سنی سنائی لوک کہانی | بوتل والا جن

سنی سنائی لوک کہانی
بوتل والا جن
علی اکمل تصور

قصور سے تعلق رکھنے والے جناب علی اکمل تصور کی پہلی کہانی 1990ء میں شائع ہوئی۔ ایک بہترین کہانی کار کے طور پر انہوں نے بچوں کا ادب میں اپنا لوہا منوایا۔ 1993ء میں دعوة اکیڈمی شعبہ بچوں کا ادب سے بہترین ادیب کا ایوارڈ حاصل کیا۔ ملک بھر کے بڑے رسائل میں ان کی کہانیاں نئی نسل کی ادبی و اخلاقی تربیت کر رہی ہیں۔ الف نگر کے لیے یہ ان کی پہلی تحریر ہے۔
تقریباً دو سو سال پہلے کی بات ہے۔ کسی گاؤں میں ایک ہندو چرواہا رام داس رہتا تھا۔وہ بکریاں پال کر گزر بسر کرتا۔ بے چارا تنگ دستی کا مارا ہر وقت سوچوں میں ڈوبا رہتا۔ اس دن بھی وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کے آگے آگے بکریاں اٹکھیلیاں کرتے چل رہی تھیں۔ اِن کی منزل گاؤں سے دور ایک گھنا جنگل تھا۔ جہاں بکریوں کو کھانے کے لیے چارا مل جاتا تھا۔ رام داس کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ اپنی بیوی کا علاج کروانے کے لیے اس نے ساہوکار سے قرض لیا پھر ساہوکار نے اُسے سود کے ذریعے اپنے شکنجے میں کس لیا تھا۔ اب وہ رام داس سے اُس کی بکریوں کا ریوڑ چھیننا چاہتا تھا۔
”میں بنیے کے قرض سے نجات کیسے حاصل کروں؟” وہ یہی بات سوچ رہا تھا کہ جنگل آگیا۔ سورج سر پر پہنچ چکا تھا۔ وہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔ اس کی بکریاں اِدھر اُدھر گھوم پھر کر گھاس کھا رہی تھیں۔ اچانک رام داس نے سورج کی روشنی میں چمکتی ہوئی ایک چیز دیکھی۔
”یہ کیا ہوسکتا ہے؟” تجسس کے ساتھ وہ اس کی طرف لپکا۔ یہ جادوئی بوتل تھی جس میں جن قید تھا۔ خوشی سے اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
”اگر اس میں سے جن نکل آئے تو وارے نیارے ہوجائیں۔” اُس کے دل میں امید جاگی۔ اس نے جیسے ہی بوتل کا ڈھکن کھولا، اچانک اس سے دھواں نکلنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دھویں نے ایک بھیانک شکل والے جن کی صورت اختیار کرلی۔ خوشی سے رام داس ناچنے لگا۔
”تو کیا میں نے اپنے بچپن میں جنوںوالی جو کہانیاں سنی تھیں وہ سب سچی تھیں؟” رام داس سوچنے لگا۔ اب وہ منتظر تھا کہ جن کب اس کی خواہشات پوری کرتا ہے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جن تو اُسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
”اے نادان آدمی! میری بات سن۔” جن کڑکتے لہجے میں بولا۔ اس کی آواز ایسی خوف ناک تھی کہ رام داس کی گھگیبندھ گئی۔ اس کے باوجود وہ ہمت کرکے بولا: ”تمیز سے بات کر، میں تیرا مالک ہوں۔”
”مالک… ہاہاہا۔ احمق آدمی میں بوتل کا قیدی ہوں۔ تم نے اپنی شامت کو خود آواز دی ہے، مجھے بھوک لگی ہے، میں کیا کروں؟ کس کو کھاؤں؟ ہاں میں تمہیں کھاؤں گا۔ آدم بُو… آدم بُو۔”جن چلّایا۔
اُس کی باتیں سن کر رام داس کو چکر آگیا۔ ”یہ اچھی بات نہیں ہے، میں نے تمہیں قید سے آزاد کیا ہے۔ تمہارے ساتھ نیکی کی ہے اور تم میرے ساتھ زیادتی کرنا چاہتے ہو؟” رام داس نے کہا۔
”نیکی کیا ہے؟ زیادتی کیا ہے؟ میں نہیں جانتا۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ مجھے بھوک لگی ہے اور اب میں تمہیں کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں گا۔” جن بولا۔
”کیا تم نیکی اور بدی کا فلسفہ نہیں جانتے؟ چلو میرے ساتھ، پہلے ہم کسی منصف سے فیصلہ لیتے ہیں کہ نیکی کا بدلہ بدی سے نہیں دیا جاتا۔” رام داس نے کہا۔ ”ٹھیک ہے لیکن اگر فیصلہ میرے حق میں ہوگیا، تو میں تمہیں کھا جاؤں گا۔” جن کی بات سن کر رام داس نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ فیصلہ اُس کے حق میں ہوگا اور یوں اُس کی جان بچ جائے گی۔ رام داس کو اپنی جان کے لالے پڑے تھے وہ بکریوں کا کیا کرتا۔ اس نے اپنی بکریاں جنگل میں چھوڑیں اور ایک جانب چل پڑا۔ جن اُس کے سر پر ہوا میں پرواز کررہا تھا۔ چلتے چلتے سامنے ایک بلند پہاڑ آگیا۔ پہاڑ دیکھ کر رام داس رُک گیا۔ اب اس نے بلند آواز میں پہاڑ کو آواز دی: ”اے پہاڑ! ہمارے درمیان نیکی اور بدی کا فیصلہ کر دو۔”

پہاڑ نے فوراً ہی جواب دیا۔”نیکی اور بدی کا فیصلہ؟ آخر بات کیا ہے؟”
رام داس بولا: ”یہ ظالم جن بوتل میں قید تھا۔ میں نے اِسے آزادی دلائی اور اب یہ مجھے ہی کھانا چاہتا ہے۔ کیا نیکی اور بدی برابر ہوسکتے ہیں؟” رام داس کی بات سن کر پہاڑ نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولا: ”تمہیں کیا بتاؤں دوست! میں تو خود بہت دکھی ہوں۔ قدرت نے مجھے طاقت دی اور میں نے اس زمین کو سنبھال رکھا ہے، مگر یہ انسان میری جڑیں کھود رہے ہیں، سرنگیں بنا رہے ہیں۔ وہ میرے پتھروں سے اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں ، مجھ میں کوئلے اور ہیرے تلاش کررہے ہیں۔ اگر یہ سب یونہی چلتا رہا تو جلدی ہی میں زمین بوس ہوجاؤں گا، میں بہت دکھی ہوں۔ میں منصف بن کر تمہارا فیصلہ نہیں کرسکتا، جاؤ کوئی اور منصف ڈھونڈ لو۔” پہاڑ کی بات سن کر رام داس بوجھل دل کے ساتھ آگے روانہ ہوا۔ تھوڑی دور جاکر اُسے ایک درخت نظر آیا۔ یہ بوڑھا درخت تھا۔
”اے درخت! ہمارے درمیان نیکی اور بدی کا فیصلہ کر دو۔”اُس نے التجا کی۔
”نیکی اور بدی کا فیصلہ؟ ہوا کیا ہے؟” درخت نے پوچھا۔
”یہ جن بوتل میں قید تھا۔ میں نے اِسے آزادی دلائی اور اب یہ مجھے ہی کھانا چاہتا ہے، کیا نیکی اور بدی برابر ہو سکتے ہیں؟” رام داس کی بات سن کر درخت نے سرد آہ بھری۔
”میں تمہیں کیا بتاؤں دوست! میں تو خود بہت دکھی ہوں، قدرت نے مجھے بہت خاص بنایا ہے۔ میں پھل دیتا ہوں اور سایہ بھی، مگر اس کے باوجود انسان میرے در پے ہے۔ یہ پھل لینے کے لیے مجھے پتھر مارتے ہیں۔ کلہاڑی سے میری شاخیں کاٹتے ہیں۔ مجھے بہت درد ہوتا ہے۔ اب تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کسی روز انسان آرے سے مجھے کاٹ پھنکیں گے۔ میں بہت دکھی ہوں۔ میں منصف بن کر تمہارا فیصلہ نہیں کرسکتا، جاؤ کوئی اور منصف ڈھونڈ لو۔” درخت کی باتیں سن کر رام داس گھبرا گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اُتر آئے۔
”تم خود کو مظلوم سمجھتے ہو؟ دراصل اس زمین پر سب سے بڑے ظالم تم لوگ خود ہی ہو۔” جن خوش ہوکر قہقہے لگا رہا تھا۔
”امید ابھی باقی ہے ظالم جن! چلو میرے ساتھ۔” رام داس چل پڑا۔ اب اُس کی منزل مومن خان کے کھیت تھے۔ مومن خان ایک کاشت کار تھا۔ جب رام داس، مومن خان کے کھیتوں میں پہنچا، تو دیکھا۔ مومن خان بیلوں کی مدد سے کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔
”مومن خان!” رام داس نے اُسے آواز دی۔ وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر رام داس کے پاس چلا آیا۔

Loading

Read Previous

گوادر کی لوک کہانی (سنی سنائی)

Read Next

لوک کہانی | دُلّے کی وار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!