کئی سال پہلے جب افغانستان میں انگریزی کی حکومت تھی۔ ایک دن ایک پریشان حال آدمی فرنگی حاکم کے دفتر میں حاضر ہوا اور ہیڈکلرک سے کہا:
”صاحب! میں گھر سے نوکری کے لیے نکلا ہوں۔”
عرضی بڑھاتے ہوئے:
”یہ میری عرضی ہے۔ اگر کوئی نوکری دلادیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔”
بابو صاحب نے اس سے درخواست لیتے ہوئے اُس پر نظر ڈال کر پوچھا:
”یہ تم نے خود لکھی ہے؟”
”جی ہاں۔ میرا نام غلام ہے۔ آپ کی دعاؤں کی برکت ہے کہ یہ میں نے خود ہی لکھ لی ہے۔”
بابوصاحب نے مسکرا کر کہا:
”میں نے کب تمہیں دعائیں دی ہیں؟”
غلام نے سرتاپا انکسار سے کہا:
”بس صاحب آپ کی دعاؤں کی برکت ہے۔”
پھر قدرے توقف کے بعد کہا:
”صاحب! میں نواب خان کا آدمی ہوں۔ وہ آپ کو سلام کہہ رہے تھے۔”
بابو صاحب نواب خان کا نام سنتے ہی چونک پڑا اور کرسی سے اٹھ کر کہا:
”اچھا، اچھا۔ تو تم نواب خان کے آدمی ہو؟”
غلام نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا:
”جی ہاں، میں نواب خان کا آدمی ہوں۔”
بابو نے کہا:
”خان صاحب کو میرے احترامات اور تعظیمات پہنچادیں اور کہیں کہ ہم ہر وقت آپ کی خدمت کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور جب بھی کوئی کام ہو تو حکم دیا کریں۔”
غلام نے کہا:
”سر آنکھوں پر جناب…! میں آپ کے سلام اور آداب ان تک پہنچا دوں گا۔”
اس دن کی تمام ڈاک اور غلام خان کی درخواست بابو نے انگریز جان ٹن کے سامنے میز پر رکھ دی۔ جان ٹن کی عمر پینتالیس کے قریب تھی۔ نیلی اور قدرے اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں اس کے سرخ و سفید چہرے پر بہت پرکشش معلوم ہوتی تھیں۔
جان ٹن نے بابو صاحب سے کہا:
”تمہیں تو معلوم ہے کہ انٹرویو کرنا ضروری ہے؟ ایسا کرتے ہیں میں باہر کھڑکی کی قریب بیٹھ جاتا ہوں اور تم دونوں کی باتیں نوٹ کرتا ہوں۔ تم اس سے انٹرویو کرلو کیوں کہ میرے سامنے اکثر لوگ گھبرا جاتے ہیں اور تمہارے ساتھ صحیح طریقے باتیں کرتے ہیں۔”
بابو صاحب نے کہا:
”ٹھیک ہے سر۔”
اور دفتر سے نکل گیا۔ اگلی صبح غلام مقررہ وقت پر بابو صاحب کے پاس آیا اور احتراماً سینے پر ہاتھ رکھ کر دہرا ہو کر سلام کیا۔ بابو نے اسے بیٹھنے کو کہا اور سوالات شروع کردیے:
بابو: ”تمہارا نام؟”
غلام: ”آپ اور جان ٹن صاحب کی جو مرضی۔”
بابو: اس میں ہماری کیا مرضی؟ تم اپنا نام بتاؤ، میں لکھ لیتا ہوں۔
غلام: ”بعض لوگ مجھے غلام کہتے ہیں اور نواب خان غلامو۔ لیکن آپ اور جان ٹن صاحب کی جو مرضی ہو۔”
بابو نے اس کا نام لکھ لیا اور کہا:
”تم عجیب آدمی ہو۔ اپنا نام بھی اوروں کی مرضی پر چھوڑتے ہو۔ تمہارے والد کا کیا نام ہے؟”
غلام: ”میرا والد نہیں ہے۔ جیسے آپ کی مرضی ہو۔ وہی لکھ لیں۔”
بابو: ”غلام یہ کیا کہہ رہے ہو؟”
غلام: ”صاحب سچ کہہ رہا ہوں۔ میری ساری زندگی دوسروں کے گھروں میں پل بڑھ کر گزری ہے۔ ہر ایک نے مجھے کچھ عرصے کے لیے بیٹے، بچے، بچو اور کیا کیا نام دیا اور پھر گھر سے نکال دیا۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ میرا کوئی باپ تھا بھی یا نہیں۔”
بابو: ”حیرت ہے؟ تو تم نے لکھنا پڑھنا کہاں سیکھا؟”
غلام: ”صاحب! میں نواب خان کے پاس نوکر تھا۔ میری ڈیوٹی یہ تھی کہ اس کے بیٹوں کو مکتب پہنچاتا، واپس لاتا، ان کے ساتھ کتابیں اٹھا کر لے جاتا۔ میرا اور کوئی کام نہ تھا۔ مکتب کے ایک بوڑھے معلم کو مجھ پر ترس آیا۔ اس نے مجھے دوسرے لڑکوں کے ساتھ بٹھایا اور یہ تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا وہیں سیکھا۔”
بابو: ”تم نے کمال کیا ہے کہ ایسے حالات میں بھی لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔”
غلام: (سینے پر ہاتھ رکھ کر) ”صاحب۔ یہ آپ کی دعاؤں کی برکت ہے۔”
بابو نے اسے گھور گھور کر دیکھا اور خاموش رہا۔
بابو: ”کس ولایت (صوبہ) کے رہنے والے ہو؟ کس قوم سے تعلق رکھتے ہو؟ گاؤں کا کیا نام ہے؟”
غلام: ”صاحب بے ولایت ہوں، بے قوم ہوں، آگے پیچھے کوئی نہیں اور ابھی ملک نواب خان کے گاؤں سے آیا ہوں۔”
بابو نے اس سے مزید استدلال کرنا چھوڑ دیا اور جو کچھ وہ کہتا جاتا، وہی لکھتا جاتا۔
بابو: ”اچھا یہ بتاؤ کہ ایمان داری اور صداقت میں کیسے ہو؟”
غلام: ”صاحب! جیسے آپ ہیں۔”
بابو: ”تمہیں مجھ سے کیا؟ تمہیں میرا کیا پتا…؟ اپنی بات کرو۔”
غلام: ”صاحب میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ جیسے آپ کی مرضی۔”
بابو: ”کس کے مذہب پر ہو؟”
غلام: ”ملکوں کے گاؤں میں ملک نواب خان کے مذہب پر تھا۔ اب جیسے آپ کی مرضی۔”
بابو: غصہ سے” مجھے تو تم پاگل دکھائی دیتے ہو آپ کی مرضی اور آپ کی مرضی۔ مذہب میں بھی میری مرضی؟ کوئی اور بات بھی تمہیں آتی ہے یا نہیں؟”
غلام: ”صاحب! آپ کی مرضی میری مرضی۔ جو مجھے آتا تھا، میں نے کہہ دیا۔ اگر یہ غلط ہو تو آپ بتادیں پھر ویسے ہی کہوں گا۔”
بابو: مزید غصے میں آکر” چلو جاؤ مشکل ہے کہ تمہیں اس عقل کے ساتھ کوئی نوکری دے یہ انگریز ہیں انگریز۔ بال کی کھال نکالتے ہیں۔ تم جیسے کم عقل کو کیسے رکھیں گے؟ ہر بات میں آپ کی مرضی۔ آپ کی مرضی۔ جیسے آپ کی مرضی!”
غلام کرسی سے اٹھا۔ بابو کو نہایت احترام کے ساتھ سلام کیا اور کہا:
”صاحب جیسے آپ کی مرضی۔ صاحب جیسے آپ کہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔”
کچھ دیر کھڑا رہا۔ پھر باہر جانے کی اجازت طلب کی اور سلام کرکے دفتر سے نکل گیا۔ جن ٹن صاحب نے یہ تمام باتیں سن لیں۔ اس کے ساتھ اس وقت ایک ملک بھی بیٹھا تھا۔ بابو نے فائل جان ٹن صاحب کے سامنے رکھتے ہوئے کہا:
”صاحب! یہ شخص تو نرا احمق تھا۔ عقل سے بالکل کورا۔ ہر بات میں کہتا تھا۔ جیسے آپ کی مرضی۔ آپ کی مرضی۔ یہاں تک کہ نام کے بارے میں بھی کہا۔ آپ کی مرضی۔”
جان ٹن صاحب ہنس پڑا اور بابو سے کہا:
”اس پوسٹ کے لیے مجھے آج تک اس جیسا ہوشیار آدمی نہیں ملا۔ جاؤ اسے بلا لاؤ۔ میں نے اس کی تمام باتیں سن لی ہیں۔”
بابو: ”صاحب مجھے تو اس کی باتوں میں عقل و فکر نام کو نہیں ملا۔”
جان ٹن: ”تمہارے عقل کے ترازو میں اس کی باتیں ہلکی نکلیں۔ اس لیے کہ تم جوہر شناس نہیں ہو لیکن میری عقل کے ترازو میں اس کی باتیں خاص طور پر یہ بات کہ ”ملکوں کے گاؤں میں نواب خان کے مذہب پر تھا۔ اب جیسے آپ کی مرضی۔” بہت ہی وزن دار لگی۔ اس قسم کے لوگ بہت کامیاب اہلکار ثابت ہوتے ہیں۔ سرکار کی کامیابی، موافقت اور دوام کا رمز ایسے ہی اہلکاروں پر منحصر ہوتا ہے۔ تمہیں پتا نہیں۔ مجھے اس کی عقل کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اس کی مذہبی اطاعت کی ہے کیوں کہ مجھے مشیر، دوست اور ساتھی کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ایک فرماں بردار اہلکار کی ضرورت ہے۔ حکم میرا ہو اور ہاتھ پاؤں اس کے۔
جان ٹن نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ملک خان میر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
”کیوں ملک صاحب۔ تمہارے ساتھ کس قسم کے آدمی گزارہ کرسکتے ہیں۔”
ملک خاں میر نے جواب دیا:
”صاحب جو ہمارے مذہب پر ہو اور جو ہر حالت میں ہمارے پیچھے پیچھے آئے اور اگر ہمارے ساتھ داؤ پیچ کھیلنے لگے تو اسے گاؤں چھوڑنا پڑتا ہے۔”
جان ٹن نے اس بات پر ملک خان میر کو تھپکی دے کر کہا:
”ویل آفرین تم بھی بڑے کام کے آدمی ہو۔”
پھر بابو نے کہا:
”جاؤ اسے لے آؤ ایسا نہ ہو کہ وہ نکل جائے۔”
ابو صاحب غلام کے پیچھے دوڑ پڑا اور اسے کہا:
”واپس آجاؤ۔ جان صاحب تمہیں بلا رہے ہیں۔”
غلام اس وقت مڑا اور کہا:
”اچھا صاحب، جیسے آپ کی مرضی۔”
کہتے ہیں غلام نے تھوڑے ہی عرصے میں اتنی ترقی کرلی کہ جان ٹن صاحب کے دفتر کا مکمل اختیار اس کے ہاتھ آگیا اور وہ بابو صاحب جو اسے کم عقل سمجھ رہا تھا اس کی ماتحتی میں کام کرنے لگا۔ لوگ اسے غلام کی جگہ غلام خان کہنے لگے۔
جب جان ٹن کی ٹرانسفر دوسری جگہ ہوگئی تو اس نے آنے والے انگریز کو اس کی استعداد کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کردیں اور اسے خصوصی طور پر اس کے سپرد کردیا۔ اس طرح اس قسم کی رپورٹوں کے ساتھ دوسرے آنے والے انگریزوں کے سپرد ہوتا گیا۔ میں نے اپنے خیال میں آپ کو ترقی اور کامیابی کا گربتادیا ہے۔ اب آگے صاحب۔ جیسے آپ کی مرضی۔
٭…٭…٭