مختصر افسانہ
تماشا
محمود ایاز
آج ایک نیا راستہ اُس کے قدموں سے لپٹ گیا۔ خاموش، ویران اور پُراسرار سا۔۔وہ اپنی عمر کا بڑا حصہ زندگی کے نام کر چکا تھا اور باقی کا حصہ موت کے نام کرنا چاہتا تھا۔ صبح کا وقت تھا، نیم خوابیدہ لوگ جن کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، اپنے کاموں کی طرف بھاگ رہے تھے۔ وہ چلتا رہا، ایک ہوٹل پر بیٹھ کر اُس نے ناشتہ کیا، گلی میں بیٹھے ہوئے کتے سے گپ شپ کی اور پھر دریاکے پُل پر جا پہنچا۔ پُل پر کھڑے ہوئے اُس نے سوچا کہ وہ ہمیشہ زندگی کے دریا میں بہتے ہوئے تختوں کے ساتھ بہتا رہا ہے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہیے۔ پھر ایک دوسرا خیال یہ آیا کہ لعنت ہے ایسی خودکشی پر جو گم نامی کی بھینٹ چڑھ جائے۔بس اسی خیال سے وہ شام تک وہاں بیٹھا رہا یہاں تک کے لوگ جمع ہوگئے۔ قبل اس کے لوگ اُسے وہاں کھڑا دیکھ کر کسی نتیجے پر پہنچتے، اُس نے پُل سے دریا میں چھلانگ لگا دی۔پُل پر کھڑے ہوئے لوگ حیرت سے چیخنے لگے۔۔۔ کچھ بے حس افراد نے اپنی جیبوں سے موبائل فون نکالا اور ویڈیو بنانے میں مصروف ہوگئے اور کچھ مارے خوف کے اپنی جگہ پر کھڑے چِلانے لگے۔۔۔ ایک چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔۔۔ مگر کوئی نہیں تھا جو پانی میں اُتر کر اُس کی جان بچائے۔بس ہر شخص طرح طرح کی باتیں کر رہا تھا۔ وہ پانی کی سطح پر نمودار ہوتا تو کبھی غائب ہو جاتا۔اسی دوران چند بے حس جملے اُس کی سماعت سے آ ٹکرائے۔۔۔
”گھبراؤ نہیں۔۔ وہ نہیں مرے گا۔۔۔“
”ارے یار۔۔۔ مر جانا ہی اصل زندگی ہے۔۔۔ اس مسخ شدہ زندگی میں کم از کم ایک فائدہ تو ہے کہ یہاں مرنا آسان ہے مگر جینا بہت مشکل۔۔“
”دیکھے تو کیسے پانی کی سطح پر تیر رہا ہے۔۔۔ مر گیا ہے کیا؟“
”بڑا ہی ڈھیٹ آدمی ہے عجیب تماشا لگائے ہوئے ہے فضول میں ہماری تفریح خراب کر رہا ہے۔۔“
سانسیں بند ہونے سے چند لمحے پہلے اُسے خیال آیا کہ لعنت ہے ایسی موت پر جو تماشے کی نذر ہو جائے۔۔۔! پھر اُس نے اپنا منہ پانی سے باہر نکالا، سانسیں بحال کیں اور تیرنا شروع کیااور جب وہ کنارے تک پہنچ کر کھڑا ہوا تو اُس نے ایک نگاہ پُل پر کھڑے ہوئے لوگوں پر ڈالی۔اُن کے چہروں پراُس کے بچ جانے کا افسوس نمایاں تھا۔