گوادر کی لوک کہانی (سنی سنائی)

گوادر کی لوک کہانی (سنی سنائی)
انوکھا جزیرہ
مصباح ناز

جہلم سے تعلق رکھنے والی مصباح ناز نے بی کام کررکھا ہے۔ لکھنے پڑھنے کا جنون بچپن ہی سے تھا۔ پہلی کہانی 2018ء میں الف کتاب پورٹل پر شائع ہوئی۔ اس سے مزید لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ بچوں کے لیے ”انوکھا جزیرہ” یقینا ان کے روشن ادبی مستقبل کی نوید ہے۔
آج کل پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کے پوری دنیا میں چرچے ہیں۔ برسوں سے اس شہر میں رہنے والے ماہی گیر جانتے ہیں کہ یہاں سمندر کے بیچوں بیچ کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے موجود ہیں۔ اسی علاقے کی ایک لوک داستان جسے آج بھی مقامی لوگ بڑے دل چسپ انداز میں سناتے ہیںکہ برسوں پہلے یہاں ساحل کے پاس جوہن دار نام کا ایک مچھیرا رہتا تھا۔ وہ اپنی گزر بسر کے لیے جال بُنتا، مچھلیاں پکڑتا، پھر انہیں بیچ کر پیسے کماتا تھا۔
ایک روز جوہن دار نے دوسرے مچھیروںکے ہمراہ گہرے سمندر میں جال لگانے کا فیصلہ کیا، چناں چہ وہ سبھی ایک کشتی میں سوار ہوئے پھر کچھ دیر بعد کشتی سمندر کی لہروں پر سفر کرتی ہوئی گہرے پانی کی طرف جانے لگی ۔چلتے چلتے وہ بہت دور پہنچ گئے۔ہر طرف پانی ہی پانی تھا ۔کشتی میں اس وقت جوہن دار سمیت پانچ لوگ سوار تھے ۔سیر کرتے اور مچھلیاں پکڑتے شام کا وقت ہوا تو اچانک ایک مچھیرے نے بتایا کہ کھانے پینے کا سامان ختم ہونے والا ہے۔
”اوہ ! اب کیا ہوگا؟میرے خیا ل میں ہمیں واپس چلنا چاہیے ۔”دوسرے مچھیرے نے کہا۔ اچانک جوہن دار چِلّااُٹھا:’دوستو! سامنے دیکھو ،وہ کیا ہے ؟”
سب نے گہرے پانی کی طرف نگاہ دوڑائی تو انہیں ایک نشان سا نظر آیا ۔ شایدسامنے کو ئی چھوٹا سا جزیرہ تھا۔
”میرے خیال میں ہمیں اسی طرف چلنا چاہیے۔” یہ کہہ کر جوہن دار نے کشتی کا رخ جزیرے کی جانب کردیا ۔وہاں پہنچتے ہی جوہن دار نے دوستوں کی مدد سے کشتی کا لنگر ڈال دیا۔ اس جزیرے پر پہلے کبھی اِن کا گزر نہیں ہوا تھا۔اسی لیے وہ ذرا محتاط اندا ز میںقدم اٹھاتے آگے بڑھنے لگے۔ ابھی انہوں نے جزیرے پر کھانے پینے کے سامان کی تلاش شروع ہی کی تھی کہ اچانک وہاں عجیب شکلوں والے کچھ لوگ آئے اورانہیں زبردستی پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
جوہن اورباقی مچھیرے اس ناگہانی آفت سے گھبرا گئے ۔ان کی آنکھیں بند کرکے انہیں ایک ویران جگہ پر لے جایا گیا۔کچھ دیر بعدوہ سبھی ایک غار میں قید تھے۔ جب ان کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی گئی تو خود کو اس خوف ناک جگہ پردیکھ کر وہ پریشان ہوگئے۔ سامنے اونچی جگہ پر ڈرائونی شکل والاایک آدمی بیٹھا تھا۔ اس کا نام نپکو تھا۔ نپکو اپنا تازہ شکار دیکھ کرہولے سے مسکرا رہا تھا۔
”تم کون لوگ ہو ؟اور ہم سے کیا چاہتے ہو؟” جوہن دار نے گھبرا کر پوچھا۔

”یہ جزیرہ ہمارا ہے اور ہماری اجازت کے بغیر یہاں کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا، تم لوگوں نے ہم سے پوچھے بغیر یہاں کشتی کیوں روکی؟ اسی لیے میرے آدمی تمہیں یہاں لے آئے ہیں۔” نپکو نے رعب دار آواز میں کہا۔
”مگر ہمیں معلوم نہ تھا،آپ اگر ہمیں معاف کردوتو ہم فوراََ یہاں سے چلے جاتے ہیں۔” جوہن نے درخواست کی لیکن نپکو نہ مانا ،وہ بہت بے رحم اور ظالم جادوگر تھا۔ اس نے فوراً کوئی منتر پڑھا پھر جوہن کے سوا باقی تمام مچھیروں کو مٹی کا پتلا بنا دیا۔ یہ دیکھ کر جوہن مزیدخوف زدہ ہوگیا۔ نپکواب جوہن سے مخاطب ہوا:
”سنو!تم مجھے بہادر لگتے ہو، میرے پاس تمہارے لیے ایک کام ہے، اگر تم نے میرا وہ کام کردیا تو میں تمہارے دوستوں کو پھر سے اصل صورت میں لے آئوں گا،صرف یہی نہیں،بلکہ تم لوگو ںکو آزاد بھی کردوں گا۔” نپکو نے کہا۔
”اوہ!کیسا کام؟” جوہن دار نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”ہمارے دیوتا کو تمہارے دیس کے ایک درویش عامل نے مٹی کا پتلا بنا دیا ہے، دیوتا ہمیں ایک مفید قسم کا جادو سکھا رہے تھے مگر عامل کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے اپنے عمل سے ہمارے دیوتا کو مٹی کا بنا دیا۔کئی سال بعد وہ عامل مرگیا اور مرتے وقت اس نے یہ سارا عمل اپنی بیٹی کو سکھا دیا تھا ۔ اب اس کی بیٹی یہ سب کچھ جانتی ہے۔ اگر تم اُسے اغوا کرکے یہاں لے آئو تو وہ ہمارے دیوتا کو ٹھیک کرسکتی ہے۔” نپکو نے تفصیل بتائی۔
جوہن کے پاس اپنے دوست مچھیروں کی زندگی بچانے کا کوئی اور راستہ نہ تھا، اسی لیے وہ مان گیا۔ مشن پر جانے سے پہلے نپکو نے جوہن کو ایک جادوئی ہار دیا۔
”لو،یہ رکھ لو، اگرتم یہ ہار کسی طرح عامل کی بیٹی کے گلے میں پہنا دو، تو وہ اسی وقت تمہاری قید میںآجائے گی۔” نپکو نے اسے ہار دیتے ہوئے کہا۔
جوہن ہار لیے سفر پر روانہ ہوگیا۔ چلتے چلتے وہ اس بستی میں پہنچ گیا جہاں عامل کی بیٹی رہتی تھی۔ اس نے لوگوں سے اُس عامل کے گھر کا پتا پوچھا اور کچھ ہی دیر بعد اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ دروازے پر دستک دی تو ایک لڑکی نے دروازہ کھولا۔ سامنے ایک مسافر کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ جوہن سے کچھ پوچھتی ،وہ خود ہی بول پڑا:
”اے نیک دل لڑکی !میں مسافر ہوں اورسفر کرکے کافی تھک گیا ہوں۔مجھے پینے کے لیے پانی چاہیے۔” جوہن کی معصوم شکل پر لڑکی کو رحم آیا۔ اس نے جوہن کو دروازے پر ہی رکنے کاکہا اور تھوڑی دیر بعد اس کے لیے پانی لے آئی۔
”نام کیا ہے تمہارا ؟” لڑکی نے اس سے پوچھا۔
”جوہن… جوہن نام ہے میرا، یہ ساتھ والے شہر سے آیا ہوں۔”
”کیا کرنے آئے یہاں؟” لڑکی نے سپاٹ لہجے میںپوچھا۔
”تت… تاجر ہوں۔” جوہن نے فوراََ بات بنائی۔

Loading

Read Previous

زندگی کا سانس |سو لفظی کہانی

Read Next

سنی سنائی لوک کہانی | بوتل والا جن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!