اس نے اسٹینڈنگ مرر میں اپنے آپ کو دیکھا، اپنے خوبصورت بالوں کو دیکھا، اپنے بے حد نازک گولائی میں پھولے ہوئے پنک فراک کو ذرا گھوم کر دیکھا پھر اس نے بے حد فخریہ انداز میں چند قدم پیچھے کھڑی چڑیا کو دیکھا جو بے حد ستائشی نظروں سے اس ساڑھے تین سالہ باربی ڈول کو دیکھ رہی تھی۔یہ وہ نام تھا جس سے وہ اس کو پکارتی تھی اور یہی وہ نام تھا جو اس نے پہلی بار اسے دیکھتے ہی دے دیا تھا۔ اس کے تمام ساتھی بونوں کو بھی باربی ڈول سے اتنا ہی عشق تھا جتنا چڑیا کو اور وہ بھی اس کو پہلی بار دیکھتے ہی اس پر اسی طرح فریفتہ ہوئے تھے جس طرح چڑیا کو دیکھ کر ہوئی تھی۔
”میں اچھی لگ رہی ہوں؟” اب باربی ڈول چڑیا سے پوچھ رہی تھی۔
”بہت، بہت، بہت، بہت اچھی اور پیاری۔” چڑیا نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کی خوبصور تی اور ستائش کی جیسے پیمائش پیش کی۔ باربی ڈول کا رنگ سرخ ہوا، اس نے ناک کو ہلکا سا دائیں طرف سکیڑ کر اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر جیسے اپنی خوشی اور مسکراہٹ کو ایک ساتھ چھپانے کی کوشش کی۔
”میں تمہاری پونی کر دوں؟” چڑیا نے باربی ڈول کے بکھرے ہوئے سیاہ ریشمی بالوں کو نرمی سے چھوتے ہوئے پوچھا۔ باربی ڈول سر ہلاتی فوراً پونی بنوانے پر تیار ہو گئی تھی۔ چڑیا نے اپنے بالوں سے ربڑ بینڈ اتارا اور آئینے کے سامنے باربی ڈول کے عقب میں جا کر بڑے انہماک سے اس کی پونی بنانے لگی۔ ان دونوں کے اس تعلق کا آغاز باربی ڈول کے اس کے اسکول میں ایڈمیشن کے ساتھ ہوا تھا۔
چڑیا کلاس مانیٹر تھی اور وہ اس دن اپنی کلاس سے کسی کام سے باہر نکلی تھی جب اس نے مانیٹسوری کے لنچ بریک کے دوران پلے ایریا کے سامنے سے گزرتے ہوئے باربی ڈول کو وہاں لنچ باکس ہاتھ میں پکڑے see saw پر جھولتے دو بچوں کے پاس کھڑے دیکھا۔ چند لمحوں کے لیے چڑیا کو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا تھا۔ وہ باربی ڈول جس کے بالوں کو چھونے اور جس کے ساتھ بات کرنے اور کھیلنے کی خواہش میں وہ کئی بار ڈی سی ہاؤس میں لان کے اس حصے میں منع کرنے کے باوجود جاتی رہتی تھی جہاں وہ اپنی ماں اور کبھی کبھار باپ کے ساتھ بھی شام کو کھیلنے کے لیے نکلتی تھی۔ باربی ڈول کے قریب جا کر اس سے کچھ کہنے کی ہمت اسے کبھی نہیں ہوئی تھی لیکن دور سے بہت باران دونوں کے درمیان خاموش نظروں اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ وہ اس گھر کے مستقل رہائشی دو واحد بچے تھے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں تجسس کا شکار نہ ہوتے اور ایک دوسرے کو مستقل طور پر اگنور کر پاتے۔ چڑیا فرینڈلی تھی، باربی ڈول نہیں تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی طرح بہت مہذب اور سلجھی ہوئی ہونے کے باوجود بے حد ریزورڈ تھی۔ پتا نہیں یہ طبعاً تھا یا اس کے ماں باپ نے اسے بھی کچھ ہدایات دی تھیں۔ چڑیا سوچتی رہتی تھی لیکن کچھ اندازہ نہیں کر سکی تھی اور اب وہی باربی ڈول اس سے چند گز کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ چڑیا کے لیے کیسے یہ ممکن تھا کہ وہ اسے اگنور کر کے گزر جاتی۔ اگر اس کا بس چلتا تو وہ شاید باربی ڈول کو بھی اپنے ہی اسکول میں دیکھ کر خوشی سے چھلانگیں لگاتی۔
”ہیلو۔” وہ ایکسائٹمنٹ کے باوجود کچھ ڈرتی جھجکتی باربی ڈول کے پاس پہنچ گئی تھی اور ہیلو کا چھوٹا سا لفظ کہنے کے لیے اسے پتا نہیں کتنی ہمت کرنی پڑی تھی۔ باربی ڈول نے چونک کر گردن گھما کر اسے دیکھا اور پھر اس نے بھی اسی برق رفتاری سے چڑیا کا چہرہ پہچانا تھا جس طرح چڑیا نے اس کا… وہ چڑیا کو فراموش کر بھی کیسے سکتی تھی۔ وہ گھر میں اس کے لیے دلچسپ چیزوں میں سے ایک تھی۔ لان میں کھیلتے اچانک کسی پھولدار جھاڑی یا پودے کی شاخ کے درمیان سے جھانکتا ہوا پرتجسس آنکھوں والا ایک معصوم چہرہ، کبھی راہداری کی کھڑکیوں میں یک دم نمودار ہونے والی وہ روشن شرارتی آنکھیں جو باربی ڈول کے ساتھ اس کی ماں یا باپ کو دیکھ کر اسی طرح جھپاکے سے غائب ہو جاتی تھیں۔ بہت دفعہ پودوں سے جھانکتی چڑیا کو دیکھ کر وہ ٹھٹکی تھی… اپنے کھلونوں کے ساتھ لان میں کھیلتے یا سائیکل چلاتے ہوئے اور شروع شروع میں وہ اپنی ممی کو چڑیا کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش بھی کرتی تھی لیکن وہ اس کوشش میں ہمیشہ ناکام رہی۔ وہ جب تک اپنی ممی کو اس پودے یا جھاڑی کی طرف متوجہ کر پاتی جہاں اس نے چڑیا کو دیکھا تھا چڑیا وہاں سے غائب ہو چکی ہوتی۔
”ممی وہاں ایک Girl ہے۔” اس نے پہلی بار چڑیا کو دیکھنے پر فٹ بال کو کک لگاتے لگاتے رک کر اپنی ماں کو اشارے سے بتایا تھا لیکن جب تک وہ اس پودے کی ان شاخوں کو دوبارہ فوکس کر پاتی جن میں سے اسے چڑیا کا چہرہ نظر آیا تھا، چڑیا غائب ہو چکی تھی۔ اس کی ماں نے چند لمحوں کے لیے چونک کر اس پودے کو دیکھا پھر پوچھا۔
”کہاں؟”
”وہاں… پر وہ اب نہیں ہے۔” وہ اب فٹ بال کھیلنا بھول گئی تھی۔
”ہاں وہی بچی ہو گی جو اس دن ملنے آئی تھی… وہی بچی تھی کیا؟” اس کی ممی نے کسی خاص حیرت اور تعجب کے اظہار کے بغیر کہا۔ ”وہ جو ہمارے کک کے ساتھ آئی تھی۔” باربی ڈول نے ماں کے سوال پر اتنا غور نہیں کیا تھا نہ ہی اس نے اس بچی کے خدوخال کو ذہن میں لانے کی کوشش کی جسے اس نے کک کے ساتھ ملاقات میں دیکھا تھا۔ اسے زیادہ تجسس اس بات پر تھا کہ وہ اس پودے کے پیچھے سے اچانک کیسے غائب ہو گئی تھی اور کہاں غائب ہو گئی تھی۔ یہ چڑیا سے اس کے تعارف کا آغاز تھا اور پھر جیسے یہ ایک معمول ہو گیا تھا۔ اس نے کئی بار چڑیا کو پودوں کے پیچھے چھپے ہوئے دیکھا تھا۔ شروع شروع میں وہ ایکسائٹڈ ہو کر اپنی ممی کو بتانے کی کوشش کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کی ایسی ہر کوشش کے دوران چڑیا غائب ہو جاتی تھی اور اس کی ممی کو بھی لان کی جھاڑیوں اور پودوں میں چھپی ہوئی کسی بچی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر اس نے اپنا یہ معمول بہت جلد بدل لیا تھا اب وہ لان میں کھیلنے کے لیے داخل ہوتے ہی دور تک پھیلے ہوئے پودوں اور جھاڑیوں میں چڑیا کی تلاش شروع کر دیتی تھی اور اکثر بڑی آسانی سے اسے ڈھونڈ لیتی تھی پھر وہ اپنی ماں کو کچھ بھی کہے بغیر اس طرح کھیل میں مصروف رہتی اور وقتاً فوقتاً کھیل سے دھیان ہٹا کر چڑیا کو بھی دیکھتی رہتی۔
چڑیا نے اب پہلے کی طرح غائب ہونا بند کر دیا تھا۔ خاموش نظروں کا تبادلہ آہستہ آہستہ مسکراہٹوں کے تبادلے میں بدلنے لگا تھا۔ اگر کچھ نہیں ٹوٹا تھا تو ان دونوں کے بیچ خاموشی نہیں ٹوٹی تھی۔ ڈی سی کی بیوی لان میں کرسی پر بیٹھی یا تو کوئی کتاب پڑھتی رہتی یا پھر پینٹنگ کرتی رہتی اوروہ لان میں سائیکل چلاتے یا فٹ بال کھیلتے ہوئے دور پودوں میں چھپی چڑیا کو دیکھ کر مسکراتی رہتی۔ کبھی کبھار وہ سائیکل چلاتے چلاتے جان بوجھ کر چڑیا کے بہت قریب سے ہو کر گزرتی اور کبھی وہ کھیلتے ہوئے جان بوجھ کر پودے کے قریب بال پھینک دیتی جہاں چڑیا چھپی ہوتی، یہ جیسے چڑیا کو کھیل کی دعوت دینے کی ایک غیر ارادی کوشش تھی جسے چڑیا نے کبھی قبول نہیں کیا تھا، وہ یہ جرأت کر ہی نہیں سکتی تھی کہ لان میں صاحب یا ان کی بیوی کی موجودگی میں وہ باہر نکل آتی۔ خیر دین نے اسے سختی سے منع کیا تھا، وہ ایک بچگانہ تجسس کی وجہ سے وہاں آ تو جاتی تھی لیکن وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے کبھی اس کے نانا کو ڈانٹ پڑے۔ اس نے بہت بار مختلف آفیسرز کے ہاتھوں اپنے نانا کو ڈانٹ کھاتے دیکھا تھا اور یہ اسے کبھی بھی اچھا نہیں لگا تھا اگرچہ خیر دین ہر بار ایسے کسی موقع پر ا سکی موجودگی پر بعد میں اسے بٹھا کر اپنے صاحب کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
”دیکھو چڑیا جب غلطی ہوتی ہے تو ڈانٹ پڑتی ہے اور نہ ہر ڈانٹنے والا برا ہوتا ہے نہ ہی ہر ڈانٹ۔”
”پر نانا… آپ کی زیادہ غلطی تو نہیں تھی۔” وہ اپنا نانا کا دفاع کرتی۔
”تھوڑی تھی پر تھی تو سہی نا… اب اگر صاحب غلطی پر کسی کو بھی نہ ڈانٹا کرے تو ہر ایک کام خراب کرنا شروع کر دے گا۔” چڑیا خیر دین کی بات پر سر ہلا دیتی لیکن اس کے باوجود خیر دین جانتا تھا کہ وہ خیر دین کو پڑنے والی کسی ڈانٹ پر بہت ناخوش ہوتی تھی۔
”ہیلو۔” باربی ڈول نے جواباً مسکرا کر کہا تھا۔ اسکول میں پہلے دن وہ پہلا شناسا چہرہ تھا جو اسے نظر آیا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ چڑیا سے لپٹ ہی جاتی۔
”تم یہاں اسٹڈی کے لیے آئی ہو؟” چڑیا اس کے ہیلو پر مسکرائی تھی، باربی ڈول نے سر ہلایا۔
”ممی پاپا کے ساتھ آئی ہو؟” باربی ڈول کا سر ایک بار پھر ہلا لیکن ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آئے تھے۔ اسے یک دم یاد آ گیا تھا کہ اس کے ممی پاپا اسے صبح وہاں چھوڑ گئے تھے اور وہ وہاں اکیلی تھی۔ چڑیا اس کے آنسو دیکھ کر جیسے تڑپ اٹھی تھی۔
”رونا نہیں باربی ڈول۔ اچھے بچے تو نہیں روتے نا۔” اس نے آگے بڑھ کر باربی ڈول کے گالوں پر لڑھکتے آنسو پہلے اپنے ہاتھوں سے پونچھے پھر اپنے فراک کی جیب سے رومال نکال کر اس سے باربی ڈول کا چہرہ صاف کیا۔