صبح کے لگ بھگ سات بج رہے تھے جب وہ جھولا جسے میں بڑے مزے سے جھول رہا تھا، اچانک سے آنے والے زلزلے سے تھر تھر کانپنے لگا۔ اچانک سے آنے والی اس افتاد سے میں سہم گیا اور کسی چھوٹے بچے کی طرح میں نے جھولے کو اور مضبوطی سے تھام لیا۔
”سات بج گئے ہیں۔” اچانک اک آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔
میں کافی سہما ہوا تھا، لیکن ہمت کر کے آواز کے تعاقب میں سر جو اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اک چہرہ پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے۔لمبے بال،شہد جیسی رنگت والی آنکھیں، وہ لڑکی جو بھی تھی، حسن میں اپنی مثال آپ تھی۔ وہ اس دیس کی لگتی ہی نہیں تھی مانو جیسے کسی اور دیس کی پری رستہ بھٹک کر یہاں آن پہنچی ہو۔
”کیسی ہو پری؟؟؟” میں بڑے پیار سے مخاطب ہوا۔
اب کے ایک پھر زمیں۔ ہلی اور اس شدت سے ہلی کے میرے خوابوں کو چکنا چور کرگئی۔ پری اب نوشابہ بن چکی تھی، میری بیوی۔ وہ مجھے جھنجھوڑ کر اُٹھا رہی تھی۔
”اُٹھ جائیں! سوا سات ہونے کو ہیں، آج کالج نہیں جانا کیا؟؟؟” یہ کہتی ہوئی وہ کمرے سے باہر چلی گئی اور کچھ دیر تو میں اسی شش و پنج میں مبتلا رہا کہ وہ خواب تھا یا یہ خواب ہے؟؟؟
ادھر اُدھر دیکھا تو ساتھ پڑے موبائل پر نظر پڑی۔ بٹن دباتے ہی سکرین پے لکھا آیا ”بیس مسڈ کالز۔” وہ اصل میں میری گہری نیند سے میرے ساتھی ٹیچرز بہت خوف کھاتے ہیں کیوں کہ ہم ایک ہی بس میں ساتھ جاتے ہیں اس لیے میری وجہ سے اُن کی بس چھوٹ جانا گزشتہ دنوں تک اک عام سی بات تھی، لیکن جب سے پرنسپل کی طرف سے ٹائم کی پابندی کرنے کا حکم آیا ہے میرے ساتھی ٹیچرز نے مجھے جگانے کا کام بھی اپنے سر لے لیا ہے۔ اُن سب کو میسج کر کے میں تیاری میں مصروف ہوگیا۔
ٹھیک سات بج کر چالیس منٹ پر میں تیار تھا بس ناشتے کے لیے میرے پاس صرف پانچ منٹ تھے۔ جیسے تیسے کر کے میں نے ناشتہ ختم کیا اور چائے کے کپ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ٹیبل پر پڑے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی، جس کی سکرین پر ذیشان کا نام جگمگا رہا تھا۔ میں نے موبائل اُٹھا کر ریسیو کا بٹن دبایا ہی تھا کہ سرحد پار سے گولا باری شروع ہو گئی۔
”یار عامر آج پھر لیٹ کروانا ہے کیا؟؟؟ ہم باہر کھڑے تمہارا انتظار کررہے ہیں۔ قسم سے رستے میں تمہارا گھر نہ ہوتا تو یوں ہی چھوڑ کر چلے جاتے۔۔۔ جلدی باہر آئو۔۔!”
سامنے پڑی چائے جس کی رنگت اور الائچی کی آنے والی خوش بو ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ آج غلطی سے ہی سہی، بیگم نے چائے بڑی شان دار بنائی ہے۔ ایسی چائے کو چھوڑ دینا یقینًا ایک تکلیف دہ عمل تھا، لیکن تھوڑی دیر پہلے جو سرحد پار سے گولا باری ہوئی تھی، اُس بڑبڑاہٹ نے مجھے سب کچھ بھلا دیا اور میں تیز تیز قدم اُٹھاتا گھر سے باہر آگیا۔ سامنے وہ دونوں غصے سے منہ پھلائے کھڑے تھے۔ دونوں کا پھولا ہوا منہ اُس غبارے کی مانند لگ رہا تھا جس میں غلطی سے زیادہ گیس بھر دی گئی ہو۔
”شکر ہے نواب صاحب تیار ہوگئے۔۔۔!” ساجد بولا۔
”ارے کم بختو! تم دونوں کی وجہ سے اپنی بیوی کے ہاتھ کی بنی چاے چھوڑ کر آیا ہوں، ابھی بھی مجھ پر غصہ ہورہے ہو؟؟؟” میں نے گرجتے ہوئے ان دونوں سے کہا۔
”پھر تو اچھا کیا کہ نہیں پی!” ذیشان نے طنزیہ کہا اور اُن دونوں کے قہقہے فضا میں گونج اُٹھے۔
”کیا مطلب؟؟؟ میں سمجھا نہیں؟؟؟” اُن کا یہ طنز میرے اوپر سے ایک جانے مانے ایتھلیٹ کی طرح چھلانگ مارتا گزر گیا تھا۔
”کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے ہم نے تو کبھی وہ چائے پی ہی نہیں؟؟؟ اگر اُس چائے کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوں گے ”کالی اور پھیکی۔” ایک بار پھر اُن کے قہقہے ہوا میں گونج اُٹھے۔ وہ مجھے چڑانے کی بھرپور سعی کررہے تھے اور سچ بات تو یہ ہے کہ اُن کی یہ سعی کارگر بھی ثابت ہورہی تھی۔
”ارے نہیں! آج کی چائے بہت کمال کی تھی۔۔۔ یقین کرو میں تو خود حیران ہوں۔” میں نے صفائی پیش کرنی چاہی۔
”ناممکن۔۔۔! کیوں ساجد بھائی کیا تمہیں یقین آرہا ہے؟؟؟” ذیشان کے استفسار پر ساجد نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میری پیش کی گئی صفائی کو ظالموں نے ردی سمجھ کر ٹوکری میں پھینک دیا۔ بس آنے والی تھی اور ہم تیز تیز قدم اُٹھاتے کالونی سے باہر مین سڑک کی طرف بڑھنے لگے۔
آج بھی وہ دس سال کا بچہ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھا سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ محرومی کی ایک وا ضح جھلک اُس کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اُلجھے ہوئے بال، سانولی رنگت اور نیلے رنگ کی پرانی اور بوسیدہ شلوار قمیص پہنے جس پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ وہ مفلسی کی ایک جیتی جاگتی مثال بنے بیٹھا تھا۔راہ چلتے لوگ اُس کی حالت پر ترس کھا کر چند سکے اُس کی جانب اُچھال دیتے لیکن ہم آج بھی معمول کی طرح اُسے نظر انداز کیے ساتھ سے گزر گئے۔
ابھی ہم تھوڑا ہی دور گئے تھے کہ اک عجیب سی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ میرے قدم بڑی تیزی سے سڑک کی جانب بڑھ رہے تھے اور میری سوچوں کے گھوڑے اُس آواز کو ماضی کے صفحات میں تلاش کرنے میں سرگرداں ہوگئے اور جب وہ صفحہ کھلا تو میرے ہوش اُڑ گئے۔ میرے تیزی سے اُٹھتے قدم منجمد ہوگئے اور میری آنکھیں ترچھی ہوتیں اُس سمت جا پہنچیں جہاں سے وہ آواز آئی تھی۔ میری غیر ہوتی حالت کو ساجد اور ذیشان بھی دیکھ چکے تھے۔ غالبًا اُنہوں نے وہ آواز نہیں سنی تھی۔
”اُلو!” مجھ سے صرف یہی لفظ ادا ہوا۔
”کیا؟؟؟ کہاں؟؟؟” اُن کے ماتھے پر پڑی شکنوں سے اضطراب جھلک رہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اُس سمت اشارہ کیا جہاں وہ منحوس پرندہ نظریں گاڑے ہمیں ہی دیکھے جارہا تھا۔ وہ دونوں بھی اُسے دیکھ کر بھونچکا رہ گئے۔
”ایسا منحوس پرندہ رستے میں آجائے تو لوگ سفر ترک کردیتے ہیں۔ میری مانو تو واپسی کا رستہ پکڑو، زندگی جاب سے زیادہ عزیز ہے۔ کہیں کالج جاتے ہوئے اُسی بس کا ایکسیڈینٹ نہ ہوجائے۔” ذیشان کی اس بات پر میں جو ٹرانس کی سی کیفیت میں تھا ذرا چونکا۔
”تینوں نے اکھٹی چھٹی کی تو پرنسپل جان سے مار دے گا۔ لیٹ ہوجانے کی وجہ سے پرنسپل صاحب کے سامنے ویسے بھی شہرت زیادہ اچھی نہیں ہے۔” میری بات سن کر ذیشان سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
”لیکن عامر چاہے شرط لگا لو اس منحوس اُلو کی وجہ سے ہمارے ساتھ کچھ برا تو لازمی ہوگا، اب یہ نہیں پتا کہ وہ برا آخر کس قدر برا ہوگا۔” ذیشان فکر مندی سے بولا۔
”کیوں نہ کچھ صدقہ کردیں؟؟؟” بات کرتے ساجد کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک در آئی۔
”لیکن یہاں اس وقت کون ہے جس پر صدقہ لگتا ہو؟؟؟” ذیشان کے استفسار پر میں بھی ہونقوں کی طرح ساجد کو دیکھنے لگا۔ ہماری حالت اُس وقت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔۔!
”ارے اسی بچے کو کچھ پیسے دے دیتے ہیں کم از کم آج کے دن تو اس منحوس پرندے کی نحوست سے جان چھٹے گی۔” ساجد کی بات پر ہماری نظریں دانستہ طور پر اُس بچے کی طرف اُٹھ گئیں جو کچھ فاصلے پر بیٹھا ہمیں ہی دیکھ رہا تھا۔
اچانک بس کے ہارن کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ بس میں بیٹھا ڈرائیور سمجھ گیا تھا کہ ہم آج پھر لیٹ ہیں لیکن اُسے یہ توقع ہرگز نہیں تھی کہ اُسے دیکھ کر بس کی طرف بھاگنے کی بجاے ہم اُلٹی سمت میں دوڑ پڑیں گے۔ وہ اپنا سر کھجاتے حیرانی سے ہمیں بھاگتے دیکھ رہا تھا۔ ہم ہانپتے ہوئے اُس بچے کے پاس پہنچے، پیسے اُس بچے کو دیئے اور واپسی کی طرف دوڑ لگادی، لیکن اپنے بھاگتے ہوئے قدموں کو ہمیں روکنا پڑا کیوں کہ سامنے سڑک خالی تھی۔ بس جاچکی تھی۔ بوکھلاہٹ میں ہم بس والے کو رکنے کا اشارہ کرنا ہی بھول گئے تھے۔
اُن کے چہرے پے ایک بار پھر وہ شوخی جھنڈے گاڑے بیٹھی تھی۔ نحوست کے بادل چھٹ چکے تھے۔دل اب قدرے مطمئن تھا۔ سڑک پر پہنچ کر وہ دوسری بس کا انتظار کرنے لگے۔
دوسرے دن پھر وہ منحوس اُلو اُنہیں گھور رہا تھا۔اُس بچے کو پیسے دے کر وہ پھر سے اُس منحوس پرندے کی نحوست سے آزاد ہوگئے۔لیکن یہ اب روزانہ کا معمول بن گیا تھا۔ روزانہ اُس اُلو کا دیدار ہونے پر اب وہ عاجز آچکے تھے۔اضطراب اُن کے چہروں پر واضح اور نمایاں تھا۔ اُس بچے کو پیسے دینے سے اُن کی تنخواہ میں ایک فیصد کمی بھی واقع نہیں ہونی تھی لیکن وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو بھکاریوں کو شاید انسان ہی نہیں سمجھتے تھے۔
٭…٭…٭
فون کی بیل جارہی تھی، جب دوسری طرف سے ذیشان کی آواز آئی۔
”ہیلو عامر صاحب! لگتا ہے میری طرح آپ کے دل کو بھی اُس منحوس اُلو کی وجہ سے چین نہیں آرہا؟؟؟” فون اٹھانے پر ذیشان کی آواز ابھری عامر فکر مندی سے کہہ رہا تھا۔
”ہاں یار! کوئی حل نکالو اس مسئلہ کا، میں تو بیوی بچوں والا ہوں کہیں اُس اُلو کی نحوست گھر میں داخل نہ ہوجائے۔” عامر فکر مندی سے کہہ رہا تھا۔
”صرف تم ہو؟؟؟ تینوں ہی بیوی بچوں والے ہیں بھائی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ساجد کی کال آئی تھی، اُس نے کالونی کے مالک سے بات کرلی ہے۔ آج ہی اُس منحوس پرندے کو وہاں سے بھگا دیا جاے گا۔” ذیشان کی آواز میں اب قدرے سکون تھا۔
”کیا واقعی؟؟؟ ارے یہ تو کمال ہوگیا۔ اس خوش خبری پر تمہارا ماتھا چومنے کو دل کررہا ہے۔” دوسری طرف سے ذیشان کا قہقہہ سنائی دیا۔
”ارے بھائی چوم لینا۔۔۔ فی الحال میں فون رکھتا ہوں۔ گھر کی بیل بجے جارہی ہے، ذرا دیکھتا ہوں کون آیا ہے۔خدا حافظ”
٭…٭…٭
اُن کی زندگی جو پچھلے کچھ دنوں سے عجیب موڑ لے رہی تھی، آخر پھر اپنے پرانے رستے پر چلنے لگی۔ اب روزانہ صبح وہ اُس بچے پر تنفر بھری نگاہ ڈالے ساتھ سے گزر جاتے اور وہ بچہ کبھی غرور سے تنی ہوئی اُن گردنوں کو دیکھتا جو پیسے کے دم پر ہر روز ایک محرومی بھرا احساس اُس کے دل میں جگا جاتیں اور پھر اُس کی نظر اُس درخت پر پڑتی جہاں رہنے والا پرندہ اُن لوگوں کے ظلم اور عتاب کا شکار ہوا تھا۔اُس دن کے بعد وہ درخت اُسے ہمیشہ خالی ہی نظر آیا۔
٭…٭…٭
اُفق پر سنہر ی روشنی پھیل رہی تھی۔ عامر گھر سے باہر نکلا تو ذیشان اور ساجد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے کھڑے تھے۔ دروازہ کھلنے کی آواز سے وہ ذرا چونکے۔
”سیٹھ صاحب! یہ ہماری دعائوں کا اثر ہے ورنہ آپ اور ٹائم پر تیار ہوجائیں؟؟؟ ناممکن!” ذیشان کی اس بات پر میں ہنس پڑا۔
ہم باتیں کرتے سڑک کی جانب بڑھنے لگے ۔اچانک میری نظر اُس بچے پر پڑی ۔وہ منہ مخالف سمت کیے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کیے بیٹھا دعا مانگ رہا تھا۔میں نے آہستہ سے ساجد اور ذیشان کو اُس جانب متوجہ کیا۔اُسے دیکھ کر میری طرح اُن کی آنکھوں میں بھی چمک در آیٔ۔
”آج دیکھتے ہیں یہ مفلسی کا ڈرامہ کرنے والا خدا سے کیا مانگ رہا ہے۔آج تو اسے رنگے ہاتھوں پکڑیں گے۔” ساجد بولا۔
ہم چپکے سے قدم اُٹھاتے اُس کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ اُس کی آواز ہم اب بہ خوبی سن سکتے تھے۔
”اللہ! آپ میری بات مان لیں۔میں نے رات بھی کھانا نہیں کھایا۔ بہت بھوک لگی ہے۔ آپ اُس اُلو کو واپس بھیج دیں۔ وہ آجائے گا تو مجھے دوبارہ پیسے ملنے لگیں گے۔ آپ پلیز اُس اُلو کو کہیں واپس آجائے۔”
وہ شوخی جو اُن کے چہروں پر جھنڈے گاڑے بیٹھی تھی، ایک پل میں بوڑھی ہوکر رہ گئی۔ ایک پل میں اُس جھنڈے کے ایک نہیں ہزار ٹکڑے ہوئے تھے۔ وہ ندامت کی ایسی جیل میں قید ہوئے تھے جس نے اُن کی تنی ہوی گردنوں کو جھکا دیا تھا۔ وہ اُس وقت سمجھے تھے کہ منحوس لفظ ہی شاید منحوس ہوتا ہے، ورنہ اُس خدا کی تخلیق کی ہوئی کوئی شے منحوس نہیں ہوتی۔ منحوس تو صرف انسان کی سوچ ہوتی ہے جو کبھی کسی پرندے کو منحوس کہتی ہے کبھی اُس عورت کو جو بانجھ پن کا شکار ہونے کے باوجود روزانہ خدا کے حضور اپنی جھولی بھر جانے کی دعائیں مانگتی ہے۔ وہ تینوں چپ چاپ سر جھکائے کھڑے تھے۔ اُن میں اتنی سکت بھی باقی نہ تھی کہ اُس بچے کی نظروں کا سامنا کرسکیں۔ کتنی بسیں یوں ہی گزر گئیں اور وہ جو کالج جانے کے لیے نکلے تھے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
٭…٭…٭