہکّا بکّا رہ گئے۔ سب نے ہی اس کے خوب لتے لیے مگر وہ ڈھیٹ بنا سنتا رہا۔ گھر میں عجیب ٹینشن بھرا ماحول تھا، جس میں بچے بُری طرح نظرانداز ہو رہے تھے۔ آسیہ سارا سارا دن روتی رہتی راشد گھر آتا تو دونوں کی زوروں کی لڑائی ہوتی۔ مریم پھرکی بن گھر کے کام کرتی، آسیہ کو بھی سنبھالتی اور دادی پوتیوں کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتیں ایسے میں ماہا اور عون دعا کرتے کہ چاچو ہی آجائیں کیوں کہ وہ ان سب سے خوب لاڈ کرتے اور باہر بھی لے جاتے مگر آج کل واجد کے ایگزامز ہو رہے تھے اس لیے وہ گھر نہیں آرہا تھا۔
جاتی گرمیوں کی خوش گوار سی شام میں دادی باہر صحن میں چارپائی پر بیٹھی بچوں کو کوئی کہانی سنا رہی تھیں جب ساجد کے ساتھ بہت دنوں بعد راشد گھر آیا۔ زوہا اور حبہ باپ کے ساتھ لیٹ گئیں جب کہ ماہا دادی کے پاس بیٹھی رہی۔ لائبہ کمرے میں سو رہی تھی۔ آسیہ کچن سے دیکھ رہی تھی باہر نکلی اور حبہ اور زوہا کو کھینچ کر راشد سے الگ کیا۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۹

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!